تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

Published On March 18, 2025
تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب

مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف کے درپے ہوئے، ان کے شاگرد بھی اساتذہ کی تقلید کرتے ہوئے اسی روش پر قائم ہیں۔ چند روز قبل جناب عمار خان ناصر صاحب نے یہ دعوی فرمایا تھا کہ شیخ ابن عربی نے زندقہ کی صورت الحاد کو فروغ دیا جبکہ یہ دعوی صراحتاً خلاف واقعہ ہے۔ آج غامدی صاحب کے ایک اور فاضل شاگرد جناب منظور الحسن صاحب نے آگے بڑھتے ہوئے تصوف کو متوازی دین قرار دینے کے لئے چند نئے “علمی” نکات کا اضافہ فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے:
“بات کو اگر سمیٹا جائے تو ہماری ناچیز راے میں تصوف کے تین بنیادی تفردات ہیں، جو اُسے اسلام کی متداول علمی روایت سے جدا رکھنے پر اصرار کرتے ہیں:
ایک یہ کہ وہ اپنے فکر و عمل کو، رسالتِ محمدی سے مجرد ہو کر، براہِ راست الہام پر قائم کرتا ہے اور اِس طرح خود کو نہ صرف نقص وخطا کی انسانی سطح سے بلند کر لیتا ہے، بلکہ نبوی رشد و ہدایت کا قلم دان بھی سنبھال لیتا ہے۔ “
یہاں آپ کی جانب سے چند دعوے کئے گئے ہیں:
– صوفیا رسالت محمدیہﷺ سے مجرد رہتے ہوئے اپنے فکر و عمل کو الہام پر استوار کرتے ہیں
– وہ خود کو معصوم سمجھتے ہیں
– وہ آگے بڑھ کر نبوی رشد و ہدایت کے مقام پر فائز ہوجاتے ہیں (یہ بذات خود ایک مبہم دعوی ہے نیز آخر کتاب “میزان” نبوی رشد و ہدایت کا قلمدان سنبھالنا کیوں نہیں، خیر اسے کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں)
یہ تجزیہ کاری “شوگر کوٹڈ الفاظ” میں اہل تصوف کو دائرہ اسلام سے خارج اور یا اہل بدعت قرار دینا ہی ہے۔
جناب عمار صاحب کی جانب سے عائد کردہ الزام کی طرح یہ الزامات اس قدر غیر علمی ہیں کہ ان کی تردید کے دلائل لانا ضیاع اوقات ہی معلوم ہوتا ہے، تاہم بحالت مجبوری آئیے شیخ ابن عربی کی چند عبارات دیکھ لیتے ہیں کہ آپ الہام کا دائرہ کیا دیکھتے ہیں۔ اس پر ہم نے اپنی کتاب میں ایک پورا باب لکھا ہے، مزید تفصیلات وہاں ملاحظہ کرنا چاہئے۔
– پہلا اقتباس
شیخ اپنی کتاب “الفتوحات المکیة” کے آغاز میں الہام سے متعلق لکھتے ہیں:
أما العاقل اللبيب الناصح نفسه فلا يرمي به ولكن يقول هذا جائز عندي أن يكون صدقا أو كذبا وكذلك ینبغی لکل عاقل اذا اتاه بهذه العلوم غیر المعصوم وان کان صادقا فی نفس الامر فیما اخبر به، ولکن کما لا یلزم هذا السامع له صدقه لا یلزم تکذیبه ولکن یتوقف، وان صدقه لم یضره لانه اتی فی خبره بما لا تحیله العقول بل بما تجوزه اؤ تقف عنده، ولا یهد رکنا من ارکان الشریعة، ولا یبطل اصلا من اصولها، فاذا اتی بامر جوزه العقل وسکت عنه الشارع، فلا ینبغی لنا ان نرده اصلا ونحن مخیرون فی قبوله، فان کانت حالة المخبر به تقتضی العدالة لم یضرنا قبوله کما نقبل شهادته ونحکم بها فی الاموال والارواح، وان کان غیر عدل فی علمنا فننظر، فان کان الذی اخبر به حقا بوجه ما عندنا من الوجوه المصححة قبلناه، والا ترکناه فی باب الجائزات ولم نتکلم فی قائله بشیء فانها شهادة مکتوبة نسال عنها قال تعالی (سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْأَلُونَ: زخرف 19)۔ وانا اولی من نصح نفسه فی ذلک، ولو لم یات هذا المخبر الا بما جاء به المعصوم فهو حاک لنا ما عندنا من روایة عنه فلا فائدة زادها عندنا بخبره، وانما یاتون رضی الله عنهم باسرار وحکم من من اسرار الشریعة مم هی خارجة عن قوة الفکر والکسب، ولا تنال ابدا الا بالمشاهدة والالهام وما شاکل هذه الطرق، ومن هنا تکون الفائدة بقوله علیه السلام: ان یکن فی امتی محدثون فمنهم عمر
ترجمہ: “جو عقلمند، باشعور اور اپنا خیر خواہ ہوتا ہے وہ اس بات کو ایسے ہی نہیں ٹھکرا دیتا بلکہ یوں کہتا ہے: “میرے نزدیک یہ بات درست بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی” اور اسی طرح ہر عاقل کو کہنا چاہئے جب اس کے پاس علوم الاسرار کی خبر ایسے فرد کی طرف سے آئے جو غیر معصوم ہے اگرچہ نفس امر میں وہ صحیح ہو۔ البتہ جس طرح اس کی تصدیق ضروری نہیں، اسی طرح اسے جھٹلانا بھی لازم نہیں بلکہ (وہ اس خبر پر تصدیق اور تکذیب کے بجائے) توقف کرے گا۔ تاہم اگر وہ اس کی تصدیق کرے تو کوئی نقصان بھی نہیں کیونکہ اس (کہنے والے) نے ایسی بات بیان کی جو محال عقلی نہیں بلکہ عقل اسے جائز و ممکن سمجھتی ہے یا اس پر توقف اختیار کرتی ہے (یعنی عقل اسے ناممکن نہیں کہتی)، نیز وہ بات شریعت کا کوئی رکن منہدم بھی نہیں کرتی نہ کسی شرعی اصول کو کالعدم کرتی ہے۔ پس اگر وہ ایسی بات کی خبر دے جس کو عقل جائز کہے اور اس کے بارے میں شارع نے سکوت اختیار کیا ہو تو اسے رد کر دینا مناسب نہیں ہے، ہمیں اسے قبول کرنے کا اختیار (option) حاصل ہوگا۔ پس اگر غیر معصوم مخبر کی حالت سے لگے کہ وہ قابل اعتماد ہے تو ہمیں اس (کی بات) قبول کرنے میں کوئی نقصان نہیں ہے جیسا کہ ہم جان و مال کے معاملات میں اس کی شہادت قبول کرتے ہیں اور اس پر فیصلہ کرتے ہیں۔ اگر وہ قابل اعتماد نہ ہو تو ہم یہ دیکھیں گے کہ جو خبر وہ ہمیں دے رہا ہے اگر ہمارے درستگی کے پیمانوں میں سے کسی پر پورا اترے، تو ہم اسے قبول کر لیں گے ورنہ جائز سمجھتے ہوئے اسے چھوڑ دیں گے۔ البتہ ہم اس کے قائل کے بارے میں کوئی (بری) بات نہ کہیں گے کیونکہ یہ ایسی گواہی ہے جسے بموجب قرآن (“لکھ دی جائے گی ان کی شہادت اور ان سے باز پرس ہوگی”) لکھا جاتا ہے اور ہم سے اس بارے میں سوال ہوگا۔ سب سے زیادہ مجھے خود چاہئے کہ اس نصیحت پر عمل کروں۔ (اسے یوں سمجھئے کہ) اگر غیر معصوم ہمیں ایسی خبر دے جو معصوم نبی پہلے دے چکے تو اس نے کوئی نئی بات نہیں کہی بلکہ ہمارے ہاں پہلے سے ثابت شدہ بات کی اور اسے ہم جھٹلا نہیں سکتے۔ حضرات صوفیائے کرام اور اولیاء جو نئی بات بیان کرتے ہیں وہ شریعت کے اسرار و رموز ہیں اور انہیں فکر و نظر سے نہیں پایا جاسکتا بلکہ الہام، (روحانی) مشاہدہ وغیرہ جیسے ذرائع سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اور آپﷺ کے فرمان “اگر میری امت میں صاحبان الہام ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ ان میں سے ہوں گے” کی معنویت اسی پہلو سے ہے۔”
غور کیجئے، آپ فرمارہے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام معصوم اور صادق ہیں اور ان کی خبر میں تکذیب کا اختیار نہیں جبکہ اولیاء غیر معصوم ہیں اس لیے ان کی خبر میں ہمیں تصدیق، تکذیب اور توقف تینوں کا اختیار ہے۔آپ کے مطابق اولیاء کی خبر کو بعض شرائط کے ساتھ قبول کیا جائے گا:
۱۔ وہ خبر محال عقلی نہ ہو
۲۔ وہ خبر شریعت کے کسی رکن کو منہدم نہ کرے نہ کسی اصول شریعت کو کالعدم قرار دے
۳۔ شریعت اسلامیہ اس بارے میں ساکت ہو، یعنی کوئی واضح منصوص حکم موجود نہ ہو
ان شرائط کے پورا ہونے کے باوجود اولیاء کی خبر پر ایمان لانا اور اسے قبول کرنا لازم نہیں بلکہ سامع کو اختیار ہے کہ وہ اسے قبول کرے یا رد کر دے۔
– دوسرا اقتباس
جس طرح فقہاء عقلی استدلال کے مختلف ذرائع کو حکم شرعی کے طرق استنباط سمجھتے ہیں، شیخ کے نزدیک کشف و الہام بھی اسی قبیل کی چیز ہے نہ کہ بالذات قرآن و سنت کی طرح کوئی ماخذ شرع۔ چنانچہ جس طرح عقلی طرق استدلال فہم شریعت میں معاون ہوتے ہیں، نیک شخص پر القاء ہونے والے روحانی و ربانی خیالات اسے حکم شرع ہی سمجھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، یہ شریعت محمدیﷺ سے الگ کوئی نئی شریعت وضع کرنے کے راستے نہیں۔ چنانچہ ولی کا کشف حکم شرعی کے مطابق ہوتا ہے، اگر کوئی خلاف شرع بات کسی کے دل پر القاء ہو تو شیخ کے نزدیک وہ شیطان کا وسوسہ ہوتا ہے نہ کہ الہام۔ شیخ نے واضح کیا ہے کہ الہام کے ذریعے الگ سے شرعی احکام مقرر نہیں کئے جاتے، اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ اس پر کسی طریقے پر کوئی نیا حکم شرعی القاء ہوگیا ہے تو اس کا یہ دعوی غلط ہے کیونکہ شریعت ہر طرح سے مکمل ہوچکی، اب کسی پر کوئی حکم نازل ہوگا نہ اس مقصد کے لئے اللہ کسی سے کسی بھی صورت خطاب کرے گا۔ یہ امور شیخ نے اپنی کتاب میں کئی مقامات پر بیان کئے ہیں، یہاں آپ کا ایک اقتباس ملاحظہ کرتے ہیں:
الملک لا ینزل بوحی علی قلب غیر نبی اصلا ولا بامر الهی جملة واحدة۔ فان التشریع فقد استقرت، وتبین الفرض والواجب والمندوب والمباح والمکروه، فانقطع الامر الهی بانقطاع النبوة والرسالة۔ ولهذا لم یکتف رسول اللهﷺ بانقطاع الرسالة فقط لئلا یتوهم ان النبوة باقیة فی الامة فقال علیه السلام (ان النبوة والرسالة قد انقطعت فلا نبی بعدی ولا رسول)۔ فما بقی احد من خلق الله یامره الله بامر یکون شرعا یتعبده به۔ فانه ان امره بفرض کان الشارع قد امره به فالامر للشارع وذلک وهم منه وادعاء نبوة قد انقطعت۔ فان قال: انما یامره بالمباح، قلنا: لا یخلوا اما ان یرجع ذلک المباح واجبا فی حقه فهذا هو عین نسخ الشرع الذی هو علیه حیث صیر بهذا الوحی المباح الذی قرره الرسول مباحا واجبا یعصی بترکه، وان ابقی مباحا کما کان فذلک کان، فایة فائدة فی الامر الذی به جاء هذا الملک لهذا المدعی صاحب هذا المقام؟ فان قال: ما جاء به ملک لکن الله امرنی به من غیر واسطة، قلنا هذا اعظم من ذلک فانک ادعیت ان الله یکلمک کما کلم موسی علیه السلام ولا قائل به لا من علماء الرسوم ولا من علماء اهل الذوق، ثم انه لو کلمک او لو قال لک فما کان یلقی الیک فی کلامه الا علوما و اخبارا لا احکاما ولا شرعا ولا یامرک اصلا، فانه ان امرک کان الحکم مثل ما قلنا فی وحی الملک، فان کان ذلک الذی دندنت علیه عبارة عن ان الله خلق فی قلبک علما بامر ما فما ثم فی کل نفس الا خلق العلم فی کل انسان ما یختص به ولی من غیره، وقد بینا فی هذا الکتاب وغیره ما هو الامر علیه، ومنعناجملة واحدة ان یامر الله احدا بشریعة یتعبده بها فی نفسه او یبعثه بها الی غیره۔ وما نمنع ان یعلمه الحق علی الوجه الذی نقرره وقرره اهل طریقنا بالشرع الذی تعبده به علی لسان الرسول علیه السلام من غیر یعلمه ذلک عالم من علماء الرسوم بالمبشرات التی ابقیت علینا من آثار النبوۃ وهی (الرویا یراها الرجل السلم او تری له) وهی حق و وحی۔
ترجمہ: ’’فرشتہ اصلاً غیر نبی کے قلب پر وحی لے کر اترتا ہی نہیں، اس پر حکم الٰہی کا نزول سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ (ہر قسم کی) تشریع مکمل ہو چکی ہے۔ فرض، واجب، مندوب، مباح، مکروہ سب مقرر ہو چکے ہیں۔ نبوت و رسالت کے منقطع ہونے کے ساتھ ہی امر الٰہی منقطع ہوگیا۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے صرف رسالت کے منقطع ہونے پر اکتفا نہیں فرمایا کہ کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ اس امت میں نبوت باقی ہے، چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: “نبوت و رسالت دونوں منقطع ہو چکے، میرے بعد کوئی نبی ہے نہ کوئی رسول”۔ اللہ کی مخلوق میں اب کوئی ایسا باقی نہیں جسے اللہ تعالیٰ کسی (نئی) بات کا حکم دے جس کا وہ مکلف ہو۔ اگر (اس طرح کا دعویدار یہ کہے کہ) اللہ نے اسے کسی ایسی بات کا حکم دیا جسے شریعت فرض کرچکی ہے تو حکم شارع ہی کا ہوا۔ البتہ یہ اس کا وہم ہے اور نبوت کا دعویٰ ہے جبکہ وہ منقطع ہوچکی۔ اگر اس نے کہا کہ اللہ اسے مباح امر کا حکم دیتا ہے تو ہم کہیں گے کہ آیا یہ مباح اس پر واجب ہو گیا (اگر ایسا ہے تو) یہی تو شریعت کو منسوخ کرنا ہے، اپنی (مزعومہ) وحی سے ایک ایسی بات کو واجب اور اس کے چھوڑنے کو نافرمانی ٹھہرانا جسے شریعت نے مباح کہا۔ اور اگر اس مباح کو مباح ہی رہنے دیا تو وہ پہلے ہی سے ایسا ہے، اس مقام کے دعوی دار کے پاس فرشتہ جو لے کر آیا اس میں کیا نئی بات ہوئی؟ اگر وہ یہ کہے کہ فرشتہ میرے پاس نہیں آیا بلکہ مجھے اللہ نے بغیر کسی واسطے کے اس کا حکم دیا تو ہم کہیں گے کہ یہ اس سے بھی بڑا دعویٰ ہے، کیونکہ تم نے دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ تم سے ایسے ہی کلام کرتا ہے جیسے اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کیا۔ اس بات کا علمائے رسوم اور علمائے اہل ذوق میں سے کوئی بھی قائل نہیں۔ پھر اگر اللہ نے تم سے کلام کیا بھی ہوتا تو جو تم پر القا کرتا وہ علوم و اخبار ہی کے قبیل سے ہوتا نہ کہ شریعت کے باب سے، وہ تمہیں کبھی کوئی حکم نہیں دینے کا۔ اگر وہ تمہیں کسی بات کا (تمہارے دعوے کے مطابق) امر دے تو اس کا وہی معاملہ ہے جو ہم نے فرشتہ کی وحی کے بارے میں کہا اور اگر جس چیز پر تم بھنبھنا رہے ہو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے تمہارے دل میں کسی بات کا علم پیدا کیا تو (اس میں کیا خاص بات) ہر نفس میں علم پیدا کیا جاتا ہے (اور اس لحاظ سے) ہر انسان میں وہ بات پائی جارہی ہے جس سے (تمہارے زعم میں) ایک ولی دوسرے سے ممتاز ہوتا ہے۔ اور ہم نے اس کتاب اور دیگر کتابوں میں معاملے کی حقیقت بیان کردی ہے اور ہم نے مکمل طور پر یہ بات مسترد کردی کہ اللہ تعالیٰ کسی کو ایسی شریعت کا حکم دے کہ وہ اس کا مکلف ہو یا کسی دوسرے کی طرف اسے مبعوث کیا جائے۔ البتہ ہم اس کا انکار نہیں کرتے کہ حق تعالی کسی کو اپنے رسول پر نازل کردہ شریعت، جس کا اس نے مکلف ٹھہرایا ہے، کسی کو اس طرح سکھا دے جس طرح ہم نے اور ہماری راہ والوں نے بیان کیا ہے (اور یہ سکھانا) علمائے رسوم میں سے کسی کے سکھائے بغیر ہو (اور وہ) مبشرات کے ذریعے ہے جسے ہم میں آثار نبوت میں سے باقی رکھا گیا اور وہ نیک خواب ہے جو برحق ہے، (ایک گونہ) وحی ہے۔”
– تیسرا اقتباس
ایک مقام پر اس سوال پر بحث کرتے ہوئے کہ “کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی محدث (ملھم) شریعت محمدیﷺ کے خلاف کوئی بات کہے” شیخ نے خاصی جامعیت کے ساتھ الہام و کشف کے فہم شریعت سے تعلق کے مختلف پہلووں کو کھولا ہے۔ مناسب محسوس ہوتا ہے کہ یہ عبارت پیش کردی جائے تاکہ بات میں کوئی ابہام نہ رہے:
فانه یجوز للشافعی ان یحکم بما یخالف به حکم الحنفی وکلاهما شرع محمدﷺ فانه قرر الحکمین فخالفت شرعه بشرعه، فاذ اتفق ان تخبر انبیاء الاولیاء فیما یعلمهم الحق من احکام شرع رسول اللهﷺ او یشهدون الرسولﷺ فیخبرهم بالحق فی امر یری خلافه احمد والشافعی ومالک وابوحنیفه لحدیث رووه صح عندهم من طریق النقل فوقفت علیه انبیاء الاولیاء وعلمت من طریقها الذی ذکرناه ان شرع محمدﷺ یخالف هذا الحکم وان ذلک الحدیث فی نفس الامر لیس بصحیح وجب علیهم امضاء الحکم بخالفه ضرورة، کما یجب علی صاحب النظر اذا لم یقم له دلیل علی صحة ذلک الحدیث وقام لغیره دلیل علی صحته وکلاهما قد وفی فی الاجتهاد حقه،فیحرم علی کل واحد من المجتهدین ان یخالف ما ثبت عنده وکل ذلک شرع واحد، فمثل هذا یظهر من انبیاء الاولیاء بتعریف الله انه شرع هذا الرسول، فیتخیل الاجنبی فیه انه یدعی النبوة وانه ینسخ بذلک شرع رسول اللهﷺ فیکفره۔وقد راینا هذا کثیرا فی زماننا وذقنا من علماء وقتنا، فنحن نعذرهم لانه ما قام عنده دلیل صدق هذه الطائفة وهم مخاطبون بغلبة الظنون۔ وهؤلاء علماء بالاحکام غیر ظانین بحمد لله، فلو وفوا النظر حقه لسلموا له حاله کما یسلم الشافعی للمالکی حکمه ولا ینقضه اذا حکم به الحاکم، غیر انهم رضی الله عنهم لو فتحوا هذا الباب علی نفوسهم لدخل الخلل فی الدین من المدعی صاحب الغرض فسدوه وقالو ان الصادق من هؤلاء لا یضره سدنا هذا الباب ونعم ما فعلوه۔ ونحن نسلم لهم ذلک ونصوبهم فیه و نحکم لهم بالاجر التام عند الله ولکن اذا لم یقطعوا بان ذلک مخطیء فی مخالفتهم فان قطعوا فلا عذر لهم فان اقل الاحوال ان ینزلوهم منزلة اهل الکتاب لا نصدقهم ولا نکذبهم، فانه ما دل لهم دلیل علی صدقهم ولا کذبهم، بل ینبغی ان یجروا علیه الحکم الذی ثبت عندهم مع وجود التسلیم لهم فیما ادعوه، فان صدقوا فلهم وان کذبوا فعلیهم
ترجمہ: ’’(یہ اس معنی میں جائز ہے کہ) امام شافعی کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی ایسی بات کا حکم دیں جو حنفی کے حکم کے خلاف ہو کہ دونوں ہی کو شرع محمدﷺ نے برقرار رکھا ہے، پس تم نے (ایک لحاظ سے) آپﷺ کی شریعت کی مخالفت کی پر آپ ہی کی شریعت کی بنیاد پر۔ (اسی طرح) اگر ایسا ہو کہ انبیاء الاولیاء (یعنی محدثین) کو اللہ تعالی شریعت محمدی کے حوالے سے کسی درست بات کی خبر دیں یا آپﷺ سے ملاقات میں وہ انہیں حق بات بتائیں، جبکہ ابوحنیفہ، مالک، شافعی و حنبل رحمہم اللہ کسی روایت کردہ حدیث کی بنیاد پر اس سے اختلاف کرتے ہوں، لیکن انبیاء الاولیاء کو اس طرح، جس طرح ابھی گزرا، علم ہوا کہ آپﷺ کی شریعت دراصل اس کے خلاف ہے (جس کی طرف ان مجتہدین کا رجحان ہے) اور وہ حدیث (جس کی بنیاد پر ان کی یہ رائے بنی) درست نہیں، تو ان انبیاء الاولیاء پر واجب ہے کہ اس حدیث کے خلاف (جس سے مجتہدین نے استدلال کیا) فیصلہ کریں جس طرح مجتہد کے لئے (اپنے اجتہاد پر) عمل واجب ہے جبکہ اس کے نزدیک دلیل سے کچھ ثابت ہوا اور دوسرے کے نزدیک اجتہاد سے کچھ اور دونوں ہی نے اجتہاد کا حق ادا کیا، ان میں سے ہر ایک پر حرام ہے کہ اپنے اجتہاد کی مخالفت کرے جبکہ یہ سب ایک شریعت ہی کے تحت ہے۔ اسی کی مثل اللہ کے (عطا کردہ) علم سے محدثین پر ظاہر ہوتا ہے کہ (فلاں بات) رسول کی شریعت ہے۔ اور ان سے نا آشنا یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ یہ لوگ دعویٰ نبوت اور رسول اللہ ﷺ کی شریعت کو منسوخ کر رہے ہیں اور وہ تکفیر کردیتا ہے۔ ہم نے اپنے زمانے میں یہ بہت دیکھا ہے اور اپنے زمانے کے علماء سے ایسی باتیں جھیلی ہیں۔ ہم ان کو معذور سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک گروہ اولیاء کی صداقت ثابت نہیں ہوتی، وہ غلبہ ظن ہی کے پابند ہیں۔ جبکہ اللہ کا شکر ہے کہ اولیاء احکام کو ظن سے جاننے والے نہیں ہوتے۔ اگر یہ (علماء) غور و فکر کا حق ادا کرتے تو ان کی بات ایسے ہی تسلیم کرتے جیسے شافعی کسی مالکی کی بات تسلیم کرتا ہے اور اگر حاکم اس کے مطابق فیصلہ کرے تو وہ اسے توڑتا نہیں۔ البتہ اگر اولیاء (اس کشفی استنباط کا) دروازہ کھول دیتے تو صاحب غرض شخص کے دعویٰ کے سبب دین میں خلل واقع ہو جاتا۔ اسی لیے اولیاء نے اسے بند کر دیا اور کہا کہ سچے ملہم کو یہ دروازہ بند کرنے سے کوئی زیاں نہیں، حقیقت میں ان اولیاء نے یہ بہت ہی اچھا کیا اور ہم ان کی بات تسلیم کرتے ہیں اور انہیں درست قرار دیتے ہیں اور ان کے لیے اللہ کی بارگاہ میں اجر تام کے بھی قائل ہیں بشرطیکہ وہ قطعیت کے ساتھ یہ نہ کہیں کہ (صوفیا میں سے) ان کی مخالفت کرنے والا غلط ہے، اگر وہ قطعیت کے ساتھ ایسا کہیں تو ان کے پاس کوئی دلیل نہیں کیونکہ (اس ملہم کا) کم سے کم درجہ یہ ہے کہ وہ اہل کتاب کی مانند ہو کہ ہم ان کی تصدیق کرتے ہیں نہ تکذیب کیونکہ ان کے پاس ان کی سچائی یا جھوٹ کی کوئی دلیل نہیں۔ چنانچہ انہیں چاہئے کہ ان پر وہی حکم لاگو کریں جو ان کے نزدیک ثابت شدہ ہے، ان (اولیاء) کے دعوے (کا حق) تسلیم کرتے ہوئے۔ پس اگر وہ سچے ہیں تو اس کا نفع ان کے لیے اور اگر وہ جھوٹے ہیں تو اس کا وبال بھی انہی پر۔‘‘
اس عبارت میں شیخ نے بہت سے علمی مسائل کو سلجھا دیا ہے جو اہل علم پر مخفی نہیں، یہاں تفصیل بیان کرنے کا موقع نہیں۔
جناب منظور الحسن صاحب الزام لگا رہے ہیں کہ صوفیا نبی سے الگ تھلگ رہتے ہوئے کام چلاتے ہیں جبکہ اہل تصوف کا موقف یہ ہے کہ امتی کو ملنے والا ہر فیض نبی کے واسطے سے ہوتا ہے۔ صوفی فکر میں یہ تھیم اس قدر بنیادی، نمایاں و اہم ہے کہ اہل علم کی مجلس میں اس کے برعکس دعوی شاید ہی کوئی کرنے کی جرات کرسکے۔ لہذا اس پر کوئی عبارت پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔
الغرض مکتب فراہی کےمنتسبین اہل تصوف پر بے بنیاد الزامات لگانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ غامدی صاحب نے چند عبارات کو جمع کرکے تصوف پر جو “تحقیقی مضمون” لکھا ہے، اس کی علمی حیثیت اسی نوعیت کی ہے جیسی مثلا محترمہ عظمی رومی صاحبہ کی تحقیقی کاوش کی جہاں انہوں نے امام غزالی کی چند عبارات یہ ثابت کرنے کے لئے اکٹھی کی ہیں کہ وہ اصول علیت کو رد کرکے مسلمانوں میں سائنس ختم کرگئے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ علمی مباحث میں مکتب فراہی کے منتسبین کی جانب سے غیر سنجیدگی کا یہ سلسلہ ان شاء اللہ ضرور بند ہوگا۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…