غامدی صاحب کی انتہاپسندی

Published On July 26, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

 محمد عبدالاکرم سہیل

محترم جاوید احمد غامدی علم دین کے اعتبار سے دنیا کی ایک قابل قدر شخصیت ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں فرقہ بندی کو مٹانے کیلئے آپ نے جس کار تجدید کا کام انجام دیا ہے اور دین پر بات کرنے کاجو ڈھنگ آپ نے سکھایا ہے وہ نہایت ہی قابل تعریف ہے اور شاید پورے پاک و ہندمیں آپکا کوئی ثانی نہیں لہذا آپ پر تنقید گویا مجھ جیسے طالب علم کو زیب نہیں دیتا لیکن میرے کچھ اشکالات ہیں جو میں نذر قارئین کرتا ہوں۔
ایک طرف توداعش،القاعدہ اور طالبان وغیرہ جیسی تنظیمیں ہیں جو اسلامی حکومت کے نام پر ظلم و فساد کرکے انتہاپسندی پر ہیں تو دوسری طرف غامدی صاحب ہیں جو دین کا مخاطب صرف فرد کو بتلاکر،دین کا مقصد آخرت میں نجات اور اسے موت کا مسئلہ بتاکر انتہاپسندی کے دوسرے سرے کو تھامے ہوئے ہے اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ غامدی صاحب جیسے اہل علم ان تنظیموں کی انتہاپسندی کا سبب اسلامی حکومت اور اقامت دین کے نظریے کو بتاتے ہیں۔ لیکن یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اگر کوئی نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے غلط طریقے کو اپناتا ہے تو اس کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ یہی انتہاپسندی کا سبب ہے یہ کہاں کا انصاف ہے اسکی مثال تو بالکل ایسی ہی ہے جیسے اگر کوئی شخص چوری کرکے صدقہ وخیرات کرتا ہے تو اسے دیکھ کر یہ کہہ دینا کہ خیرات و صدقات کے نظریہ نے ہی چوری کو جنم دیا ہے تو یہ بالکل غیر مناسب بات ہوگی۔
اب جہاں تک دین کا مخاطب فرد کی بات ہے ،تو دین کے احکامات خود اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ فرد سے بڑھ کر اجتماع سے متعلق بھی ہوں۔حرمت سود، چور کا ہاتھ کاٹنے، زانی کو کوڑے مارنے اور قاتل سے قصاص لینے کے احکام خود یہ بتا رہے ہیں کہ دین صرف افراد سے نہیں، بلکہ ان کی اجتماعیت سے بھی متعلق ہوتا ہے۔ پھر دین کے بارے میں یہ تصور کہ وہ صرف جہنم کی آگ سے بچاتا ہے بالکل ایک ادھورا تصور ہے اور انسان کی یہ بہت بڑی غلطی ہوگی اگروہ دین کو صرف آخرت کی زندگی میں کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہو کیونکہ انسان روح اور جسم دونوں کا مجموعہ ہے اور اس کی زندگی دنیا و آخرت دونوں میں پھیلی ہوئی ہے لہذا اگر اسے کوئی ایسا مذہب دیا جاتا جو اسکی روح اور آخرت کی زندگی کے لئے تو کامیابی کا باعث بنتا مگر اس کے جسم اور اسکی دنیاوی زندگی کو کوئی فائدہ نہ پہنچاتا تو وہ دین اس کے لئے ایک نامکمل چیز رہ جاتی اور بقول مولانا مودودی یہ سینٹ پال کے ‘دین بلا شریعت’ والے نظریہ کی بات ہوجاتی۔
جب غامدی صاحب سے دین کے سیاسی اقتدار کی بات کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہے کہ ہم لوگ معاشرے سے زیادہ ریاست کو دین دار بنانا چاہتے ہیںپھر وہ بتلاتے ہیں کہ معاشرہ میں جتنا دین ہوگا تو اسکا ظہور آپ سے آپ ریاست میں بھی ہوجائے گا اسکے لئے کوئی ہدف بناکر کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات تو صد فیصد درست ہے کہ معاشرہ جتنا اسلامی ہوگا اتنے ہی معاشی اور سیاسی اقتدار کی جڑیں مضبوط رہیں گی لیکن یہ کہنا کہ اقتدار میں آپ سے آپ اسلام کا ظہور ہوگا یہ بات تو بالکل ہی ناممکن ہے ۔اسلئے کہ اقتدار ایک طاقت کا نام ہے اور طاقت آپ سے آپ حاصل نہیں ہوتی بلکہ اسے جدوجہد اور ہدف بناکر حاصل کرناپڑتا ہے اگر وہ آپ سے آپ حاصل ہوجائے پھر تو وہ اپنے معنی میں کوئی طاقت ہی نہیں رہی اور جہاں تک دین کے احکامات کا تعلق ہے تو وہ بغیر سیاسی اقتدار حاصل کئے ممکن ہی نہیں اور دین میں احکامات کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی ایمان و عقیدہ کی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید نے جہاں ایمان و عقیدہ کی خرابی کو جہنم کا راستہ بتلایا ہے تو وہیں احکامات و قوانین کو توڑنے پر دنیا و آخرت کی تباہی کی وعیدیں سنائی ہے ۔ قرآن مجید کی اس آیت نے پرغور کرنے کی ضرورت ہے، ” پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اْس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے”سورہ المائدہ (5:50 )

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…