نیشن سٹیٹ اور غامدی صاحب

Published On February 20, 2024
جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

جمعے کی نماز کی فرضیت اور غامدی صاحب کا غلط استدلال

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے جمعے کی نماز کی فرضیت کا بھی انکار کر دیا ہے ۔ اور روزے کی رخصت میں بھی توسیع فرما دی ہے ۔ جمعے کی نماز کی عدمِ فرضیت پر جناب کا استدلال ہے کہ مسلم ریاست میں خطبہ سربراہِ ریاست یا اسکے حکم سے اسکے نمائندے کا حق...

عورت کی امامت اور غامدی صاحب

عورت کی امامت اور غامدی صاحب

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن غامدی صاحب نے عورت کی امامت کو جائز قرار دے دیا ہے ۔ اور دلیل یہ ہے کہ ایسی باقاعدہ ممانعت کہیں بھی نہیں ہے کہ عورت امام نہیں بن سکتی ۔ لیکن ایسا استدلال درست نہیں ہے ۔ ہم انہیں اجماعِ امت سے منع کریں گے کہ صحابہ میں ایسا کبھی...

مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر

مسئلہ رجم اور تکفیرِ کافر

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن اول - جاوید احمد غامدی نے رجم کا انکار کیا ہے ۔ رجم کا مطلب ہے کہ شادی شدہ افراد زنا کریں تو انہیں سنگسار کیا جائے گا ۔انکا استدلال یہ ہے کہ قرآن میں زنا کی سزا رجم نہیں ہے بلکہ کوڑے ہیں ۔ " الزانیۃ الزانی فالجلدوا کل...

واقعہ معراج اور غامدی صاحب

واقعہ معراج اور غامدی صاحب

مقرر : مولانا طارق مسعود  تلخیص : زید حسن جسمانی معراج کے انکار پر غامدی صاحب کا استدلال " وما جعلنا الرؤیا التی" کے لفظ رویا سے ہے ۔حالانکہ یہاں لفظ رویا میں خواب اور رویت بمعنی منظر دونوں کا احتمال ہے اور واقعے کے جسمانی یا روحانی ہونے پر قرآن کا بیان جہاں سے شروع...

تصوف کے ظروف پر چند غلط العام استدلال

تصوف کے ظروف پر چند غلط العام استدلال

 ڈاکٹر زاہد مغل - پہلا: جب ناقدین سے کہا جائے کہ "قرآن و سنت کو سمجھ کر احکامات اخذ (یعنی "خدا کی رضا" معلوم) کرنے کے لئے اگر یونانیوں کے وضع کردہ طرق استنباط سیکھنا سکھانا اور استعمال کرنا جائز ہے، جب کہ سنت نبوی میں انکی تعلیم کا کوئی بھی ذکر نہیں ملتا، تو صوفیاء...

کیا وحی کے ساتھ الہام، القا اور کشف بھی صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہیں؟

کیا وحی کے ساتھ الہام، القا اور کشف بھی صرف نبی کے ساتھ مخصوص ہیں؟

 محمد فیصل شہزاد معترضین ایک حدیث مبارکہ سناتے ہیں، جس میں ارشاد نبوی ہے: مفہوم: "میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے، آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔‘‘...

ڈاکٹر تزر حسین

غامدی صاحب اور حسن الیاس جب نیشن سٹیٹ کی بات کرتے ہیں تو وہ لوگوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم نشین سٹیٹ کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے دینی فکر میں موجود اصظلاحات جدید دور میں قابل عمل نہیں اور اس چیز نے دینی فکر کو جمود کا شکار کردیا ہے۔ انکی رائے میں دین میں ایسا کوئی حکم نہیں جو کہ نشین سٹیٹ کی تردید میں ہو۔ اور اس بنیاد پر جدید دور کے پڑھے لکھے لوگ اس کی موقف کی تائید بھی کرتے ہیں اور غامدی صاحب کی فکر سے متاثر بھی ہوتے ہیں۔ اور عمومی طورپر غامدی صاحب بھی اس بدلی ہوئی دنیا کے ساتھ چلنے کی بات کرتے ہیں اور اس حوالے سے روایتی فکر پر تنقید کرتے ہیں۔ اس نیشن سٹیٹ کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نیشن سٹیٹ میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں اور نہ ہی ائین میں کوئی مذہبی بات کی جاسکتی ہے کیونکہ ایسا کرنا نیشن سٹیٹ کے تصور کے خلاف ہیں اور یہ کہ ایسا کرنا کوئی مذہبی بنیاد نہیں رکھتا۔

وہ اسلامی احکام کو ایک پارٹی کے منشور کی سطح پر لے کر اتے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ دینی احکام کو نافذ کرنا مسلمان حکمران کا کام ہے یہ ریاست سے متعلق نہیں۔ وہ اس حوالے سے سیکولرزم کے بہت قریب پہنچتے پہنچتے رک جاتے ہیں اور اپنی فکر اور سیکولرزم میں ایک لائن کھینچ لیتے ہیں۔

اج حسن الیاس صاحب نے جزیرہ نما عرب کے حوالے سے پوسٹ کی اور یہ کہا کہ جزیرہ نما عرب میں مندر اور کسی اور عبادت خانہ بنانے کی اجازت نہیں۔ اور ابھی جو عرب امارات میں جو مندر بنا ہے یہ دینی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ اس پر بہت سارے جدید پڑھے لکھے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ نیشن سٹیٹ کے اس دور میں اس حکم کی کیا حیثیت بنتی ہے۔ کہ اپ ہر جگہ مسجد بناتے رہے لیکن اپنے مقدس زمین پر کسی اور کی عبادت خانہ بنانے کی اجازت نہ ہو۔ بہت سارے لوگوں کو غامدی صاحب کی طرف سے یہ موقف عجیب لگتا ہے۔ اور وہ اسکو جدید دور کے تقاضوں کے خلاف قرار دے رہے ہیں۔ اور اس حوالے سے حسن صاحب اور غامدی صاحب کا جواب بھی یہی ہے جو کہ عمومی طور پر روایتی فکر کیطرف سے اتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جدید دور کے لوگ مغربی تہذیب سے اتنے مرعوب ہوچکے ہیں کہ انکو معیار جدید مغربی تہذیب ہے اور یہ لوگ صرف کلچرل مسلمان ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق جو معیار جدید تہذیب کی طرف سے اتا ہیں دین کا وہی حکم انکے لیے قابل قبول ہیں۔ حسن صاحب نے ایسے لوگوں کو بالکل اسی انداز میں جواب دیا ہے جس طرح روایتی فکر کے لوگ انکو نیشن سٹیٹ کے حوالے سے دیتے ہیں۔

اس بحث میں میرے لیے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جدید فکر اور مغربی تہذیب کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر ایک کنفلکٹ ضرور موجود ہیں۔ اور جب غامدی صاحب یہ بات کہتے ہیں کہ نیشن سٹیٹ کو مان کر ہمیں اگے جانا چاہیے تو وہ خود بھی نیشن سٹیٹ کے تصور یا اسکے بعض پہلووں کو رد کرتے ہیں جہاں وہ اسکے دینی فکر کے مقابل اجائے۔ غامدی صاحب ٹکراو کی اس لائن کو بہت قریب جاکر کینچھتے ہیں اور باقی لوگ تھوڑا فاصلہ سے اسکو کھینچ لیتے ہیں۔ اور دوسری اہم بات یہ کہ غامدی صاحب کے ہاں بھی جو اصل بحث ہے وہ یہ ہونی چاہیے کہ دین کیا کہتا ہے یہ نہیں کہ فلاں اصطلاح اج کے دور میں قبول ہے یا نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ غامدی صاحب جدیدیت کے بہت سارے اقدار کو مان کر بھی بعض مغربی اقدار کے خلاف ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تزر حسین صاحب نے السٹر یونیورسٹی (یوکے) سے کمپوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اسی مضمون سے بطور لیکچرار منسلک ہوں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…