ریاست و فرد اور فکرِ غامدی کا تضاد

Published On November 22, 2023
نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

نظریہ ارتقا اور غامدی صاحب

محمد حسنین اشرف حالیہ ویڈیو میں غامدی صاحب نے نظریہ ارتقا پر بات کرتے ہوئے ایک بہت ہی صائب بات فرمائی کہ نظریہ ارتقا سائنس کا موضوع ہے اور اسے سائنس کا موضوع ہی رہنا چاہیے۔ دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ اپنے بچوں کو سائنس کی تحلیل سکھانی چاہیے۔ یہ بات بھی صائب ہے...

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

تصوف پر جناب احمد جاوید صاحب اور جناب منظور الحسن صاحب کے تبصرے پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب محترم جناب احمد جاوید صاحب نے تصوف سے متعلق حال ہی میں اس رائے کا اظہار فرمایا ہے کہ فقہ و کلام وغیرہ کی طرح یہ ایک انسانی کاوش و تعبیر ہے وغیرہ نیز اس کے نتیجے میں توحید و نبوت کے دینی تصورات پر ذد پڑی۔ ساتھ ہی آپ نے تصوف کی ضرورت کے بعض پہلووں پر...

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

تصوف پر جناب منظور الحسن صاحب کے ایک اعتراض کا جائزہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب مکتب فراہی کے منتسبین اہل تصوف پر نت نئے الزامات عائد کرنے میں جری واقع ہوئے ہیں۔ یہ سلسلہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب و جناب غامدی صاحب سے گزرتا ہوا اب ان کے شاگردوں میں بھی حلول کررہا ہے۔ جس غیر ذمہ داری سے مولانا اصلاحی و غامدی صاحبان اہل تصوف...

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

شریعت اور فقہ میں فرق نہیں ہے

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب   کچھ دن قبل اس موضوع پرفیسبک پر مختصر پوسٹ کی تھی کہ یہ فرق غیرمنطقی، غیر اصولی اور غیر ضروری ہے۔ جسے آپ شریعت کہتے ہیں وہ آپ کا فہم شریعت ہی ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مثال کے طور پر غامدی صاحب نے اپنے تئیں شریعت کو فقہ کے انبار...

۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

ڈاکٹر زاہد مغل

غامدی صاحب نہایت دلچسپ مفکر ہیں، انکے نزدیک ریاست کو یہ حق حاصل نہیں کہ مذہب کی بنیاد پر (سواۓ دو معاملات، اقامتِ صلاۃ اور زکوۃ) افراد پر جبر کرے، مثلا انکے نزدیک ریاست افراد سے پردہ کرنے کا تقاضا نہیں کرسکتی۔ مگر دوسری طرف یہ ریاست کا حق اس قدر وسیع مانتے ہیں کہ اپنے مملکت کے تمام باشندوں کو مجبور کرسکتی ہے کہ وہ سب ایک ہی قسم کا بارہ سالہ تعلیمی نظام اختیار کریں اور اس ایک علاوہ جتنے تعلیمی نظام ہیں ریاست کو حق ہے کہ انہیں بذریعہ جبر و قانون ختم کردے۔ ہے نا مزے کا تضاد، یعنی جہاں ”مذہب کی بنیاد” پر جبر کرنے کی بات ہو وہاں ازروۓ قرآن ریاست کو اسکا حق حاصل نہیں (یعنی اس معاملے میں غامدی صاحب انارکسٹ مفکر بن جاتے ہیں جو ریاست سے فرد کی زندگی میں مداخلت کا ہر قسم کا حق چھین لینا چاہتے ہیں) مگر جونہی حاضر و موجود (سرمایہ دارانہ) نظام کی اطاعت کی بات آتی ہے غامدی صاحب کمیونیٹیرین مفکرین کی طرح ریاست کے اس حق کو فرد کی زندگی کے ہر شعبے پر پھیلا دینے کی شدید خواھش رکھتے ہیں۔

آخر اس دلچسپ تضاد کا راز کیا ہے؟ اسکی وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب حاضر و موجود ادارتی صف بندی کو غیر اقداری (نیوٹرل) سمجھے بیٹھے ہیں، انکے نزدیک تنویری  فکر انسانی عقل کے فطری ارتقاء کا اعلی اور غیر اقداری اظہار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مجوزہ بارہ سالہ تعلیمی نظام (جو درحقیقت تنویری علوم کا مجموعہ ہے) کے جبر کو تو فطری اور جائز سمجھتے ہیں البتہ مذہبی نظام تعلیم کے جبر کو غیر فطری۔ اسی لئے وہ مذہب کی بنیاد پر جبر کو ریاست کا جانبدارانہ رویہ قرار دیکر غلط سمجھتے ہیں مگر حاضر و موجود علمیت کی بنیاد پر کئے جانے والے جبر کو غیرجانبدارانہ (گویا یہ فرد کی فطری صلاحیتوں کو اسکی حالت اصلی پر نمو دینے کا طریقہ ہے)۔ یہ اسی فکری خلجان کا نتیجہ پے کہ غامدی صاحب کے یہاں (قدیم معتزلہ کی طرح) مسلم اور کافر کے درمیان ایک عجیب وغریب کیٹیگری پائی جاتی ہے جو انکے نزدیک مسلم بھی نہیں ہوتی اور اسے کافر کہنا بھی جائز نہیں (گویا یہ کسی غیرجانبدار پوزیشن پر برجمان انفرادیت ہے)۔

غامدی صاحب (اور انکے فکری ہمنوا وحید الدین خان صاحب) کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ حضرات تنویری مفکرین کے اس پروپیگنڈے سے سخت متاثر و خائف ہیں کہ مذھبی ریاست چونکہ خیر کے معاملے میں جانبدار ہوتی ہے لہذا یہ دیگر تصورات خیر کی بیخ کنی کرتی ہے جبکہ سیکولر ریاست غیر جانبدار، لہذا ریاست کو سیکولر ہونا چاہئے۔ یہ حضرات سیکولر لوگوں کے اس جھوٹے پراپیگنڈے کا شکار ہوکر مذہبی ریاست کو بھی سیکولر ریاست کی طرح خیر کے معاملے میں غیرجانبدار ثابت کرنے کے جوش میں ریاست سے مذہب کی بنیاد پر جبر کرنے کا حق چھین لینا چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سادہ لوح لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس کا نتیجہ ریاست کو غیر جانبدار بنانا نہیں بلکہ تنویری ڈسکورس کا پابند بنانا ہوتا ہے جو بذات خود جاہلیت کی طرف ایک جدید جانبدارانہ رویہ ہے۔ حضرت عمر (رض) کا آبِ زر سے لکھا جانے لائق قول ہے: ”جوشخص جاھلیت سے واقف نہیں وہ اسلام کی کڑیاں بکھیر کر رکھ دے گا”۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…