ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط سوم )

Published On September 24, 2024
فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

فکرِ غامدی کا اصل مسئلہ

جہانگیر حنیف غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی...

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

سید خالد جامعی

ایک سائل نے ایک عالم سے پوچھا ’’جو شخص بحالت احرام شکار کرے اس کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ‘‘ [شرعاً حج ادا کرنے والے شخص کے لیے شکار کھیلنا منع ہے] اس نیک سیرت اور صاحب عمل عالم نے جواب دیا: ’’آپ کا سوال مبہم اور گمراہ کن ہے، آپ کو بالصراحت بتانا چاہیے تھا کہ آیا اس شخص نے خانہ کعبہ کی حدود میں شکار کیا یا اس سے باہر کیا؟ آیا وہ پڑھا لکھا تھا یا اَن پڑھ تھا؟آیا وہ غلام تھا یا آزاد تھا؟ آیا وہ بالغ تھا یا نا بالغ تھا؟ آیا اس نے یہ فعل پہلی دفعہ کیا یا پہلے بھی اس کا ارتکاب کرچکا تھا؟ آیااس نے کسی پرندے کا یا کسی اور جاندار کا شکار کیا؟ آیا جس جاندار کا شکار کیا گیا وہ بڑا تھا یا چھوٹا تھا؟ آیا اس شخص نے دن میں شکار کیا یا رات میں کیا؟ آیا اس نے اپنے فعل سے توبہ کرلی یا اس کے ارتکاب پر بضد رہا؟ آیا اس نے چھپ چھپا کر شکار کیایا کھلم کھلا کیا؟ اور آیااس نے احرام عمرے کے لیے باندھا تھا یا حج کے لیے باندھا تھا؟ جب تک ان تمام امور کی وضاحت نہ کی جائے اس سوال کا کوئی جواب دینا ممکن نہیں ‘‘۔ہر سوال کا جواب دینے کے بجائے علماء کرام سائل سے سوالات کا سلسلہ شروع کردیں تو بہت سے جہلاء سوال کی جرات سے محروم ہو جائیں گے اور ان کا جہل واضح ہو جائیگا، جو اپنی چرب زبانی اور طلاقت لسانی سے علماء کوجاہل ثابت کرناچاہتے ہیں۔دینی سوالات کا جواب دینے اور پرچون کی پڑیا باندھنے میں بہت فرق ہے، عالم آن لائن جیسے پروگرام میں’’ علماء ‘‘کی عجلت بتاتی ہے کہ وہ گاہک کو اپنی دکان سے خالی ہاتھ نہ جانے دیں گے اس کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی پڑیا تھمادیں گے یہی حال عصر حاضر میں ہونے والے ہمارے مکالموں، مناظروں مباحثوں اور ٹاک شو زکا ہے۔
عقلی بنیادوں پر موشگافیاں اور سوالات اٹھاتے رہنا کوئی کمال نہیں قرآن حکیم میں کفار کے ایسے سوالات موجود ہیں جو سننے والے کو پہلی مرتبہ متاثر کرتے ہیں مگر غور کرنے پر سوال کرنے والے کی خباثت نفس اور دنائت واضح ہو جاتی ہے مثلاً کفار مشرکین اور یہود کا قرآن کے اس اصرار پر کہ بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور اگر نہ کھلاؤ تو کم از کم دوسروں کو کھانا کھلانے کی ترغیب تو دو۔ ان کا مشترکہ جواب، دوسرے معنوں میں استفہامیہ جواب، یہ تھا کہ اگر خدا چاہتا تو بھوکوں کو خود کھلادیتا

 لَقَدْ سَمِعَ اللہ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوا اِنَّ اللہ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآئُم٭ سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَھُمُ الْاَنْبِیَآء بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْق[۳:۱۸۱کہتے ہیں اللہ فقیر ہے ہم غنی ہیں۔ جن کو خدا خود دنیا میں بھوکا رکھنا چاہے ان کو کھانا کھلانے کے لیے ہم سے اصرار کیوں؟ کیا خدا کے خزانے میں کسی شے کی کمی ہے؟ اس طرح کفار مردار کھانا چاہتے تھے انھیں دکھ ہوتا تھا کہ جانور مرگیا اور مال ضائع ہوگیا اس مرے ہوئے کو کیوں نہ کھایا جائے اس خواہش کے لیے انھوں نے عقلی سوال تراشا جسے انسان ذبح اور قتل کردے مار دے وہ حلال اور جسے خدا خود ماردے وہ حرام یہ تو بڑی عجیب بات ہے! ارسطو کہتا ہے کہ میں اس طرف جاؤں گا جدھر مجھے دلیل لے جائے گی لیکن یہ احمقانہ بات ہے ایک بندۂ مومن اس طرف جاتا ہے جدھر اس کا خدالے جانا چاہتا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ میری عقل کی کیا مرضی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ خداکی مرضی کیا ہے؟ اس کا حکم کیا ہے؟ اس کی منشاء کیا ہے ؟ اس کی رضا کیا ہے ؟وہ جو چاہے گا وہ ہوگا جدھر وہ لے جائے گا ادھر ہم جائیں گے یعنی اگر عقل اللہ تعالیٰ کی رضا کو عقلی طور پر تسلیم نہ کرے یا رضائے الہٰی کی پیروی سے انکار کردے تو وہ عقل نہیںجہل ہے۔ تقلید رضائے الہٰی کے بغیر عقل بے کار ہے۔بنیادی سوال یہ ہے کہ عقل پیمانہ ہے یا عقل کو پرکھنے جانچنے اور دیکھنے کا بھی کوئی پیمانہ ہے؟ یہ پیمانہ نفس کے اندر یعنی عقل ہی سے نکلتا ہے یا باہر ، خارجی دنیا سے آتا ہے؟ یہ ہے مسئلے کی اصل کنجی۔ دنیا کی سترہ تہذیبوں میں پیمانہ ہمیشہ باہر سے آتا تھا۔ ہر قدر، معیار اور اصول کسی بیرونی پیمانے پر جانچا جاتا تھا اور یہ پیمانہ یا روایت تھی، یا وحی الٰہی، یا دیومالا یا اساطیر ،ہر تہذیب میں عقل بھی ہوتی تھی، عدل بھی ہوتا تھا، مگر عقل اور عدل خود پیمانہ نہیں ہوتے تھے انھیں کسی اور پیمانے پر جانچا اور پرکھا جاتا تھا۔ عقل اور عدل بذاتہ حق، معیار اور اصول نہیں ہیں ان کو دیکھنے، پرکھنے جانچنے کا پیمانہ ان کے اندر نہیں ان کے باہر ہوتا ہے۔ یہ پیمانہ اس تہذیب یا مذہب کی علمیات، ایمانیات اور مابعد الطبیعیات سے نکلتا ہے۔
اسلامی تہذیب کے خوارج، اہل تشیع، معتزلہ، اہل قرآن، اور عقلئین سے بنیادی غلطی یہ ہوئی کہ وہ عقل اور عدل کی اصطلاحات کو ہی پیمانۂ حق و صداقت سمجھ بیٹھے اور اس بنیاد پر عہد حاضر میں اہل قرآن نے سورۃ بنی اسرائیل کے احکام عشرہ کی روشنی میں عالمی متفقہ اخلاقیات کا منشور خود تخلیق فرمالیا اور یہ تصور کرلیا کہ پوری دنیا احکام عشرہ سے متفق ہے۔ انھیں یہ معلوم نہ ہوسکا کہ دنیا احکام عشرہ پر نہیں بنیادی حقوق کے منشور پر جبراً متفق کی گئی ہے۔ حق خیر اور سچائی کی واحد مسلط کردہ دستاویز صرف اور صرف یہی منشور ہے۔ اس منشور کے ہوتے ہوئے احکام عشرہ کی اخلاقیات کا روبہ عمل ہونا محال ہوجاتا ہے۔ تین سو سال کی تاریخ یہی بتاتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ عقل مند کون ہے؟ یہ بات عقل بتائے گی یا کوئی خارجی بیرونی ذریعۂ علم ،مثلاً ارسطو کو دنیا نے معلم اول تسلیم کیا ہے۔ تو ارسطو کے عقل مند ہونے کا فیصلہ عقل انسانی کرے گی یا کوئی الہامی متن کرے گا؟یہ ممکن ہے کہ عقل اگر تاریخ ، تہذیب ،خواہشات، خدشات اور زمان و مکان سے ماورا ہو کر معروضی طور پر کام کرے تو وہ کسی صداقت، خیر اورحق کو پالے لیکن اس بات کی تصدیق کون کرے گا کہ عقل نے جس صداقت ، خیر اور حق کو پالیا ہے وہ ٹھیک ہے، اگر اس معروضی عقل کو انسان کی عقل یا اس کے نفس کے سپرد کردیا گیا تو یہ عقل پھر معروضی نہیں موضوعی ہو جائے گی اور اس کے پرکھنے جانچنے کا پیمانہ خود عقل و نفس ہی ہوں گے لہٰذا غلط ہی ہوں گے مشرکین مکہ اور اہل کتاب نے عقل مشاہدے اور تجربے کے ذریعے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا تھا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں مگر ان کا اعتراض صرف یہ تھا کہ قرآن مکہ کے دو بڑے آدمیوں پر کیوں نازل نہ ہوا، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کا نزول کیوں ہوا؟ اہل کتاب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پہچانتے تھے جس طرح اپنے بیٹوں کو جانتے ہیں قبلۂ اول کعبہ کو بھی کفار اپنے بیٹے کی طرح پہچانتے تھے لیکن ان کے قلب نے عقل کے فیصلے کو قبول نہ کیا، تعقل قلبی سے وہ محروم رہے ۔ عقل ہر تاریخ، تہذیب، مذہب، معاشرت میں ہوتی ہے لیکن وہ اپنے منہاج کے مطابق عمل کرتی ہے اور اس منہاج علم میں اس عقل کا ہر فیصلہ عقلی معلوم ہوتا ہے، منہاج علم بدل جانے سے وہی عقلی فیصلہ دوسرے منہاج علم میں جہالت قرار پاتا ہے۔ یورپ و امریکہ میں اگر کوئی عورت بے لباس یا برائے نام لباس میں مردوں کی محفل میں آجائے تو وہاں کی عقلیت کے لیے یہ معمول کی بات ہوگی، عقل کا تقاضا ہوگی کیونکہ مغرب کی عقل اپنی علمیت ،آزادی اور مساوات کے عطر سے کشید کرتی ہے لہٰذا مساوات و آزادی کا عقلی تقاضہ یہی ہے ۔اس کے برعکس عالم اسلام یا روایتی دینی تہذیبوں میں کوئی عورت اس لباس میں آجائے تو وہ ذلت و رسوائی اورلعنت و ملامت کی حق دار ٹھہرے گی، اس کا معاشرتی مقاطعہ ہوگا ان تہذیبوں کا خبیث سے خبیث آدمی بھی اس رویے کی حمایت نہیں کرے گا کیونکہ ان روایتی معاشروں اور مذہبی تہذیبوں میں آزادی اور مساوات قدر بذاتہٖ معیار نہیں ہیں معیار اور قدر وحی الٰہی یا تاریخی روایات، اساطیراور دیومالا ہیں لہٰذا اس خارجی ذریعۂ علم اور منہاج کی روشنی میں یہ رویہ خدا کی مرضی کے خلاف ہے لہٰذا خالص غیر عقلی رویہ ہے جسے قبول نہیں کیا جاسکتا ۔انسان کو آزادی اس بات کی دی گئی ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کرے ان تہذیبوں میں کپڑے پہننے کی آزادی ہے کپڑے اتارنے کی آزادی نہیں ہے۔ کپڑا کتنا پہنا جائے؟ ستر کہاں سے کہاں تک ہو؟ یہ تہذیبیں اپنی علمیت سے اصول اخذ کر کے ستر کا تعین کرتی، ہیں جب بھی اخلاقیات کی سرحدیں شروع ہوں گی آزادی کی حدود متعین ہوجائے گی ،وہ ایک خاص پیمانے، جامے اور حصار میں سمٹ جائے گی، اسے بے کراں، بے پناہ، اصول، قدر، حق کے طور پر قبول نہیں کیا جائے گا۔ وہ کسی اصول حق قدر سے متعین ہوگی اس کے تابع ہوگی اس کی روشنی میں قبول اور رد کی جائے گی۔ مغرب کی عقلیت اور منہاج علم میں لذت کا تصور آزادی میں مسلسل اضافے سے مشروط ہے جس کا انحصار زیادہ سے زیادہ سرمایے کی فراہمی پر ہے۔ جس کے پاس زیادہ سرمایہ ہے وہ زیادہ آزاد ہے کیونکہ وہ زیادہ مادی لذت حاصل کرسکتا ہے ، انسان مغربی معاشیات اور فلسفے میں ایک لذت پرست جانور ہے، اس کا مقصد مسلسل اور مستقل لذتوں میں اضافہ کرتے رہنا ہے لہٰذا لذتوں کی خاطر مرد عورت جنسی اعمال میں مصروف ہوتے ہیں مگر نکاح نہیں کرتے خاندان نہیں بناتے، بچے نہیں پیدا کرتے، اولاد اور ماں باپ کو ساتھ نہیں رکھتے کہ یہ سب چیزیں انسانی لذتوں میں اضافہ نہیں ہونے دیتیں، کمی کر دیتی ہیں اور مسلسل ذمہ داریوں میں اضافہ کرتی ہیں۔ عورت اگر بچہ پیدا کرے تو درد زہ برداشت کرنا پڑے گا، بوائے فرینڈز، آوارگی، سیاحت سب ترک کرنا ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے لہٰذا مغرب میں عدل اور عقل کا تقاضا لذت کا یہی تصور ہے ان کا تصور عدل و عقل لذت پرستی سے نکلتا ہے، اس کے برعکس روایتی تہذیبوں اور مذہبی معاشروں میں عدل اور عقل کا تقاضہ لذت سے نہیں حقیقت سے متعین ہوتا ہے، یعنی علمیت مابعد الطبیعیات اور تصورات حقیقت سے برآمد ہوتی ہے، یہ تصورات ہی عقل اور عدل کا دائرہ طے کرتے ہیں، ان تہذیبوں میں زندگی اطاعت و عبادت رب سے عبارت تھی اسے روحانی لذت نفس مطمئنہ کہا جاسکتا ہے۔ ماں باپ کی خدمت اولاد کو پالنا، بچے پیدا کرنا، بچوں کی پرورش و نگہداشت عورت کے لیے آزار، مصیبت، آفت، شامت اعمال، ہلاکت اور بربادی نہیں ایک دینی فریضہ ایک غیر معمولی ذمہ داری، ایک روحانی اور نورانی ک
ام اور نفس مطمئنہ کے حصول کے مختلف ذرائع ہیں۔ یہ مغرب اور روایتی مذہبی تہذیبوں کی عقلیت اور عدل کے تصورات کا وہ نتیجہ ہے جو دو مختلف مابعد الطبیعیات سے برآمد ہوتی ہیں۔
اسلامی تہذیب و تاریخ کے تصور عقل و تصور عدل کے تحت مرد کا ایک سے زیادہ شادی کرنا، جائز کام ہے لیکن عیسائیت اور امریکہ اور یورپ کے تصور عدل و تصور عقل میں ایسا کرنا درست نہیں ہے۔مغرب میں عورت عورت سے مرد مرد سے شادی کرسکتے ہیں کیونکہ حقوق انسانی کے منشور کے تحت دونوں انسان ،آزاد، برابر  ہیں اور اس منشور کی ایک شق رائیٹ آف ایسوسی ایشن کے تحت کوئی جنس کسی بھی ہم جنس سے تعلق رکھ سکتاہے لہٰذامغرب کی عدالتوں میں ہم جنسوں کی شادیوں کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے، جو اس فیصلے کو نہ مانے وہ غیر روادار  انسان تصور کیا جاتا ہے ۔ عیسائیت چار شادیوں کی اجازت نہیں دیتی مغرب چار سود اشتائوں سے بالرضا تعلقات رکھنے پر کوئی اعتراض نہیں کرتا زنا بالرضا مغرب میں حلال ہے۔ مذہبی تہذیبوں میں حرام ہے کیونکہ زنا شرف انسانیت یعنی عبودیت کے خلاف کام ہے اور خدا کی رضا کے برعکس رویّہ ہے لہٰذا عدل و عقل کا تقاضا یہ ہے کہ زانی کو سزا دی جائے ،روایتی اور مذہبی تہذیبوں میں نکاح نہ کرنے پر کوئی سزا نہیں ہے اور کسی کی شادی جبراً نہیں کرائی جاتی ،لیکن کسی کو زنا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی خواہ وہ کنوارا ہو یا شادی شدہ ہو، ان تہذیبوں کے تصور عدل و عقل کے مطابق شادی کرنے کی اجازت ہے زنا کرنے کی اجازت کسی حالت میں نہیں ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں بالرضا زنا کی اجازت ہے اگر جبراً کوئی زنا کرے تو زانی کے خلاف کارروائی صرف اس وقت ہوگی جب مقدمہ درج ہوگا۔ یہ مقدمہ بھی فریقین میں قابل صلح ہے اگر فریقین راضی ہوں تو سزا نہیں ملے گی، مذہبی تہذیبوں میں خدا کی رضا کے خلاف جرم کا ارتکاب یعنی گناہ کبیرہ ناقابل معافی جرم تھا خدا کی سزا کوئی انسان معاف نہیں کرسکتا ،لیکن مغرب میں ریاست اس مقدمے میں فریق نہیں ہوگی یہ دو افراد کا ذاتی معاملہ ہے جب کہ مذہبی و روایتی معاشروں میں یہ مذہبی جرم ہے اورخدا کی رضا کے خلاف ہے۔ یہ تذلیل عبدیت ہے اور مالک الملک کی ناراضگی کو دعوت دینے کا عمل ہے لہٰذا ریاست خود اس میں مدعی ہوگی، مغرب میں تو اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کے نہ چاہنے کے باوجود اس سے مواصلت کر لے تو اسے سنگین جرم سمجھا جاتا ہے اور اس جرم کے مجرم یعنی عورت کے قانونی شوہر کو پانچ سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے، لیکن بالرضا زنا کوئی جرم نہیں یہ عمل مغرب کی تہذیب تاریخ و علمیت میں آزادی کی وسعتوں کو چھولینے والا آسمان کا ایک نورانی ٹکڑا ہے۔ یہ مغرب کی رواداری ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے اس کی رضا کے خلاف اپنے نفس کے تقاضے کو پورا کر لے تو وہ مجرم ہے وہاں رواداری کا یہی مطلب ہے کیونکہ شوہر اور بیوی دو الگ وجود ہیں یہ فاعل خود مختار ہیں لہٰذا دوسرے کی آزادی میں مداخلت جرم ہے کیونکہ مغرب میں آزادی اصل قدر اور حق ہے تمام اقدار  اسی ایک قدر پر جانچی پرکھی، ناپی، تولی اور برتی جاتی ہے لہٰذا آزادی کی قدر  کو پامال کرنا مغرب میں سنگین جرم ہے ۔اسلامی تہذیب میں اصل قدر خدا کی رضا ہے ۔خدا کی رضا، اس کی معرفت اوراس کی محبت کا حصول کیسے ممکن ہے؟ یہ علمیت اسلامی علمیات بتاتی ہے جو سنت رسالت مآبؐ کے ذریعے امت تک منتقل ہوئی اور تعامل امت اور اجماع امت اس سنت کی حفاظت کرتا ہے لہٰذا اسلامی تہذیب اور مذہبی تہذیبوں میں انسان اپنی آزادی کو خدا کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اس سے دستبردار ہو کر ارادئہ خداوندی کو اپنا ارادہ بنا لیتا ہے۔اب قدر ،پیمانہ اور منہاج قرآن و سنت ہوجاتے ہیں اس قدر کے خلاف جہاں جہاں کوئی کام ہوگا وہاں وہاں آپ کو ہدایت اور سزا دی جاسکتی ہے۔ آپ کے نفس کے مطالبے آپ کی خواہشات خدا کی مرضی کے تابع ہوں گے اللہ تعالیٰ کی غلامی شرف انسانیت ہے۔ مغرب میں یہ تصور تذلیل انسانی ہے کہ اصل خدا انسان کسی اور خدا کے لیے دستبردار ہو جائے اور کسی خارجی ذریعے  کو علم، حق، خیر،ہدایت، روشنی اور رہنمائی کا ذریعہ تصور کرے۔ کانٹ کا اہم ترین مضمون

What is Enlightenment?

 اس اجمال کی فلسفیانہ تفصیل مہیا کرتا ہے۔
اسلامی تصور عدل و عقل کے مطابق سات سال سے پہلے بچے پر نماز فرض نہیں، سات سال کے بعد نماز نہ پڑھنے پر بچے کو سزا دی جاسکتی ہے لیکن مغرب میں بچے کے لیے سکیولر تعلیم فرض ہے اگر ماں باپ بچے کو اسکول نہ بھیجیں تو وہ جیل بھیجے جاسکتے ہیں۔ اسلام میں نشوز پر آمادہ عورت کو شوہر سزا دے سکتا ہے۔ مغرب میں اگر آپ نے اس اسلامی حکم پر عمل کیا تو جیل میں ہوں گے۔ شوہر سے سرکشی،بغاوت، گھر کے سکون اور نظم و نسق میں خلل پیدا کرنا مغرب کے فلسفے میں کوئی جرم نہیں ۔اگر آپ نے اپنے بچے پر نماز پڑھنے کے لیے سختی کی تو دوسرے کی آزادی میں مداخلت کے جرم میں آپ کو سزا بھگتنا ہوگی ،اگر آپ نے اپنی بیٹی کے کسی نامحرم لڑکے کے ساتھ جانے اورگھومنے کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی تو آپ کی آزادی اسی لمحے سلب کر لی جائے گی۔ اگر بچے پر آپ نے غلطی سے ہاتھ اٹھا لیا تو آپ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ یہ مثالیں اس لیے دی گئی ہیں کہ ہمارے اہل قرآن دوست جان لیں کہ عقل اور عدل خود معیار ، حق، اصول ، منہاج ,پیمانہ, قدر, خیر کسوٹی اور، میزان نہیں ہیں یہ کسی اور معیار پر پرکھے جاتے ہیں ،مغرب میں اس کا معیار بنیادی انسانی حقوق کا منشور، عیسائیت میں انجیل اور عالم اسلام میں قرآن حکیم و سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہے ان تین مختلف مابعد الطبیعیات اور علوم ذرائع علم سے تین مختلف قسم کے تصور عدل و عقل برآمد ہوتے ہیں اور تینوں کے نتائج، طریقے، ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…