اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

Published On October 31, 2024
۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...

تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد

تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد

ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب تلخیص : زید حسن رمضان المبارک کی بابرکت ساعات میں امتِ مسلمہ روزے اور عبادات میں مشغول ہے ، لیکن سوشل میڈیا پر چند ایسی آوازیں گاہے بگاہے اٹھتی نظر آتی ہیں جن میں ان عبادات کا انکارکیا گیا ہے جن پر امتِ مسلمہ ہزاروں سالوں سے عمل کرنی چلی...

ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت

ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت

سمیع اللہ سعدی علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فتاوی شامی میں متعدد مقامات پر مسئلہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :۔و ھذا مما یعلم و یکتم یعنی یہ مسئلہ سیکھنا تو چاہیے ،لیکن عممومی طور پر بتانے سے گریز کیا جائے ۔فقاہت اور دین کی گہری سمجھ کا یہی تقاضا ہے کہ کتابوں میں...

علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی

علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب   جناب غامدی صاحب علم کلام پر ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ علم بے معنی و غیر ضروری ہے اس لئے کہ یہ فلسفے کے اس دور سے متعلق ہے جب وجود کو علمیات پر فوقیت دی جاتی تھی، علم کلام وجودی فکر والوں کے طلسم خانے کا جواب دینے کے لئے وضع کیا...

ڈاکٹر محمد مشتاق

ردِّ عمل کی نفسیات

نائن الیون کے بعد پاکستان میں بم دھماکوں اورخود کش حملوں کا بھی ایک طویل سلسلہ چل پڑا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے علاوہ سوات اور دیر میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کیے گئے۔ جنرل مشرف اور حکومت کا ساتھ دینے کی پاداش میں غامدی صاحب اور ان کے ساتھیوں کو بھی نشانہ بنانے کی کوششیں کی گئیں اور ان کے شاگرد رشید جناب سید منظور الحسن قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئے۔ ڈاکٹر فاروق صاحب کو، جو فوجی آپریشن کے دوران میں بھی مسلسل سوات جا کر یونیورسٹی کے پروجیکٹ پر کام کرتے رہے،2 اکتوبر 2010ء کو ان کے کلینک واقع مردان میں شہید کیا گیا۔ غامدی صاحب کو بھی ملک چھوڑ کر جانا پڑا۔ چنانچہ پہلے وہ کچھ عرصہ ملیشیا میں مقیم رہے اور پھر امریکا میں مستقل اقامت اختیار کرلی۔
پاکستان میں تشدد اور دہشت گردی کی لہر اس وقت اپنی انتہا کو پہنچی جب 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے بچوں اور اساتذہ کا قتلِ عام کیا۔ اس کے بعد ایک جانب ریاست نے پوری قوت استعمال کرنے کا ارادہ کیا اور نہ صرف فوجی آپریشن میں تیزی لائی گئی، بلکہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کےلیے 7 جنوری 2015ء کو آئین میں اکیسویں ترمیم بھی کرلی۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں غامدی صاحب نے ’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘ کے عنوان سے کالم لکھا جو 22 جنوری 2015ء کو روزنامہ جنگ میں شائع کیا گیا۔

ریاستی پالیسی کا اظہاریہ

اس پس منظر سے معلوم ہوا کہ جسے جناب غامدی جوابی بیانیہ کہہ رہے ہیں، وہ دراصل ریاستی پالیسی کا اظہاریہ ہے اور اس حیثیت سے اس میں اور بعض نامی گرامی علماے کرام کے دستخطوں سے جاری کے گئے اعلامیہ ’پیغامِ پاکستان‘ میں کوئی فرق نہیں کہ دونوں کے ذریعے ریاست نے مذہب کے نام پر جاری تشدد اور دہشت گردی کا نظریاتی سطح پر مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ ہو یا علماے کرام کا پیغامِ پاکستان، کوئی بھی از دل خیزد نہیں تھا اور اس وجہ سے کسی کو بھی بر دل ریزد نہیں کہا جاسکتا۔ سرکاری پروپیگنڈا مشین کا شور و غوغا ہے اور بس۔
’کافر‘ اور ’غیر مسلم‘ کے فرق کا مسئلہ ہی لے لیجیے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور کی درج ذیل تحریر میں غامدی صاحب اتمامِ حجت کے تصور کو ماننے کے باوجود بلاغت کا پورا زور لگا کر یہ بتاتے ہیں کہ جن غیر مسلموں تک رسول اللہ ﷺ کی دعوت پہنچی اور انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا، ان کا ٹھکانہ جہنم ہے

۔”ہر وہ غیر مسلم جسے نبی ﷺ کی دعوت پہنچی اور اس نے اس سے بے پروائی کی یا جان بوجھ کر اسے رد کردیا، اس نے یقیناً کفر کیا اور کفر کی سزا، قرآن مجید کی رو سے، جہنم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل جیسی نعمت اس لیے عطا نہیں فرمائی کہ وہ دنیوی معاملات میں تو اس سے پوری طرح کام لے اور خود اس کی ہدایت کے معاملے میں اسے معطل کردے۔کسی شخص کو اگر یہ بتایا جاتا ہے کہ عرب کے ایک امی ﷺ نے دعوی کیا تھا کہ وہ اس عالم کے پروردگار کی طرف سے پیغامِ ہدایت لے کر آیا ہے اور یہ پیغامِ ہدایت آج بھی قرآن مجید کی صورت میں ا س زمین پر موجود ہے، تو عقل کا تقاضایہی ہے کہ وہ سب کام چھوڑ کر اس پر غور کرے۔ یہ کوئی معمولی خبر نہیں ہے کہ اس نےسنا اور نظر انداز کردیا۔ یہ اس زمین پر انسان کےلیے سب سے بڑی خبر ہے۔اسے چاہیے کہ وہ اس خبر کو پوری توجہ کے ساتھ سنے اور پوری دیانت داری کے ساتھ اس کے بارے میں ردّ و قبول کا فیصلہ کرے۔ وہ اگر اس خبر سے بے پروائی برتتا ہے تو اس کے معنی یہی ہیں کہ وہ درحقیقت عالم کے پادشاہ سے بے پروائی برت رہا ہے۔ اس کے بعد اسے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ قیامت کے دن اس پادشاہ کو اس کی کچھ بھی پروا ہوگی۔ وہ اگر اس دن کمال بے نیازی کے ساتھ اسے جہنم میں ڈالنے کا حکم دے گا، تو اس پر وہ یقیناً شکایت کا حق نہیں رکھتا۔ یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ اس کی سزا جہنم ہی ہونی چاہیے۔ عقل کا قطعی فیصلہ یہی ہے اور کوئی انصاف پسند آدمی اسے ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔”۔

اگلے مرحلے میں جب ریاستی پالیسی تبدیل ہوگئی اور جنرل پرویز مشرف کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا دور آگیا، تو غامدی صاحب اس کے قائل ہوگئے کہ کسی کو غیر مسلم تو قرار دیا جاسکتا ہے، لیکن کافر نہیں، کیونکہ صرف کافر انھی کو کہا جاسکتا ہے جن پر رسول نے خود اتمامِ حجت کیا ہو

۔”اسلامی شریعت کے مطابق کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جاسکتا، حتی کہ کوئی اسلامی ریاست بھی کسی کی تکفیر کا حق نہیں رکھتی۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتی ہے کہ اسلام سے واضح انحراف کی صورت میں کسی شخص یا گروہ کو غیر مسلم قرار دے۔”۔

اس کے بعد جب نائن الیون ہوا اور ریاست اپنے مذہبی بیانیے سے یکسر منحرف ہوگئی، تو غامدی صاحب نے یہ موقف اختیار کیاکہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور یہ کہ جو شخص خود کو مسلمان کہتا ہو، اسے غیرمسلم بھی نہیں قرار دیا جاسکتا، خواہ اس کے عقائد قطعی طور پر اسلام کے مسلّمہ عقائد سے کے منافی ہوں

۔”اِن کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اِس لیے اُنھیں غیرمسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِن نظریات و عقائد کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اِس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں اِن کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور اُن کے ساتھ تمام معاملات اُسی طریقے سے ہو ں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ اُن کی غلطی اُن پر واضح کریں، اُنھیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، اُن کے نظریات و عقائد میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔”۔

ان تینوں مرحلوں میں ان کا استدلال اتمام حجت کے نظریے سے ہی تھا اور تینوں مرحلوں میں وہ اپنی بات کو پوری قعطعیت کے ساتھ (’ہر شخص جانتا ہے‘) دین کے واحد صحیح حکم کے طور پر پیش کرتے تھے۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ غامدی صاحب کے فکری ارتقا کی منزلیں ہیں کیونکہ اس بات کی کوئی توجیہ نہیں کی جاسکتی کہ ان تینوں مرحلوں میں ہر مرحلے پر ان کے فکری ارتقا کا سفر عین اسی سمت میں کیوں ہوا جو سمت ریاست نے اپنی پالیسی کےلیے چنی تھی؟
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ کوئی دینی موقف نہیں، بلکہ اسلام اور سیاست کے متعلق ریاست کی رائج الوقت پالیسی کا اظہاریہ ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…