حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
مکتبِ فراہی کے نظمِ قرآن پر احمد جاوید صاحب کی تنقیدی گفتگو
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
ارشادات : احمد جاوید صاحب
ناقل و محرر:محمد اسامہ
نظرِ ثانی و تصحیح: زید حسن
تمہید
مکتب ِفراہی کے تصورِ نظم ِقرآن پر گفتگو کا آغاز کرنا ہے۔ وہ تصورِ نظم جو اپنے تمام اطلاقات کے ساتھ ظاہر ہونے میں غامدی صاحب پر سرِدست تمام ہو گیا۔ اس پر اختصار کے ساتھ باتیں کرتا ہوں تاکہ غلط فہمی پیدا نہ ہو۔ غامدی صاحب نے دین کا ایک تعبیری کُل پیش کیا ہے اور اس کی نوعیت ایسی ہے کہ دین کو جو اس کے تمام اطراف سمیت ایک تعبیر دی ہے وہ اسی تصورِ نظم کی روشنی میں دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ دین کے نام پر کوئی ایسی فکر سرِدست موجود یا مؤثر نہیں جس کو ہم کہہ سکیں کہ دین کو ایک نیا تعبیری کُل فراہم کیا گیا ہے یا دین کو ایک نئے کُل میں سمویا گیا ہے۔ اور یہ جس کو میں تعبیری کل سے تعبیر کرتا ہو، کو اگر ایک یونیورس آف ڈسکورس کے طور پر لیا جائے تو اس یونیورس آف ڈسکورس کو نیاپن غامدی صاحب اور ان کے استاد اصلاحی صاحب کے ہاتھوں فراہم ہوا ہے۔ اور وہ نیا پن ایسا ہے کہ اگر اس تصور کو مجموعی طور پر قبول کیا جائے تو ہماری دینی روایت جو دین کیا ہے ؟ کا جواب فراہم کرتی ہے، وہ ناقابلِ اعتبار ہو جاتی ہے۔ اور ان نئی تعبیرات کو قبول کرنے کا نتیجہ اس کے سوا مجھے معلوم نہیں ہوتا، ذہنی سطح پر بھی اور مشاہدے کے سطح پر بھی کہ گویا دین نے اپنا مکمل تعارف موقوف رکھا ہوا تھا جو اب بیان میں آیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں ہمارے سلف اور ان سے منقول تفسیریں اور تعبیریں نہ صرف یہ کہ اوجھل ہو جاتی ہیں بلکہ غلط قرار پاتی ہیں۔ یعنی دینی روایت کو اپنی مجموعی صورت میں اپنے بنیادی اجزاء سمیت اس تعبیر کی روشنی میں دیکھا جائے تو وہ لغو اور غیر دینی ہے۔
جدید تعبیر دین کا ایک نتیجہ
اس تعبیر کا جو نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ کہ ایک طرح کا ادعاء پیدا ہو گیا ہے اور وہ ادعاء بعض بدیہی سطحوں پر کسی دلیل کا مطالبہ کیے بغیر خلاف ِدین ہے۔ مثلا یہ کہ یہ فکر صحیح اور غلط کی کسوٹی بن گئی ہے۔ غامدی صاحب خود ایک اچھے خاصے طبقے کے لیے صحیح و غلط ہی نہیں بلکہ حق و باطل میں فرقان کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ ان کی باتوں کو سند کی حیثیت دی جا رہی ہے اور بعض جگہوں پر دی جا چکی ہے۔
میں غامدی صاحب کا دوست ہوں اور مرتے دم تک دوست رہوں گا کہ مجھے دوستی کے آداب بہت آتے ہیں۔ میں ان کا مداح ہوں۔ ان کے اخلاق کا، ان کے بہت سارے محاسن کا جو میری نظر میں ہیں۔ ان کا مداح ہونے کے ساتھ ساتھ ان پر رشک بھی آتا ہے کہ ان کے اخلاق اور باطنی اوصاف مجھے بھی نصیب ہو جاتے۔
اس بحث میں کوئی پہلو کسی کی شخصیت کو گرانے کا نہیں ہے اور نہ ہی غامدی صاحب یا کسی اور کی نیت پہچاننے کا۔ ہمیں کیا معلوم کہ آدمی کی نیت کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آدمی کے رویوں سے، اس کی تحریروں سے، آدمی کے پورے نظام العمل سے، اس کے بنائے ہوئے پروٹوکول سے کوئی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے اور حکم لگایا جاتا ہے۔ جیسے نفسیات کا ماہر شخصیت پر حکم لگاتا ہے۔ کوئی سماجیات کا ماہر اس فکر کے سوشل اثرات کو زیرِ بحث لاتے ہوئے اس فکر کے ماننے والوں کی شخصیت کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ نیت پہچاننے کا عمل نہیں اور نہ دعویٰ ہے۔ یہ صرف اپنی دلیل کو کہ اس تعبیری کل میں دینی نفسیات کا، سٹینڈرڈ ریلیجیس سائیکی کا لحاظ نہ رکھنے سے یہ نتائج نکل رہے ہیں جو اس تعبیر کے ماننے والوں میں عمومی طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں کسی کی نیت پر حکم نہیں اور نہ کسی کی کردار کشی کی جا رہی ہے۔ ہم اگر مثالیں دیں گےبھی تو کسی کا نام نہیں لیں گے۔
جدید تعبیر دین اور مغرب کے تصورات
مثال کے طور پر تمہیداً کہتا ہوں کہ یہ فکر مغرب کے تصورِ آزادی سے ملتے جلتے تصور پراستوار ہے۔ جس کے شواہد رفتہ رفتہ پیش کریں گے ۔
انسانوں کے بارے میں مغرب نے جو تصورات وقتا فوقتاً دئیےہیں اور جو معاصر مغربی تصورِ انسان ہے وہ پوری طرح اپنی بائینڈنگ حالت میں اس فکر پر، اس سے متاثر لوگوں کے شخصیتوں پر مسلط یا ان کے نفسیات میں سرایت کیا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔
جیسے مجھ تک ایک تحریر پہنچائی گئی اور مجھے حیرت ہوئی پڑھ کر۔ ایک صاحب اس بات پر اترا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے اولاد کو دینی تعلیم نہیں دی۔ ان کے بچے اگر ان سے پوچھتے کہ ہمارا دین سچا ہے یا دوسروں کا تو موصوف فرماتے کہ یہ فیصلہ تم خود کرو۔ جو باپ کی، والدین کی، سرپرست کی ہر اعتبار سے ذمہ داری ہے ۔تربیتِ اولاد کے سلسلے میں، اولاد کو دین سکھانے کے سلسلے میں، اولاد کی دینی تربیت کو دیگر حصوں پر غالب رکھنے کیلئے ۔ یہ گویا اس کا مذاق اڑایا گیا ہے ۔ کہہ رہے تھے کہ میں انہیں مزاروں میں لے گیا، ادھر بھی لے گیا، ادھر بھی لے گیا تاکہ یہ لوگ پوری آزادی کے ساتھ اپنے لئے یہ فیصلہ کریں کہ ہمیں کونسا دین منتخب کرنا ہے۔ ہمیں مسلمان رہنا ہے یا نہیں، ہمیں اللّہ تعالیٰ کو ماننا ہے یا نہیں ؟ یہ اس تحریر سے مستنبط نتیجہ ہے جس میں غلطی کا کوئی امکان نہیں۔ تو ان باتوں اور اس آزاد روی پر، اس تصور ِانسان کی جو مغرب کا ہے، پر اس طرح آندھی تقلید پر اترا کر باتیں کرنا یہ اس فکر میں گندھی ہوئی ایک آزادی پسندی کا شاخسانہ ہے۔
مثال کے طور پر یہ ایک بات کہی ہے ۔ پھر یہ لوگ جب بتائیں گے کہ قرآن یہ کہتا ہے، سنت اسے کہتے ہے، دین کا مقصود یہ ہے، تو آدمی حیران رہ جاتا ہے، پریشان ہو جاتا ہے، اور شروع شروع میں ایک دین دار آدمی کو جو غیر عالم ہے ، اس کو سمجھ نہیں آتا کہ وہ اپنے حسنِ ظن کو کہا ں تک قائم رکھے۔ میں نے ان چیزوں سے بہت سارے تجربات کے بعد اپنے اندر ایک چیز پیدا ہوتے ہوئے دیکھی ہیں کہ کارپوریٹ اخلاق یا مغرب کا تصور ِاخلاق یہ چنگیز خان کی کج خلقی سے کہیں زیادہ خطر ناک ہے اور کہیں زیادہ مضر ہے۔
اب میں نے اسلوب بھی بدل دیا ہے کہ جو لوگ اس طرح بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں تو ان پر، جیسے ان کو ان کی اوقات یاد دلائی جائے ،غصہ آتا ہے تو غصہ ظاہر کیا جائے۔ یہ میں سمجھتا ہوں کہ طبیعت میں دین کے راسخ ہونے کا دروازہ ہے کہ میرے جذبات یعنی اللہ کیلئے نفرت اور اللہ کیلئے محبت، میرے جذبات اور احساسات اس سورس سے وجود پا رہے ہوں۔ میں نے بھی اپنی بہت سی کمزوریاں دور کر لی ہیں ۔ اب یہ ہے کہ جو جس طرح کے رویئے اور جواب کا مستحق ہو، اس کو اس طرح سے جواب دینا یہ رسول اللہ کے رویوں سے ہم آہنگ ہونے کی علامت بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے۔
یہ عمومی باتیں ہیں جو غامدی صاحب کے بارے میں نہیں ہیں۔ ہمارے بہت سے علماء اللّہ تعالیٰ انہیں ان جیسا تحمل عطا فرمائے ان جیسی رواداری نصیب فرمائے، تو اس میں ان کی شخصیت کا ذکر نہیں ہے۔ بس شکایت یہ ہے کہ مکتب فراہی میں سب امام پیدا ہو گئے ہیں ۔ اس میں غامدی صاحب کا ہاتھ بہت ہے کہ یہ امام، وہ الاستاذ الامام وغیرہ۔ یہ اسی کا تسلسل ہے کہ اب غامدی صاحب بھی الاستاذ الامام ہیں، اپنی منشاء کے خلاف یقینا ۔لیکن اب یہ ہے کہ وہ سب سے بڑے امام ہیں۔ میں نے ایسی ایسی باتیں پڑھی ہیں کہ وہ آئندہ صدیوں کے امام ہیں۔ یہ سب عجیب صورت حال ہے لیکن اس کے پیدائش میں غامدی صاحب کا اپنے بڑوں کے بارے میں رویہ بھی شریک ہے۔
نظم ِقرآن کا تصور
غامدی صاحب کے ہاں جو تصور ِنظم ہم نے دیکھا، اس پرہمارے تحفظات نہیں ہیں بلکہ اس پر کلی نوعیت کے اختلافات ہیں۔
پہلی بات یہ کہ ان کے تعبیرات درست ہیں تو اسلام دور ِاول سے بیسویں صدی تک اجنبی رہا اور حالتِ غیاب میں رہا، قرآن قاری کے انتظار میں رہا۔ یہ جو کزوی مشابہتیں نکالی جاتی ہیں کہ فلاں فلاں امام نے فلاں فلاں زمانے میں بھی یہ بات کہی تو وہ ایسے ہے جیسے کسی گندم کے انبار میں سے بلا سوچے سمجھے کچھ گندم یا گھن نکال کر کہنا کہ یہ تو ان کے بورے میں بھی ہے تو میرے ذخیرے پر اعتراض کیوں؟۔ وہاں سے چار دانے نکال کر اپنے پورے خرمن کا جواز ثابت کرنا یہ رویہ ایک طرح کی غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے۔
یہ ایک تعبیری کُل ہے۔اگر یہ صحیح ہے تو پوری روایتی تعبیر غلط ہے۔ اور اگر تعبیرِ روایت ہماری دین کی صحیح ہے اور تسلسل کے ساتھ اپنی صحت کی حفاظت بھی کرتی آرہی ہے تو پھر یہ والا جو تعبیری ڈھانچہ ہے یہ بلکل غلط ہے۔ اس نسبت تک پہنچ چکے ہیں کہ یا یہ غلط یا وہ غلط۔ اور یہ کہ اس میں یہ نہیں کہ اس بات پر بھڑک اٹھے کہ یہ بلکل مختلف کیوں ہے۔ لیکن ہم ان شاءاللہ یہ دکھائیں گے کہ ان کا جو سبب ِاختلاف کلی ہے، اور اس میں کیا کمزوریاں ہیں، اور یہ کہ ان کے بنیادی اصول ِفہم ِقرآن کس طرح مس گائیڈنگ ہیں، کس طرح آرٹیفیشل ہیں، کس طرح اپنے زمانے میں موجود خیالات سے غیر متوازن حد تک متاثر ہیں۔ یعنی اس تصور ِنظم کے اطلاقات پوری شکل میں ،اپنی جامعیت کے ساتھ جو غامدی صاحب کے ہاں ہیں، وہ اصلاحی صاحب کے ہاں بھی نہیں ہیں۔
اس تصور ِنظم کے تمام اطلاقات، ان کی اطلاقی بناوٹ اور تشکیل میں اپنے زمانے کے بالادست خیالات رویوں اور مزاج کا واضح طور پر غلبہ نظر آتا ہے۔ لیکن پھر کہہ رہا ہوں کہ اس کو کسی کیلئے مناظرانہ یا تخریبی کاروائی نہ سمجھا جائے۔ جو ہم سمجھتے ہیں اسے نہایت مجبور ہو کر اب بیان کر رہے ہیں ورنہ برسوں سے بیان نہیں کئے ہیں ۔لیکن اب لگتا ہے کہ اب وہ وقت ہے ، کہ جیسے مجھے یہ بات دین کے تقاضے کے طور پر محسوس ہوتی ہے کہ اس فکر پر تنقیدی نظر ڈالی جائے، جس کا آغاز کئی طرف سے ہو سکتا تھا لیکن میرے سمجھ میں آیا کہ ان کا تصور ِنظم پر، جس تصور ِنظم کو اطلاقی تفصیلات غامدی صاحب نے فراہم کہ ہیں، بلکہ اس تصور ِنظم کی ری فریزنٹیشن کا کام بھی انہوں نے کیا ہے جس کے وجہ سے اس تصور میں وہ بات نہیں رہ گئی جو فراہی صاحب کےبیان میں تھی۔ وہ تو بہت زبردست تھا۔ وہ تو ایسا تھا کہ وہ تو ابن عربی بھی یہی کہتے ہیں تو آپ ابن عربی پر کیوں چڑھ درڑتے ہیں ۔ ابن عربی کہتے ہیں کہ قرآن کے حقائق اور دقائق و حِکم بہت گہرائی میں ہیں ۔عام لوگ و علماء اس تک نہیں پہنچ سکتے ، عین یہی بات فراہی صاحب بھی کہتے ہیں ۔ تو اس میں ابن عربی پر باطنیت کا دھبہ لگ جائے اور یہاں اتنا بھی نہ کہا جا سکے کہ یہ اعتباری تصور ہے۔
نظم ِقرآن اعتباری نظریہ ہے
تصور ِنظم ہمارے ذہن میں پیدا ہوا ہے ایک پیشگی تصور کے وجہ سے، وہ پیشگی تصور یہ ہے کہ کلام میں نظم ہونا چاہیے ۔ کلام میں نظم و ربط ہونا چاہیے۔ اور ہم نے جو کتاب بھی پڑھی ہے اس میں تو نظم ہوتا ہے۔ اس پیشگی تصور نے یہ اکسایا کہ پھر قرآن میں بھی نظم ہوگا۔ ہم یہ نہ پرکھ پائے کہ نظم کا یہ تصور جو ہم قرآن میں دریافت کرنا چاہتے ہیں یہ تصور انسانی کلام سے پیدا ہوا ہے ۔ کلام ِالٰہی کو اس تصور ِنظم کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ اس پر میری رائے میں زیادہ بے تعصب ہو کر غور نہیں کیا گیا۔
وہ بھی ہم رفتہ رفتہ عرض کریں گے کہ کس طرح یہ تصور ِنظم ،چاہے وہ کہیں بھی بیان ہوا ہے، قرآن فہمی کی واحد شرط بن جائے ، یہ قرآن کے ساتھ ظلم ہے۔ یہ گویا میں اپنی ذہن کے قوانین ِفہم کو کلام اللہ پر وارد کر رہا ہوں۔ اسی وجہ سے میری رائے تاحال تو یہی ہے کہ یہ تصور ِنظم باہر سے وارد کیا گیا ہے قرآن پر۔ قرآن سے لیا نہیں گیا۔ اس کی تفصیل ان شاءاللہ آئے گی۔
“میزان” سے دو اقتباسات
پہلی جو بات ہے وہ یہ کہ میں نے غامدی صاحب کی کتاب “میزان “سے جو ان کا بہت مستند مجموعہ ہے اور اس پر وہ مسلسل نظر ثانی بھی کرتے رہتے ہیں، اس میں سے جہاں انہوں نے اس تصور ِنظم پر روشنی ڈالی ہے، جس کو فہم القرآن کی شرط بنا کر انہوں نے قرآن کو سمجھا اور سمجھایا ہے ، اس فصل کو لے کر میں قول بہ قول تبصرہ کرونگا ۔
غامدی صاحب فرماتے ہیں
“کہ قرآن کی ہر سورہ کا ایک متعین نظم ِکلام ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے طرف سے الگ الگ اور متفرق ہدایات کا کوئی مجموعہ نہیں، بلکہ اس کا ایک موضوع ہے اور اس کی تمام آیتیں نہایت حکیمانہ ترتیب اور مناسبت کے ساتھ اس موضوع سے متعلق ہوتی ہیں۔ سورہ کے اس موضوع کو سامنے رکھ کر جب اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور موضوع کی رعایت سے اس کا نظام پوری طرح واضح ہو جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایک نہایت حسین وحدت بن جاتی ہے۔” (میزان، نظم کلام، ص-50)
تھوڑا سا شاعرانہ انداز بھی ہے ان کا لیکن یہ ہے کہ شاعری میں ان کی دسترس کمزور ہے تو حسین وحدت میں چھپے ہوئے قبح کو شاہد انہوں نے محسوس نہیں کیا۔
اب دوسری جگہ بھی اسی بات کو غامدی صاحب نے ذیادہ ایجاز و اختصار سے بیان کیا ہے کہ؛
” ہر سورہ کا ایک موضوع ہوتا ہے جو ان کے تمام اجزاء کیلئے رشتۂ وحدت کی حیثیت رکھتا ہے جن سے سورہ میں مضمون کی تالیف ہوتی ہے۔ اسے ہم روح کی طرح سورہ کے پورے وجود میں سرایت کیے ہوئے دیکھتے ہیں ” ( میزان، نظم کلام، ص-52).
یہ آخری جملہ شاعرانہ ہے۔ ایسا کلام میں ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کا ایک موضوع متحقق ہو بھی جائے تو وہ اس پورے بیان و متن کے لفظ لفظ میں سرایت کئے ہوئے ہیں ۔ یہ ایک شاعرانہ سی بات ہے۔ قرآن کے سلسلے میں شاعرانہ بات اصول کے طور پر نہیں کہنی چاہیے ۔
اس پر جو ہمارا تبصرہ ہے۔ وہ یہ ہے کہ قرآن کی ہر سورہ کا ایک متعین نظم ِکلام ہے ۔ اب ہماری رائے یہ ہے کہ یہ نظام متعین ہے تو اسے مخفی نہیں رہنا چاہیے ۔ متعین ہمیشہ حالت ِاظہار میں ہوگا، حالت ِاخفاء میں نہیں ہوگا۔ حالت ِصراحت میں ہوگا، حالت ِابہام میں نہیں ہوگا۔ اس کلام میں سب سے زیادہ ظاہر ہوگا۔ جو بھی اس کلام میں متعین ہے وہ اس کلام میں اظہارات میں سب سے ذیادہ قوی اظہار کے طور پر موجود ہوگا کہ جو پہلی ہی نظر میں دکھائی دے گا ۔اس کیلئے تحقیق یا تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نظام اگر متعین ہے تو اسے ہر ایک پر ، ہر قاری پر یکساں طور پر ظاہر ہونا چاہیے ۔یعنی یہ ثبوتِ وجودی کے طور پر ظاہر ہونا چاہیے ۔ متعین کا مطلب یہ ہے کہ وہ ثابت فی الوجود ہے ۔
اور دوسرا یہ کہ موضوع کا جو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ تمام آیات اس موضوع کے تابع ہیں اور جب موضوع ہی دلالت ِقطعی سے، یعنی قطعیت کے ساتھ، غیر مبہم صراحت کے ساتھ واضح نہیں ہے تو اس کی رعایت سے سورہ کا پورا نظام کیسے واضح ہو جاتا ہے۔ اب یہ ججمنٹ ہے جو اپنی کنسٹرکشن میں غلطی کا کوئی احتمال بھی نہیں رکھتا مصنف کیلئے ۔
اتنے شدید تیقن کی فضا کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر موضوع ہی واضح نہیں ہے پوری طرح غیر مبہم، اور اختلافات ِفہم سے بے نیازی کے حالت میں، تو پھر اس سے سورہ کا پورا نظام واضح ہو جانا ،یہ ایک مغالطہ ہے۔ اور خطر ناک مغالطہ ہے۔ اس پورے تصور ِنظم میں جو سب سے بڑا خطرہ ہے وہ یہ ہے کہ اس سے کلام ِالٰہی ہمارے مفروضۂ اصول میں مقید ہو جاتا ہے۔ یہ کلام الٰہی کیلئے بائنڈنگ بن جاتا ہے ۔ یہ صورت انسانی کلام میں ہو سکتی ہے کہ ٹیکسٹ ریڈنگ کے کچھ ضوابط و قوانین جو ہیں وہ جنرلایزڈ ہیں، تقریبا یونیورسل ہیں، یا کسی روایت میں مانے ہوئے ہیں تو ان قوانین کو جیسے کسوٹی کے طور پر، محدد کرنے والے اصول کے طور پر وارد کیا جاتا ہے۔ شیکسپیئر پہ بھی کیا جائے گا، فردوسی پر بھی کیا جائے گا۔ لیکن اگر یہ کام کلام ِالٰہی پر کیا جائے گا تو ظاہر ہے اس میں بہت سارے خطرات ہے ۔
اگلی بات اسی سے متعلق جو میں نے حوالہ پڑھا ہے، اسی میں اگلا اشکال یا اعتراض یا اختلاف ، وہ یہ ہے کہ کسی اپنے طور پر متعین نظام اور متعین موضوع کی رعایت کیے بغیر بھی ، یعنی کہ میری طرف سے نظام میں نے دریافت کر لیا قرآن میں غواسی کر کے، تو اس کا ظنی ہونا تو واضح ہے۔ میرے ذہن میں آکر ہر چیز جو ہے وہ تیقن اور تحکم کی مجھے اجازت نہیں دیتی۔ اس میں ایک اضافیت داخل ہو جاتی ہے، اعتبار داخل ہو جاتا ہے، ظن داخل ہو جاتا ہے۔
جب میں نے بالکل اسی طرح قرآن میں غواسی کی اور مجھے ایک نظم برآمد ہوتا ہوا محسوس ہو گیا اور میں اس پر مطمئن بھی ہو اور اسی طرح اس نظم کو حاصل کر لینے کے بعد، اپنے تئیں حاصل کر لینے کے بعد میں نے پھر اس سے سورتوں کے متعین موضوعات جیسے خود بخود ہی حاصل کر لئیے۔ تو اس فضا میں جس میں سب کچھ میرے ذہن میں ہے، متعین نظام میں جو تعیین ہے وہ میرےذہن نے کی ہے، اور متعین موضوع بھی میرےذہن میں متعین اور موضوع ہونے کی تعریف کو پورا کرتا ہے۔ تو اس کی رعایت کیے بغیر بھی اس کو نہ مانو کہ مجھے تو کوئی نظم نہیں ملا، یعنی یہ والا متعین نظم جس کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی۔ جس سے الگ ہٹ کے قرآن میں ربط ِآیات وغیرہ کے عنوان سے جو بھی تلاش کیا جائے گا وہ غلط ہو گا، اتنے بڑے تحکم کے ساتھ قائم ہونے والے تصور ِذہنی کو فرض کیا کہ میں نہیں مانتا اور میں سادہ طریقے سے قرآن شریف پڑھتا ہوں اور سمجھ سمجھ کے پڑھتا ہوں ،یعنی سمجھنا اخذ ِہدایت کیلئے ہوتا ہے وہ عرفان ِحقائق کیلئے نہیں ہوتا ، تو قاری کی پوزیشن ہی بدل جائے گی۔ ایک طالب ِہدایت اپنے رب کا کلام پڑھ رہا ہے آمادگی کے ساتھ، انفعال کے ساتھ ،اور محتاجی کے ساتھ ، تو وہ کسی بھی نظم اور موضوع وغیرہ کو جاننے کے بعد انکار کر دیتا ہے کہ میں نہیں مانتا۔ تو پھر وہ بھی کلام الٰہی میں کارفرما وحدت جو وحدت فی الکثرت ہے اسے پا لیتا ہے اسے دیکھ لیتا ہے۔ دنیا میں کوئی تدبر کرنے والا قاری ایسا ہو نہیں سکتا ۔ یعنی اللہ سے تعلق کو ، اور اپنے تزکیہ کو مقصود بنانے والا کوئی مخلص مسلمان جو تدبر کی صلاحیت اور فہم ِقرآن کا جو معیاری ملکہ ہے وہ رکھتا ہو،، کلماتِ قرآنی کے فہم کا، تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اسے کلام الٰہی میں ایک وحدت فی الکثرت دکھائی نہ دے، اور اس وحدت فی الکثرت میں وحدت مطلق ہے اور کثرت بدلتی رہتی ہے۔
قرآن کو اس پرسپیکٹیو میں دیکھیے تو وہ مؤثر ہوتا ہے۔ کہ قرآن کی اصل وحدت اس کا متکلم ہے اور اس کے احکام اور اس کی حکمتیں ، اس کی تشبیہات اس کے واقعات یہ سب کثرت ہے جنہیں یہ کہتے ہیں متفرق آیات یا احکام وغیرہ۔ تو وہ متفرقات بدلتے رہتے ہیں لیکن یہ جو وحدت ِمتکلم ہے جو اپنے کلام کے معانی کا واحد سورس ہے وہ برقرار رہتا ہے۔ یہ کوئی ناگزیر ضرورت نہیں ہے۔ کوئی ایسا نہیں ہو سکتا جو قرآن میں کارفرما وحدت سے جاہل ہو، بے خبر ہو یا اندھا ہو۔
اصلاحی صاحب کا قول اور اس پر تبصرہ
اصلاحی صاحب کا جن کو غامدی صاحب کہتے ہیں: “الاستاذ الامام نے فرمایا”۔ ظاہر ہے بہت بڑے عالم ہیں لیکن یہ ذرا مبالغہ ہے۔ اصلاحی صاحب فرماتے ہیں
کہ ہمارے نزدیک تو اس کی (نظام قرآن ) اصل قدرو قیمت یہی ہے کہ قرآن کے علوم اور اس کی حکمت تک رسائی اگر ہو سکتی ہے تو اسی کے واسطے سے ہو سکتی ہے۔” (میزان، نظم کلام، ص-50)
اب اس پر آدمی کیا تبصرہ کرے کہ جہاں اتنا حصر ہو، اتنا تیقن اور تحکم ہو، یہ تو علمی رویہ بھی نہیں ہے بات کہنے کا۔ بہر حال ہمارا پہلا احساس یہی ہے کہ یہ مبالغہ ہے اور یہ عبارت آرائی ہے محض۔ یہ کوئی علمی بات نہیں ہے۔ اور مبالغہ بھی ایسا نہیں ہے، کوئی سادہ نہیں ہے ادبی مبالغہ۔ اس میں یہ خطرات چاہے احتمال قوی کے درجے ہی میں ہو ں لیکن چھپے ہوئے ہیں ۔ وہ خطرات کیا ہیں ؟
کہ جو نظم تحقیق اور باریک بینی سے دریافت کیا جائے وہ صحت کا امکان بھی رکھتا ہو تو بھی اعتباری ہے، تو بھی قطعی اور یقینی نہیں ہے۔ یعنی متن کے ساتھ وہ عینیت نہیں رکھتا جو یہ لوگ اس پر اڑے ہوئے ہیں ۔ کہ یہ تصور ِنظم ِقرآن سے ائیڈنٹیکل ہے۔ ہم کہتے ہیں یہ قرآن سے ڈیراوڈ ہی نہیں ہے، ائیڈنٹیکل کیسے ہوگا؟ اور یہ قرآن پر ایمپوز کیا گیا ہے۔ اس طرح کے فقرے سنتے ہیں تو اس سے یہ تقاضہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی جیسے قطعیت اور زور سے کئی دعوے کر دیں۔
ظاہر ہے نظم ِقرآن کا جو پورا ایک ڈسکورس ہے یہ اعتباری ہے اس میں شاید انہیں بھی شبہ نہ ہو، یا اختلاف نہ ہو۔ جو اعتباری ہے وہ قطعی کا عین نہیں ہو سکتا۔ وہ قطعی سے ائیڈنٹیکل نہیں ہو سکتا۔ اور دوسرے یہ کہ ایک اعتباری ججمنٹ کو، قضیے کو فہم ِقرآن کی شرطِ لازم بنا دینا یعنی رسائی اگر ہوسکتی ہے تو اسی کے واسطے سے ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح شرط ِلازم اس کو بنا دینا وہ اپنے حد سے تجاوز ہے۔ وہ پیغمبری کا لہجہ ہے اور یہ حصر یہ مشروطیت ، یہ قرآن کے ساتھ اس کا ادب ملحوظ رکھنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا کہ ان کے ہاں ادب نہیں ہے ۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ جملہ جہاں پہنچے گا تو یہ ماننے والوں میں یہ بھی پیدا کر سکتا ہے کہ وہ قرآن سے کیسے کھلواڑ شروع کردیں اور یہ اپنے حد سے تجاوز ہے۔ یہ بندے کا کلام نہیں ہے۔
“اسے طرح قرآن کے علوم اور حکمت تک رسائی جو اس کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے”۔یہ جو فقرہ ہے کہ قرآن کے علوم و حکمت تک رسائی یہ محض ایک چلتا ہوا فقرہ ہے، تاثراتی ہے، اس کا کوئی معنی نہیں ہے۔ یہ محض ایک بھڑک ہے۔ علوم اور حکمت اور پھر ان تک رسائی ، یہ سب ایک طرح کے آرائشی الفاظ کی طرح ہے۔ ان کا کانٹینٹ قابل ِدریافت نہیں ہے۔ اور پھر یہ کہ قرآن کے کونسے علوم ؟ یہ سب ایک نئی بحث چھڑ جائے گی۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک کلیشے سا ہے جو اس فکر والوں میں محاورہ بنا ہوا ہے۔ اس فقرے کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اندر سے اعتبارات اور مفروضوں کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ کیوں کہ یہ رسائی جو حاصل کرکے دکھاتے ہیں قرآن کے علوم اور حکمت تک وہ رسائی معمولی ذہن کے اعتبارات اور مفروضوں سے لدی پھندی نظر آتی ہے۔یہ ہم ان شاءاللہ کسی وقت عرض کریں گے اسی طرح حوالے دے کر۔
حوالہ نمبر تین جو اصلاحی صاحب رحمہ اللّہ کا ہے اللّہ ان کی قبر روشن رکھے ٹھنڈا رکھے، کہ اصلاحی صاحب فرماتے ہیں کہ
“جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم کے ہدایات ہے”.
یہاں نظم سے مراد مجرد نظم نہیں بلکہ ان کا نظم ِقرآن ہے۔
یہ اصلاحی صاحب نے فرمایا اور یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ یہ دعویٰ واقعاتی شہادت سے رد ہو جاتا ہے۔ ہماری تفسیری روایت کا سرسری جائزہ بھی اس دعوے میں چھپی ہوئی غلطی کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے۔ کوئی بھی دیکھ لے کہ لوگوں نے کیسے ڈھلے ڈھلائے تصورِ نظم کی پابندی کیے بغیر، اس کی رعایت رکھے بغیر قرآن میں، جو ہدایت کی کلیت پر دلالت کرنے والے اجزاء ہیں ، ان کو اسی نسبت سے دریافت کرکے دکھایا ہے۔ شاید ہی ہمارے بڑوں میں سے کسی کی تفسیر اس وصف سے خالی ہو۔ تو دعویٰ ویسے ہی صحیح نہیں ہے۔
اصلاحی صاحب مزے کی آدمی ہیں لیکن باتیں بہت بڑی بڑی کر دیتے ہیں ۔تو بعض دفعہ الجھن بھی ہوتی ہے۔ کبھی ہنسی بھی آتی ہے۔ تو آپ مثال سمجھا کر فرما رہے ہیں کہ:
” آپ طب کی کسی کتاب المفردات سے چند جڑی بوٹیوں کے کچھ اثرات و خواص معلوم کر لیں اور اس بات میں کہ ایک حاذق طبیب ان اجزاء سے کوئی کیمیا اثر نسخہ ترتیب دے دے۔” (میزان، نظم کلام، ص-50)
اس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میں نے صرف ایک فقرہ لیا ہے تاکہ اس فقرے میں جو خود اعتمادی ہے۔ بہت ذیادہ خود اعتمادی بعض مرتبہ مضحکہ خیز نتائج پیدا کرتی ہے۔ اس کی مثال یہ ایک فقرہ ہے۔ ایک تو مثال عامیانہ سی ہے۔ کتاب المفردات طب یونانی کے نصاب میں ہوتی ہے اس میں الگ الگ جڑی بوٹیوں کے خواص لکھے ہوتے ہیں، یعنی جن کو ترکیب دے کے کوئی حکیم نسخہ بناتا ہے۔ اور دوسری کتابیں جن کو بیاض کہتے ہیں ان میں مرکبات ہوتے ہیں یعنی مفردات کو ملا کر دوا بنانے کا طریقہ ۔
اصلاحی صاحب کہتے ہیں کہ ایک ایک جڑی کے خواص دیکھ کر آدمی حکیم نہیں بن سکتا اور بلکل صحیح بات ہے کہ نہیں بن سکتا۔ یہ مثال یہ ہے کہ عامیانہ بھی ہے اور سرے سے غلط بھی ہےاور گمراہ کن بھی ہے بلکہ خود اصلاحی صاحب ہی کے مدعا کے خلاف جاتی ہے۔ اس مثال سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اصل میں قرآن کتاب المفردات ہے۔اور ایک مفسر آکر ان مفردات کو اس طرح ترکیب دیتا ہے کہ یہ سب ایک خاص وحدت میں ڈھل کر، ایک خاص مرکب میں ڈھل کر گویا کیمیا بن جاتے ہیں ۔یعنی ہر مرض کا علاج بن جاتا ہے۔ تو طب کی کتاب کا تو اصل یہی مصرف ہے۔اس میں مرکبات کا بیان نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے کتاب المفردات کی یہ مثال ٹھیک نہیں بیٹھتی۔ اور اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کو حالت ِترکیبی دے کر کیمیا بنانا نفس کیلئے یہ کام خارج سے ہوتا ہے۔ یہ ایک بلنڈر سا محسوس ہوتا ہے۔ اور جو بھی اردو کا محاورہ سمجھتا ہے یا ادب سے مس ہے وہ اس سے یہی مطلب نکالے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...