اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط دوم

Published On October 31, 2024
اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

ڈاکٹر محمد مشتاق ردِّ عمل کی نفسیات نائن الیون کے بعد پاکستان میں بم دھماکوں اورخود کش حملوں کا بھی ایک طویل سلسلہ چل پڑا اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کے علاوہ سوات اور دیر میں بھی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کیے گئے۔ جنرل مشرف اور حکومت کا ساتھ...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط سوم

ڈاکٹر محمد مشتاق بادشاہ کے بجائے بادشاہ گر یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان اسلامک فرنٹ کے تجربے کی ناکامی کے بعد بھی غامدی صاحب اور آپ کے ساتھی عملی سیاست سے یکسر الگ تھلگ نہیں ہوئے اور اگلے تجربے کےلیے انھوں نے پاکستان تحریکِ انصاف اور عمران خان کی طرف رخ کیا۔ ڈاکٹر...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق اتمامِ حجت اور تاویل کی غلطی ۔1980ء کی دہائی کے وسط میں جناب غامدی نے ’نبی اور رسول‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو اس وقت میزان حصۂ اول میں شائع کیا گیا۔ یہ مضمون دراصل مولانا اصلاحی کے تصور ’اتمامِ حجت‘ کی توضیح پر مبنی تھا اور اس میں انھوں نے مولانا...

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط چہارم

اسلام اور ریاست: غامدی صاحب کے ’جوابی بیانیے‘ کی حقیقت : قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق ۔22 جنوری 2015ء کو روزنامہ جنگ نے’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘ کے عنوان سے جناب غامدی کا ایک کالم شائع کیا۔ اس’جوابی بیانیے‘ کے ذریعے غامدی صاحب نے نہ صرف ’دہشت گردی‘کو مذہبی تصورات کے ساتھ جوڑا، بلکہ دہشت گردی پر تنقید میں آگے بڑھ کر اسلامی...

فہم نزول عیسی اور غامدی صاحب

فہم نزول عیسی اور غامدی صاحب

حسن بن علی غامدی صاحب نے بشمول دیگر دلائل صحیح مسلم کی حدیث (7278، طبعہ دار السلام) کو بنیاد بناتے ہوئے سیدنا مسیح کی آمد ثانی کا انکار کیا ہے. حدیث کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ رومی...

تراث ، وراثت اور غامدی صاحب : حصہ دوم

تراث ، وراثت اور غامدی صاحب : حصہ دوم

حسن بن علی اسی طرح تقسیم میراث کے دوران مسئلہ مشرکہ (حماریہ یا ہجریہ) کا وجود مسلم حقيقت ہے جس کے شواہد روایتوں میں موجود ہیں لیکن غامدی صاحب (سورۃ النساء آيت 12 اور آیت 176) كى خود ساختہ تفسیر کے نتیجے میں یہ مسئلہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتا. اس مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ...

ڈاکٹر محمد مشتاق

اتمامِ حجت اور تاویل کی غلطی

۔1980ء کی دہائی کے وسط میں جناب غامدی نے ’نبی اور رسول‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جو اس وقت میزان حصۂ اول میں شائع کیا گیا۔ یہ مضمون دراصل مولانا اصلاحی کے تصور ’اتمامِ حجت‘ کی توضیح پر مبنی تھا اور اس میں انھوں نے مولانا اصلاحی کی طرح یہ قرار دیا تھا کہ رسول کےلیے غلبہ ضروری ہوتا ہے جبکہ نبی کےلیے ضروری نہیں ہوتا۔
تاہم یہ بات اہم ہے کہ جس وقت غامدی صاحب نے نبی اور رسول والا مضمون لکھا، تو اس وقت مولانا اصلاحی ہی کی طرح غامدی صاحب نے بھی مولانا مودودی کے تصورِ دین سے کسی خاص اختلاف کا اظہار نہیں کیا، بلکہ اس زمانے کی ان کی تحریرات میں عموماً مولانا مودودی کے تصورِ دین ہی کی جھلک نظر آتی ہے۔
البتہ 1990ء کی دہائی تک جاتے جاتے انھوں نے مولانا مودودی کے تصورِ دین اور بالخصوص نظمِ اجتماعی اور سیاست کے متعلق ان کے موقف سے الگ راہ اختیار کرنے کی ٹھان لی۔ چنانچہ اس دور میں ان کا ایک اہم مضمون ’تاویل کی غلطی‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اس مضمون میں پہلی بار انھوں نے مولانا اصلاحی کے تصور ’اتمامِ حجت‘ کو بنیاد بنا کر غلبۂ دین اور اقامتِ دین کے تصورات کو ہدفِ تنقید بنایا۔ 

غامدی صاحب کا منشورِ انقلاب

تاہم یہاں اس تاریخی حقیقت کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے بعد بھی ’سیاسی اسلام ‘ کے ساتھ ان کا رومان باقی رہا۔ چنانچہ نہ صرف عملی سیاست میں 1993ء کے عام انتخابات کے موقع پر قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ پاکستان اسلامک فرنٹ کے تجربے میں ان کا حصہ رہا اور ان کے ساتھی ڈاکٹر محمد فاروق خان مرحوم نے اس پلیٹ فارم سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا ، بلکہ غامدی صاحب نے پس چہ باید کرد اور منشور اسلامی لکھ کر، اور اپنے شاگردِ رشید جناب معز امجد سے شرح منشورِ انقلاب لکھوا کر، دینی سیاست کے ایک خاص انداز کو نظریاتی کمک بھی بہم پہنچائی۔
پاکستان اسلامک فرنٹ کی ناکامی کے بعد اور غامدی صاحب کے ’اسلامی انقلاب‘ پر بنا کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق صاحب نے پاکستان میں اسلامی انقلاب کی جدوجہد: غلطی ہاے مضامیں کے عنوان سے کتاب لکھی اور یہ راے اختیار کی کہ علماے دین کو خود سیاست میں آنے کے بجاے ادارے بنانے چاہئیں اور سیاست دانوں کے گرو اور مربی کی حیثیت سے ان کو متاثر کرکے ان کے ذریعے تبدیلی لانی چاہیے۔

التزامِ جماعت اور دین کا صحیح تصور

اسی دور کے آس پاس غامدی صاحب نے ’دین کا صحیح تصور‘ کے عنوان سے کتابچہ لکھ کر اپنے تئیں مولانا مودودی کے تصورِ دین کا جواب دے دیا۔ غامدی صاحب کا یہ مضمون اب ان کی کتاب میزان کے مقدمے’دین حق‘ کے عنوان سے شائع کیا جاتاہے۔
اسی عرصے میں غامدی صاحب کے شاگردوں کا التزامِ جماعت کے تصور پر ایک تفصیلی مباحثہ مولانا گوہر رحمان (م: 2003ء) کے ساتھ ہوا۔ یہ بحث ماہنامہ اشراق، فروری 1994ء، میں غامدی صاحب کے بھانجے جناب ساجد حمید کے ایک مضمون سے شروع ہوئی، جس پر مولانا گوہر رحمان نے تفصیلی تنقید کی۔ اس کے بعد غامدی صاحب کے متعدد شاگردوں نے مولانا کو جواب دینے کی ٹھان لی۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ مولانا گوہر رحمان جیسے جلیل القدر عالم کے ساتھ خود مکالمہ کرنے کے بجاے غامدی صاحب نے اپنے نوجوان شاگردوں کو آگے کردیا۔ مولانا کا بڑا پن تھا کہ انھوں نے اس کے باوجود مکالمہ آگے بڑھایا، لیکن بحث منطقی انجام تک اس لیے نہیں پہنچ سکی کہ جن کے موقف پر بحث تھی (غامدی صاحب)، انھوں نے خود بحث میں حصہ لینے سے پہلو تہی کی۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…