جاوید احمد غامدی کے فلسفیانہ افکار کا جائزہ قسط اول

Published On February 13, 2024
نظم، مراد،متکلم اور متن

نظم، مراد،متکلم اور متن

محمد حسنین اشرف   نظم:۔ پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس نوعیت کی شے ہے۔ غامدی صاحب، میزان میں، اصلاحی صاحب کی بات کو نقل کرتے ہیں:۔ ۔" جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا ، وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

مولانا مجیب الرحمن تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ۔ يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته، فاستشهدت فذلك وإن أنا رجعت وأنا أبو هريرة المحرر قد...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

مولانا مجیب الرحمن دوسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :۔ اس بارے میں دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کی سند اور  راویوں پر غور فرمائیں ، امام نسائی فرماتے ہیں: أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم، قال حدثنا ر كريا بن عدى، قال: حدثنا عبد الله من عمر...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

مولانا مجیب الرحمن غامدی صاحب کی ویب سائٹ پر موجود ایک کتاب کا مضمون بعنوان : غزوہ ہند کی کمزور اور غلط روایات کا جائزہ ایک ساتھی کے ذریعہ موصول ہوا ۔ بعد از مطالعہ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس مضمون کو سامنے رکھ کر حدیث غزوہ ہند پر اپنے مطالعہ کی حد تک قارئین کے سامنے...

سرگذشت انذار کا مسئلہ

سرگذشت انذار کا مسئلہ

محمد حسنین اشرف فراہی مکتبہ فکر اگر کچھ چیزوں کو قبول کرلے تو شاید جس چیز کو ہم مسئلہ کہہ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ کچھ چیزوں پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے اس لیے اسے "مسئلہ" کہنا موزوں ہوگا۔ بہرکیف، پہلا مسئلہ جو اس باب میں پیش آتا ہے وہ قاری کی ریڈنگ کا...

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟  غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب...

عمران شاہد بھنڈر

چند ہفتے قبل جاوید احمد غامدی صاحب کی ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں وہ ایک بار پھر قرآن کے تصورِ تخلیق کو بروئے کار لاتے ہوئے’’ وجود‘‘ کے مسئلے کی وضاحت کررہے تھے ۔ غامدی صاحب اپنی بات کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں کہ ’’قرآن سے پہلے سقراط و افلاطون کی جو تاریخ شروع ہوئی وہ ایک ہی چیز پر ارتکازِ توجہ کیے ہوئے تھی اور وہ وجود کا مسئلہ تھا ۔ ‘‘ یہ سُن کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ غامدی صاحب فلسفے کی تاریخ سے نابلد ہیں ۔ یونانی فلسفے میں ’’وجود‘‘ کے مسئلے کا باقاعدہ آغاز تو سقراط اور افلاطون سے قبل پارمیناءڈز سے شروع ہوتا ہے ۔ پارمیناءڈز ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے اپنی نظم’’ فطرت‘‘ میں وجود کے مسئلے کو منطقی شکل میں پیش کیا، اور اسی وجہ سے پارمیناءڈز کو ’منطق‘ کا بانی بھی تصور کیا جاتا ہے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پارمیناءڈز سے قبل تقریباََ سارا ہی یونانی فلسفہ کائنات کی ماہیت دریافت کرنے پر لگا ہوا تھا، اور سقراط وہ پہلا فلسفی ہے جس نے کائنات یا وجود کی بجائے ’’انسان‘‘ اور اس سے منسلک اخلاقیات کو موضوع بنایا ۔ انہی معنوں میں سقراط کو فلسفے کا بانی خیال کیا جاتا ہے ۔ ارسطو نے اپنی کتاب بعنوان’’ مابعد الطبیعات‘‘ میں فلسفے کی تاریخ کا تفصیلی احاطہ کیا ہے ۔ سقراط کے بارے میں عظیم فلسفی ارسطو کے یہ الفاظ سقراط کی فکری ترجیحات کا بخوبی تعین کرتے ہیں :

’’سقراط اخلاقی معاملات میں مصروف تھا ، اس لیے اس نے کائنات کو نظر انداز کر دیا ۔ (مابعد الطبیعات، ص،16 ) ۔

افلاطون چونکہ سقراط کا شاگرد تھا، اس لیے اس کی توجہ کا مرکز بھی انسان سے جڑے ہوئے معاملات ہی رہے ۔ لہذا یہ دعویٰ قطعی طور پر باطل ہے کہ’’ سقراط و افلاطون سے جو تاریخ شروع ہوئی وہ ایک ہی چیز پر توجہ کیے ہوئے تھی اور وہ وجود کا مسئلہ تھا ۔ ‘‘مجھے فلسفے کے طالب علموں کو اس سنگین تاریخی غلطی سے بچانے کے لیے غامدی صاحب کے اٹھائے گئے اس باطل نکتے کی تصحیح کرنی پڑی ۔

غامدی صاحب ایک غلطی کرنے کے بعد ایک اور بڑی غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ سقراط و افلاطون سے جو تاریخ شروع ہوتی ہے جس سے ان کے بقول ’’وجود‘‘ کی بحث شروع ہوتی ہے اس کے لیے، بقول غامدی ’’یہ عالم اور اس عالم سے ماورا اگر کوئی قوت کارفرما ہے تو اس کو ایک حقیقت مان کر اس کی توجیح کرنا، یہ سب سے بڑا مسئلہ تھا ۔ ‘‘ یہاں وہ جس نکتے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں اس کا تعلق ’’ایک حقیقت‘‘ سے ہے یعنی وجود اور ماورائے وجود کو ’’ایک حقیقت‘‘ ماننا ۔ مجھے افسوس ہے کہ غامدی صاحب نے یونانی فلسفے کی ابتدائی نوعیت کی کتابیں بھی نہیں پڑھیں ، ورنہ وہ کم ازکم یہ غلطی نہ کرتے کہ سقراط اور افلاطون سے شروع ہونے والا یونانی فلسفہ کائنات اور ماورائے کائنات کو ’’ایک حقیقت‘‘ سمجھتا ہے ۔ فلسفے کے طالبِ علم اس فلسفیانہ قضیے سے اچھی طرح سے آگاہ ہوں گے کہ افلاطون کے فلسفے میں حقیقت کے ایک ہونے کے تصور کی نفی ہوتی ہے اور ’’دوئی‘‘ کا فلسفہ اپنی پوری قوت کے ساتھ سامنے آتا ہے ۔ اور یہی دوئی کا تصور تھا جسے ارسطو نے افلاطون کے فلسفے کا تنقیدی محاکمہ کرنے کی جانب راغب کیا ۔ ارسطو نے افلاطون کے برعکس یہ دعویٰ کیا کہ پارٹیکولر کے بغیر یونیورسل کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، جبکہ افلاطون یونیورسل کو پارٹیکولر سے الگ یعنی یونیورسل کو اس کی خود مختار حیثیت سے تسلیم کرتا تھا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عمران شاہد بھنڈر صاحب یو ۔ کے میں مقیم فلسفے کے استاد اور کئی گرانقدر کتب کے مصنف ہیں ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…