ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
عدت میں نکاح کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی اور جناب محمد حسن الیاس کی وڈیو کلپ پر میں نے تبصرہ کیا تھا اور ان کے موقف کی غلطیاں واضح کی تھیں۔ (حسب معمول) غامدی صاحب نے تو جواب دینے سے گریز کی راہ اختیار کی ہے، لیکن حسن صاحب کی عذر خواہی آگئی ہے۔ اس عذر خواہی پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
عدت سے مراد
حسن صاحب ابتدا میں فرماتے ہیں : ”شریعت کی اصطلاح میں ’عدت‘ سے مراد وہ مدت ہے،جس میں بیوی شوہر کی طرف سے طلاق یا اُس کی وفات کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح نہیں کر سکتی۔“
حسن صاحب کی یہ بات بالکل درست ہے، لیکن کیا کریں کہ آگے کی بحث میں وہ اسے بھول جاتے ہیں۔
عدت کا سبب، علت یا حکمت؟
اس درست بات سے آغاز کے فوراً بعد حسن صاحب ایک غلط دعوی کر بیٹھتے ہیں اور اس قطعیت کے ساتھ کرتے ہیں کہ پڑھنے والا، اگر عقل استعمال نہ کرے، تو فوراً ہی اس پر ایمان لے آئے۔ فرماتے ہیں: ” یہ مدت اِس لیے مقرر کی ہے کہ عورت کے پیٹ کی صورت حال پوری طرح واضح ہو جائے اور بچے کے نسب کا معاملہ مشتبہ نہ رہے۔“
یہ بات اگرچہ قطعیت کے ساتھ کہی گئی ہے، لیکن یہ قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ عدت”صرف“ اس لیے نہیں مقرر کی گئی، بلکہ اس کے مقرر کرنے میں کئی اور حکمتیں بھی ہیں۔ دوسری اہم اصولی غلطی یہ ہے کہ حسن صاحب نے ”سبب“، ”علت“ اور ”حکمت“ کے درمیان فروق کو نظر انداز کیا ہے۔ خیر، اگر وہ اور ان کے استاذ گرامی ”سنت“، ”حدیث“ اور دیگر اصطلاحات کو اپنی مرضی کا مفہوم پہنا سکتے ہیں، تو ان اصطلاحات کو بھی تختۂ مشق بنانے سے انھیں کون روک سکتا ہے؟ پھر بھی ان کی خدمت میں اتنا تو عرض کرسکتے ہیں کہ علت کسی منصوص امر کے حکم کو غیر منصوص امر تک توسیع دینے کےلیے ہوتی ہے، نہ کہ کسی منصوص امر کے حکم کو معطل کرنے کےلیے۔ یہ بنیادی اصول وہ سمجھ لیں، تو آگے کی بحث میں ان کی غلطی خود ہی ان پر واضح ہوجائے گی۔
بہرحال استبراء رحم کو عدت کا سبب قرار دینے کےلیے دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ غیر مدخولہ مطلقہ کےلیے کوئی عدت نہیں ہے اور حاملہ کی عدت وضعِ حمل پر ختم ہوجاتی ہے، لیکن پتہ نہیں کیوں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بیوہ، خواہ غیر مدخولہ ہو، اس کی عدت چار ماہ دس دن ہی ہے۔
مجھے معلوم ہے کہ غامدی صاحب غیر مدخولہ مطلقہ پر قیاس کرتے ہوئے قرار دیتے ہیں کہ غیر مدخولہ بیوہ کےلیے بھی عدت نہیں ہے۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:
”مطلقہ اور بیوہ کے لیے عدت کا حکم چونکہ ایک ہی مقصد سے دیا گیا ہے، اِس لیے جو مستثنیات طلاق کے حکم میں بیان ہوئے ہیں، وہ بیوہ کی عدت میں بھی اُسی طرح ملحوظ ہوں گے۔ چنانچہ بیوہ غیر مدخولہ کے لیے کوئی عدت نہیں ہو گی اور حاملہ کی عدت وضع حمل کے بعد ختم ہو جائے گی۔ روایتوں میں ہے کہ ایک حاملہ عورت، سبیعہ نے جب اپنا معاملہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے یہی فیصلہ فرمایا۔“ (البیان،ج1، ص252)۔
تاہم یہ قیاس باطل ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوہ کی عدت کے متعلق سورۃ البقرۃ کی آیت عام ہے، اور عام قطعی الدلالہ ہے جسے قیاس سے، جو کہ ظنی دلیل ہے، محدود نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے تو غامدی صاحب کے نزدیک پورا قرآن ہی قطعی الدلالہ ہے، لیکن یہاں قطعی الدلالہ آیت کو قیاس کے ذریعے محدود کرتے ہوئے وہ اپنا ہی اصول توڑ دیتے ہیں۔ خیر، ان کی مرضی۔
نیز یہاں غامدی صاحب نے حدیث کا حوالہ جس انداز میں دیا ہے، اس سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں غیر مدخولہ بیوہ کے عدت نہ ہونے کی بات کی گئی ہے، حالانکہ اس میں صرف اس بات کا ذکر ہے کہ حاملہ بیوہ کی عدت وضع حمل تک ہے۔ کیا اسے تلبیس کہاجاسکتا ہے؟
غامدی صاحب اور ان کے شاگردوں کی سادہ فکری یہ ہے کہ وہ عدت کا بس ایک ہی مقصد فرض کیے ہوئے ہیں اور اسی کو عدت کا سبب یا علت مان بیٹھتے ہیں، حالانکہ اگر یہی عدت کا واحد مقصد ہوتا تو یہ مقصد ایک دفعہ حیض آنے سے بھی پورا ہوسکتا تھا اور اس صورت میں تین دفعہ حیض آنے تک انتظار کی کوئی ضرورت ہی نہ ہوتی۔ پھر وہ عدت کا یہ مقصد کیسے بھول گئے کہ اس کولنگ آف کی مدت میں فریقین اپنے اپنے موقف پر ٹھنڈے دل سے نظرِ ثانی کرکے اگر رجوع کرنا چاہیں، تو کرسکیں گے؟
عدت کے بہت سارے مقاصد اور حکمتوں میں ایک یہ ہے کہ میاں بیوی کو واپس ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا موقع مل جائے۔ کتنی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ طلاق دے چکنےیا لے چکنے، کے بعد دونوں ہی کو پشیمانی ہوتی ہے اور دونوں اپنی راے تبدیل کرلیتے ہیں۔ اسی لیے عدتِ وفات کے برعکس طلاق رجعی کی عدت میں عورت کےلیے بناؤ سنگھار کو پسند کیا گیا ہے تاکہ رجوع کے امکانات بڑھ جائیں۔
حمل ٹسٹ کے ذریعے عدت کے خاتمے کا فتوی دے کر غامدی صاحب اور ان کے متبعین بہ ظاہر عورتوں کے ساتھ ہمدردی جتانا چاہتے ہیں لیکن ان کی نظر غالباً اس پہلو پر نہیں گئی کہ عدت کے دوران میں عورت کی رہائش اور اس کے اخراجات کی ذمہ داری شوہر پر ہی ہوتی ہے (اور یہی امر بعض اوقات فریقین کے درمیان رجوع کا باعث بن جاتا ہے)۔ اگر کسی بے حمیت شوہر کو غامدی صاحب کے فتوی کی خبر مل گئی، تو وہ طلاق دینے کے ساتھ ہی عورت کا حمل ٹسٹ کروا کر اس سے فوراً جان چھڑا لے گا۔خاندانوں کو باہم جوڑے رکھنا اور گھروں کو بکھرنے سے روکنا بھی تو شریعت کے مقاصد میں سے ہے۔ پتہ نہیں ان مقاصد کی طرف ہمارے ان متجددین کی نظر کیوں نہیں جاتی؟
بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن کیوں ہے؟
پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھ دی، تو ثریا تک کھڑی کی گئی دیوار بھی ٹیڑھی ہی ہوگی۔ استبراء رحم کو عدت کا سبب قرار دینے کے بعد یہ سوال تو اپنی جگہ قائم تھا کہ مطلقہ کو تین حیض تک کیوں انتظار کرنا پڑتا ہے جبکہ ایک حیض سے بھی حمل نہ ہونے کا علم ہوسکتا تھا۔ پھر اگر یہ عذر پیش کیا جائے کہ ایک دفعہ خون آنے کے بعد بھی حمل کا امکان ہوسکتا تھا (اگرچہ یہ محض عقلی
گھوڑا ہی ہے)، تو کیا دوسرا حیض اس مقصد کےلیے کافی نہیں تھا کہ تیسرے حیض تک بھی انتظار کرنا لازم کردیا گیا؟
پھر بیوہ کی عدت تو اس سے بھی لمبی ہوگئی، تو عقلی گھوڑے کو چابک رسید کرتے ہوئے حسن صاحب نے پوری قطعیت کے ساتھ ایک اور دعوی کیا: ”یہ اضافہ اِس لیے ہوا ہے کہ مطلقہ کو تو ایسے طہر میں طلا ق دینے کی ہدایت ہے، جس میں زن و شو کا تعلق قائم نہ ہوا ہو، مگرشوہر کی وفات کی صورت میں چونکہ یہ ضابطہ بنانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا احتیاطاً بیوہ کی عدت مطلقہ کے مقابلے میں ایک ماہ دس دن زیادہ مقرر کی ہے۔“
اب پوچھنے والا یہ کیوں نہ پوچھے کہ یہی مقصد چار ماہ نو دن، چار ماہ پانچ دن، یا چار ماہ سے بھی تو حاصل ہوسکتا تھا، پھر چار ماہ دس دن ہی کیوں؟
یہ سوال محض زچ کرنے کےلیے نہیں ہے، بلکہ اس سے اس بات کی طرف توجہ دلانی مقصود ہے کہ منصوص حکم کو جوں کا توں ماننا لازم ہے، یہ امر تعبدی ہے ۔ سبب، علت اور حکمت کی بات اس منصوص حکم کو غیر منصوص امر تک لے جانے یا نہ لے جانے کےلیے ہوتی ہے۔ یہ غامدی صاحب اور ان کے متبعین کی بنیادی اصولی غلطی ہے۔
ابدی شریعت یا غامدی صاحب کا فہم شریعت؟
عدت کے بارے میں غامدی صاحب کے فہمِ قرآن کو عینِ قرآن قرار دیتے ہوئے حسن صاحب فرماتے ہیں:
”عدت کے بارے میں یہ قرآنِ مجید کے احکام ہیں۔ اِن کی نوعیت اللہ کی ابدی شریعت کی ہے، جس کی تعمیل لازم ہے۔ اِن سے انحراف احکام الہٰی کی خلاف ورزی کے مترادف ہےاور عنداللہ مستوجب سزا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو اِن کی پابندی کرنی چاہیے اور اِن سے روگردانی کی راہ نہیں ڈھونڈنی چاہیے۔“
ان اقوالِ زرّیں کے فوراً بعد حسن صاحب ایک شاندار دعوی پیش کرتے ہیں:
”اِن کے مطالعے سے یہ بھی واضح ہے کہ اِن کی خلاف ورزی کے معاملات میں شریعت نے خاموشی اختیار کی ہے۔“
یہاں ایک لمحے کےلیے رک کر پوچھیے کہ اگر ایسا ہی ہے، تو پھر آپ کون ہوتے ہیں ان امور میں اپنی راے دینے والے جن میں ”شریعت نے خاموشی اختیار کی ہے“؟ کیا ایسے امور میں احکام بیان کرکے آپ شریعت سازی کے مرتکب نہیں ہورہے؟ جب شریعت خاموش ہے، تو آپ بھی خاموش کیوں نہیں رہتے؟
اس سے آگے حسن صاحب نے سوالات کی ایک فہرست قائم کی ہے۔ پہلے وہ سوالات ملاحظہ کریں، پھر ہم اس پر تبصرہ کریں گے۔ فرماتے ہیں:
”جب کہ انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بعض اوقات غفلت اورکم علمی کے باعث یا غصے، اشتعال اور ردِ عمل میں آ کر حدودِ الہٰی کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور عدت کے دوران میں نکاح کا اقدام کر لیتے ہیں۔ ایسی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ شریعت کے حکم کی خلاف ورزی پر مبنی ایسے نکاح کی قانونی حیثیت کیا ہو گی اور اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عملی مسائل سے کیسے نمٹا جائے گا ؟ کیا ایسےنکاح کوکالعدم قرار دیا جائے گا؟ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو پھر عدت کی تکمیل کی کیا صورت ہو گی؟ حمل کی صورت میں بچے کے نسب کا کیسے تعین ہو گا؟ نگہداشت کے معاملات کس کی ذمہ داری ہوں گے؟ کیا ایسے نکاح کو جائز قرار دیا جائے گا؟ اِس صورت میں خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے کیا کوئی سزا مقرر کی جائے گی؟ اگر عورت حاملہ ہو گی تو اُس کے حمل کو سابقہ شوہر سےمنسوب سمجھا جائے گا یا نئے شوہر سے؟“
ان سارے سوالات کا ایک سیدھا سادہ جواب تو اوپر ذکر کیا گیا: کہ جب آپ کے نزدیک ان امور میں شریعت خاموش ہے، تو پھر آپ بھی خاموش ہوجائیے اور لوگوں کو ان سوالات سے اپنی مرضی کے مطابق نمٹنے دیں۔ جب آپ کے نزدیک شریعت خاموش ہی ہے، تو وہ نہ آپ سے، نہ ہی کسی اور سے کوئی تقاضا کررہی ہے۔ اور اگر آپ ادھر ادھر سے استدلال کرکے کوئی حکم بیان کرنے کےلیے کسی طرح گنجائش پیدا کر ہی لیتے ہیں، تو اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ شریعت خاموش نہیں ہے اور آپ کا پہلا مفروضہ غلط تھا۔