ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...
مذہبی ریاست، سنتِ یورپ سے انحراف
(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...
جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص
حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...
مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...
خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت
ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...
غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...
ذیشان وڑائچ
سیکولرزم کے داعی طبقے کی طرف یہ سوالات مختلف انداز میں اٹھائے جاتے ہیں کہ مذہبی طبقہ واضح کرے کہ
- آیا پاکستان ایک قومی ریاست ہے یا نہیں ؟
- یا یہ کہ کیا اسلام کی رو سے قومی ریاست جائز ہے یا نہیں ؟
- آیا قومی ریاست کا کوئی مذہب ہوتا ہے یا نہیں؟
دلیل ڈاٹ پی کے میں شائع شدہ بیس مارچ دوہزار سترہ کے مفتی منیب الرحمن صاحب کے مضمون میں غامدی صاحب کے پوچھے گئے انہی سوالات کا ذکر موجود ہے۔
یہ دراصل سوالات سے زیادہ سوال پوچھنے والے کے عقیدے یا ذہنی کیفیت کی غمازی کرتے ہیں۔
ان سوالات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سوال پوچھنے والے نے یہ طئے کیا ہوا کہ قومی ریاست نام کا جو پیکیج مغرب سے ملا ہوا ہے اس کو جوں کا توں قبول کرنا ہے۔ سوال پوچھنے والے نے “پاکستانی قوم” کو بعینہ دوسری مغربی اقوام کے معنی میں سمجھا ہوا ہے یا اسے لگتا ہے کہ اجتماعیت کا جو تصور مغربی فکر سے ملا ہوا اس سے انحراف ایک بدعت ہے۔ سوال پوچھنے والا اس بات پر مصر ہے کہ تحریک پاکستان کی پوری تاریخ میں جس طرح “دو قوموں” کی وضاحت کی گئی تھی اس وضاحت سے اپنا اور پوری قوم کا رابطہ کاٹ دیا جائے۔
یہاں پر دراصل سوال کرنے والا یہ سوچتا ہے کہ ریاست وہ ابدی بدیہی حقیقت ہے جسے صرف دریافت کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے پر ذہنی طور پر تیار نہیں ہے کہ پاکستانی ریاست “تشکیل دی گئی” ہے۔ جو چیز تشکیل دی گئی ہے وہ خود اپنے میں ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یورپ کی علمی فیکٹری میں بنائے ہوئے کسی سانچے میں اس کو ڈھال دیا جائے۔ ہمارا سانچہ خود ہماری روایات اور تاریخی تناظر میں تشکیل دیا گیا ہے۔ بھلے آپ کو یہاں پر دینِ يورپ کی سنت سے کتنا ہی انحراف لگے، اس بدعت کے تو ہم مرتکب ہوئے ہیں اور اسی پر قائم رہیں گے۔ تعجب ہے کہ اٹھارویں صدی کے یورپ کے اپنے مخصوص سیاسی ماحول میں ڈھلی ہوئی ایک اصطلاح ہمارے نابغوں کے لئے اتنی اہم ہوگئی کہ انہیں برصغیر کی مسلم شناخت کو منوانے کے اس عظِم ترین واقعے کو بھی اسی اصطلاح میں ڈھالنا اتنا اہم لگ رہا ہے! سیدھی سی بات ہے کہ جب ایک ریاست ہی اسلام کے نام پر بنی ہے تو لازمی طور پر اس ریاست کا ایک مذہب ہوگا اور وہ وہی مذہب ہوگا جس کے نام پر یہ بنی ہے۔
اب اگر کسی نابغے کے نزدیک جس اجتماعی اکائی کا کوئی مذہب ہوگا وہ “قومی ریاست” کی تعریف میں نہیں آتا تو اسے اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اسے قومی ریاست نہ مانے۔ پاکستان کو قومی ریاست منوانا کونسا ہماری ترجیحات میں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انجمن اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی سیاسی نظام کی وجہ سے ہم پر جو شناختوں اور اصطلاحات کا جبر مسلط کیا گیا تھا یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہم قومی ریاست بھی کہلاتے ہیں اور مذہبی بھی کہلاتے ہیں۔ ان جابرانہ اصطلاحات کو استعمال کر کے ہم پر “وَعَزَّنِیۡ فِی الۡخِطَابِ” کا ہتھیار آزمایا نہ جائے۔ دراصل یہ سوالات پوچھ کر سوال کرنے والے اپنے آپ کو اقوام مغرب کے مبلغ اور فکری نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انگریزی میں اس قسم کی نمائندگی کرنے والے کے لئے سادہ سی اصطلاح ہے جسے “ایجنٹ” کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ یہ ایجنٹی کسی حقارت کے لیے یا بدنیتی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لئے ہے کہ مرعوبیت کی وجہ سے علمی نمائندگی کی جو کیفیت طاری ہے اس کی تشریح کے لئے یہی لفظ مناسب ہے۔
اگر قومی ریاست کا مذہبی ہونا منظور نہیں ہے تو پھر اقوام عالم کے علم گزیدوں سے پوچھ کر آئیں کہ ہمارے پاس “قومی ریاست” کے بجائے کسی اور نام کے ساتھ ایک اجتماعی اکائی کے طور پر رہنے کی کیا گنجائش ہے۔ چونکہ مذہبی شناخت کو مٹانے کی اب تک کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں، اس لئے سوچ کر کوئی بھلا سا نام رکھ دیں۔ ویسے خالص علمی سطح پر سعودی عرب، بھارت، جنوبی افریقہ بلکہ امریکہ جیسی ریاستوں کو بھی قومی ریاست کے آئیڈیا میں فٹ کرانا کافی مشکل کام ہے۔ جب پوری دنیا کے لئے ان ممالک کی شناخت غیر متعلقہ ہو کر رہ گئی ہے تو پھر آپ اپنی اصطلاحاتی دھونس لے کر ہم پر کیوں طبع آزمائی کر رہے ہیں؟
خلاصہ کلام یہ ہے، پاکستان کو “اسلامی” ماننے اور منوانے پر ہم مصر ہیں اور ہم اپنا یہ مؤقف تو چھوڑیں گے نہیں۔ پاکستان کو “قومی ریاست” کی تشریح میں فٹ کرانا آپ کےلیے اہم ہو تو ہو۔ اگر آپ کی مذکورہ شناخت (قومی ریاست) اور پاکستانی کی حقیقی شناخت (اسلامی) میں کوئی تناقض ہے تو پھر آپ قومی ریاست کے کانسپٹ میں ترمیم کردیں یا کوئی نئی اصطلاح لے آئیں۔ صرف آپ کے مسلط کردہ تشخص کو کرنے کے لئے ہم پاکستان کی اصل شناخت جو کہ اسلامی ہے کو کیوں ترک کریں؟
بشکریہ ایقاظ
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری...
(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف...
جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص
حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو...