شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...
فتنہء غامدیت کا علمی محاسبہ
تصورِ جہاد ( قسط سوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...
تصورِ جہاد ( قسط دوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...
تصورِ جہاد ( قسط اول)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...
سود ، غامدی صاحب اور قرآن
حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...
سود اور غامدی صاحب
حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...
مصنف : پروفیسر محمد رفیق
تلخیص : زید حسن
یہ کتاب ایک مقدمہ اور دس ابواب پر مشتمل ہے ۔
مقدمہ میں مصنف نے فکرِ غامدی کو تجدد پسندی کی نمائدہ قرار دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ زمانہ قدیم کی وہ تمام تحریکیں جو اسلام کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کرتی رہی ہیں ، غامدی صاحب اپنی فکر میں اسی کا تسلسل ہیں ۔ مصنف کے بقول ایسی تحریکوں اور فکرِ غامدی میں مذہب کو فرد کی زندگی تک محدود کرنے ، جہاد کو معطل کرنے ، اسلامی خلافت کا انکار کرنے، قرآن اور حدیث کو ایک دوسرے سے کاٹنے ، اجماع اور حدیث کی حجیت کا انکار کرنے اور قرآن میں معنوی تحریف جیسے امور میں مماثلت پائی جاتی ہے ۔
مقدمے میں موجود اپنے اس دعوے کو مصنف نے کتاب کے تمام ابواب میں پھیلا دیا ہے ۔
کتاب کے ابواب درج ذیل ہیں
اول ۔ ایمانیات
اس باب میں خدا ، انبیاء ، آخرت ، ایمان و کفر اور ان موضوعات کے متعلقات سے بحث کی گئی ہے ۔
دوم ۔ قرآنیات
اس باب میں علومِ قرآن کی ابحاث شامل کی گئی ہیں مثلا قراءاتِ سبعہ کا مسئلہ ، الفاظِ قرآن سے استدلال کا طریقہ ، محکم اور متشابہ آیات کا مسئلہ اور نظمِ قرآن کا مسئلہ وغیرہ۔
سوم ۔ حدیث و سنت
اس باب میں روایت میں موجود تصورات اور غامدی صاحب کے نظریہء سنت اور انکے ہاں حدیث کے مقام کو موضوع بنایا گیا ہے جسے بعدازاں انکارِ حدیث سے منسلک کیا گیا ہے ۔
چہارم ۔ عبادات
اس باب میں تعبدی امور میں جہاں جہاں فکرِ غامدی سے اختلاف تھا ، اسے شامل کیا گیا ہے ۔ جیسے عورت کی امامت کا مسئلہ ، زکوۃ کی حیثیت اور ریاست کے اس سے تعلق کا مسئلہ وغیرہ
پنجم ۔ معاشرت
اس باب میں نکاح ، وصیت اور پردے سے متعلق چند احکامات کو جمع کیا گیا ہے ۔
ششم ۔ سیایت و ریاست
اس باب میں ریاست کے اختیارات ، اسکی اہمیت ، حد و تعزیر کے احکامات ، غیر مسلم شہروں کی شرعی حیثیت اور جہاد جیسے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے ۔
ہفتم ۔ فقہی مسائل
اس عنوان کے تحت مصنف نے حلال و حرام ، کلالہ اور غسلِ شہید جیسے مسائل کو موضوع بنایا ہے ۔
ہشتم ۔ متفرقات
اس بابت میں متنوع اور متفرق اشیاء کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ جیسے دین اور فطرت کا تعلق، تصوف کا متوازی دین ہونا، غامدی صاحب کے دعاوی اور شطحیات وغیرہ
نہم ۔ فکری تضادات
اس باب میں علمی اور فکری مسائل کی بابت غامدی صاحب کی فکر میں موجود تضادات کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
دہم۔ متفقہ اسلامی عقائد و اعمال سے تقابل
اس باب میں ایک چارٹ مہا کیا گیا ہے جس میں روایتی فکر کے مطابق امت کے تصورات و اعمال اور اسکے مقابل غامدی صاحب کی فکر کے نتائج کو بیان کر کے دونوں میں تضاد کو دیکھایا گیا ہے ۔ جسکے بعد غامدی صاحب کے نظریات کے حوالے شامل کئے گئے ہیں ۔
اسی باب میں دو ضمیمہ جات شامل کئے گئے ہیں ۔
ضمیمہ اول میں چند مزید اعتقادات اور اعمال کو موضوع بنایا گیا ہے ۔
ضمیمہ ثانی میں سو سوالات کئے گئے ہیں جن میں سے ابتدائی دس کی نوعیت علمی کی بجائے ذاتی ہے ۔
مصنف کتاب کا عمومی انداز یہ ہے کہ وہ اولا غامدی صاحب کی فکر کے کسی جزئیے کو بحوالہ بیان کرتے ہیں اور اسے قرآن ، حدیث اور روایتی فکر کے حوالوں سے رد کرتے ہیں ۔
اپنا موقف بیان کرنے کی بجائے فکرِ غامدی پر نقد کو کتاب کا اولین مقصد بناتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب پڑھنے کے لئے درج ذیل آنلائن لنک پر کلک کریں
نوٹ
لنک میں موجود سائٹ پر کتاب کے غیر قانونی اپلوڈ ہونے کی صورت میں غامدی سنٹر آف اسلامک لرننگ سائٹ ذمہ دار نہیں ہو گی ۔
https://books.kitabosunnat.com/Books_Data/624/Fitna%20e%20Ghamdiyat%20Ka%20Ilmi%20Muhasiba.pdf
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا...
تصورِ جہاد ( قسط سوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی...
تصورِ جہاد ( قسط دوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری...