اشراق کا استشراق

Published On September 20, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

حافظ محمد ریحان

جاید احمد غامدی اور ان کے مکتبہء فکر سے تقریباً ہر پڑھا لکھااور میڈیا سے آگاہی رکھنے والا شخص واقف ہے۔ اسلام کو جدید دور سے ”ہم آہنگ “ کرنے اور ایک ” جدّتِ تازہ “ بخشنے کے حوالے سے اس مکتبہء فکر کی کوششیں اور اس سلسلے میں ایسے حلقوں کی جانب سے ان کی سرپرستی و پذیرائی ، جن کا حقیقی اسلام سے اخلاص و یگانگت تا حال مشکوک ہے، کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس مکتبہء فکر اور اس کے ہمنواوءں (مانند وحید الدّین خان وغیرہ) کی تمام کوششوں اور جملہ ”علمی “مساعی کا مقصود یہ نظر آتا ہے کہ مسلم فرد اور معاشرے کی زندگیوں سے ”باطل کے ساتھ کشمکش“ ایسے تحریکی و تجدیدی لازمہ کو حرفِ غلط کی طرح مٹا کر باطل کے پہلو بہ پہلو”امن و چین “ کی بنسی بجائی جائے ۔ یوں رِند کے رِند رہتے ہوئے ہاتھ سے دامن ِبہشت بھی نہ چھوٹنے پائے ۔ ”گناہگاروں“ اور دنیا پرستوں کے لیے یہ تمام مکتبہ ہا ئے فکر دنیا و آخرت میں گویا سب سے بڑا آسرا ہیں ! دنیا عین وہی کی وہی رہے اور سب کاروبارِحیات ویسے کے ویسے چلتے رہیں ، اور پھر بھی بیٹھے بٹھائے ہاتھ سے جنت نہ جائے تو آخر کوئی تو ہے کہ یہ ”دین کی تعبیر “ جس کے ہر مرض کی دوا ہے

کسی بھی مخصوص طریقہء علم میں معانی و مفاہیم کے تعین کے لیے اس علم کے مصادِر اہم ترین ہوا کرتے ہیں ۔ مصادر پر ذرا بھی اختلاف رونما ہو جائے تو پھر مفاہیم کے اختلاف کی پھر کوئی حد ہوتی ہے نہ شمار۔ علومِ اسلامی کے مصادِر ظاہر ہے قرآن و حدیث کے سوا اور کیا ہیں؟ لیکن قرآن و حدیث کو مصادِر ماننے کے باوجود ان کو (یا ان میں سے کسی ایک مثلاً حدیث کو ) عین اسی درجے کی مصدری حیثیت نہ دینا اور ان سے اکتساب کے صدیوں سے چلے آئے مستند طریقہ سے ہٹ کر اپنی الگ ایک نئی راہ نکالنا آج کے متجددی گروہوں کے اسی رجحان کی عملی تفسیر ہے جسکی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی اسلام کو بذریعہ ترمیمات دَر ترمیمات دورِ جدید کے لیے ”قابلِ عمل“ بنانا ، تاکہ دنیا یونہی ”امن و آشتی“کا گہوارہ بنی رہے ۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے قرآن و حدیث کو اس طرح پیش کرنا جیسے معاذاللہ دونوں میں بس ٹھنی ہوئی ہے، ان کا ایک معروف طریقہء واردات ہے۔ پھر اس کے مبیّنہ حل کے لیے یکے از ”اصول و مبادی“ یہ ”اصل الاءصول“ پیش کرنا کہ حدیث (خواہ محدثین کرام کے نزدیک اس کی کوئی بھی حیثیت ہو)قرآن پر پرکھی جائیگی ، پھر اگر قرآن کے موافق ہوگی تو قبول، ورنہ ردّ ہوگی ……. ، یہ بھی تب انہی کا ”حق“ ہے اور ان جیسوں پر ہی ”سجتا“ ہے ۔ اب اس بات کا فیصلہ کون کرے کہ کونسی حدیث قرآن کے مخالف ہے اور کونسی موافق؟ ظاہر ہے جو یہ اصول پیش کرے وہی پھر اس کا بھی ”حقدار“ ہے !!!لیکن حدیث کو ایک طرف لگا دینے کے بعد اب قرآن فہمی کے لیے بچا کیا جس کی بنیاد پر خودحدیث کی صحت و عدمِ صحت کا فیصلہ ہو؟……. لغت؟ادب؟ بلاغت ؟ شاعری؟ …… پھر معاذاللہ آسمان سے اترے ہوئے پاکیزہ و مقدس کلام ربّانی اور جاہلی دور کے کسی شاعر کے کلام کے طریقہء تفہیم میں کیا فرق ہوا؟

عین جس طرح نیچرسٹوں اور عقل پرستوں کے نزدیک تہذیب اور اخلاقیات کی تمام جہتیں فطرت سے آپ سے آپ واضح ہیں جن کا ادراک انسان کو بذریعہ عقل ِعام ہو جایا کرتا ہے، اور مذہب بس ایک ثانوی چیز ہے جس کا کام صرف فطرت کی تصدیق کرنا ہے!…… بالکل اسی طرح ان جدّت پسندوں کے نزدیک دین میں قرآن مجید ہر طرح اور ہر لحاظ سے کفایت کر جاتا ہے اور احادیث کی حیثیت بس ثانوی ہے۔ پس جس طرح اوّل الذکر کے نزدیک مذہب کو درست ہونے کے لیے بمطابق فطرت ہونا ضروری ہے، (فطرت ان معنوں میں جو کہ انہوں نے ”خود“ دیکھی اور سمجھی ہے !) اسی طرح ثانی الذکر کے یہاں حدیث کی صحت کے لیے اس کا بمطابق قرآن مجید ہونا ضروری ہے( قرآن مجید ان اصولوں اور مفاہیم کی روشنی میں جو کہ انہوں نے”خود“ سمجھے اور متعین کیے ہیں!)

حدیث کی شرعی حیثیت تسلیم کرنے کے باوجود اس کو اصل اور مطلق مصدری حیثیت نہ دینا تو ایسی حرماں نصیبی ہے جیسے کوئی کسی صاف شفاف پانی کے منبع پر بھی سدا پیاسا ہی کھڑا رہے ۔

کیسی محرومی ہے کہ تشریعی طور پر حدیث کو قرآن سے کمتر گرداننے والے اپنے اس”اصل الاءصول“ کا کوئی سرا خود قرآن میں کہیں موجود نہیں پاتے ۔ قرآن تو صاف طور پر اطیعوا اللہ واطیعوالرّسول کا ایک ساتھ حکم دیتا ہے اور کسی بھی تنازع کی صورت میں دونوں کی طرف یکساں طور پر رجوع کا حکم دیتا ہے۔ بلکہ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو دراصل اللہ کی اطاعت قرار دیتا ہے۔

اس بات کو ثابت کرنے کے لیے (کہ حدیث کی تشریعی حیثیت ثانوی اور تابعِ قرآن ہے) جاوید احمد غامدی صاحب نے اپنی کتاب ”میزان“ میں (جس کے ”اوزان“ خود ان کے اپنے مرتب کردہ ہیں !)طویل بحث ارشاد فرمائی ہے اور بطور خاص دو مردار یعنی مچھلی اور ٹڈی کے حلال ہونے اور پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کو نکاح میں جمع کرنے کی حرمت کے مضامین پر مشتمل احادیث (جن سے زائد اَز قرآن تشریع ثابت ہوتی ہے) پر طبع آزمائی کی ہے، گویا بحث کا ”حق“ ادا کردیا ہے ! اس کے بعد چاہیے تو نہ تھا کہ بحث کو دوبارہ چھیڑ کر ” معترضین“ کو ”دعوتِ مبارزت“ دی جاتی، لیکن نجانے کیوں جنوری 2008ء سے مکتبہء فکر کے ترجمان رسالہ ”اشراق“ میں اوّل الذکر موضوع سے متعلق ”تحقیقی“ مضامین کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ جنوری تا جون 2008ء کے پرچوں میں وارِدشدہ اس تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ احادیث میں جو دو مُردار (یعنی مچھلی اور ٹڈی) کے حلال ہونے کا ذکر آیا ہے تو یہ کوئی ”انوکھی“ بات نہیں ہے، …….. عرب میں تو یہ دونوں پہلے سے حلال چلے آتے تھے ! مزید یہ کہ ان دونوں پر مُردار (میتاً) کا اطلاق ہی نہیں ہوتا کیونکہ ان میں دَمٍ مَّسفوح (بہتا ہوا خون) نہیں پایا جاتا ۔ اس لیے یہ دونوں مردہ حالت میں بھی تذکیہ شدہ (یعنی بمنزلہ ذبیحہ کے) ہیں۔ رہا یہ کہ احادیث میں جو ان دونوں کو مردہ حالت میں مردار(میتاً) قرار دے کر ان کی حلّت کو باقاعدہ تشریعی حیثیت دی گئی ہے تو یہ ایک زائد از ضرورت چیز ہے جو بس یونہی ”اخلاقاً “ آگئی ہے! چنانچہ زائد اَز قرآن تشریع اگر ”عُرف“ سے ثابت ہوتی ہے تو وہ تو قابل قبول ہے لیکن یہ مقام حدیث کو دینا کسی طور ”مناسب “ نہیں ! کیونکہ اس سے بعض دیگر ”اہم مسائل“ میں مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں !!

گویاحدیث کا تشریعی مقام قرآن سے ملحق ہونا تو درکنار،معاذاللہ”عرف“ رسم و رواج کے برابربھی نہیں!!!!

اس تحقیق کی تان جس طرح جون 2008ءکے شمارہ میں جا کر ٹوٹی ہے وہ بھی ایک دلچسپ اور قابل ِعبرت ماجرا ہے ۔ فاضل محقق تحقیق کی دُھن مین دُور کی کوڑیاں لاتے لاتے ایک دم اس بحث پر پہنچتے ہیں کہ حالتِ احرام میں ٹڈی کا شکار جائز ہے یا نہیں؟اور آیا وہ صیدالبحر (سمندری شکار) کے حکم میں ہے یا نہیں؟ اور قرآن میں آیا ہے:احل لکم صیدالبحر: ”تمہارے لیے (حالت احرام میں ) سمندری شکار حلال کیا گیا ہے۔“ اس سلسلے میں موصوف سنن ابو داوءد وغیرہ سے کچھ روایات بھی پیش کرتے ہیں۔ خوب جانتے ہوئے کہ یہ احادیث ہی سرے سے ضعیف ہیں جیسا کہ محدثین کے ہاں بیان ہوا ہے (خصوصاً دیکھءے صحیح وسنن ابی داود از البانی)، پھر بھی یہ صاحب ان احادیث کو پہلے ’قرآن اور عقل‘ کے راستے میں لاتے ہیں اور اس کے بعد اپنا کچھ ایسا زور تحقیق دکھاتے ہیں کہ عقل کے بلڈوزر سے ’احادیث‘ کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیتے ہیں۔ آخر میں جب یہ احادیث کو ’چت‘ کردیتے ہیں اور ’اصل‘ تو یہی ثابت کرتے ہیں کہ یہ ‘عقل‘ کی بنا پر قابل قبول نہیں، ’خانہ پری‘ کیلئے ہلکی سی یہ بات بھی کر جاتے ہیں کہ ان احادیث کے اپنے ہی اندر ایک ’ضعف‘ بھی ہے!

یعنی ’حدیث‘ ہارے گی تو پہلے ’عقل‘ سے ہارے گی اور پھر اپنے ’ضعیف‘ ہونے سے! ’عقل‘ کے کٹہرے میں اس کو بہرحال کھڑے ہونا ہوگا!!!

چنانچہ اس ’تحقیق‘ میں جوکہ احادیث کے ضعیف ہونے کی بنا پر کسی لمبی چوڑی تکلیف کی ضرورت مند ہی نہ تھی، یہ صاحب اپنا ایک لمبا’روٹ‘ اختیار کرتے ہیں…. چونکہ ٹڈی خشکی کا جانور ہے اور یہ ”مشاہدہ“ اور ”عقل “ سے بھی ثابت ہے، اس لیے موصوف کچھ گڑبڑ محسوس کرتے ہیں (کیونکہ حدیث کا مشاہدہ اور عقل کے مطابق ہونا بھی تو ضروری ہے!) چنانچہ اپنی الجھن کا اظہار یوں فرماتے ہیں : ” یہ بات بظاہر درست نہیں لگتی ، کیونکہ اللہ نے خشکی کے شکار کو حالت ِاحرام میں حرام کیا ہے ۔جبکہ یہ روایتیں اسے حلال کررہی ہیں ۔علماء کے ایک گروہ نے انہیں ضعیف ہونے کی بناءپر بنائے استدلال نہیں بنایا ۔“ چنانچہ تحقیق کا ’فرض‘ پورا کر لیتے ہیں تو ’قولِ نافلہ‘ کے طور پر فرماتے ہیں :”بہر حال یہ روایتیں ضعیف ہیں، ان سے کسی قسم کا حکم واجب نہیں ہوتا ، اور ان کا ظاہر قرآن کی صریح نص کے خلاف ہے“

خدا ہی جانے کہ اس ”بلندپایہ“ تحقیق کا کیا مقصود اور کیا حاصل ہے ، اور اس کا دورِ حاضرکے مسائل سے کتنا علاقہ ہے ۔ کیا آج کل حاجی حج یا عمرہ کے دوران ٹڈی کا شکار کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ؟ اور کیا یہ مسئلہ علماء کے درمیان وجہء نزاع بن گیا ہے جو اس پر ”دادِ تحقیق“ دینا ناگزیر تھا؟؟!

سنن اور آثار کے خلاف بس ایک بغض ہے جو پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہے۔

تحقیق اگر نام ہے گڑے مردے اکھاڑنے کا ، بات سے بات نکالنے کا اور صفحات سیاہ کرنے کا تو پھر واقعی یہ ایک تحقیق ہے۔ لیکن جبکہ ایسا حقیقتاً اور یقینا نہیں ہے تو پھر یہ مضمون بلکہ سارا ہی سلسلہء مضامین آخر کس مرض کی دوا ہے؟

تعجب ہے کہ اس طرح کی تحقیقات ان ’جدت پسندوں‘ کی طرف سے سامنے آتی ہیں جنہوں نے اسلام کے ایڈیشن در ایڈیشن اسی لیے تو نکالے ہیں کہ ’جدید دور کے مسائل‘ اس دور کے”تقاضوں“ کے مطابق نئے انداز میں حل کریں گے

’حالتِ احرام میں ٹڈی کا شکار‘، دور حاضر کا کس قدر اہم اور حل طلب مسئلہ ہے!

فاعتبروا یا اولی الابصار

بشکریہ ایقاظ

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…