مولانا مودودی کے نظریہ دین کا ثبوت اور اس پر تنقید کی محدودیت

Published On September 11, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

ڈاکٹر عادل اشرف

غامدی صاحب اور وحید الدین خان کا یہ مفروضہ صحیح نہیں کہ مولانا مودودی کا نظریہ دین ایک یا چند آیات سے ماخوذ ہے اور ان آیات کے پسمنظر اور انکی لغت کے ساتھ جوڑ توڑ کرکے ہم ایک دوسری تشریح اخذ کرتے ہوۓ انکے نظریہ کی بنیادوں کو ہی ڈھا دیں گے! مولانا مودودی پر رد کا یہ ایک ایزی وے آوٹ ہے اور انکی فکر کے دس فیصد کا احاطہ بھی نہیں کر پاتا
حقیقت یہ ہے کہ مولانا کا نظریہ دین کسی ایک آیت سے ماخوذ ہونے کے بجاۓ پورے قرآن میں جابجا مختلف تھہمز کے ساتھ ہر جگہ ثابت ہوتا ہے- أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ والی آیت سے تو محض اصطلاح لی گئی ہے اور وہ بھی سید نے خود نہیں لی بلکہ مولانا اختر احسن اصلاحی نے تجویز کی تھی- مولانا مودودی کا نظریہ دین قرآن کے جتنے تھیمز سے ثابت ہوتا ہے، ان سب کا شمار کرنا نہایت دشوار اور محنت طلب کام ہے- یہاں ہم سرسری طور پر کچھ موٹے موٹے نکات کو آپکے سامنے رکھ دیتا ہوں

اول – سب سے قوی استدلال میری نظر میں “پوری شریعت کے لزوم” کا استدلال ہے اور اسی استدلال کو دستور جماعت میں پیش کیا گیا ہے- قرآن اور سنت نے مسلمانوں پر جتنے بھی فرائض اور واجبات لازم کیے ہیں ان میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی اور ہر حکم آیا ہی اس لیے ہے کہ اسکی بے چون و چرا اطاعت کی جاۓ اور اسکے التزام کیلۓ تمام وسائل فراہم کیے جائیں-

دوم – دوسرا استدلال انسان کی تخلیق کی اصل غایت جسے قرآن “عبادت” اور “خلافت” کے الفاظ کے ذریعے بیان کرتا ہے- قرآن انسان کو الله کا خلیفہ بتاتا ہے اور اسکو بار بار یہ حکم دیتا ہے کہ صرف اسی کی “عبادت” کرے- براہ راست بھی “عبادت” کو مقصد زندگی بتاتا ہے اور انبیاء کی زبان سے بھی یہی کہلواتا ہے- ان الفاظ کے مفہوم کی غیر مبہم اور جامع تشریح قرآن خود متعین کرتا ہے اور لغت و تفسیری لٹریچر سے بھی وہی معنی مترشح ہوتے ہیں جو سید مودودی نے بیان کیے ہیں

سوم – تیسرا استدلال رسولوں کے مقصد بعثت سے ہیں جسے قرآن نے مختلف پیرائیوں میں بہت سے مقامات پر بیان کیا ہے، جس میں قیام قسط، حکم بین الناس، تزکیہ، اقامت دین، اظہار دین وغیرہ جیسے پیراۓ شامل ہیں- یہاں اظہار دین کو غامدی صاحب جب بحث کا موضوع بناتے ہیں تو اس چیز کا رد کرتے ہیں جو سید کا استدلال ہے ہی نہیں، یعنی اظہار دین صرف عرب ادیان کیلۓ تھا باقی دنیا کیلۓ نہیں- جبکہ سید مودودی کا استدلال زمان و مکان کے حوالے سے ہے ہی نہیں بلکہ وہ رسالت کی مقصدیت پر استدلال کھڑا کرتے ہیں- مطلب یہ کہ رسول اپنے دور کے نظاموں اور حکومتوں میں خدا کی جزوی اطاعت قائم کرنے نہیں بلکہ اسکی ہدایت و قانون کو سب نظاموں اور ادیان پر کلی طور پر غالب کرنے آتا ہے- اب جب غلبہ دین اور نظام کی تبدیلی رسالت کے اہم ترین مقاصد میں شامل ہیں اور اسکیلۓ وہ کونو انصار اللہ کی صدا بلند کرکے سب کچھ دآو پر لگا دیتے ہیں، تو کس طرح یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ دین میں حکومت و سلطنت کوئی غیر ضروری یا غیر اہم چیز ہے

چہارم – چوتھا استدلال جو دراصل تیسری قسم سے ہی تعلق رکھتا ہے لیکن اسے الگ بیان کرنے کی حاجت اسی لیے ہے کہ اس میں قرآن خود ہی بتصریح رسول اور امت کا باہمی تعلق اور دونوں کے منصبی فرائض متعین کرتا ہے- قرآن رسول کے سپرد شہادت علی الأمة کا کام کرتا ہے اور امت کے کاندھوں پر شہادت علی الناس کا فریضہ رکھ دیتا ہے، جسے ختم نبوت کے ساتھ ملا کر دیکھا جاۓ تو یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اب امت نے وہی فریضہ انجام دینا ہے جو پہلے رسول کے ذمے تھا- بطور امت شہادت علی الناس کا بنیادی مفہوم یہی نکلتا ہے کہ یہ امت مجموعی طور پر (نہ کی فرداً فرداً ) اسلام پر عمل کرکے اسکا نمونہ پیش کرے- دوسری جگہ امت کی اسی منصبی ذمہ داری کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے الفاظ سے ادا کیا گیا ہے، بتایا گیا کہ تم “الناس” کیلۓ برپا کی گئی امت ہو اور تمہارا “الناس” سے تعلق “امر بالمعروف اور نہی عن المنکر” کا ہے

پنجم – پانچواں استدلال قرآن میں اسلامی قانون کی پیروی کی اہمیت اور اسکو ایمان کے ساتھ لازم و ملزوم کیے جانے سے عبارت ہے، جسیا کہ بیان ہوا “فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم”- اسی سے وہ آیات بھی تعلق رکھتی ہیں جن میں حلت و حرمت میں خدا کی پیروی اور اس سے روگردانی کو شرک و فسق قرار دیا گیا ہے

ششم – چھٹا استدلال سیرت رسول اور سیرت صحابہ سے ہیں- قرآن کی آیات میں یہ سیرت اس طرح سمودی گئی ہے کہ اسے سمجھے بغیر قرآن کا سمجھناممکن ہی نہیں- قرآن نے ان پر جہاد کیسے فرض کیا، اس جہاد کی علت کیا بتائی (مثلا دین پورے کا پورا اسی کیلۓ ہوجاۓ)، جو اس میں شریک نا ہوا اسکو کس خاطے میں ڈالا اور اسکی کیا سرزنش کی گئی؟

الغرض اگر دین کیلۓ یہ ساری چیزیں اہم تھیں اور آسمانی ہدایت صرف نبوت کے ۲۳ سال نہیں بلکہ قیامت تک کیلۓ اہم اور ضروری ہے، تو منطقی طور اسکے بیھجنے والے سے صرف دو ہی چیزیں توقع کی جاسکتی ہیں
الف -یا یہ کہ وہ مسلسل انبیاء بھیجتا رہے تاکہ انکے ذریعے دین کے تمام اجزاء پر عمل کا بندوبست ہوتا رہے-
ب – یا رسالت کا دروازہ بند کیا جاۓ اور مسلمان امت خود اس دین کے قیام اور اہتمام کا فریضہ انجام دے تاکہ قیامت تک کیلۓ دین کے تمام اہم اجزاء پر عمل کا امکان موجود رہے

یہ کیا بات ہوئی کہ صرف نبوت کی دو دہائیوں کیلۓ پوری آسمانی ہدایت پر عمل کو فرض ٹھرایا جاۓ اور اسکے قیام کیلۓ خصوصی بندوبست کیا جاۓ، لیکن اسکے انہدام کے بعد قیامت تک کیلۓ مسلمانوں کو یہ اطمینان دلایا جاۓ کہ اگرچہ ۹۰ فیصد سے زیادہ آسمانی ہدایت بالاۓ طاق ہے، پھر بھی تمہارا کوئی فرض نہیں بنتا کہ اس ۹۰ فیصد پر عمل کی کوشش کرو یا اسکیلۓ جو ضروری وسائل درکار ہیں انہیں فراہم کرنے کیلۓ جدوجہد کرو- بلکہ تمہیں انسان کے اختراع کردہ قانون پر، جو فطرتاً پوری دنیا کی زندگی کے امن اور توازن کو بگاڑ رہا ہو اور زمین میں ہر دن فساد کو مزید تقویت دے رہا ہو، هنيئا مريئا عمل کرنا چاہیے-

بشکریہ دلیل

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…