وحی و عقل ، چند قابلِ لحاظ پہلو

Published On November 21, 2023
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

ڈاکٹر زاہد مغل

غامدی صاحب کا “عقل اور وحی” کے تعلق پر مبنی ایک  پروگرام دیکھا جس میں وہ سائلین کے ساتھ اسی بحث میں پھنسے رہے کہ عقل پرائمری سورس آف علم ہے یا وحی اور پوری گفتگو عقل اور انسان سے متعلق چند غلط مفروضات پر مبنی تھی۔ مذھب اور عقل کے تعلق پر گفتگو کرتے ہوئے چند باتوں کا خیال رکھنا لازم ہے
انسان ایک تاریخی و سماجی وجود ہے نہ کہ مجرد۔ اس کا مطلب یہ کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ تمام تعلقات و تصورات سے منقطع ایک “مجرد فرد” کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ خدا کیا چاہتا ہے۔ انسان کی تاریخ انبیاء کی تاریخ ہے، انسانیت کا آغاز ایک پیغمبر سے ہوا جس نے اپنی اولاد کو اپنے “وجود” (قول، فعل، جذبات) سے حق منتقل کیا اور اس کی اولاد نے اگلوں کو منتقل کیا۔ اس سلسلے میں جب ضرورت سمجھی گئی ایک نئے نبی کو بھیج دیا گیا۔ الغرض انسانوں کو راہنمائی کے بغیر کبھی نہیں چھوڑا گیا، انسانوں پر ایسا کوئی وقت نہیں گزرا جب حق کلیتا ان سے گھو گیا ہو اور اسے پہچاننے اور پہنچانے والا کوئی انسان نہ بچا ہو۔
جدید ڈسکورس میں “عقل” کا نام لے کر جس چیز کی گفتگو کی جاتی ہے انسان اس سے وسیع تر مفہوم کا حامل ہے (اس تصور عقل پر یہاں گفتگو کا محل نہیں) اور مذہب انسان کو اس کے کلی وجود کے ساتھ اپیل کرتا ہے۔ اللہ کا نبی ایک انسان ہوتا ہے، جو خوش بھی ہوتا ہے اور غمگین بھی، اسے راحت بھی محسوس ہوتی ہے اور تکلیف بھی، اس کی بیوی بچے بھی ہوتے ہیں اور دوست و دشمن بھی، وہ امن میں بھی رہتا ہے اور جنگ بھی کرتا ہے، اسے سکون بھی میسر ہوتا ہے اور اس پر خوف بھی لاحق ہوتا ہے۔ یہ ہے “علم کا اولین ماخذ”، ایک جیتا جاگتا معیاری انسان نہ کہ محض چند مجرد معیاری عقلی اصول۔ انسان اپنے مجموعی وجود کے ساتھ دعوت کا مستحق ہے اور اس کا بندوبست بھی ایسے ہی مجموعی وجود کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔ نبی اپنے اس “کلی وجود کے ساتھ” انسان کو حق کی دعوت دیتا ہے اور لوگ اس کے اس “کلی وجود” کو دیکھ کر اپنے کلی وجود کے ساتھ اس کی طرف لپکتے ہیں، نہ کہ محض اس کی “منطقی” (دماغی عقلیت سے متعلق) باتوں کو دیکھ کر۔ حق کی پہچان کرانے کا واحد، حتمی و کلی معیار دماغی عقلیت نہیں ہے بلکہ عمل کی پختگی اس سے بڑھ کر ہے، زیادہ لوگ رسول اللہﷺ اور صحابہ کے عمل کو دیکھ کر مسلمان ہوئے۔ اگر کسی حق کی نمائندگی کرنے والے لوگوں کا عمل اس کی سچائی کی دلیل نہیں دے رہا تو بھلا وہ کتنے لوگوں کو اس کی سچائی کا یقین دلا سکیں گے؟
خدا نے وحی کی صورت میں منطق و حساب کے ایسے اصول نازل نہیں کئے جن میں مجرد اصول تو نافذ العمل ہوتے ہیں جبکہ متعلقہ شے پیسو رہتی ہے۔ یعنی انسان کا معاملہ یوں نہیں ہے کہ ٹرائی اینگل تو کچھ نہیں کرتی سب کچھ فیثا غورث کے اصول کرتے ہیں جو بس ٹرائی اینگل کی حقیقت کو واضح کردیتے ہیں۔ چنانچہ انسان اور اس کی عقل کا معاملہ یوں نہیں ہے کہ عقل اپنے سے باہر موجود انسان اور حقیقت سے متعلق کچھ مجرد اصولوں کو “واضح” کرتی چلی جاتی ہے اور بس، نہیں ایسا نہیں ہے۔ جنہوں نے انسانی عقل کو یوں پہچانا انہوں نے انسانی عقل اور انسان دونوں کو نہیں پہچانا۔
عقل کے فنکشنل ہونے کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے سے ماقبل چند تصورات کو سچائی کے طور پر قبول کرتی ہے، چاہے اس کا سورس کوئی روایت ہو، خود انسان کی اپنی خواہشات ہوں اور یا پھر خدا کے پیغمبر کی بات۔ جو عقل کائنات کے بادشاہ کی انکاری ہے، اس کے سامنے یہ مقدمہ پیش نہیں کیا جائے گا کہ چلو آؤ وحی کو “مجرد عقل” پر جانچتے ہیں، ہرگز نہیں بلکہ اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ یہ بتاؤ کہ جس بت کی تم پوجا کررہے ہو اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا وہ انسان کو اس کی حقیقت سے متعلق تسلی بخش جواب دیتا ہے؟ اسے واضح کیا جائے گا کہ تم اس جھانسے میں ہو کہ تم نے کوئی پوزیشن نہیں لی ہوئی جبکہ سچ یہ ہے کہ تم نے موجودہ سسٹم اور علمیت کے سارے مفروضوں کو قبول کیا ہوا ہے۔ کافر کے ساتھ اولین بحث یہ ہے کہ تم کفر پر یعنی غلط جگہ کھڑے ہو۔ اس کے ساتھ تعلق مکالمے (ڈائیلاگ) کا نہیں ہے بلکہ دعوت (مانولاگ) کا ہے۔ اس دعوت کے لئے انسان سے متعلق سب ظروف کو استعمال کیا جائے گا، بشمول اس کی دماغی عقل جو کبھی اسے اپیل کرے گی اور کبھی نہیں۔ وحی کو ثانوی حیثیت دے کر کافر کے سامنے کبھی چھوڑ نہیں دیا جائے گا کہ “لو اپنی عقل سے جانچ لو اسے اور یہی درست علمی پیمانہ ہے”۔ مذھب کی سچائی بیان کرنے کے شوق میں مذھب اور مجرد عقل کے نام پر ایک ایسا ڈسکورس کھڑا کردینا جو وحی کی پرائمیسی کو داؤ پر لگا دے، یہ ایک غلط بلکہ خوفناک غلط طرز استدلال ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…