حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
امام غزالی، درجات توحید اور غامدی صاحب کی تکفیری تلوار : قسط دوم
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
ڈاکٹر زاہد مغل
توحید کا چوتھا درجہ: توحید وجودی
اب توحید کے چوتھے درجے کی بات کرتے ہیں جس پر سب سے زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے اور جسے غامدی صاحب نے کفار و مشرکین جیسا عقیدہ قرار دے کر عظیم ضلالت قرار دیا ہے۔ علم کلام کے مباحث میں اس درجہ توحید کی گفتگو کو “توحید وجودی” (Existential Unity) کا عنوان بھی دیا جاتا ہے جس کی متعدد تشریحات پائی جاتی ہیں جن میں دو اہم تر ہیں
- ایک کو “مشاہداتی وحدت” کہتے ہیں، یہ ناظر و مشاہد کے اعتبارات سے قائم ہونے والی وحدت ہے
- دوسری کو “وجودی وحدت” کہتے ہیں، یہ ناظر و مشاہد کے تناظرات سے ماوراء برقرار رہنے والی وحدت کا دعوی ہے
یہ تمام تفصیلات ہمارے موضوع سے متعلق نہیں، نفس تحریر کا محور امام غزالی کا چوتھا درجہ توحید ہے اور امام صاحب اس معاملے میں جس توحید کی بات کرتے ہیں وہ ان دونوں میں سے اول الذکر ہے نہ کہ موخر الذکر۔ توحید کے اس چوتھے درجے، جسے “مشاہداتی وحدت” کہا جاتا ہے، اسے سمجھنے کے لئے مشاہدے کی علمیات سے متعلق چند باتیں سمجھنا ضروری ہیں
- ایک یہ کہ ہر مشاہدہ کسی تناظر یا اعتبار سے عبارت یا متشکل ہوتا ہے
- دوسری یہ کہ تناظر یا اعتبار بدل جانے سے مشاہدے کی نوعیت بدل جایا کرتی ہے، اور
- تیسری یہ کہ کثرت و وحدت کے مشاہداتی تصورات دراصل اعتبارات کے مرہون منت ہوتے ہیں اور اعتبار بدلنے سے ایک ہی شے کبھی کثیر تو کبھی واحد ہو جاتی ہے
یہ سب امور امام غزالی نے واضح کئے ہیں، البتہ ان کی گفتگو کی طرف متوجہ ہونے سے قبل بات سمجھانے کے لئے ایک مثال لیتے ہیں۔ فرض کریں کسی بس سٹینڈ پر بہت سارے رنگوں اور حجم کے بیگ بکھرے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک شخص ان میں سے آدھوں پر “لاھور کا سامان” اور آدھوں پر “اسلام آباد کا سامان” کی چٹ لگا دیتا ہے۔ چٹ لگانے کا یہ عمل آدھوں کو “اسلام آباد کی وحدت” عطا کرتا ہے اور آدھوں کو “لاھور کی وحدت”، اگرچہ وہ بیگ کسی دوسرے اعتبار میں الگ الگ بھی موجود ہیں لیکن لاھور اور اسلام آباد کے اعتبارات سے واحد ہیں۔ یا فرض کریں وہ ان میں سے کچھ پر “20 کلو” اور کچھ پر “10 کلو” کی چٹ لگا کر انہیں تقسیم کرتا ہے، اب وہی بیگ “20 کلو” اور “10 کلو” کی دو وحدتوں میں تقسیم ہوگئے۔ تو ان بیگز کے ساتھ اس قسم کی کئی وحدتیں قائم کی جاسکتی ہیں، “کلو” اور “جائے مقام” (لاھور یا اسلام آباد وغیرہ)، یہ تناظرات یا اعتبارات ہیں جو ایک ہی شے کو مختلف اعتبارات سے کثیر یا واحد بنا رہے ہیں۔ پھر فرض کریں کہ اس بس سٹینڈ پر کئی بسیں موجود ہیں جنہوں نے مختلف اوقات میں سفر کا آغاز کرنا ہے۔ “لاھور کا سامان” اور “اسلام آباد کا سامان” والی انہی چٹوں والے دو قسم کے بیگوں میں سے کچھ کو اٹھا کر ایک بس میں اور کچھ کو دوسری میں رکھ دیا جاتا ہے، ابھی تھوڑی دیر قبل “لاھور کا سامان” اور “اسلام آباد کا سامان” کے جو بیگز الگ الگ تھے “ایک بس کا سامان” کے تناظر میں وہ ایک ہوگئے۔ تو انہیں مشاہداتی تناظرات کہا جاتا ہے جو مشاہد یا ناظر کے لئے اشیاء میں کثرت و وحدت کی بنیاد بنتے ہیں۔
دوسری بات یہ سمجھئے کہ کسی کثرت کو کسی وحدت میں بدل دینے کا راز اس بات میں پنہاں ہوتا ہے کہ وہ کونسا تناظر ہے جہاں ایک شے ہوتے ہوئے بھی لاموجود یا غیر متعلق ہوجائے۔ جب سامان پر “لاہور” اور “اسلام آباد” کی چٹ لگا دی گئی تو ان کا حجم موجود ہوتے ہوئے بھی غیر متعلق ہوجاتا ہے اور اس وحدت کی نفی نہیں کرتا جو چٹ لگنے سے قائم ہوگئی۔
امام غزالی ان امور کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں
ان الشیء قد یکون کثیرا بنوع مشاھدۃ واعتبار، ویکون واحدا بنوع آخر من المشاھدۃ والاعتبار (احیاء العلوم: ص 1605)
“ایک شے مشاہدے کے کسی ایک اعتبار سے کثیر ہوتی ہے اور مشاہدے کے کسی دوسرے اعتبار سے واحد”
اس مشاہداتی وحدت کو سمجھانے کے لئے امام غزالی بس اڈے پر موجود سامان کے طرز ہی کی مثال لائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک انسان گوشت، خون، کھال، ہڈی جیسی کثیر چیزوں سے عبارت ہے لیکن جب تم اسے “انسان” دیکھتے ہو تو اب یہی کثرت “وحدت انسانی” کے مشاہدے میں بدل جاتی ہے۔ اس گفتگو کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں
کل ما فی الوجود من الخالق و المخلوقات لہ اعتبارات و مشاھدات کثیرۃ مختلفۃ، فہو باعتبار واحد من الاعتبارات واحد، وباعتبارات اخر سواء کثیر، وبعضھا اشد کثرۃ من بعض (احیاء العلوم: ص 1605)
“جتنی بھی موجودات ہیں، چاہے خالق ہوں یا مخلوق، سب کے لئے متعدد اعتبارات و مشاہدات ہیں، کسی ایک اعتبار سے وہ واحد ہوتی ہیں تو کسی دوسرے اعتبار سے وہ کثیر، اور بعض (اعتبارات سے پیدا ہونے والی مشاہداتی) کثرت بعض (دیگر اعتبارات سے پیدا ہونے والی مشاہداتی ) کثرت سے زیادہ ہوتی ہے”
اس وضاحت کے بعد اس سوال پر غور کیجئے:
چوتھا سوال) کیا کوئی ایسا تناظر بھی ہے جہاں “میں” (یا مخلوقات) موجود ہوتے ہوئے بھی غیرموجود، لایعنی اور غیر متعلق ہوجاؤں اور صرف خدا باقی بچ رہے؟
یہ جسے مشاہداتی توحید یا وحدت کہتے ہیں یہ اسی سوال کے جواب سے عبارت ہے۔ اس کا جواب امام غزالی اور صوفیاء اثبات میں دیتے ہیں۔ وہ تناظر کیا ہے؟ وہ تناظر توحید کے اس تیسرے درجے کہ “کائنات میں فاعل حقیقی ایک ہی ہے” کا منطقی نتیجہ ہے کہ “کائنات میں وجود حقیقی بھی صرف ایک ہی ہے”۔ حقیقی وجود کیا ہے؟ وہ وجود جو قائم بالذات ہو۔ امام غزالی کہتے ہیں:
القائم بنفسہ ھو الذی لو قدر عدم غیرہ بقی موجودا (احیاء العلوم: ص 1427)
” قائم بالذات ہستی وہ ہے کہ اگر اس کا غیر (other) معدوم ہوجائے تو بھی اس کا وجود باقی رہے”
یعنی خود اپنی ذات سے قائم وجود وہ ہوتا ہے کہ اگر اس کے سواء باقی سب وجود ختم ہوجائیں تب بھی اس کا وجود برقرار رہے۔ ایسا وجود صرف اور صرف خدا ہی کی ذات کو حاصل ہے۔ یعنی سب مخلوقات ھلاک ہوجائیں وہ تب بھی موجود ہوگا، ایسا وجود کسی کو حاصل نہیں۔ مشاہداتی وجود کے اس تناظر میں تمام مخلوقات ہوتے ہوئے بھی غیرموجود ہوجاتی ہیں۔ تو اگر میں خود سے یہ سوال کروں کہ “کیا کوئی ایسا تناظر ممکن ہے جہاں میں موجود ہوتے ہوئے بھی لاموجود اور لایعنی ہوجاؤں اور صرف خدا بچ رہے؟”۔ جواب ہے “جی ہاں”۔
چوتھا درجہ: مشاہداتی وحدت: امام غزالی کا بیان کردہ توحید کا چوتھا درجہ یہی مشاہداتی توحید ہے جسے وہ یوں بیان کرتے ہیں:
والرابعۃ: ان لا یری فی الوجود الا واحدا، وھی مشاھدۃ الصدیقین وتسمیۃ الصوفیۃ الفناء فی التوحید لانہ من حیث لایری الا واحد فلا یری نفسہ ایضا، واذا لم یر نفسہ لکونہ مستغرقا بالتوحید کان فانیا عن نفسہ فی توحیدہ، بمعنی انہ فنی عن رؤیۃ نفسہ والخلق (احیاء العلوم: ص 1404)
“اور چوتھا درجہ یہ ہے کہ انسان صرف ذات واحد کا مشاہدہ کرے اور یہ صدیقین کا مشاہدہ ہے اور صوفیاء اسے توحید میں فنا ہوجانا کہتے ہیں کیونکہ اس مقام پر وہ اس ذات کے سواء کچھ نظر نہیں آتا یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کو بھی نہیں دیکھ پاتے ، اور جب انسان توحید میں استغراق کے سبب خود اپنے آپ کو بھی نہیں دیکھ پاتا تو دراصل وہ توحید میں اپنے نفس سے بھی فنا ہوجاتا (یعنی اس کی نفی کرتا) ہے، ان معنی میں کہ وہ اپنے آپ اور دیگر مخلوقات کو دیکھنے سے قاصر ہوجاتا ہے “
گویا توحید کا آخری درجہ یہ ہے کہ انسان کے مشاہدے میں صرف ایک ہی ذات رہ جائے، باقی سب فنا ہوجائے، وہ جب کسی شے کو دیکھے تو صرف وجود واحد اور حقیقی کے تناظر میں دیکھے۔ جب بندہ اس تناظر میں مشاہدہ کرتا ہے تو ہر موجود کے مشاہدے میں صرف خدا ہی باقی بچ رہتا ہے، جو نظر کے سامنے ہوتا ہے اس کے وجود نہیں بلکہ “ہلاک و فنا” ہونے کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ چنانچہ اس تناظر سے قائم ہونے والے مشاہداتی تناظر میں سب وجود فنا و لایعنی ٹھہرتے ہیں، اس مشاہداتی تناظر میں خدا کے سواء ہر شے دیکھ کر انسان یہی پکارتا ہے: “یہ تو فنا ہوجانے والی ہے”،1 یعنی اس کی کوئی وقعت نہیں، وقعت تو بس اس کی ہے جو وجود حقیقی ہے، جو از خود قائم ہے، امام غزالی لکھتے ہیں
وانما الوجود ھو القائم بنفسہ، والقائم بنفسہ ھو الذی لو قدر عدم غیرہ بقی موجودا (احیاء العلوم: ص 1427)
“بیشک وجود وہ ہے جو قائم بالذات ہو، اورقائم بالذات ہستی وہ ہے کہ اگر اس کا غیر (other) معدوم ہوجائے تو بھی اس کا وجود باقی رہے”
اس وجود حقیقی اور عام انسانوں کے وجود میں جو فرق ہے نیز اس سے شرک کا خطرہ کس طرح ختم ہوجاتا ہے، اسے وہ یوں بیان کرتے ہیں
والخاصیۃ الالھیۃ انہ الموجود الواجب الوجود بذاتہ، الذی عنہ یوجد کل ما فی الامکان وجودہ علی احسن وجود النظام و الکمال۔ وھذۃ الخاصیۃ لایتصور فیھا مشارکۃ البتتہ، ولمماثلۃ بہا لاتحصل۔ فکون العبد رحیما، صبورا، شکورا لایوجب الممثلۃ ککونہ سمیعا، بصیرا، عالما، قادرا، حیا، فاعلا (المقصد الاسنی فی معانی اسماء الحسنی: ص 49)
“خاصیت الہی یہ ہے کہ وہ اپنی ذات سے قائم واجب الوجود ہستی ہے، جس کی ذات سے عالم امکان میں تمام موجودات نہایت عمدہ و کامل نظم کے ساتھ وجود میں آتے ہیں، اور یہ وہ خاصیت ہے جس میں (کسی کی) شرکت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پس ایک بندہ رحیم، صبور و شکور ہوسکتا ہے لیکن اس سے (خدا کی صفات کے ساتھ) مماثلت لازم نہیں آتی جیسے بندہ سمیع، بصیر، عالم، قادر، حی اور فاعل ہوتا ہے”
تو جب کسی بندے پر یہ تناظر غلبہ پالیتا ہے تو وہ اپنے وجود کو کبھی ظلی کہتا ہے تو کبھی مجازی، کبھی اس کی نفی کرتا ہے تو کبھی ایک لمحاتی تجربہ۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں ورنہ ہم سمجھاتے کہ کائنات کا ہر ذرہ لمحاتی وجود سے زیادہ وقت کے لئے منصف وجود پر آتا ہی نہیں اور اگر لایا بھی جائے تو خود برقرار نہیں رہ سکتا اگر وجود حقیقی اس پر اپنے عمل تخلیق کے فضل کی بارش مسلسل جاری نہ رکھے2۔ تو جو وجود ایسا ہیچ ہو کہ ایک لمحے کے لئے بھی موجود نہ رہ سکتا ہو، اس کی بھلا اس وجود سے کیا نسبت جو حقیقی اور قائم بالذات ہو؟ مخلوقات کا وجود بھی متحقق ہوگا لیکن کسی نچلے اعتبار میں اور وہ نچلا درجہ اس حقیقی اعتبار کے مقابلے میں ایسا کمتر ہے کہ بندہ اس کی طرف ملتفت ہی نہیں ہوتا۔ اگر کسی نے یہ سمجھا کہ “وجود حقیقی کے اعتبار” میں بھی وہ اور دیگر مخلوقات موجود ہیں، تو وہ جان لے کہ یہ شرک ہے۔ جیسے “فاعل حقیقی” کے اعتبار میں کسی کو موثر سمجھنا شرک ہے اسی طرح “وجود حقیقی” کے اعتبار میں کسی کو موجود ماننا بھی شرک ہے۔ امام صاحب کہتے ہیں کہ “موجود ہونے” اور “وجود میں لائے جانے” میں بڑا فرق ہے اور یہ راز ہر کسی پر نہیں کھلا کرتا۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ جب تم یہ تصور قائم کرو گے کہ وجود حقیقی تو صرف خدا کو حاصل ہے تو پھر تمہارے لئے سوائے خدا کے کچھ موجود نہ رہے گا، باقی سب فنا دکھائی دے گا۔
تو یہ ہے وہ تصور جسے وجودی توحید کے مباحث میں “مشاہداتی وحدت” کہتے ہیں۔ چونکہ یہ بحث سمجھنا ہر کسی کے بس میں نہیں، کچھ ہی لوگ اس کا ذوق رکھتے ہیں نیز اس کے ساتھ ملحق خیالات گہرائی اور اس کے مضمرات باریک بینی کا تقاضا کرتے ہیں لہذا صوفیاء کہتے ہیں کہ یہ “خاص الخاص” کی توحید ہے، یعنی توحید کا وہ ادراک جو بہت کم لوگ سمجھ پاتے ہیں۔ ہر علم کی ایک گہرائی ہوتی ہے، جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہر علم کی ہر بات ہر شخص سمجھ سکتا ہے، وہ بیوقوف ہے، اسے کبھی علم سے شناسائی ہی نہیں ہوئی۔
اس مقام پر دلوں میں کچھ سوالات مچلتے ہیں، مثلا یہ کہ مشاہداتی وحدت کا مطلب کیا یہ ہے کہ وجودی (ontological) سطح پر مخلوقات لاموجود و معدوم ہوجاتی ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ خالق و مخلوق کے ایک ہونے کا مشاہدہ کیا جائے؟
امام غزالی ان دونوں سوالات کا جواب کھلے الفاظ میں نفی میں دیتے ہیں اور اس کے لئے احیاء العلوم کے بجائے امام غزالی کی دیگر تصنیفات کی طرف رجوع کرنا لازم ہے جس میں “المقصد الاسنی فی شرح معانی اسماء الحسنی”3 سرفہرست ہے جہاں وہ صاف انداز میں “اتحاد” اور “حلول” دونوں کو نہ صرف رد کرتے ہیں بلکہ منطقی طور پر ان کے ناممکن ہونے کے دلائل لاتے ہیں۔ اس مضمون میں یہ تفصیلات بیان کرنا ممکن نہیں، اہل ذوق اور علم کی پیاس بجانے کا شوق رکھنے والے حضرات امام غزالی کی اس کتاب کی طرف رجوع کرسکتے ہیں جس میں تصوف میں عرفان الہی کی پیچیدہ بحثوں پر نفیس گفتگو کی گئی ہے اور امام غزالی نے بہت سی گتھیوں کو عمدہ انداز میں سلجھایا ہے۔ البتہ اس ضمن میں امام صاحب کے موقف کی اصولی بات بیان کردی جانا ضروری ہے۔
امام صاحب اس سوال سے بحث کرتے ہوئے کہ بندے اور خدا کی صفات میں مماثلت کی کون سی صورتیں درست اور کون سی غلط ہیں، پانچ امکانات ذکر کرتے ہیں
- ایک یہ کہ بندے کی صفات کا خد اکی صفات کا بحیثیت اسم مترادف ہونا
- دوسرا یہ کہ بندے کی صفات کا مطلقا خدا کی صفات جیسا ہونا
- تیسرا یہ کہ خدا کی صفات کا بندے میں منتقل ہوجانا
- چوتھا یہ کہ خدا کی ذات اور بندے کی ذات کا متحد ہوجانا
- پانچواں یہ کہ خدا بندے میں حلول کر جائے
امام صاحب کہتے ہیں
فھذہ خمسۃ اقسام، الصحیح منھا قسم واحد، وھو یثبت للعبد من ھذہ الصفات امور تناسبھا علی الجملۃ وتشارکھا فی الاسم، ولکن لا تماثلھا مماثلۃ تامۃ (المقصد الاسنی: ص 49)
“تو یہ پانچ اقسام ہوئیں، ان میں سے درست قسم صرف پہلی ہے (یعنی بندے کی صفات خدا کی صفات میں صرف نام کے اعتبار سے مماثل ہیں)، یعنی ان صفات میں بندے کے لئے صرف وہ امور ثابت ہوتے ہیں جو (بندے کے لئے) ان صفات کے مناسب ہوتے ہیں، اور (خدا کی صفات کے ساتھ) شرکت صرف نام کی سطح پر ہوتی ہے، ہر اعتبار میں اس کے ساتھ مماثلت نہیں ہوتی”
امام غزالی کہتے ہیں کہ دیگر چاروں محال ہیں اور وہ ہر ایک کا تفصیلی رد کرتے ہیں۔ تو یہ ہے توحید وجودی پر امام غزالی کا کلام جو بالکل صاف اور نکھرا ہوا ہے اور جس میں کوئی الجھاؤ نہیں، صرف اسے پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہم غامدی صاحب سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ توحید کے درج بالا چوتھے درجے پر انہیں کیا اعتراض ہے؟ بلکہ یہ سوال ناقص ہے، درست سوال یہ ہے کہ آخر اسے نہ مان کر بھی آپ موحد کیسے ہوسکتے ہیں؟ اول الذکر سوال یہ فرض کرتا ہے گویا معیار غامدی صاحب کا تصور توحید ہے، جبکہ معاملہ یہ ہے کہ انبیاء کی تعلیمات میں بیان شدہ توحید کا درست و کامل معیار تو وہی ہے جسے امام غزالی اور ان کے ہمنوا صوفیاء بیان کرگئے ہیں۔ وہ جو “عین انبیاء کی توحید” تھی آپ نے اسے “متوازی دین” قرار دے کر دراصل اپنی ناقص توحید کو دین اور انبیاء کی توحید کو متوازی دین بنا دیا۔
“ھو الحی” اور “لا موجود الا اللہ”
مناسب محسوس ہوتا ہے کہ صوفیاء کے قول “لا موجود الا اللہ” کی جو تشریح امام غزالی کے درجات توحید والی تحریر میں سمجھائی گئی اس کی منصوص بنیاد بھی ذکر ہوجائے تو اچھا رہے گا، ورنہ لوگوں کو خیال گزر سکتا ہے کہ شاید منطقی باتیں بنا کر صوفیاء کی باتوں کی تاویل کی جارہی ہے یا صوفیاء نے منطقی موشگافیوں سے کام لیا ہے۔ یہ بات سمجھانے کے لئے سب سے مناسب مقام آیت الکرسی ہے جو اللہ کی صفات کا ایک عظیم مجموعہ ہے۔ چنانچہ اس میں ارشاد ہوتا ہے
لہ ما فی السموات و ما فی الارض (البقرۃ: 255)
زمین و آسمان میں جو کچھ ہے، سب اس کا ہے۔
آیت کو پڑھ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اس زمین میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوسکتا کیونکہ زمین و آسمان میں سب کچھ تو اللہ ہی کا ہے نیز اگر انسان کو کسی چیز کا مالک مان لیا گیا تو یہ شرک ہوجائے گا؟ اس کا جواب سوائے اس کے کیا ہے کہ “مالک حقیقی” صرف خدا کی ذات ہے، اس کے سوا کسی کو “مستقل و حقیقی مالک” سمجھنا شرک ہے۔ تو اس جواب کا مطلب یہ ہوا کہ کسی تناظر میں “لا الہ الا اللہ” کا مطلب “لا مالک الا اللہ” ماننا بھی ہے، یعنی ایک ایسا تناظر و اعتبار بھی ہے جہاں سب انسانوں کی ملکیت کی نفی کرنا لازم ہے، نہ کی گئی تو یہ شرک ہوگا۔ تو اس اعتبار سے آیت کا مطلب ہوا کہ “زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اس ‘ہی’ کا ہے”، اور کسی کا نہیں۔ جب تک ترجمے میں یہ “ہی” نہیں لگے گا، ملکیت حقیقی کا یہ مفہوم ادا نہیں ہوگا۔ ملکیت کے اس معنی میں ہر کسی کی ملکیت کی نفی کرنا یہ توحید کا لازمی تقاضا ہے، یعنی ملکیت کا کوئی ایسا تصور بھی ہے جہاں خدا کے ساتھ کوئی شریک نہیں، وہاں وہ ذات اکیلی مالک ہے۔
یہ بات سمجھنا نسبتا آسان ہے کیونکہ ملکیت کی یہ نفی ہمارے وجود کو چیلنج نہیں کررہی، صرف اس چیز کی ملکیت کے اعتبار کو چیلنج کررہی ہے جسے ہم اٹھتے بیٹھتے اپنا کہتے ہیں۔ اب آیت الکرسی کی ابتداء پر آتے ہیں جہاں “ھو الحی” کے الفاظ آئے ہیں اور جس کا ترجمہ عام طور پر “وہ زندہ ہے” کیا جاتا ہے ۔ یہاں بھی وہی سوال پیدا ہوتا ہے جو ملکیت کے مسئلے میں پیدا ہوا تھا کہ آیا اللہ اور بندنے کے زندہ ہونے میں جو ظاہری مماثلت ہے اس کا کیا کیا جائے؟ کیا بندے کو زندہ ماننے سے شرک لازم آتا ہے؟ اس کا جواب بھی یہی ہے کہ خدا کی حیات کو ہماری حیات سے کوئی نسبت ہی نہیں، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک موجود رہے گا نیز وہ از خود زندہ ہے، ہم اس زندگی اور وجود کے لئے اس کے محتاج ہیں۔ دوسرے لفظوں میں حقیقی معنی میں خدا ہی کی ذات زندہ ہے۔ اس کا مطلب ہوا کہ کوئی ایسا تناظر بھی ہے جہاں میں، اور آپ نہ زندہ ہیں اور نہ ہی موجود، اس دائرہ میں صرف خدا ہی کی ذات زندہ اور موجود ہے۔ گویا کوئی ایسا تناظر بھی ہے جہاں “لا الہ الا اللہ” کا ترجمہ “لا موجود الا اللہ” سمجھنا ضروری ہے، اس دائرے میں اپنے وجود حادث کی نفی نہیں کی تو شرک ہوگا۔ تو اب آیت “ھو الحی” کا ترجمہ “وہ زندہ ہے” سے پورا نہیں ہوتا بلکہ “وہی زندہ ہے” ٹھہرتا ہے۔
“وجودی توحید” کا دوسرا پہلو درج بالا سوال کی دوسری جہت (flip side) ہے جہاں میں اپنی ذات کو اس سوال کے روبرو پیش کرتا ہوں: “کیا کوئی ایسا تناظر بھی ممکن ہے جہاں رب اور بندہ ایک ہوجائے؟” یہ ایک گہرا سمندر ہے جہاں الفاظ مفہوم کا ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں، یہ اثباتی توحید کا وہ مقام ہے کہ جو اس میں جس قدر آگے بڑھتا گیا وہ اتنا ہی بے بس ہوتا اور حیران و پریشان ہوتا چلا گیا۔ اس حیرت کدے میں سرکرداں ہونا اس مقالے کا موضوع نہیں لہذا ہم اس جانب گفتگو بڑھانا نہیں چاہتے اور اسے کسی دوسرے مقالے کے لئے اٹھا رکھتےہیں۔
کیا توحیدِ وجودی مدارِ نجات ہے ؟
توحید وجودی کے ضمن میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس کا ادراک حاصل کرنا لوازامات دین میں سے ہے؟ یعنی کیا اس درجے کی توحید کا اقرار کرنا مدار نجات ہے؟ امام غزالی کہتے ہیں کہ یہ جسے توکل کہتے ہیں، اس کا تعلق توحید کے اس چوتھے درجے کے ادراک کے ساتھ نہیں ہے بلکہ وہ تیسرے درجے سے متعلق ہے اور وہ اسی کی تفصیل بیان کرتے ہیں (احیاء العلوم ص: 1605)۔ گویا بندہ مؤمن بن کر رھنے کے لئے توحید کے جس تصور کو ہمہ وقت باندھ رکھنا کافی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات میں فاعل حقیقی صرف خدا کی ذات ہے، اس کے اذن کے بغیر یہاں کچھ نہیں ہوسکتا لہذا مجھے اسی کے کہے پر عمل کرکے اس پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ چونکہ توحید کا یہ فہم حاصل کرسکنا بہت گہرے غور و خوض کا متقاضی ہے لہذا صوفیاء اسے “خواص الخواص” کی توحید کہتے ہیں اور اسے خواص الخواص کی توحید کہنے کا مطلب ہی یہ ہےکہ یہ مدار نجات نہیں، کیونکہ مدار نجات عام لوگوں (masses) کے درجے کی چیز ہوا کرتا ہے۔ علمائے تصوف کی روایت میں توحید وجودی کا اقرار مدار نجات نہیں سمجھا جاتا، اس کی ایک دلچسپ مثال یہ اختلاف ہے کہ جب سید عبد الرحمان لکھنوی نے اپنی کتاب تحقیق الحق میں یہ دعوی کیا کہ لا الہ الا اللہ سے لا موجود الا اللہ کا وہ گہرا ادراک حاصل کرنا از روئے شرع لازم ہے جو صوفیاء نے سمجھا، تو ان کا رد کسی اور نے نہیں بلکہ برصغیر میں خود اسی روایت کےایک امین پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے لکھا (ان کی کتاب کا نام تحقیق الحق فی کلمۃ الحق ہے)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفی روایت کے علماء اس درجہ توحید کو مدار نجات شمار نہیں کرتے جیسا کہ امام غزالی نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا۔ تو جس چیز کو وہ خود مدار نجات نہیں کہتے اس پر ان کی نقیض کرنا کیسے درست ہے؟ جسے یہ گہرے رموز سمجھ نہیں آتے، وہ اللہ کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارے اور خالق حقیقی سے جاملے، صوفیاء نے کب ندا لگا رکھی ہے کہ سب کے لئے اسے سمجھنا و ماننا لازم ہے! لیکن ہر علم میں فہم و ادراک کا ایک درجہ بہرحال ایسا ہوتا ہے جس کا ذوق کچھ خاص لوگوں کو ہوا کرتا ہے، کیا شرع نے اس ادراک کے حصول کی جستجو سے منع کردیا ہے؟ جس کا یہ دعوی ہے وہ دلیل پیش کرے۔
خلاصہ
اس تحریر کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ امام غزالی بالخصوص اور صوفیاء بالعموم کفر و شرک کی ان تہمتوں سے پاک ہیں جو غامدی صاحب نے اپنے سوء فہم اور ناقص تصور توحید کی بنیاد پر ان کی طرف منسوب کیں۔ جو شخص ٹھیک طرح سے توحید کے پہلے درجے کی تعریف متعین نہ کرسکا ہو وہ اٹھے اور امت مسلمہ کے ان لوگوں کی توحید کو کفر وشرک قرار دے جو توحید کا مغز بیان کرنے والے تھے، ایسے حالات میں سوائے افسوس کے اور کیا ہو! امام غزالی کے یہاں جو مباحث بالکل صراحت کے ساتھ چند مقامات پر مذکور ہیں دیگر صوفیاء کے یہاں وہ خاصی پیچیدگی و الجھاؤ کے ساتھ ملتے ہیں جیسا کہ امام غزالی خود کہتے ہیں کہ ان مباحث کو سمجھنے میں غلط فہمیوں کی ایک وجہ اس کلام کا سیاق و سباق ہوتا ہے اور جس سے لوگوں کو حلو ل و اتحاد کا گمان ہونے لگتا ہے (المقصد الاسنی: ص150)۔ تو جو شخص ان مباحث میں امام غزالی کے واضح اور مربوط کلام کو سمجھنے سے قاصر رہا ہو نیز اسے ویدا، اپنشد اور نجانے کس کس فلسفی کے کفریہ و شرکیہ نظریات کی طرح قرار دیتا ہو اس سے یہ توقع کیسے رکھی جاسکتی ہے کہ اس نے شیخ ابن عربی جیسے پیچیدہ و دقیق صوفی کی الجھا دینے والی تحاریر کو سمجھ لیا ہوگا؟ شیخ ابن عربی کی تحریروں کا حال یہ ہے کہ ان کا اپنا الگ نظام فکر ہے جس کی اپنی اصطلاحات اور معانی ہیں، وہ ابتدائے کلام میں جس اصطلاح کا ذکر کرتے ہیں اس کی تشریح کئی سو صفحات بعد کہیں مذکور ہوتی ہے۔ تو اب یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہ جاتا ہے کہ غامدی صاحب نے کتنے غور سے شیخ ابن عربی کا مطالعہ کیا ہوگا۔ اس بارے میں ہمارا گمان یہ ہے کہ انہوں نے ثانوی ماخذات سے چیزیں اخذ کرکے تصوف پر مضمون لکھا ہے۔
حاصل کلام یہ کہ امام غزالی و صوفیاء کرام کا تصور توحید نہ صرف یہ کہ درست ہے بلکہ معاملہ یہ ہے کہ یہی تصور توحید اہل سنت والجماعت کا نمائندہ تصور توحید ہے جو ہر قسم کے افراط و تفریط سے پاک ہے۔ اس تصور پر خط تنسیخ پھیرنا دراصل اہل سنت والجماعت کے عقیدے کی پوری علمی روایت کو باطل ٹھہرانا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اگر اس تحریر سے کسی کو نفع ہو تو اس کے صدقے میں روز قیامت امام غزالی سے محبت کرنے والوں میں شامل کردے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مراجعات
ابو حامد الغزالی (2005)۔ احیاء العلوم الدین۔ دار ابن حزم (اس مکتب نے کتاب کی چار جلدوں کو ایک جلد کی صورت میں چھاپا ہے)
ابو حامد الغزالی (2003)۔ المقصد الاسنی فی شرح معانی اسماء الحسنی۔ دار ابن حزم
جاوید احمد غامدی (2018)۔ برھان۔ المورد، ادارہ علم و تحقیق
حواشی
- یعنی بندے کی پکار اس آیت کی بات رہ جاتی ہے: کل شیء ھالک الا وجہ، یعنی اللہ کے سواء ہر شے فانی یا ھلاک ہونے والی ہے (القصص: 88)۔
- خالق و کائنات کے مسلسل تعلق کو بیان کرنے کی یہ تعبیر اشعری نظام فکر پر مبنی ہے جو اہل سنت والجماعت کا ایک گروہ ہے۔
- یہ کتاب المقصد الاقصی فی شرح اسماء الحسنی کے نام سے بھی موسوم ہے۔ متعلقہ بحث کے لئے کتاب کے ان ابواب کا مطالعہ سود مند رہے گا: الفن الاول باب الرابع اور اگر صرف اتحاد و حلول کی بحث ملاحظہ کرنا ہو تو الفن الثانی کا “خاتمۃ لھذا الفصل” ملاحظہ فرمائیں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
معراج النبی ﷺ کے بارے میں نظریات
مفتی منیب الرحمن معراج کب ہوئی‘ اس کے بارے میں ایک سے زائدا قوال وروایات...
لبرل دانشور اور فلسفہء دعا ( حصہ دوم تنقید)
مفتی منیب الرحمن جنابِ غلام احمد پرویز علامہ اقبال کا یہ شعر نقل کرتے ہیں...