غامدی صاحب اور سائنس

Published On April 7, 2025
بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

بخاری، تاریخ کی کتاب اور دین: غامدی صاحب کے اصولوں کی رو سے

ڈاکٹر زاہد مغل حدیث کی کتاب کو جس معنی میں تاریخ کی کتاب کہا گیا کہ اس میں آپﷺ کے اقوال و افعال اور ان کے دور کے بعض احوال کا بیان ہے، تو اس معنی میں قرآن بھی تاریخ کی کتاب ہے کہ اس میں انبیا کے قصص کا بیان ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا: وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ...

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

کیا غامدی صاحب منکرِ حدیث نہیں ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کے جو غالی معتقدین ان کی عذر خواہی کی کوشش کررہے ہیں، وہ پرانا آموختہ دہرانے کے بجاے درج ذیل سوالات کے جواب دیں جو میں نے پچھلی سال غامدی صاحب کی فکر پر اپنی کتاب میں دیے ہیں اور اب تک غامدی صاحب اور ان کے داماد نے ان کے جواب میں کوئی...

حدیث کی نئی تعیین

حدیث کی نئی تعیین

محمد دین جوہر   میں ایک دفعہ برہان احمد فاروقی مرحوم کا مضمون پڑھ رہا تھا جس کا عنوان تھا ”قرآن مجید تاریخ ہے“۔ اب محترم غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ بخاری شریف تاریخ کی کتاب ہے۔ دیانتداری سے دیکھا جائے تو محترم غامدی صاحب قرآن مجید کو بھی تاریخ (سرگزشت انذار) ہی...

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

ذو الوجہین : من وجہ اقرار من وجہ انکار

محمد خزیمہ الظاہری پہلے بھی عرض کیا تھا کہ غامدی صاحب نے باقاعدہ طور پر دو چہرے رکھے ہوئے ہیں. ایک انہیں دکھانے کے لئے جو آپ کو منکر حدیث کہتے ہیں اور یہ چہرہ دکھا کر انکار حدیث کے الزام سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میزان میں بارہ سو روایتیں ہیں وغیرہ...

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

محمد حسنین اشرف

“حقائق کی وضاحت حقیقت نہیں ہوتی”

یہ بات نہایت اہم ہے کہ آپ کسی علم کے بارے میں عمومی رائے کیا قائم کرتے ہیں۔ کیونکہ یہی عمومی رائے آپ کو پھر اس کی تھیوریز وغیرہ سے متعلق رائے قائم کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس لیے سائنس پر میٹا لیول گفتگو کو پہلے کرنا چاہیے پھر اس میدان میں اُترنا چاہیے۔ اس لیے کہ جب بھی کوئی نان اسپیشلسٹ یا عام آدمی، تکینکی سائنسی مضامین میں استعداد پیدا کئے بغیر بلکہ یہاں تک کہ سائنس کے ایک مضمون کے ایک موضوع کا ماہر جب اُسی مضمون کے دوسرے موضوع یا کسی دوسرے سائنسی مضمون کی طرف رجوع کرتا ہے تو عموما مشکل کا شکار ہوتا ہے۔ سو میری رائے یہ ہے کہ وہ لوگ جو میری طرح سائنسدان نہیں ہیں ان کے لیے بہترین میدان میٹا لیول گفتگوئیں ہیں اور وہیں سے وہ اس علم اور دوسرے علوم سے متعلق رائے قائم کرسکتے ہیں اور مذہبی لوگوں کو پہلے کارٹیزین ذہن سے نکلنا چاہیے اور پھر سائنسی علم کی طرف مراجعت کرنی چاہیے۔

خیر غامدی صاحب کے اس جملے کی طرف آتے ہیں (مکمل ویڈیو میں لنک میں لگا دوں گا)۔ بہت سادہ الفاظ میں غامدی صاحب کی سائنس سے متعلق یہ رائے بہت پرانی اور بہت نادرست ہے۔ جاوید صاحب چونکہ میرے والد کی جگہ پر ہیں اس لیے ان سے متعلق اتنا براہ راست جملہ لکھتے ہوئے مجھے بہت حیا آتی ہے لیکن بہرکیف، ہماری محبت کا اظہار یہی اختلاف ہے اور یہ اظہار ہم دم بہ دم کرتے رہیں گے۔

اس جملے کے پیچھے ایک مفروضہ ہے اور وہ مفروضہ نہ تو حقائق کے متعلق عمومی طور پر درست ہے اور نہ سائنسی حقائق سے متعلق درست ہے۔

پہلے اس بات کی وضاحت کرلیتے ہیں کہ حقائق اور حقائق کی توضیح سے کیا مراد ہوتا ہے۔ غامدی صاحب حقیقت یا فیکٹ کسی بھی ایسی شے کو کہیں گے جسے آپ ایک ڈیٹا پوائنٹ کہہ لیں۔ مثلا آپ صبح اُٹھے اور آپ نے دیکھا کہ سورج طلوع ہو رہا ہے۔ یہ ایک مشاہدہ، ایک ڈیٹا پوائنٹ اور ایک حقیقت ہے۔اب اس حقیقت کی توضیح اگلا مرحلہ ہے۔ توضیح میں پھر آپ اپنے اس مشاہدے سے متعلق مزید سوال کرتے اور ان کے جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ سورج طلوع کیسے ہوتا ہے، یہ سورج پیلا کیوں ہے۔ یوں آپ کا ایک مشاہدہ اب محض مشاہدہ نہیں رہتا بلکہ علم کی صورت اختیار کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ علم قابل “اعتماد” ہونے لگتا ہے جب آپ اپنے ان مفروضوں کو تجربات اور مشاہدات اور پھر پیشین گوئیوں جیسے مراحل سے گزار لیتے ہیں۔ اس لیے غامدی صاحب حقائق اور حقائق کی وضاحت میں فرق کر رہے ہیں۔ یہاں تک غامدی صاحب کی بات کچھ حد تک ٹھیک ہے کہ یہ سائنس کے دو حصے ہیں۔

اب غلطی کہاں لگ رہی ہے اسے دیکھتے ہیں۔

غامدی صاحب کی اس بات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقت چونکہ “خالی” مشاہدہ ہوتا ہے جبکہ نظریہ میں دوسری چیزیں یعنی میرے تعصبات، میری کمی و کجی (میری یعنی سائنسدان کی) شامل ہوجاتی ہے تو اس لیے وہ حقیقت یا فیکٹ کی نسبت قابل اعتماد نہیں ہے۔ یہ درست اس لیے نہیں ہے کہ سائنس میں کوئی بھی حقیقت یا فیکٹ جس مشقت سے قابل اعتماد بنتا ہے اور نظریہ جس مشقت سے قابل اعتماد بنتا ہے۔ دونوں میں اعتماد کے اعتبار سے کوئی تفریق نہیں برتی جاتی۔ ایک نظریہ جب قابل اعتماد بن جاتا ہے تو اس کو ہم ویسے ہی کھپاتے ہیں جیسے کوئی مشاہدہ قابل اعتماد بن جائے۔ اس میں دو چیزیں پیش نظر ہیں:

۔۱۔ اول تو یہ بات بہت اچھے سے یاد رکھنی چاہیے کہ کوئی مشاہدہ “خالی” نہیں ہوتا، میں کبھی بھی مشاہدہ خلا میں نہیں کرتا بلکہ اس سے پہلے کچھ نہ کچھ کام ہوتا ہے جو میرے مشاہدے کو گائیڈ کرتا ہے۔ فرض کریں آپ رینڈم مشاہدے کرنا بھی شروع کردیں جب بھی وہ ایک مشاہدہ لایعنی شے ہے یا تو وہ مشاہدہ کوئی سوال پیدا کرے گا جس سے مزید مشاہدات کی جگہ پیدا ہوگی یا پھر اس مشاہدے سے متعلق کچھ مزید چیزیں دیکھی جائیں گی۔

اچھا آپ بلاوجہ کچھ سوچے سمجھے بغیر مشاہدہ شروع کردیں جب بھی وہ مشاہدہ لایعنی ہوگا۔ آپ ہر روز اٹھیے اور سورج کو مشرق سے نکلتا دیکھیے۔ دیکھتے جائیے۔ یہ مشاہدہ ایک لایعنی حرکت ہے اس سے علم بننے کا عمل نہیں ہوسکتا۔ اس مشاہدے کی اہمیت اس نظریے سے ہے، الف) جس نظریے کے لیے یہ مشاہدہ کیا جا رہا ہے، ب) جس نظریے میں اس مشاہدے کو استعمال کیا جائے گا۔ ورنہ آپ روز اٹھ رہے ہیں اور سورج دیکھ رہے ہیں اور بس!

۔۲۔ ہم سائنس میں نظریات کو بہت طریقوں سے فیکٹ (یہ تقسیم نہایت عجیب ہے اور سائنسی علم کی نوعیت کو سمجھنے میں روکاٹ پیدا کرتی ہے) کی طرح ہی کھپاتے ہیں۔ مثلا مائیکرواسکوپ کے بارے میں سوچیے۔ مائیکرو اسکوپ محض چند مشاہدات کی بنیاد پر ایجاد نہیں کرلی گئی بلکہ اس کو ایجاد کرکے بنانے میں بہت سے سائنسی نظریات کارفرما ہیں۔ ہم جب آنکھ کے مشاہدے سے زیادہ مائیکرواسکوپ کے مشاہدے پر یقین کرتے ہیں تو ہم اصلا ان سائنسی نظریات پر یقین کر رہے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ ایجادات ممکن ہوسکی ہیں۔ اور پھر جب بھی کوئی آلہ جو کسی نظریے کی بنیاد پر بنا ہو اس سے ہم مشاہدہ کرتے ہیں، الف) خالی مشاہدہ نہیں کرتے یعنی خالی فیکٹ نہیں تلاش کرتے، ب) ہم اس نظریے کو فیکٹ یا حقیقت کے طور پر قبول کرتے ہیں۔

سو سائنس، حقائق (فیکٹس) اور نظریات (ان فیکٹس کی وضاحت) دونوں کے مل جُل کر کام کرنے سے بنتی ہے۔ اس لیے نظریہ یا تھیوری کو فیکٹس یا حقائق سے لڑوانا درست کام نہیں ہے۔ ایک مزید بات:۔

۔۳۔ فیکٹ کے بارے میں یہ بہت غلط فہمی ہے کہ وہ “خالی مشاہدہ” ہوتا ہے۔ اس کو یوں دیکھیے کہ کوئی بھی فیکٹ کب فیکٹ بنتا ہے؟ مثلا
میں اگر یہ مبنی بر حقیقت جملہ بولنا چاہتا ہوں کہ سورج ہر روز مشرق سے نکلتا ہے تو یہ فیکٹ یا حقیقت کتنے دن کے مشاہدے کے بعد بن جائے گی؟ اس لئے سائنسدان کو یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ اس کے کام کے لیے
evidence
کیا شے ہے اور اسے وہ کتنی مقدار میں درکار ہے۔ اسے فلسفہ سائنس میں
value judgement
کی مستقل ابحاث میں دیکھا جاسکتا ہے۔ سو جس قدر مسائل کسی بھی نظریے میں ہوسکتے ہیں اسی قدر مسائل کسے مشاہدے یا فیکٹ میں ہوسکتے ہیں۔

مزید یہ کہ ماخ اور آئن اسٹائن کی آرا اس پر بہت دلچسپ بحث رہی ہے خود ماخ نے لفظ فیکٹ کو بہت
dissect
کیا ہے اور آئن اسٹائن کے ہاں بہت کام ہے جو ماخ سے مختلف ہے۔ اس لیے غامدی صاحب جس نظریہ سائنس کو لے کر نظریہ ارتقا کا تیاپانچہ کرتے ہیں اس سے شاذ ہی درست نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ یہ پرانا اور لوجیکل پازیٹیوسٹوں والا نظریہ ہے۔اس سے اب کچھ خیر برآمد نہیں کی جاسکتی اس لیے مجھے یہ بہتر محسوس ہوتا ہے کہ ہم سائنس سے متعلق اپنی میٹا لیول گفتگو کو پہلے بہتر کریں۔

باردگر، حقائق کی وضاحت بھی حقیقت ہوسکتی/ہوتی ہے جب وہ سائنسی طریقہ کار سے گزر کر اسٹیبلش ہوچکی ہو۔ جس طرح نیوٹن کے ہاں سیب کے زمین کی طرف گرنے کی حقیقت کی وضاحت یعنی گریویٹی ایک حقیقت ہے۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…