آمدِ امام مہدی

Published On July 17, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

سوال

قبل قیامت حضرت مہدی علیہ السلام کی آمد سے متعلق ٹیلی ویژن پر ایک سوال کے جواب میں علامہ غامدی نے کہا: کسی امر کے عقیدہٴ اسلامی میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر واضح طور پر ہو۔ جہاں تک امام مہدی کے عقیدہ کا تعلق ہے اس کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ امام مہدی کی آمد کے قائلین صرف احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ لیکن اس سلسلے کی احادیث انتہائی مضحکہ خیز اور بے بنیاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عالم تو عالم ایک معقولیت پسند آدمی ان متضاد ، بے بنیاد اور مضحکہ خیزکہانیوں کو قبول نہیں کرے گا۔ میں نے اس سلسلے میں مزید تحقیق کی اور اس عالم اور اس کے طلبہ کی ویب سائٹ ملی

http://www.renaissance.com.pk ۔ درج ذیل جواب ان کے شاگرد طارق ہاشمی کا دیا ہوا ہے۔

سوال: کچھ احادیث میں یہ بات آتی ہے کہ قیامت سے قبل امام مہدی آئیں گے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ قرآن و حدیث میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسے ہم عقیدہ کا جز نہ سمجھاجائے اور اس سے متعلق احادیث موضوع ہیں؟

جواب: اسلامی تعلیمات کے دو ذرائع ہیں ؛ قرآن و حدیث۔ عام طور پر قرآن میں اسلامی عقائد ہیں اور حدیث میں اعمال کا ذکر ہے۔ قرآن میں مذکور عقائد اور حدیث میں مذکور اعمال پر کسی چیز کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی لیے یہ کہنا صحیح نہیں کہ حضرت مہدی کی آمد کا عقیدہ اسلامی عقائد کا جز ہے۔ مزید برآں حضرت مہدی کی آمد کی پیشین گوئی معتبر نہیں ہے۔ دو بڑے مسلم علماء ابن خلدون اور علامہ تمنا عمادی نے روایةً و درایةً ان احادیث کی تحقیق کی ہے۔ ان کے مطابق اس طرح کی ساری روایتیں بے بنیاد ہیں۔

 

جواب

علامہ شوکانی نے الإذاعة ص۷۷ میں لکھا ہے فتقرر أن الأحادیث الواردة في المہدي المنتظر متواترة، والأحادیث الواردة في نزول عیسی متواترة چنانچہ یہ بات ثابت ہوگئی کہ جو احادیث مہدی منتظر کے بارے میں آئی ہیں، وہ سب متواتر ہیں، اسی طرح وہ احادیث جو نزول عیسی کے بارے میں آئی ہیں وہ سب بھی متواتر ہیں۔ اسی طرح حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری، ج۶ ص۳۵۸ میں لکھا ہے ولو تواترت الأخبار بأن المہدي من ہذہ الأمة وأن عیسی یصلی خلفہ الخ متواتر احادیث آئی ہیں کہ امام مہدی اس امت میں سے ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔
احادیث متواترہ سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ یقینی ہوتا ہے، عقائد کے باب میں پیش کرنا صحیح ہے، یہ مسلمہ اصول ہے، حیرت کی بات ہے کہ علامہ غامدی نے ان احادیث کو مضحکہ خیز اور بے بنیاد بتایا ہے اور ان کے شاگرد طارق ہاشمی نے امام مہدی کی آمد کی پیشین گوئی کو ہی غیر معتبر قرار دیا ہے۔ یہ دونوں اگر احادیث صحیحہ صریحہ متواترہ کا مطالعہ رکھتے اور ان کی معتبر شروح کو دیکھتے تو ایسی بات نہ لکھتے۔ احادیث متواترہ کے خلاف کسی کی بات معتبر نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم

فتوی : 875

دار الافتاء دار العلوم دیوبند

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…