نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
ایمان بالغیب صرف عقل سے حاصل ہوتا ہے، غامدی صاحب کا نیا اجتہاد (قسط اول )
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...
سید خالد جامعی
غامدی صاحب اس امت کے پہلے محقق مجتہد اور مفکر ہیں جو ایمان بالغیب کی ایک ایسی توجیہہ پیش کرتے ہیں جو اس امت کی تاریخ تہذیب قرآن و سنت اور اسلامی علمیت کے لیے بالکل اجنبی غلط اور ناقابل قبول ہے غیب پر اور تقدیر پر ایمان کے بغیر کسی مسلمان کا ایمان مکمل ہی نہیںہوتااور غیب وہ ہے جو کسی وسیلے اور ذریعے کے بغیر قابل ادراک ہو ظاہر ہے انسان غیب کابراہِ راست ادراک کرنے سے قاصر ہے لہٰذا اس پر ایمان لانے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
مثلاً خدا کے وجود پر اس کی ہستی پر ایمان اسے بن دیکھے لانا ہے اس کی ہستی کا ادراک ذہن انسانی کے لیے ممکن ہی نہیں کہ وہ لا محدود ہے اور انسان محدود وہ خالق ہے یہ مخلوق ہے وہ عقل کلی ہے اور انسان کی عقل محض خالق کی مخلوق جو محسوسات کے بغیر کار آمد ہی نہیں ہوسکتی۔اسی لیے اللہ اور دیگر امور میں ایمان بالغیب لازم ہے خود غامدی صاحب لکھتے ہیں اللہ کی ذات کسی طرح انسان کے حیطہ ادراک میں نہیں آسکتی [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۹۲] ادراک کے ذرائع ذات الہٰ کا احاطہ نہیں کرسکتے کسی شے سے روشنی منعکس نہ ہو تو آنکھ کی بصارت دیکھنے سے قاصر رہ جاتی ہے اللہ کے پیغمبر موسیٰ کے لیے اللہ کو دیکھنا ممکن نہ ہوا [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۹۲] ذات باری تعالیٰ سے متعلق انسان تشبیہہ تمثیل کا طریقہ بھی اختیار نہیں کرسکتا لہٰذا تشبیہہ و تمثیل کے طریقے کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند ہے۔[میزان ۲۰۱۵ء، ص ۹۴] لہٰذا خدا کی ذات پر ایمان بالغیب لائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے یہی صورت حال وحی اور نزول و حی کی کیفیات کے ساتھ درپیش ہے ان پر ایمان بالغیب ضر وری ہے خود غامدی صاحب لکھتے ہیں نزول و حی کی کیفیات کو سمجھنا انسان کے حدو د علمی سے باہر ہے [میزان ۲۰۱۵ء، ص ۱۲۷] ۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان مظہر کے بارے میں تو مشاہدے تجربے محسوسات سے جان سکتا ہے لیکن معقول بالذات کماہیہ کے بارے میں نہیں جان سکتا۔کانٹ جیسے فلسفی نے اپنی کتاب تنقید عقل محض میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسانی علم کا دائرہ مظاہر تک محدود ہے اورمشاہدات، تجربات، محسوسات سے ماوراء کا علم انسانی عقل کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔انسان کو وہ ذرائع میسر ہی نہیں ہیں جو مظاہر کی دنیا سے ماورا دوسری دنیا کی حقیقتوں کا ادراک کرسکیں لہٰذا جو چیز ہمارے حیطہ ادراک میں دائرہ عقلیات اور تجربات میں نہیں آسکتی وہ اگر وجود بھی رکھتی ہے تو اس کا وجود ہمارے لیے کوئی معانی نہیں رکھتا کانٹ نے عقل کی محدودیت کا اعتراف کرنے کے باوجود عقل کے ذریعے ہی ما بعد الطبیعیات کا انکار کردیا ۔ مگر غامدی صاحب کانٹ سے بڑے مفکر ہیں وہ فرماتے ہیں کہ محسوسات و تجربات سے ماوراء حقائق و مظاہر کاعلم عقل اور فطرت ،تدبر و تفکر سے ممکن ہے۔
واضح رہے کہ معقول بالذات کے بارے میں فلسفی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس کا تصور انسانی علم کی آخری حد ہے مثبت معنوں میں وہ جو عقل بتائے کہ ’ہے‘ مگر یہ نہ بتاسکے کہ ’کیا ہے‘؟ عقل سے کسی برتر ہستی خالق کے وجود کا ادراک ایک سطح پرتو ہوسکتاہے مگر اس کی ذات صفات تجلیات اس کی شریعت اس کی رضا اس کے رسولوں اس کی کائنا ت کے مقاصد اس کو مطلوب زندگی اس کی پیدا کردہ آخرت کا تصور ممکن نہیں اسی لیے ایمان بالغیب ۔ ایمان کی بنیادی شرط ہے۔ایمان بالغیب یہی ہے کہ وہ حقائق صداقتیں جو آنکھوں سے نہیں دیکھے جاسکتے محدودعقل کے پیمانے میں نہیں سما سکتے ان پر انسان نبیوں اور رسولوں کی اطلاع پر ایمان لے آئے صرف عقل )پیر ریزن) کی بنیاد پر لایا ہوا ایمان کفایت نہیں کرتا اور تشکیک کا خاتمہ بھی نہیں کرتا لہٰذا یونانی عقلیت کانٹ کے عہد میں ما بعد الطبیعیات کے انکار کے ساتھ ہی مسترد ہوگئی اور ایک نئی عقلیت نے جنم لیا ایک نئی ما بعد الطبیعیات وجود میں آئی جسے ہائیڈیگر حاضر و موجود کی ما بعد الطبیعیات کہتا ہے اس ما بعد الطبیعیات کی بنیاد پر جو تہذیب تاریخ نظام زندگی وجود میں آیا اس میں خیر و شر کی بحث بے معنی ہے اصل چیز رچرڈ رارٹی کے الفاظ میں صرف یہ ہے کہ “کون سی شے فائدہ مند ہے “انسان اسی ایک اصول کے محور پر گردش کررہا ہے۔
نامنا، فنامنا کی بحث میں ایک بنیادی بات جو نظر انداز کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ موجود کا دائرہ ہمیشہ معلوم سے بڑا ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ جو نظر نہیں آرہا جو معلوم نہیں ہے وہ وجود ہی نہیں رکھتا آپ اس کے وجود سے لا علم ہیں یہ آپ کا مسئلہ ہے وجود کا مسئلہ نہیں لہٰذا کسی کی شہادت پر مان لیجیے
مگر غامدی صاحب اسے تسلیم نہیں کرتے ۔مقامات میں لکھتے ہیں : ایمان بالغیب کے معنی یہ ہیں کہ وہ حقائق جو آنکھوں سے دیکھے نہیں جاسکتے، اُنھیں انسان محض عقلی دلائل کی بنا پر مان لے۔ذات خدا وندی نبی ﷺ کی طرف جبرل امین کو وحی کرتے ہم نے نہیں دیکھا، لیکن اس کے باوجود ہم ان سب باتوں کو مانتے ہیں۔ان حقائق کو ماننے کے لیے قرآن اور کائنات میں ایسے قوی دلائل موجود ہیں جن کا انکار کوئی صاحبِ عقل نہیں کرسکتا۔چنانچہ ہم انھیں بے سوچے سمجھے نہیں مانتے ،وہ چیز جو دیکھی نہیں جاسکتی، لیکن عقل کے ذریعے سے سمجھی جاسکتی ہے اسے دیکھنے کا تقاضا ہی سب سے بڑی بے عقلی ہے۔قرآن نے جو حقائق پیش کیے ہیں ان پر ہمارے ایمان کی بنیاد بھی یہی ہے۔ وہ بے شک حواس سے ماورا ہیں، لیکن عقل سے ماورا نہیں ہیں۔ ہم نے انھیں عقل کی میزان میں تولا ہے اور ان میں رتی بھر کمی نہیں پائی۔چنانچہ ہم ان پر ایمان بالغیب رکھتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم انھیں عقل و فطرت کے قطعی دلائل کی بنا پر مانتے ہیں[غامدی، مقامات،۲۰۱۴ء، ص ۱۱۴] یہاں غامدی صاحب دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان عقل و فطرت کے قطعی دلائل کی بنیاد پر غیب پر ایمان لے آتا ہے یعنی عقل و فطرت علم قطعی کے ماخذ ہیں ان پر تدبر و تفکر سے یقینی علم اور ایمان حاصل ہوجاتا ہے لیکن یہی غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حدیث سے جو علم حاصل ہوتا ہے (وہ قطعی نہیں ہوتا) کیوں کہ وہ درجہ یقین کو نہیں پہنچتا اسے زیادہ سے زیادہ ظن غالب قرار دیا جاسکتا ہے [غامدی مقامات ۲۰۱۴ء،ص ۱۶۴] حیرت ہے کہ انسان اپنے تدبر و تفکر اور قرآن و کائنات میں غور و فکر سے تو غیب پر ایمان قطعی اور علم یقینی خود حاصل کرسکتا ہے لیکن حدیث پر غور و فکر اور تدبر سے قطعی علم یقینی علم حاصل نہیں ہوسکتا کیا عقل اور فطرت حدیث نبوی سے زیادہ معتبر ہیں؟ غامدی صاحب کی تحقیق یہ ہے کہ حدیث سے قطعی علم اس لیے حاصل نہیں ہوسکتا کیوں کہ حدیثوں کو صرف گنتی کے لوگو ں نے بیان کیا یہ اجماع و تواتر سے منتقل نہیں ہوتیں [غامدی مقامات ۲۰۱۴ء، ص ۱۶۴] حدیثو ں سے یقینی علم اس لیے بھی حاصل نہیں ہوسکتا کہ رسول اللہ نے ان کی حفاظت و تبلیغ کا کوئی اہتمام نہیں کیا بلکہ لوگوں پر چھوڑ دیا کہ چاہیں تو حدیثو ں کو آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں[میزان ۲۰۱۵ء،ص۱۵]حدیثوں سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یقینی و قطعی نہیں ہوتا مگر کلام جاہلیت سے لغت و ادب کا حاصل ہونے والا علم یقینی ہوتا ہے اس یقین کی وجہ یہ ہے کہ کلام جاہلیت اجماع و تواتر سے منتقل ہوتا ہے باللفظ ہوتا ہے اور اس میں داخل منحول کلام کی شناخت آسان ہوتی ہے مگر حدیث کا معاملہ ایسا نہیں ہے یہ غامدی صاحب کی تحقیقات کا عطر خلاصہ اور جوہر ہے جو میزان کے پہلے باب میں موجود ہے۔ لہٰذا غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ قرآن کے بعد یہی کلام ہے (کلام عرب؍ کلام جاہلیت) جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے جو صحت نقل اور روایت باللفظ کی بنیادپر سند و حجت کی حیثیت رکھتا ہے تم لوگ اہل جاہلیت کے اشعار کی حفاظت کرتے رہو کہ ان میں تمہاری کتاب کی تفسیر بھی ہے اور تمہارے کلام (قرآن) کے معنی بھی ہیں[میزان ۲۰۱۵ء،ص ۱۹] یعنی قرآن کی تفسیر اور معانی کے لیے کلام جاہلیت حجت سند قطعی اور یقینی ہے یعنی قرآن کلام جاہلیت کا محتاج ہے مگر کلام اللہ کلام رسول اللہ سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ مگر قرآن کے معانی سمجھنے کے لیے حدیث قطعی اور یقینی نہیں ہے اس سے بڑی جہالت اور جاہلیت کیا ہوسکتی ہے؟اسی کو جدید اصطلاح میں جدیدیت (ماڈرن ازم) کہا جاتا ہے جدیدیت کی خاص صفت یہ ہے کہ یہ تاریخ کا انکار کرتی ہے عقل کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتی اور عقلیت کی بنیاد پر ایک نئی تاریخ تخلیق کرتی ہے لہٰذاجدیدیت اٹھارہویں صدی سے پہلے کے زمانے کو نہایت ناقدانہ طریقے سے دیکھتی ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا عقل حواس کے بغیر کام کرسکتی ہے؟ اگر حواس معطل ہوں توکیا عقل متحرک رہ سکتی ہے؟ کسی زمانے میں فلسفے میں افضل علم وہ کہلاتا تھا جو قبل تجربی یعنی کسی تجربے کے بغیر صرف عقل کے ذریعے حاصل کیا گیااورسب سے کم تر علم وہ سمجھا جاتاتھا جو تجربے کے ذریعے حاصل ہو اسی لیے روایتی تہذیبوں میں ما بعد الطبیعیات کے عالم فلسفی کو عزت دی جاتی تھی سائنسی علوم کے ماہرین کو کوئی عزت نہیں ملتی تھی کیونکہ وہ علم کی تلچھٹ رکھتے تھے کانٹ کے بعد سائنسی یعنی تجربی علم کو سب سے افضل علم سمجھ لیا گیا۔ ماڈرن ازم میں علم کا ذریعہ عقلیت و تجربیت اور پوسٹ ماڈرن ازم میں علم کا ذریعہ تخلیقی تخیل اور جمالیات ہے۔جدیدیت نے کانٹ کے فلسفے کے ذریعے عقلیت و تجربیت کو علم کا ماخذ تسلیم کیا لہٰذا جدید سائنس نے زبردست ترقی کی لہٰذا افضل علم اب قبل تجربی نہیں بعد تجربی یعنی سائنس ہی اصل العلوم ہے اسی لیے ہر علم کو عہد حاضر میں سائنس کے پیمانے یعنی عقلیت و تجربیت پر پرکھا جارہا ہے ۔ان معنوں میں غامدی صاحب ایک اسلامی نہیں جدیدیت پسند مفکر ہیں جو عقل کو مغرب کے اتباع میں ماخذ علم سمجھتے ہیں۔جبکہ مغرب میں عقلیت کی آفاقیت کے دعوے پس جدیدیت کے مفکرین کی جانب سے عقلیت کی بنیاد پر رد کردیے گئے ہیں ۔ غامدی صاحب نے دین کو فلسفے کا اصول بنادیا ہے لیکن وہ یہ بھول گئے کہ خود عقل صرف حواس کے ہی نہیں جذبات کے بھی تابع ہے ۔ صرف دین انسان کو عقل، جذبات، حواس سے ماوراء کرکے ایمان کی دعوت دیتا ہے عقل ذریعہ علم ہے۔ ماخذ علم نہیں ہے وہ محض ایک آلہ، وسیلہ، ہتھیار ہے جس سے ایمان کے تابع کام لیا جاسکتا ہے ۔ خود غامدی صاحب اپنے مضمون عقل و وحی میں لکھتے ہیں عقل خدا کی نعمت ہے انسان کی رہنمائی کے لیے اپنی غیر معمولی اہلیت کے باوجود اس کے بعض حدودہیں اور ان کے ساتھ بعض آفات بھی لگی ہوئی ہیں عقل کا ذریعہ معلومات اگر کچھ ہے تو ہمارے حواس اور ہمارا وجدان ہی ہے عقل مجبور ہے کہ اپنے فیصلوں کے لیے انھی دو ذرائع حواس اور وجدان پر اعتماد کرے یہ دونوں ذرائع اپنا ایک محدود دائرہ عمل رکھتے ہیں عقل جب تک انھی پر منحصر ہے وہ اس دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی [غامدی، مقامات سہ لسانی عربی اردو انگریزی ایڈیشن طبع دوم ،لاہور، المورد ۔۲۰۰۶ء، ص ۶۷، عقل اور وحی ۔یہ ایڈیشن بازار سے غائب کرادیا گیا تھا اب بازار میں مقامات کا صرف اردو ایڈیشن دستیاب ہے غامدی صاحب کی انگریزی شاعری اور عربی مضمون شواہد الفراہی اس میں سے غائب کردیا گیا ہے کیونکہ اس عربی مضمون میں چھ سو سے زیادہ غلطیاں تھیں اور انگریزی شاعری بڑے انگریزی شعراء کے مصرعوں کا سرقہ تھی ۔ ماہنامہ ساحل نے ۲۰۰۷ء کے اپریل ،مئی جون ،جولائی، اگست کے شماروں میں اس کتاب پر قیمتی تبصرے شائع کیے تھے] عقل وحی کی رہنمائی کے بغیر باؤلی ہو جاتی ہے:غامدی
عقل پر جذبات تعصبات غالب آجاتے ہیں اور حالات اسے متاثر کرلیتے ہیں عقل کے یہی حدود اور آفات ہیں جن کی بناء پر وہ مجبور ہے کہ اپنے لیے کوئی ایسا رہنما تلاش کرے جو اسے ان حقائق تک پہنچائے جواس کی پہنچ سے باہر ہیں عقل کے اندر اس تلاش کے لیے ابتداء ہی سے بڑا قوی تقاضہ رہا ہے اللہ نے اپنی وحی اسی تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ناز ل کی ہے جس طرح انسان کی رہنما عقل ہے اسی طرح عقل کی رہنمائی وحی الہی ہے انسان اگر عقل کی رہنمائی سے محروم ہوجائے تو ہم اسے پاگل کہتے ہیں اگر وحی کی رہنمائی سے محروم ہوجائے تو وہ بھی بالکل باؤلی ہو جاتی ہے۔ [غامدی، مقامات، ۲۰۰۶ء ،ص ۶۸] غامدی صاحب نے ۲۰۰۸ء کے بعد دین کو صرف اور صرف عقلیت کے پیمانے تک محدود کردیا ہے لہٰذا اب وہ دین کی ہر بات عقل سے ثابت کرنا چاہتے ہیں لیکن اگر کوئی ان سے یہ سوال کرے کہ ایک آدمی جب مباشرت یا احتلام کے بعد غسل کے لیے دریا یا سمندر میں غوطے لگالیتا ہے اس کے باوجود اسے پاک تسلیم نہیں کیا جاتا اس کی کیا عقلی دلیل ہے؟ توغامدی صاحب اس کی کوئی دلیل نہیں دے سکتے۔ اس کی دلیل صرف یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم ہے تم سات سمندر میں غسل کرکے آجاؤ عقلاً شاید پاک ہوجاؤ لیکن دین میں تمہیں ناپاک ہی تصور کیا جائے گا۔جب تک پاکی حاصل کرنے کا وہ طریقہ اختیار نہ کیا جائے جو رسالت مآب نے بتایا ہزاروں گیلن پانی بہانے سے پاکی حاصل نہیں ہوسکتی اصل پاکی شریعت کی تقلید میں ہے ۔نماز دین کا ستون ہے لیکن عورت کو ایام حیض کی نمازوں کو ادا کرنے کا حکم نہیں دیا گیا مگر قضا روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی عقلی دلیل کیا ہے؟ ظاہر ہے دین کی ہر بات عقل سے ثابت نہیں کی جاسکتی نہ ہر بات عقل کے معیار پر اترتی ہے کیوں کہ عقل مخلوق ہے کلام اللہ مخلوق نہیں خالق کا کلام ہے لہٰذا کمتر برتر کے کلام کے تمام اسرار معارف پہلوؤں کا احاطہ کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔اسی لیے رسالت مآبؐ کی اتباع فرض ہے ان کے بغیر دین پر عمل ممکن ہی نہیں۔
ہمارے شاگرد رشید جناب ظفر اقبال نے اپنی کتاب اسلام اور جدیدیت کی کشمکش کے تیسرے باب جدید منہاج علم ماخذ و منابع: عقل محض عقل سلیم فرق اور امتیاز میں عقلیت کی نارسائی بے بسی بے کسی پرہمارے اشارات و تحقیقات کو نہایت عمدہ طریقے سے جمع کیا ہے جدید ذہن کے لیے ظفر اقبال صاحب کی یہ سادہ مختصر اور نہایت مدلل و موثر تحریر ہے علماء کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔
ہمارے عزیز شاگرد ظفر اقبال نے جب فلسفے اور سائنس کے مباحث ہماری نگرانی میں پڑھنے شروع کیے تو شروع میں ایک سال تک عقل کی فوقیت کے بارے میں وہ بہت اونچی رائے رکھتے تھے مباحثہ مذاکرہ ہوتا تو وہ عقل کی حمایت میں بہت سے دلائل اور جوابات پیش کرتے عموماً ان کے دلائل معتزلہ یا جدید معتزلیوں سے مستعار ہوتے جیسے سرسید، عبدہ، افغانی، شبلی ،خدا بخش، امیر علی، فیضی ،اصغر علی، انجینئر، وحید الدین خان، یوسف قرضاوی، مصر کی جماعت وسطانیہ، ملیشیا کی سسٹر آف اسلام، ایران کے عبدالکریم سروش، علی شریعتی ، آیت اللہ مطہری،غامدی وغیرہ وغیرہ ایک دن راقم نے انھیں ہدایت کی کہ المعجم المفہرس للفاظ القرآن میں قلب ،عقل ،فواد اور اس کے مترادفات سے متعلق تمام آیات پر وہ پورا دن تدبر و تفکر فرمائیں پورا دن گزر گیا دن کے اختتام پر راقم نے عقل کی محدودیت کا فلسفہ اس فلسفے کے دلائل، عقلیت پرستی پر تنقید کے دلائل اور عقلیت پرستی کے حوالے سے نصوص قرآنی اور اسلامی تاریخ سے چند واقعات ان کی خدمت میں پیش کیے اور ان کے عقلی استدلالات کا تجزیہ پیش کیا، تب ظفر اقبال صاحب کو عقلیت کی حقیقت ماہیت اور حیثیت کا بخوبی اندازہ ہوا ہمارا وہ خطبہ اور اس میں پیش کردہ واقعات اب ان کی کتاب میں ’’عقلی موشگافیوں اور دینی مزاج ‘‘کے عنوان سے جمع کردیے گئے ہیں وہ باب غامدی صاحب کی خدمت میں بھی پیش کیا جارہا ہے امید ہے وہ توجہ فرمائیں گے
یہ خیال کہ روشنی اور اندھیرے میں فرق صرف عقل کی بنیاد پر ممکن ہے۔ عقل سلیم اور نقل صحیح میں کوئی تضاد ممکن نہیں۔ عقل اگر خالص ہو تو وہ اسی نتیجے پر پہنچتی ہے جس نتیجے پرانسان نقل کے ذریعے پہنچتا ہے، پیغمبر ظاہر[انبیاومرسلین] جس منزل پر لے جاتے ہیں پیغمبر باطن[ عقل] بھی اسی منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہے ، درست نہیں۔ اگر عقل ہی خیر و شر کو جانچنے کا پیمانہ ہے ، تو کیا عقل کو بھی جانچنے کا کوئی پیمانہ ہے ؟ یا عقل کو جانچنے کا پیمانہ محض عقل ہے، اگر عقل کو جانچنے کا پیما نہ خود عقل ہی ہے تو پھر عقل کو جانچنے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ با لفاظ د یگر اگر عقل کو جانچنے کا پیمانہ اس کے اندر، یعنی عقل، سے ہی نکلتا ہے، اگر وہ خود ہی پیمانہ ہے تو اسے پرکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ خیال کہ حسیات سے ورا عقل کچھ نہیں کرسکتی ،یعنی وہ عقل کا دائرہ نہیں تو پھر حسیات سے متعلق امور میں اگر اختلاف ہو تو فیصلہ کون کرے گا؟ عقل یا وہ مابعد الطبیعیات جو عقل سے ماورا ہے۔
عقلیت کی تحریک ان خطوں سے اٹھی جہاں انبیا کی تعلیمات بالکل معدوم ہوگئیں، عقل کے طالب عقل کی حدود کو نظر انداز کر کے کیٹاگری مسٹیک کرتے ہیں ۔ عقل مقاصد کا تعین نہیں کرسکتی لہٰذا قرآن و سنت کے طے شدہ مقاصد کے لیے عقل جب کام کرتی ہے تو یہ سرگرمی اجماع و اجتہاد کی صورت میں ظہور کرتی ہے ۔عقل کے استعمال سے پیدا ہونے والے فطری اختلافات کا حل اجماع اور مسلک جمہور ہے۔ جس طرح بائبل اور قرآن میں تقابل بہ ظاہر عقل کے ذریعے ہوتا ہے، لیکن عملاً یہ تقابل نقل کے منہاج میں ہوگا ، عقل یہاں ایک ذریعہ وسیلہ ہوگی جس طرح زبان بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ قرآن و بابئل کا تقابل کرنے کے لیے پہلے قرآن پر ایمان لانا ہوگا پھر اس ایمان کی دلیل عقل کے ذریعے بیان ہوگی،یعنی پہلے ایمان ہے پھر عقل۔ عقل ایمان کے تابع ہے، ایمان عقل سے ماوراہے اس کا تابع نہیں۔ جو چیز یا تصور انسان کی عقل سمجھنے سے قاصر رہے تو وہ شے خلاف عقل نہیں ماورائے عقل ہوتی ہے۔ خلاف عقل ہونا اور ماورائے عقل ہونا دو مختلف نقطۂ ہائے نظر ہیں جن کے نتائج یک سر مختلف ہوتے ہیں ، کسی شے اور وجود کا عقل سے ماورا ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ وہ شے وجودہی نہیں رکھتی اسی لیے اصول یہ ہے کہ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا۔ قرآن ہمیں عقل کے ذریعے نہیں، مشاہدے اور تجربے کے ذریعے نہیں، بلکہ نقل کے ذریعے ملا ہے، رسالت مآ ب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ قرآن کتاب اللہ ہے تو ہم نے تسلیم کیا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کے بارے میں براہ راست کچھ نہیں بتایا اس ایمان کو بلا شبہہ عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن یہ نقل کا اثبات ہے بہ ذریعۂ عقل۔ عقل ہمارے ایمان کی دلیل مہیا کرتی ہے صرف دلیل سے ایمان مہیا نہیں ہوتا، دلیل عقل کی رہنمائی کر دیتی ہے لیکن قلب کی ہدایت یا قبولیت کے بغیر عقل کی رہنمائی کار آمد نہیں رہتی۔ عقل مان لیتی ہے دل نہیں مانتا، دلیل قلبی کے بغیر دلیل عقلی بے معنی ہے اسی لیے ایمان تعقل قلبی کا نام ہے۔ قرآن نے عالم وعاقل اوراہل فکر اس کو قرار دیا جو الحق اور الکتاب کو قبول کرے، جو اس کو رد کر دے وہ کم عقل، جاہل، ظالم اور شر الدواب ہے لہٰذا عقل کو پرکھنے کا پیمانہ قبولیتِ ایمان ہے جو عقل ایمان قبول نہ کرے وہ عقل نہیں جہل ہے۔ عقل کے استعمال کا لازمی نتیجہ ایمان ہے، عقل کا واحد نتیجہ عبدیت کا اقرار یعنی سجدہ ہے ،عقل کی اصل شکل بندگی اور حالت سجدہ ہے۔ اسی لیے قیامت کے دن وہ لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے جو دنیا میں نعمتِ سجدہ سے محروم ہے:
یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِِلَی السُّجُوْدِ فَلاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ O خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ وَقَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِِلَی السُّجُودِ وَہُمْ سٰلِمُوْنَ [۶۸:۴۲،۴۳] دین میں قیاس اور اجتہاد اصلاً تدبر اور تفکر فی القلب ہے، عقل کلی، بصیرت تامہ کا نام ہے، محض خیال آرائی کا نام نہیں ۔یہ محض کوئی تخلیقی، علمی، تحقیقی اور عقلی سرگرمی نہیں بلکہ روحانی عمل ہے جس کا مقصد ہر عہد میں روح کی حفاظت ہے۔ یونانی عقلیت اپنے دورِ زوال میں ارسطو کے ذریعے ابدیت دنیا کے نتیجے پر پہنچی لہٰذا یونان میں حقیقت کے علم کی سرگرمی نے آخر کار صرف اس دنیا کے علم کو ہی اصل علم قرار دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ، ارسطو کے زیر اثر مغربی فلسفہ آخر کار حقیقت کے سوال سے ہی دستبردار ہوگیا ۔ ایک ہی عقل مختلف لوگ استعمال کرتے ہیں تو نتیجہ ایک نہیں نکلتا مختلف ہوجاتا ہے کیونکہ ہیوم کے مطا بق عقل جذبات کی غلام ہے۔با لفاظ دیگر عقل نفس امارہ کی غلام ہے۔ عقل اگر کبھی کسی درست نتیجے پر پہنچ بھی جاتی ہے تب بھی اس درست نتیجے کو تسلیم کرنے سے قاصر رہتی ہے کیونکہ اس درست نتیجے کی تصدیق کا پیمانہ بھی عقل خود ہی ہے،یعنی عقل خود نتیجہ قائم کر کے اس نتیجے کو عقلی یا جذباتی بنیاد پر قبول کرنے سے انکار کر دیتی ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے اہلکاروں کا مکالمہ قرآن میں بیان ہوا ہے کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کی دلیل سے مطمئن ہوگئے کہ اگر یہ بت بول سکتے دیکھ نہیں سکتے تو تم ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ مگر اگلے ہی لمحے وہ بولے کہ یہ ہمارے باپ دادا کے طریقے سے ہٹانا چاہتا ہے اگر عقل خود ہی مقصد ہے، مقاصد کا تعین خود ہی کرسکتی ہے تو پھر عقلی کوشش کے نتیجے میں جو بھی عمل سرزد ہوگا وہ عقلی ہی ہوگا۔مسلّمہ اصول ہے کہ پیمانہ ہمیشہ باہر ہوتا ہے لیکن عقلیت کو پرکھنے کا پیمانہ عقلیت ہی ہے، یعنی انسان کے نفس میں پنہاں ہے لہٰذا نفس ہی حقیقت مطلق ہے۔ عقلیت کو دوام نہیں وہ ہر لحظہ بدلتی ہے جب کہ پیمانہ مستقل ہوتا ہے ۔ اگر کسی فیصلہ کی بنیاد صرف عقل ہے تو فرقان، منہاج، کسوٹی، عقل ہی ٹھہری لہٰذا عقل کبھی بھی ایمان سے دستبردار ہوسکتی ،کہ عقل تو ارتقا کا نام ہے، یہ تغیر اور تنوع ہے۔ کانٹ کہتا ہے کہ عقل اور دلیل پر ایمان لائو ، لیکن سوال یہ ہے کہ خودعقل پر ایمان لانے کی کیا دلیل ہے؟ کانٹ کے مطا بق دلیل یہ ہے کہ یہ آفاقی سچ ہے، مگر اس کا ثبوت کیا ہے؟ ظاہر ہے ایمان کی دلیل نہیں ہوتی عقل پر ایمان لائو کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ اپنے نفس اوراپنے آپ پر ایمان لائو، کیونکہ علم کا ماخذ تو عقل ہے جو انسان کے پاس ہے لہٰذا انسان خود اپنے آپ کی پرستش کرے، اپنی ہی عبادت کرے کسی دوسرے کی عبادت نہ کرے۔ کیوں کہ عبادت اس کی کی جاتی ہے جس کے پاس علم ہوتا ہے اور علم صرف انسان کے پاس ہے اسی لیے کانٹ کہتا ہے کہ انسان اپنے سوا ہر مقتدرہ کا انکار کر دے۔ روایتی، الہامی اور دینی تہذیبوں میں اسی لیے ایمان عقل کے تابع نہیں عقل ایمان کے تابع ہے، مغرب میں عقل ماخذ علم ہے۔ اسلام میں عقل محض ذریعۂ علم، ہتھیار اوراوزار ہے۔ عقل مقصد کا تعین نہیں کرسکتی، کسی متعین مقصد کے لیے وسیلے اور آلے، کا کام انجام دے سکتی ہے۔ عقل اپنے منہاج میں نتائج اخذ کرتی ہے اسی لیے اگر آپ جدیدیت کے منہاج میں کھڑے ہوں گے تو اس کے دعوے آپ کو عقلی لگیں گے لیکن اگر آپ مذہبی منہاج میں آجائیں تو مذہب کے عقائد، اعمال عقلی لگیں گے عقل محض زماں و مکاں سے ماورا نہیں ہوسکتی ، عقل محض معروضی نہیں ہوسکتی وہ موضوعی رہتی ہے۔ عقل زمان و مکان سے اٹھا سکتی ہے مگر اس ماورائیت پر دوام عطا نہیں کر سکتی ،صرف عقل سے علم، الحق اور الکتاب نہیں ملتے بلکہ اس میں جذبات، وجدان، طلب، ہدایت، حواس، کوشش سب مل کر کوئی نتیجہ پیدا کرتے ہیں یہ مغرب کا المیہ ہے کہ اس نے ارسطو سے متاثر ہو کر انسان کو صرف عقلیت کے دائرے میں محصور ومقید اور محدود کر دیا۔ اگر محض عقل اور فطرت ،ہدایت، فلاح، کامیابی کے لیے کافی ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے بعد کہ شجر ممنوعہ کے پاس مت جانا، حضرت آدمؑ کبھی تشریف نہ لے جاتے ان کی فطرت بالکل محفوظ اور عقل ہر داغ سے خالی تھی وہ شر اور گناہ کے تصور سے ماورا،مصفّٰی و منزہ عقل و فطرت تھی، مگر جب ہدایت ربانی [نقل] کی موجودگی میں فطرت و عقل کو ذریعۂ علم تصور کرنے اور اس پر اعتماد کرنے کی خطا سرزد ہوئی تو عقل دستگیری نہیں کرسکی صرف توبہ کام آئی اورحضرت آدمؑ نے اللہ رب العزت سے کلمات توبہ سیکھ کر عقل و نفس کی غلطی کی معافی طلب کی:
وَ قُلْنَا یٰاٰ دَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُکَ الْجَنَّۃَ وَ کُلَا مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا وَ لاَ تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ O فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا فَاَخْرَجَھُمَا مِمَّا کَانَا فِیْہِ وَ قُلْنَا اھْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌ وَ لَکُمْ فِیْ الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلیٰ حِیْنٍ O فَتَلَقَّیٰ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ اِنَّہ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ [۲:۳۵ تا ۳۷] شیطان نے عقلی استدلال پیش کیا تھا لافانی زندگی اور لافانی سلطنت ایک فانی انسان کے لیے۔
قرآن میں جہاں جہاں ایسے بیانات ہیں جو ذہن انسانی کی دسترس سے باہر ہیں ان کا مقصد سائنسی تحقیق و ترقی نہیں بلکہ اہل ایمان کے ایمان میںاور اہل کفرکے کفر میںاضافے کے لیے ہیں، ان بیانات کو سائنسی تحقیقات سے جوڑ کر خواہ مخواہ غلط سلط سائنسی نتائج کی میزان پر کسَنا معذرت خواہانہ جدیدیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
معراج النبی ﷺ کے بارے میں نظریات
مفتی منیب الرحمن معراج کب ہوئی‘ اس کے بارے میں ایک سے زائدا قوال وروایات...
لبرل دانشور اور فلسفہء دعا ( حصہ دوم تنقید)
مفتی منیب الرحمن جنابِ غلام احمد پرویز علامہ اقبال کا یہ شعر نقل کرتے ہیں...
لبرل دانشور اور فلسفہء دعا ( حصہ اول تمہید)
مفتی منیب الرحمن دعا بندے اور رب کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جو کسی ضابطے...