فکرِ غامدی ، قرآن فہمی کے بنیادی اصول : ایک نقد (قسط دوم)

Published On July 26, 2024

ناقد :ڈاکٹرحافظ محمد زبیر

تلخیص : وقار احمد

اس ویڈیو میں ہم جاوید احمد غامدی کی کتاب میزان کے باب مبادی تدبر قرآن کا دوسرا اور تیسرا اصول “زبان کی ابانت ” اور “اسلوب کی ندرت “زیر بحث لائیں گے۔
زبان کی ابانت:غامدی صاحب اس بارے لکھتے ہیں کہ “قرآن عربی میں نازل ہوا ہے یعنی ایک ایسی زبان میں جو نہایت واضح ہے جس کا ہر لفظ واضح اور جس کا ہر اسلوب اپنے مخاطبین کے لیے ایک مانوس اسلوب ہے۔”
بے شک قرآن عربی مبین میں نازل ہوا ہے ۔لیکن اس کے اولین مخاطبین کو بھی کسی لفظ کے معنی میں اشتباہ لاحق ہو سکتا ہے ،یہ بات درست ہے کہ تتبع اور تحقیق کے بعد قاری صحیح معنی تک پہنچ سکتا یے لیکن یہ کہنا کہ قرآن کا لفظ لفظ اتنا واضح ہے کہ اس میں کسی کو اشتباہ لاحق ہو ہی نہیں سکتا یہ درست نہیں ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس سے کلام میں نقص واقع نہیں ہو جاتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دنیا اللہ تعالٰی نے آزمائش کے لیے بنائی ہے
، اسی اصول پر ہی اس کتاب کا نزول ہوا ہے، مثلاً قرآن میں متشابہہ آتات بھی موجود ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ کلام ایک آزمائش ہے،۔ اور یہ آزمائش اس لیے کہ اس کے معنی تک رسائی کے لیے ہم محنت کریں اور اللہ تعالیٰ سے اس کا اجر پائیں۔
غامدی صاحب نے یہ جو فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی لفظ شاذ نہیں ہے یہ بات ایک اعتبار سے تو ٹھیک ہے کہ واقعی قرآن مجید لفظ کو اپنے معروف معنی میں ہی استعمال کرتا ہے۔ لیکن جب غامدی صاحب یہ فرماتے ہیں کہ زبان کے لحاظ سے کوئی چیز اس کے اندر اپنی نوعیت کی غرابت نہیں رکھتی، تو عرض ہے غرائب القرآن تو قرآن کا موضوع ہے بڑے بڑے آئمہ نے اس پر کام کیا ہے مثلا ابن قتیبہ کی “غرائب القرآن ” ہی دیکھ لیں، اور کم و بیش تین صد کتابیں اس موضوع پر مل جائیں گی۔
قرآن واقعی عربی مبین میں ہے لیکن ہم بات مخاطبین کے لحاظ سے کر رہے ہیں ، ناکہ متکلم کے لحاظ سے، قرآن مجید متکلم کے کیے قطعی الدلالہ ہی ہے ۔ اپنے مخاطب کے لیے نہیں ہے
اس لیے یہ” غرائب القرآن” کی بحث شروع سے ہی علماء نے کی ہے 
ویسے یہ بات بھی ایک اعتبار سے ٹھیک ہے جیسا کہ انہوں نے بھی میران میں “وَّ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ یَسْجُدٰنِ ” کی مثال دی ہے کہ یہاں “نجم ” کا معروف معنی تو “تارے” ہی ہے لیکن کچھ علماء نے “شجر” کی نسبت سے اس کا معنی “جھاڑیاں” کیا ہے اور یہ اس معنی میں شاذ ہے یہاں اس کا معنی معروف کے مطابق ہی ہو گا یہ بات ٹھیک ہے،
دوسری طرف یہ بات بھی درست ہے کہ قرآن مجید میں غریب الفاظ بھی موجود ہیں جو بعض اوقات اپنے اولین مخاطبین کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ قرآن کے کسی لفظ میں غرابت پیدا کیوں ہوتی ہے
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بعض اوقات مخاطب پر لفظ کا لغوی معنی تو واضح ہوتا ہے لیکن معنی کی اصل گہرائی اس کی رسائی نہیں ہوتی۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضہ سے منقول ہے کہ فلاں لفظ کا معنی ہمیں معلوم نہیں ،تو یہاں لغوی معنی مراد نہیں ہوتا بلکہ معنی کی گہرائی مراد ہوتا ہے، تفسیر طبری میں عبداللہ ابن عباس رضہ کا ایک اثر موجود ہے جہاں وہ لفظ ” فاطر ” سے اپنی لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں تو یہاں بھی لغوی معنی ہی مراد ہے۔
دوسری وجہ مترادفات کا استعمال ہو سکتا ہے ، قرآن مجید چونکہ مختلف قبائل کے الفاظ کو استعمال کرتا ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ ایک لفظ کا معنی ایک قبیلے میں تو معروف ہو لیکن دوسرے کے ہاں اتنا فصیح نا ہو۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ متکلم بعض اوقات عرفی معنی مراد لے ہی نہیں رہا ہوتا بلکہ اس کے پیش نظر کوئی خصوصی معنی ہوتے ہیں
عربی معلی اور لغت کے ذریعے بھی عرفی معنی تک ہی رسائی ہو سکتی ہے
اب یہاں متکم کا بیان ہی حاکم ہو گا، قرآن مجید میں دیکھیں بعض الفاظ کے معنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہی متعین فرمائے ہیں مثلاً لفظ ” ظلم ” کا معنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ” شرک ” کیا ہے مطلب یہاں تحدید پیدا کر دی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ معنی عرفی ہیں یا خصوصی یہ کون طے کرے گا، دیکھیں ہم عرف ہی دیکھیں گے تآنکہ متکلم اس کے کوئی خصوصی معنی خود نا بتا دے
ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن واضح ضرور ہے لیکن اتنا نہیں کہ سب کی سمجھ میں آجائے اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے ۔ اور روایات سے جڑے رہنے میں ہی عافیت ہے کیونکہ امت گمراہ نہیں ہو سکتی ، فرد کو تو غلطی لگ سکتی ہے لیکن امت پوری گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی
آگے غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ یہی معاملہ وجوۂ اعراب اور اسالیب بلاغت کا ہے کہ یہ بھی شاذ نہیں ہوتیں۔ دیکھیں ہم ایک فرق کرسکتے ہیں وہ ہے متواتر اور غیر متواتر کا لیکن شاذ نہیں کہہ سکتے۔ قرآن مجید پر اعتراض کرنے والے نحوی بھی انہی غیر متواتر وجوۂ اعراب کی وجہ سے ہی اعتراضات کرتے ہیں ۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ یہ غیر متواتر ہے غلط نہیں ہے
غامدی صاحب کی سب سے بڑی غلطی فہمی یہ ہے کہ وہ قرآن فہمی کے لیے کسی خارجی سورس کے قائل ہی نہیں
اسلوب کی ندرت ۔ غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کا اسلوب ایک منفرد اسلوب ہے یہ بات ٹھیک ہے آپ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن خطابت کے زیادہ قریب ہے۔ لیکن غامدی صاحب نے یہاں تین باتیں کیں ہیں، ایک یہ کہ قران کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر جاننا ضروری ہے، اور ساتھ فرماتے ہیں کہ یہ پس منظر قرآن کے اندر موجود ہے، اب یہاں بھی وہی روایات سے چڑ نظر آتی ہے۔
واقع یہ ہے کہ قرآن نے ہر ہر واقعہ کو تو بیان نہیں کیا تو اس کو سمجھنے کے لیے لامحالہ شان نزول کی روایات کو ہی دیکھنا ہوگا، لیکن ان کے ہاں بائبل کا حوالہ تو معتبر ہے لیکن روایات قابل قبول نہیں ہے ، تدبر قرآن کو ہی دیکھ لیں ۔ وہاں کوئی شان نزول کی کوئی روایت نظر نہیں آتی۔
دوسری بات یہ فرماتے ہیں کہ خطاب کا رخ معتین کرنا چاہیے یہ بات تھیک ہے اور باب میں ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں
تیسری بات قرآن کے عام و خاص میں امتیاز کرنا ، بنیادی طور تو اس بات سے ہم متفق ہیں لیکن یہ تعین بر بنائے استدلال ہونا چاہیے ۔

ویڈیو درج ذیل لنک سے ملاحظہ فرمائیں

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…