تراث ، وراثت اور غامدی صاحب

Published On October 19, 2024
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

حسن بن علی

تقسیم میراث كى بعض صورتوں میں بالاتفاق یہ صورتحال پیش آتی ہے کہ جب ورثاء کے حصے  ان کے مجموعى مفروض نصیب سے بڑھ جاتے ہیں تو ایسی صورتحال تزاحم کی صورتحال ہے يعنى ایسے میں تمام ورثاء کو اپنے مقررہ حصے دینا ممکن نہیں رہتا.

جیسے ایک عورت نے اپنے پیچھے شوہر ماں باپ اور دو بیٹیاں چھوڑی تو اگر ہر حصے کا فیصدی تناسب دیکھا جائے تو وہ کچھ اس طرح ہے. 25 فیصد شوہر کے لیے، 16.6 فیصد باپ کے لیے، 16.6 فیصد ماں کے لیے، 66.6 فیصد بیٹیوں کے لیے. لہذا اگر ان سب کو جمع کیا جائے تو حاصل 124.8 فیصد ٹھہرتا ہے جو کہ 100 فیصد سے زیادہ ہے یعنی عملا ورثاء کو ان کے حصے بغیر کمی بیشی دینا ممکن نہیں.

جس کا حل مذاہب اربعہ کے ہاں یہ تجویز کیا گیا کہ تمام حصوں میں برابر نقص داخل کر دیا جائے جسے عول سے تعبیر کیا جاتا ہے (شوہر = 20، باپ = 13.3، ماں= 13.3، بیٹیوں = 53.3) اور یہ مسلک جمہور صحابہ سے مروی ہے جبکہ ظاهريہ اور شیعہ امامیہ کے ہاں اس کا حل یہ ہے کہ تمام ورثاء کے حصوں پر نقص داخل کرنے کی بجائے متعین طبقے پر نقص داخل کیا جائے جیسے بیٹیاں بہنیں اور یہ مسلک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے (شوہر = 25، باپ =16.6، ماں= 16.6، بیٹیوں = 41.8).

اور ایک طریقہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے بھی ایجاد کیا جس کے نتیجے میں نصوص کو اپنی مرضی سے کچھ ایسے تاویل دى گئی کہ حصوں اور مفروض نصیب کے مابين تزاحم سرے سے وجود میں ہی نہیں آتا لیکن ان كى ساری ریاضت کا حاصل یہ ہے کہ کسی بھی طور اپنی دانست میں ریاضی کو درست کر لیا جائے چاہے اس کے نتیجے میں قران کے منطوق سے روگردانی ہی کیوں نہ کرنی پڑے. قرآن اپنے الفاظ میں بالکل واضح ہے ثلثا ما ترك (جو میت نے چھوڑا) یعنی کل مال کا دو تہائی نہ کہ بچے ہوئے مال کا دو تہائی.

چنانچہ غامدی صاحب کے نزدیک بیٹیوں کو ہر صورت (زیر نظر مثال سے قطع نظر) ترکے کے فاضل حصے (ما بقي) میں سے دو تہائی دیا جائے گا نہ کہ کل ترکے کا دو تہائی. لیکن زیر نظر مثال میں ان کی ریاضی سے گزر کر بھی کچھ فیصد حصہ (14) تقسیم ہونے سے بچ جاتا ہے. (شوہر = 25، باپ =16.6، ماں= 16.6، بیٹیوں= 27.7). اس سے بڑھ کے یہ انہوں نے مرنے والے (مورث) کے لیے یہ اختیار بھی مانا ہے کہ وه کسی وارث کے حق میں اس زائد حصے کی وصیت کر دے.

اسی طرح تقسیم میراث کی بعض دیگر صورتیں جن میں امت 1400 سال سے تزاحم کے وجود کا اقرار کرتی چلی آئی ہے اسے اپنے تئیں ختم کرنے کے لیے غامدی صاحب نے سورۃ النساء 12 اور آیت 176 كى من مانی تفسیر کی حالانکہ بالاتفاق سورۃ النساء کی آیت 12 ماں شریک بہن بھائیوں کے حصے سے متعلق ہے اور اسی سورت کی آیت 176 باپ شریک اور حقیقی بہن بھائیوں کے حصے سے متعلق. اس تقيید (ماں شریک باپ شریک حقیقی بہن بھائی) کو قراءات میں سے مانا جائے یا وہ تفسیری اضافے جو کہ قراءات میں درج ہوئے، دونوں صورتوں (اطلاق کی یہ تقيید اصلا ہو یا الحاقا) میں اس کا منقول ہونا ایک طے شدہ اور مسلم امر ہے لہذا اہل تشیع جو کہ حفص کے علاوہ دیگر قراءات کے قرآن ہونے کے قائل نہیں ان کے نزدیک بھی اس کا منقول ہونا ایک مسلم امر ہے. لہذا اگر اسے محض قراءات کا مسئلہ بنا کر رد کرنا ہوتا تو غامدی صاحب سے بہت پہلے یہ کام اہل تشیع کر چکے ہوتے.

چنانچہ وراثت سے متعلق آیات کا مجمع علیہ فہم (جس کی بابت سنی شیعہ سب متفق ہیں) اس بات پر منتج ہے کہ تقسیم وراثت كى بعض صورتوں میں حصوں اور مفروض نصیب کے مابين تزاحم كا واقعہ ہونا ناگزیر ہے. رہی بات اب اس تزاحم کو دور کیسے کیا جائے تو یہ محل اجتہاد تھا جس میں ایک طریقہ تو یہ اختیار کیا گیا کہ سب ورثاء کے حصے میں برابر تناسب کے ساتھ کمی کی جائے اور دوسرا طریقہ یہ کہ متعین ورثاء کے تناسب میں کمی کی جائے. لیکن سرے سے تزاحم واقع ہی نہ ہو تو زبان و بیان کو جاننے والوں (سلفا وخلفا) کو تو یہ سمجھ میں نہیں آیا لیکن لیکن یہ غامدی صاحب ہی ہیں جن کے نزدیک تزاحم کى عدم موجودگی بغیر تکلف دیکھی جا سکتی ہے.

واضح رہے کہ دو چیزوں میں فرق ہے ایک تزاحم کا وجود تو یہ محل اجتہاد نہیں اور دوسرا تزاحم کا حل تو یہ بے شک محل اجتہاد رہا ہے اور فریقین (سنى اور امامية ) كا اس کی بابت مختلف زاویہ نظر رہا ہے لیکن غامدی صاحب نے وہاں جا کے اجتہاد کیا جہاں تو سرے سے اجتہاد کا سوال ہی نہیں جہاں زبان و بیان کے حوالے سے سرے سے كوئى اشكال موجود ہی نہیں چنانچہ متعدد روایات اس تزاحم کی موجودگی پر دال ہیں.

غامدی صاحب کی اس ایجاد کے پیچھے جو سبب کار فرما ہے وہ انہی کے نزدیک یہ ہے کہ جب قرآن نے ورثاء کے حصے مقرر کر دیے تو ان میں کمی بیشی کا کوئی جواز نہیں لیکن کوئی ان سے یہ پوچھے کہ کیا قرآن کے الفاظ اور اس کے متفقہ مدلول کے بارے میں انسانی کمی بیشی روا ہے. اور جہاں تک ان کا یہ اشکال ہے کہ قرآن کے مقرر کردہ حصوں میں کمی بیشی درست نہیں، تو جاننا چاہیے کہ (فردا فردا) ورثاء سے متعلق قرآن کے مقرر کردہ حصے دوسرے ورثاء کے ساتھ مل کر اپنا تعین حاصل کرتے ہیں. لہذا کبھی تو حجب حرمان کی صورت پیش آتی ہے تو کبھی حجب نقصان کی (اور یہ امر خود قرآن کے بیان سے واضح ہے) اور بسا اوقات ایسی صورتحال کا بھی سامنا ہوتا ہے جس میں سهام اور نصيب کے مابين تزاحم واقعہ ہوتا ہے تو ایسی صورت میں ورثاء کے حصے برابر تناسب کی کمی (يا کسی مخصوص وارث کے حجب نقصان) کے ساتھ اپنا تعین حاصل کرتے ہیں. جیسے بالاتفاق ایسی صورت بھی پیش آتی ہے جس میں ورثاء کے حصے مفروض نصیب سے کم ہو جاتے ہیں تو ایسی صورت میں مقرر کردہ حصے اضافے کے ساتھ اپنا تعین حاصل کرتے ہیں (يعنى رد کے قانون کا اطلاق کیا جاتا ہے).

بل كذبوا بما لم يحيطوا بعلمه (يونس 39)
بات یہ ہے کہ جس چیز کا وہ اپنے علم کے ذریعے احاطہ نہیں کر سکے ۔ اسے انہوں نے جھٹلا دیا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…