تصوف کے حوالے سے چند فکری مغالطے

Published On October 21, 2024
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

احمد بن الیاس

گزشتہ کافی عرصے سے ایک بات مسلسل مشاہدے میں آرہی ہے۔ دو بظاہر متضاد طبقات یہ تاثر دیتے نظر آتے ہیں کہ تصوف مرکزی دھارے کے اسلام سے علیحدہ مسلم مذہبی روایت ہے۔ ایسا کرنے کے لیے ان دونوں طبقات کے محرکات الگ ہیں۔ ایک طبقہ ایسا تاثر دے کر تصوف کی نفی و مذمت کرتا ہے اور دوسرا طبقہ ایسا کر کہ اس کا اثبات و تعریف۔ یہ دونوں طبقات اسلامی روایت (کی اپنی اپنی خام تفہیم) سے بیزار ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ایک کی بیزاری بنیاد پسندی کے نام پر ہے اور دوسرے کی جدت پسندی کے نام پر۔

اسلام کی شخصیت اس کے عقائد، اسلام کا جسم اس کی شریعت اور اسلام کی روح اس کی روحانیت اور طریقہِ تزکیہ نفس ہے۔ خدائی عقیدے کی بشری تفہیم اسلامی روایت میں علم الکلام کہلاتی ہے۔ عقیدہ ایک ہے مگر اس کی کلامی تشریحات مختلف (اشعری، ماتریدی، معتزلہ، اطہری وغیرہ). یہ سب تشریحات علم الکلام کی شکل میں ہماری روایت اور ورثہ ہیں۔ اسے طرح اسلامی شریعت ایک ہے مگر اس کی تفاہیم یعنی فقہ مختلف (جعفری، زیدی، حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی، ظاہری، اباضی). یہ ہماری قانونی روایت ہے۔ یہی تعلق اسلامی روحانیت (یعنی روح دین) اور تصوف کا ہے۔ روحانیت ایک عمارت ہے مگر اس کے دروازے کثیر (چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی، شاذلی، تنجانی، وغیرہ)۔

شریعت کے لحاظ سے ابتدائی دور میں ہی امت صراط مستقیم سے ہٹ گئی. اسلام کے اجتماعی قوانین کی بنیاد یعنی آئینی ڈھانچے پر بنو امیہ کی طرف سے حملہ کی گیا۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت ملوکیت میں تبدیل کردی. یہ شریعت کی صریح خلاف ورزی تھی۔ یہ اقدام آگے چل کر عقیدے کے بگاڑ کا سبب بھی بنا۔ مادہ پرستی اور ظاہر پرستی کو بھی فروغ ملا۔ مگر ان حالات میں بھی روحِ اسلام محفوظ رہی (یعنی تزکیہ نفس کا عمل جاری رہا)۔ یہ تصوف کی بدولت تھا۔ یوں تصوف اسلام کی سب سے اہم روایت بن کر ابھرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرِون اولیٰ کے اختتام سے لے کر جدید نو آبادیاتی دور کے آغاز تک تصوف اور اسلام عملی طور پر مترادف بن گئے۔ تصوف اسلام پر اس قدر غالب رہا کہ پوری تہزیب کے تمام حوالے تصوف کے رنگ میں تھے۔ زہد اور رندی تصوف کی ہی شاخیں تھیں۔

ادب، فلسفے اور فن کے تمام پہلو تصوف کے زیر اثر تھے۔ امام احمد، امام غزالی، ابن تیمیہ اور شیخ احمد سرہندی جیسے عالم ہوں یا حافظ، بلھے شاہ، شاہ حسین، منصور حلاج جیسے مجذوب ۔۔۔ یا پھر ابن عربی، سعدی اور رومی جیسے حکیم ۔۔۔۔ سب کسی نہ کسی شکل میں تصوف کی روایت سے جڑے تھے۔ تصوف ہی اسلام کا مرکزی دھارا  راسخ العقیدہ دین  اور تمدنی بنیاد تھا. اور اس مرکزی دھارے کے صدر مقام پر سید علی ہجویری، عبدالقادر جیلانی، معین الدین چشتی، بہاؤالدین نقشبند بخاری جیسے بزرگ تھے جو خالص صوفی تھے۔ ان کا چھوڑا ہوا کام ہی اصل میں صوفیانہ ہے۔ باقی سب بظاہر صوفی مظاہر (زہد، رندی، فلسفہ، حکمت، فن) متصوفانہ ہیں یعنی تصوف کے زیر اثر روایت سے اخذ کردہ۔

نوآبادیاتی نظام کی فتح پر جب عالم اسلام کو اپنے زوال کا احساس ہوا تو اسلام میں احیائی تحریکوں کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے بنیاد پسند تحریک ابھری جس نے تصوف، فقہ اور کلام سے قدرے بیزاری کا اظہار کرکہ اسلام کو ظاہری اور بنیادی شکل میں بحال کرنے کی بات کی۔ عرب میں اس تحریک کے بانی محمد بن عبدالوہاب نجدی اور برصغیر میں سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید تھے۔ یہ تحریک وہابیت اور دیوبندیت کی شکل میں فرقوں کی شکل اختیار کرگئی۔

اس کے بعد جدت پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ اس تحریک نے بھی روایت کو مسترد کیا مگر ‘بنیاد’ کی طرف جانے کے بجائے مغرب کے زیر اثر نئی روایت قائم کرنے کی بات کی۔ برصغیر میں سرسید اور مشرق وسطیٰ میں محمد عبدہ جیسے بزرگ اس تحریک کے نمائندہ تھے۔ آج بھی غلام احمد پرویز، ملک فضل الرحمٰن یا جاوید احمد غامدی جیسے اصحاب کے زیر سایہ یہ تحریک جاری ہے۔

ان تحریکوں کے رد عمل میں برصغیر کے اندر روایت کی دفاع کی ایک تحریک بریلی سے اٹھی۔ امام احمد رضا خان اس کے روح رواں تھے۔ اس جماعت نے بھی امام موصوف کے بعد اپنے رنگ ڈھنگ کے اعتبار سے اہلسنت والجماعت کے مرکزی صوفی دھارے سے الگ ہو کر ایک شاخ یا فرقہ کی شکل لے لی۔ یہ مُلاّئی فرقہ تصوف کا حمایتی اور متصوفانہ تو ہے مگر صوفی نہیں۔ حقیقی صوفی سّنی دھارا اس سے علیحدہ ہے۔ وہ دھارا بریلوی کے ٹائٹل قبول کرتا ہے نا اس نام پر جاری خرافات کو۔

عصر حاضر میں جب تہزیبوں کے تصادم کے نام پر مغرب نے اسلام کو اپنا دشمن نمبر ایک بنا لیا تو اس دشمنی کا جواب دشمنی سے دینے کا فیصلہ صرف بنیاد پسندوں نے کیا۔ اہل روایت نے مغرب کے اس پاگل پن کا جواب پاگل پن سے دینا دانائی نہیں جانا۔ ان حالات میں مغرب نے روایتی اسلام یعنی تصوف کو اپنے بنیاد پسند دشمن کو کمزور بنانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ سیاسی تھا اور خلوص نیت پر مبنی نہیں۔ چنانچہ ادھورا علم رکھنے والے مستشرقین اور مقامی روایت سے لاعلم کچھ مسلمانوں نے تصوف کو اسلام کے متوازی تقریًبا ایک علیحدہ مذہب کے طور پر متعارف کروانا شروع کردیا۔ بمشکل دو سے چار فیصد مسلمانوں کے عقیدے یعنی بنیاد پسندی کو مرکزی دھارے کے راسخ العقیدہ اسلام کے طور ہر متعارف کروایا گیا۔

یوں تصوف کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ یہ مرکزی دھارے سے کٹا ہوا اور غیر راسخ  اسلام ہے جو اسلام کے برعکس امن اور محبت کا داعی ہے۔ اس مقصد کے لیے متصوفانہ روایت کی ایک شاخ یعنی رندی کو ہی کُل تصوف کے طور پر پیش کیا گیا۔ حالانکہ رندی خالص اور حقیقی تصوف نہیں بلکہ تصوف کی تہزیب سے اخذ کردہ علیحدہ روایت ہے۔ عبدالقادر جیلانی اور معین الدین چشتی جیسے حقیقی صوفی بزرگوں کو یکسر فراموش کرکہ صرف منصور حلاج اور بھلے شاہ سرکار جیسے رندوں کی من مانی تفہیم کو بہ طور تصوف پیش کیا گیا۔ کیونکہ اس عمل سے سیاسی مفادات پورے ہوتے تھے۔ اس بیانیے کو بنیاد پسندوں اور اسلامی جدت پسندوں کے موقف سے تقویت ملی جو تصوف کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔

تصوف اسلام کے متوازی یا علیحدہ کوئی چیز ہے نہ اسلام کی کئی تشریحات میں سے بس ایک تشریح۔ دراصل تصوف ہی مرکزی دھارے کا راسخ العقیدہ اسلام ہے۔ (تاریخی لحاظ سے بھی اور عوامی طور پر بھی). اس سے ہٹ کر ہر تحریک (دیوبندیت، بریلویت، جدیدیت، وہابیت، سلفیت وغیرہ) ثانوی یا ظلیّ ہیں، یہ اساسی اور حقیقی۔ تصوف کے بغیر کوئی اسلام نہیں اور اسلام کے بغیر کوئی تصوف نہیں۔ تصوف کے نام کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا تصوف کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور مسلم معاشرے کے لیے بھی۔ اہل تصوف کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا شعوری ادراک کرکہ مناسب اقدام کریں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…