نسخ القرآن بالسنة” ناجائز ہونے پر غامدی صاحب کے استدلال میں اضطراب

Published On September 10, 2024
۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...

تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد

تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد

ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب تلخیص : زید حسن رمضان المبارک کی بابرکت ساعات میں امتِ مسلمہ روزے اور عبادات میں مشغول ہے ، لیکن سوشل میڈیا پر چند ایسی آوازیں گاہے بگاہے اٹھتی نظر آتی ہیں جن میں ان عبادات کا انکارکیا گیا ہے جن پر امتِ مسلمہ ہزاروں سالوں سے عمل کرنی چلی...

ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت

ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت

سمیع اللہ سعدی علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فتاوی شامی میں متعدد مقامات پر مسئلہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :۔و ھذا مما یعلم و یکتم یعنی یہ مسئلہ سیکھنا تو چاہیے ،لیکن عممومی طور پر بتانے سے گریز کیا جائے ۔فقاہت اور دین کی گہری سمجھ کا یہی تقاضا ہے کہ کتابوں میں...

علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی

علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب   جناب غامدی صاحب علم کلام پر ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ علم بے معنی و غیر ضروری ہے اس لئے کہ یہ فلسفے کے اس دور سے متعلق ہے جب وجود کو علمیات پر فوقیت دی جاتی تھی، علم کلام وجودی فکر والوں کے طلسم خانے کا جواب دینے کے لئے وضع کیا...

ڈاکٹر زاہد مغل

نفس مسئلہ پر جناب غامدی صاحب بیان کے مفہوم سے استدلال وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم ان کا استدلال لفظ “بیان” سے کسی صورت تام نہیں۔ یہاں ہم اسے واضح کرتے ہیں۔

قرآن اور نبی کا باہمی تعلق کس اصول پر استوار ہے؟ کتاب “برھان” میں غامدی صاحب اس سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ تعلق “قرآن کے مبین” ہونے کا ہے اور دلیل سورۃ نحل کی آیت 44 سے دی گئی، اس مفروضے پر کہ بطور مبین نبیﷺ قرآن کے کسی حکم کے ناسخ نہیں ہوسکتے اس لئے کہ بیان اور نسخ متضاد ہیں۔

پھر جب یہ دکھا دیا جائے کہ نسخ بھی علم و عقل کے پیمانے پر بیان ہی ہے اور اہل لغت نے بھی نسخ کے بیان سے خارج ہونے کی کوئی دلیل نہیں دی، تو جواب ملتا ہے کہ سورۃ نحل کی آیت 44 میں تبیین کا مطلب شرح و مراد بتانا نہیں بلکہ کتمان حق کے رویے کے برخلاف قرآن کا “ابلاغ و اظہار” ہے۔ لہذا اس آیت سے نسخ القرآن بالسنة اخذ کرنے کی راہ نہیں۔

ایک لمحے کے لئے فرض کرلیتے ہیں کہ ابلاغ و شرح میں تباین کی ایسی نسبت ہے کہ ان دونوں کو جمع کرنا ممکن نہیں۔ لیکن اس کے بعد سوال یہ ہے کہ اگر سورۃ نحل کی آیت 44 میں تبیین کا مطلب “مانزل الیھم” کا اظہار و ابلاغ ہے، تو قرآن و حدیث کے مابین جس مخصوص معنی والے تعلق پر آپ اصرار کرتے ہیں (یعنی بیان ایک خاص معنی والی شرح) وہ کس آیت سے ماخوذ ہے؟ ظاہر ہے اس کے لئے سورۃ نحل کی یہ آیت پیش نہیں کی جاسکتی کہ یہاں شرح کے معنی کو آپ نے خود ہی روول آؤٹ کرکے استدلال کی بنیاد ختم کردی۔ تو یہ کیسے معلوم ہوا کہ نبی قرآن کے احکام کی ایک خاص مفہوم والی تبیین ہی کرسکتے ہیں؟

اس کا ایک ممکنہ جواب یہ دیا جاسکتا ہے کہ یہ تعلق قرآن کی ان نصوص پر مبنی ہے جہاں کہا گیا کہ نبی کی اتباع و اطاعت کرو نیز جب نبی کوئی حکم دے دیں تو اس کی مخالف جائز نہیں وغیرہ۔ لیکن اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ نبی ایسا ہی حکم دے سکتے ہیں جو آپ کے خاص معنی والا “بیان” ہے نیز یہ کہ اس میں نسخ شامل نہیں ہوسکتا؟ ان دو دعووں کے دلیل کیا ہے؟

ممکنہ طور پر دوسرا جواب یہ دیا جاسکتا ہے یہ حضرات توسعاً ہی سہی سورۃ نحل کی آیت 44 میں تبیین سے شرح مراد لینے کے قائل ہیں۔ اس کا پہلا مطلب یہ ہوا کہ آپ ان دونوں معنی کو ایک ساتھ جمع کرنے کے قائل ہیں اور ان میں تباین کی نسبت نہیں دیکھتے۔ ہم بر سبیل تنزیل آپ کا یہ مفروضہ بھی مان لیتے ہیں کہ بیان میں نسخ شامل نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ نبی نسخ نہیں کرسکتے؟ اس آیت میں تو صرف یہ کہا گیا ہے کہ نبی قرآن کی تبیین کرتے ہیں، اس سے یہ مفہوم کیسے ثابت ہوا کہ اس کے سوا کچھ نہیں کرتے؟ آیت سے آپ کا استدلال تبھی تام ہوسکتا ہے جب آپ دو میں سے کوئی ایک مفروضہ لیں:

الف) یہ آیت قرآن و نبی کے تعلق کے حصر کو لازم ہے

ب) آیت کے مفہوم مخالف سے استدلال کرتے ہوئے بیان کے سوا دیگر امور کی نفی کی جائے

اہل علم پر ان دونوں مفروضوں کا ضعف واضح ہے۔

معلوم ہوا کہ نسخ القرآن بالسنة کی ممانعت میں غامدی صاحب کا اصل استدلال نہ قرآن مجید کی وہ آیات ہوسکتی ہیں جن میں نبی کی اتباع و اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور نہ ہی سورۃ نحل کی آیت 44 ہوسکتی ہے اگرچہ یہ بار بار اس کا حوالہ دیتے ہیں۔ ان کا اصل استدلال یہ دعوی ہے کہ “قرآن چونکہ میزان ہے لہذا سنت اسے منسوخ نہیں کرسکتی کیونکہ کوئی شے اسے تبدیل نہیں کرسکتی”۔ یہ دلیل ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ مبہم بھی ہے۔ ضعف کا پہلو یہ ہے کہ نسخ کو خوامخواہ قرآن کو تبدیل کرنے کے معنی میں فرض کرلیا گیا ہے۔ مبہم ہونے کا پہلو یہ ہے کہ سورة شوری کی متعلقہ آیت میں لفظ میزان اس مفہوم پر تام نہیں جس کے وہ مدعی ہیں اور نہ ہی وہاں قرآن و نبی کا تعلق زیر بحث ہے۔ اس پر ہم پہلے ہی الگ سے بات کرچکے ہیں۔

آپ کا دعوی ہے کہ قرآن میزان ہے جس پر ہر بات کو تولا جائے گا۔ ہم کہتے ہیں کہ ھم نے قرآن پر تول کر اس بات کو جان لیا کہ اگر کسی معاملے میں قرآن میں کوئی معین حکم سرے سے موجود نہ ہو اور وہاں نبیﷺ سے کوئی حکم ملے تو اسے خدا کا حکم سمجھ کر اتباع کرنا واجب ہے۔ اس کیٹیگری کے آپ بھی بصورت اپنے مفہوم والی سنت قائل ہیں۔ اسی تول سے ہمیں یہ معلوم ہوگیا کہ اگر نبی قرآن میں مذکور کسی حکم کے بارے میں یہ بتا دیں کہ کسی حکم سے متعلق خدا کی مراد فلاں اشخاص و صورتوں سے متعلق ہی تھی نیز فلاں زمانے سے متعلق تھی تو نبی کی اس بات کے خدا کی طرف سے ہونے کو قبول کیا جانا پہلی کیٹیگری سے زیادہ آسان ہے۔ آخر اسے غلط کہنے کی دلیل کیا ہے؟ اس پر اگر یہ کہا جائے کہ نبی تو قرآن سے متعلق کوئی ایسا حکم جاری نہیں کرسکتے اس لئے کہ ازروئے قرآن ان کا کردار قرآن کے مبین کا ہے تو یہ سرکلر آرگومنٹ ہے کیونکہ یہ پہلے ہی اسٹبلش کیا جاچکا کہ اس آیت سے یہ استدلال تام نہیں، تبھی تو “قرآن میزان ہے” کی جانب رجوع کیا گیا تھا۔

بشکریہ دلیل

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…