غامدی صاحب کی انتہاپسندی

Published On July 26, 2024
غامدی صاحب اور ’چند احکام‘ کا مغالطہ

غامدی صاحب اور ’چند احکام‘ کا مغالطہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کا معروف موقف ہے کہ حکومت و سیاست سے متعلق شریعت نے بس چند احکام ہی دیے ہیں۔ بسا اوقات سورۃ الحج کی آیت 41 کا حوالہ دے کر ان چند احکام کو ’بس چار احکام‘ تک محدود کردیتے ہیں: نماز قائم کرنا ، زکوۃ دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے...

قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت

قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت

جہانگیر حنیف قرآنِ مجید کتابِ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید نے اپنا تعارف جن الفاظ میں کروایا ہے، اگر ان پر غور کیا جائے، تو قرآنِ مجید کا کتابِ ہدایت ہونا ان سب کو شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو اگر کسی ایک لفظ سے تعارف کروانے کی ضرورت پیش آجائے، تو کچھ اور کہنے کی...

قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت

قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت

ڈاکٹر خضر یسین قانون اتمام حجت ایک ایسا مابعد الطبیعی نظریہ ہے جو ناسخ قرآن و سنت ہے۔اس "عظیم" مابعد الطبیعی مفروضے نے سب سے پہلے جس ایمانی محتوی پر ضرب لگائی ہے وہ یہ ہے کہ اب قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تصدیق روئے زمین پر افضل ترین ایمانی اور...

عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ : قسط اول

عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ : قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت میں نکاح کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی اور جناب محمد حسن الیاس کی وڈیو کلپ پر میں نے تبصرہ کیا تھا اور ان کے موقف کی غلطیاں واضح کی تھیں۔ (حسب معمول) غامدی صاحب نے تو جواب دینے سے گریز کی راہ اختیار کی ہے، لیکن حسن صاحب کی عذر خواہی آگئی ہے۔...

عدت کے دوران نکاح پر غامدی صاحب اور انکے داماد کی غلط فہمیاں

عدت کے دوران نکاح پر غامدی صاحب اور انکے داماد کی غلط فہمیاں

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی گفتگو کا ایک کلپ کسی نے شیئر کیا اور اسے دیکھ کر پھر افسوس ہوا کہ بغیر ضروری تحقیق کیے دھڑلے سے بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور ان کے داماد صرف اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے،...

حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السماء اور غامدی موقف

حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السماء اور غامدی موقف

مولانا محبوب احمد سرگودھا اسلامی عقائد انتہائی محکم ، واضح اور مدلل و مبرہن ہیں ، ان میں تشکیک و تو ہم کی گنجائش نہیں ہے۔ ابتدا ہی سے عقائد کا معاملہ انتہائی نازک رہا ہے، عقائد کی حفاظت سے اسلامی قلعہ محفوظ رہتا ہے۔ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہی سے کئی افراد اور جماعتوں...

 محمد عبدالاکرم سہیل

محترم جاوید احمد غامدی علم دین کے اعتبار سے دنیا کی ایک قابل قدر شخصیت ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں فرقہ بندی کو مٹانے کیلئے آپ نے جس کار تجدید کا کام انجام دیا ہے اور دین پر بات کرنے کاجو ڈھنگ آپ نے سکھایا ہے وہ نہایت ہی قابل تعریف ہے اور شاید پورے پاک و ہندمیں آپکا کوئی ثانی نہیں لہذا آپ پر تنقید گویا مجھ جیسے طالب علم کو زیب نہیں دیتا لیکن میرے کچھ اشکالات ہیں جو میں نذر قارئین کرتا ہوں۔
ایک طرف توداعش،القاعدہ اور طالبان وغیرہ جیسی تنظیمیں ہیں جو اسلامی حکومت کے نام پر ظلم و فساد کرکے انتہاپسندی پر ہیں تو دوسری طرف غامدی صاحب ہیں جو دین کا مخاطب صرف فرد کو بتلاکر،دین کا مقصد آخرت میں نجات اور اسے موت کا مسئلہ بتاکر انتہاپسندی کے دوسرے سرے کو تھامے ہوئے ہے اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ غامدی صاحب جیسے اہل علم ان تنظیموں کی انتہاپسندی کا سبب اسلامی حکومت اور اقامت دین کے نظریے کو بتاتے ہیں۔ لیکن یہ کیسی عجیب بات ہے کہ اگر کوئی نصب العین کو حاصل کرنے کے لیے غلط طریقے کو اپناتا ہے تو اس کے بارے میں یہ کہہ دینا کہ یہی انتہاپسندی کا سبب ہے یہ کہاں کا انصاف ہے اسکی مثال تو بالکل ایسی ہی ہے جیسے اگر کوئی شخص چوری کرکے صدقہ وخیرات کرتا ہے تو اسے دیکھ کر یہ کہہ دینا کہ خیرات و صدقات کے نظریہ نے ہی چوری کو جنم دیا ہے تو یہ بالکل غیر مناسب بات ہوگی۔
اب جہاں تک دین کا مخاطب فرد کی بات ہے ،تو دین کے احکامات خود اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ فرد سے بڑھ کر اجتماع سے متعلق بھی ہوں۔حرمت سود، چور کا ہاتھ کاٹنے، زانی کو کوڑے مارنے اور قاتل سے قصاص لینے کے احکام خود یہ بتا رہے ہیں کہ دین صرف افراد سے نہیں، بلکہ ان کی اجتماعیت سے بھی متعلق ہوتا ہے۔ پھر دین کے بارے میں یہ تصور کہ وہ صرف جہنم کی آگ سے بچاتا ہے بالکل ایک ادھورا تصور ہے اور انسان کی یہ بہت بڑی غلطی ہوگی اگروہ دین کو صرف آخرت کی زندگی میں کامیابی کا ذریعہ سمجھتا ہو کیونکہ انسان روح اور جسم دونوں کا مجموعہ ہے اور اس کی زندگی دنیا و آخرت دونوں میں پھیلی ہوئی ہے لہذا اگر اسے کوئی ایسا مذہب دیا جاتا جو اسکی روح اور آخرت کی زندگی کے لئے تو کامیابی کا باعث بنتا مگر اس کے جسم اور اسکی دنیاوی زندگی کو کوئی فائدہ نہ پہنچاتا تو وہ دین اس کے لئے ایک نامکمل چیز رہ جاتی اور بقول مولانا مودودی یہ سینٹ پال کے ‘دین بلا شریعت’ والے نظریہ کی بات ہوجاتی۔
جب غامدی صاحب سے دین کے سیاسی اقتدار کی بات کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہے کہ ہم لوگ معاشرے سے زیادہ ریاست کو دین دار بنانا چاہتے ہیںپھر وہ بتلاتے ہیں کہ معاشرہ میں جتنا دین ہوگا تو اسکا ظہور آپ سے آپ ریاست میں بھی ہوجائے گا اسکے لئے کوئی ہدف بناکر کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات تو صد فیصد درست ہے کہ معاشرہ جتنا اسلامی ہوگا اتنے ہی معاشی اور سیاسی اقتدار کی جڑیں مضبوط رہیں گی لیکن یہ کہنا کہ اقتدار میں آپ سے آپ اسلام کا ظہور ہوگا یہ بات تو بالکل ہی ناممکن ہے ۔اسلئے کہ اقتدار ایک طاقت کا نام ہے اور طاقت آپ سے آپ حاصل نہیں ہوتی بلکہ اسے جدوجہد اور ہدف بناکر حاصل کرناپڑتا ہے اگر وہ آپ سے آپ حاصل ہوجائے پھر تو وہ اپنے معنی میں کوئی طاقت ہی نہیں رہی اور جہاں تک دین کے احکامات کا تعلق ہے تو وہ بغیر سیاسی اقتدار حاصل کئے ممکن ہی نہیں اور دین میں احکامات کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی ایمان و عقیدہ کی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید نے جہاں ایمان و عقیدہ کی خرابی کو جہنم کا راستہ بتلایا ہے تو وہیں احکامات و قوانین کو توڑنے پر دنیا و آخرت کی تباہی کی وعیدیں سنائی ہے ۔ قرآن مجید کی اس آیت نے پرغور کرنے کی ضرورت ہے، ” پس اے محمدؐ! تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اْس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے”سورہ المائدہ (5:50 )

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…