حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
قرآن میں لفظ مشرک کا استعمال و اطلاق اور حلقہ غامدی کا مؤقف
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
تجلی خان
میراموضوع بھی ’’دلیل‘‘ پر شائع ہونے والے زیر بحث مسئلہ جو تکفیر کے جواز یا عدم جواز سے متعلق ہے، سے ملتا جلتا ہے اور اس کا تعلق بھی ان ہی لوگوں سے ہے جو جاوید احمد غامدی صاحب کے شاگرد یا پیروکار ہیں۔ لیکن ان دونوں میں فر ق بس صرف اتنا ہی ہے کہ یہاں لفظ ’’کفر‘‘ استعمال کیا گیا ہے اور وہاں ’’شرک‘‘ کا۔ یہاں ’’کافر‘‘ کی اصطلاح اور وہاں’’مشر ک‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ اب میرا عرض یہ ہے کہ قرآن میں مومن، مشرک، مسلم اور کافر کی اصطلاحات بکثرت موجود ہیں اور اس میں کہیں بھی ’’غیر مسلم‘‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کی گئی ہے،گویا کہ یہ ایک غیر قرآنی اصطلاح ہے۔ میں قرآن وحدیث کی روشنی میں اس بات کا قائل ہوں کہ ہر صاحب ایمان جو اسلام کے دائرے میں رہتا ہے تو وہ مؤمن اور مسلم ہے اور جودائرہ اسلام سے باہر اور منکر ہو یا اپنے ایمان کا اقرار نہ کر رہا ہو یا شرک کا مرتکب ہو رہا ہو تو اسے کافر یا مشرک قرار دیا جائے گا۔ غامدی صاحب اور ان کے پیروکار اس بات پر انتہائی شدت کے ساتھ زور دے رہے ہیں کہ کفر یا شرک کے مرتکب کو کافر یا مشرک نہیں کہنا چاہیے خواہ اس کا کفر یا شرک کتنا ہی بڑا یا ظاہر کیوں نہ ہو۔ اس کو زیادہ سے زیادہ صرف ’’غیرمسلم‘‘ کہنا کافی ہے۔ اسے مشرک نہیں کہا جاسکتا ہے اور نہ اس کی تکفیر کی جاسکتی ہے۔
اس قسم کی کوششوں کا مقصد سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایمان باللہ ( عقیدۂ توحید) کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوجائے اور شرک کو فروغ مل جائے، حالانکہ ایمان باللہ یعنی توحید ہی وہ بنیادی عقیدہ ہے جس کی بنیاد پر روز اول سے اسلام اور کفرکے درمیان جنگ جاری ہے۔ توحید ہی تمام اعمال ِصالحہ کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر نہ ایمان قابل قبول ہے اور نہ اسلام۔ آخرت میں بھی نجات اسی عقیدے سے مـشروط ہے۔ انسان عقیدہ توحید پر قائم نہ رہے اور شرک میں ملوث رہے تو اس کے لیے مالک ارشاد فرماتا ہے
إِنَّ اللہ لاَ یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِکَ لِمَن یَشَاء ُ وَمَن یُشْرِکْ بِاللّہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِیْدا (سورۃ النساء آیت نمبر ۱۱۶) ’’بے شک اللہ یہ نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس کے علاوہ دوسرے گناہوں کو جس کے لیے چاہے گا بخش دے گا اور جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ گمراہی
دور جاپڑا ۔‘‘
عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا
اَیُّ الذُّنْبِ اَ کْبَرُ عِنْدَاللہ قَالَ اَنْ تَدْعُو ا لِلہ نِداً وَ ھوَ خَلَقَکَ (متفق علیہ، مشکٰوۃ باب الکبائر صفحہ ۲۷ مشکٰوۃ مترجم جلد اول) ’’ اللہ کے نزدیک کون سا گناہ بہت بڑا ہے؟ آپؐ نے فرمایاکہ یہ کہ تو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرادے حالانکہ اس نے تجھ کو پیدا کیا ہے۔‘‘
شرک ظلم ِعظیم ہے، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی بخشش نہیں۔ اس نے اس قبیح اور ناقابل معافی جرم کی سزا جہنم بتائی ہے اور ارشاد فریاما
اِنَّہ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللہ فَقَدْحَرَّ مَ اللہ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَاْوٰہ النَّارِ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارِ( سورہ الما ئدۃ آیت نمبر۷۲) ’’بے شک جس نے اللہ کے سا تھ شرک کیا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کیا ہے اور اس کاٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں.‘‘
اللہ کے آخری رسول محمد ﷺ نے فرمایا ہے
من مات یشرک باللہ شیئاً دخل النار ومن مات لا یشرک باللہ شیئاً دخل الجنۃ (مسلم) ’’ جو شخص اس حالت میں مر جاتا ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک کرتا ہے آگ میں داخل ہوگا اور جو شخص اس حالت میں مرے کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا‘‘۔
مگر صد افسوس قرآن وحدیث کے ان واضح احکامات کے باوجود کچھ لوگوں نے شرک کی حمایت اور مرتکبینِ شرک کی وکالت کو اپنی زندگی کا مشن اور نصب العین سمجھا ہے۔وہ صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ شرک کرنے سے کوئی مشرک نہیں ہوتا۔ مشرک بنی اسماعیل کی اصطلاح ہے۔ ان کے علاوہ دنیا میں کوئی مشرک ہے ہی نہیں۔ خواہ اس کا مرتکب بڑے سے بڑا شرک کیوں نہ کرے۔ یہود ونصار یٰ جن کے شرک کی نشان دہی خود قرآن نے کی ہے اور انہیں مشرک قرار دیا ہے، یہ قرآنی تعلیمات کے علی الرغم انہیں مشرک نہیں سمجھتے بلکہ ان کی اور ان کے شر ک کی حمایت اور وکالت پر کمربستہ نظر آرہے ہیں۔ ان کے مقلدین بھی ان ہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور دانستہ یا نادانستہ طور پر شرک کا جواز ڈھونڈ رہے ہیں تاکہ لوگ توحید سے برگشتہ ہوکر شرک کی طرف گامزن ہو جائیں۔ یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے جس کا تدارک اشد ضروری ہے بلکہ ایک مؤمن مواحد کو اسے نماز، روزہ کی طرح لازمی فریضہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر ان کی اس جہالت کا راستہ روک لے، شرک کی تردید اور توحید کی اشاعت کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے۔ ہمارے کہنے کا مقصد ہرگز یہ بھی نہیں کہ ہم کسی محل و موقع کے بغیر اور بلا ضرورت فتویٰ بازی اور تکفیر بازی کا طریقہ اختیار کریں اور کسی فرد کانام لے کر اسے مشرک یا کافر کہنا شروع کردیں، اس چیز کو ہم دعوت و حکمت کے سراسر خلاف سمجھتے ہیں بلکہ ہم اس حماقت سے پناہ مانگتے ہیں کہ ہم مبتلائے شرک مخاطبین سے’’اے مشرکو!‘‘ کہہ کر خطاب کریں یا ایک ایک مخاطب فرد پر نام بنام مشرک کا فتویٰ لگاتے جائیں۔ نعوذ باللہ من ذالک۔ ہمارے نزدیک تبلیغ دین کا صحیح طریقہ وہی معتبر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا اور جو قرآن ہمیں انبیاء کے تذکروں سے تعلیم دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ پوری دل سوزی کے ساتھ قوم کو ایمان اور اس کے تقاضوں سے آگاہ کریں۔ اس کے عقائد واعمال میں جو شرک در آیا ہے اس پر مطلع کریں اور شرک کی شناعت سے آگاہ کریں، اور وضاحت کے ساتھ سمجھا دیں کہ ایمان خالص کے بغیر تمام اعمال اکارت اور ساری بحثیں فضول ہیں۔ مرتکب شرک (مشرک ) پر جنت حرام ہے، وہ جنت کی خوشبو تک نہ پا سکے گا۔ شرک ایسا قبیح جرم ہے جو ایمان سے خارج کردیتا ہے۔ ‘‘ ہمارا مدعا یہ ہے کہ جن معاملات میں قرآن ہمیں شرک کے ارتکاب کرنے والے کے ساتھ محتاط برتاؤ کی ہدایت کرتا ہے ہم ان احتیاطوں کو پس پشت نہ ڈال دیں ۔
الحمد للہ! ہمیں اس بات پر خوشی ہے کہ آج کل یہ مسئلہ موضوع بحث بنا ہوا ہے اور اہل علم حضرات واضح اور مدلل انداز میں غامدی صاحب اور ان کے پیروکاروں پر ثابت کر رہے ہیں کہ ان کا یہ نظریہ اور مؤقف درست نہیں اور اس سلسلے میں ان کا نتیجہ فکر یقیناً غلط ہے۔ اس ضمن میں ہم’’ادارہ دلیل ‘‘ کے انتہائی ممنون ہیں کہ وہ اپنے قارئین کو حق کی اشاعت و ترویج کی خاطر درست اور صحیح معلومات فراہم کر رہے ہیں۔
آج سے تقریباً 20 سال پہلے نومبر ۱۹۹۶ء میں غامدی صاحب کے ایک پیروکار جناب معز امجد صاحب اور ہمارے ایک دوست ڈاکٹر تسنیم احمد صاحب کے درمیان ’’قرآن میں لفظ مشرک کا استعمال و اطلاق‘‘ کے موضوع پر ایک مراسلت شروع ہوئی تھی جس کا سلسلہ جو ن ۱۹۹۸ء تک جاری رہا۔ معز امجد صاحب نے اپنی تحریروں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ’’قرآن مجید میں بنی اسماعیل ہی کو مشرک کہا گیا ہے۔ یہود ونصاریٰ اور دوسرے گروہوں کو ان میں پائے جانے والے شرک کی نشان دہی کرنے کے باوجود قرآن نے کسی بھی مقام پر مشرک نہیں کہا۔‘‘ ان کے نزدیک مشرک صرف وہ ہے جو ’’جانتے بوجھتے‘‘ شرک کرتا ہے۔ اور جو تاویل کا سہارا لے کر شرک کرتا ہے، وہ مشرک نہیں ہے اور اس کا شرک قابل مواخذہ بھی نہیں، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’ہمارے نزدیک معاملہ خواہ شرک کا ہو یا کسی اور جرم کا قابل مؤاخذہ وہی ہے جو جانتے بوجھتے کیا جائے۔‘‘
معز امجد کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ شرک ایک فعل ہے اور مشرک اس کا اسم فاعل ہے۔ اس امت کے علماء اور فقہاء دور اول سے آج تک لفظ ’’مشرک‘‘ کو عموماً اسم فاعل اور اسم صفت کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔ شرک اللہ کے ہاں ایک سنگین اور ناقابل معافی جرم ہے، جو بھی اس کا ارتکاب کرے خواہ اس کا تعلق کسی بھی گروہ، مذہب، جماعت، مسلک یا کسی بھی قوم، قبیلے یا نسل سے کیوں ہی نہ ہو، وہ مشرک ٹھہرتا ہے، اس پر جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے۔ جس طرح ہر فعل کا ایک فاعل ہوتا ہے، مثلاً کوئی قتل کرے تو اسے قاتل کہا جائے گا، کوئی چوری کرے تو اسے چور کہا جاتا ہے، ڈاکہ ڈالنے والے کو ڈاکو، سود کرنے والے کو سود خور، زنا کے مرتکب کو زانی، اورشراب پینے والے کو شرابی کہا جاتا ہے، بالکل اسی طرح شرک کرنے والے کو مشرک کہا جائے گا۔ ڈاکٹر صاحب کا مضمون کراچی کے ایک ماہنامے’’دعوۃالحق جون ۱۹۹۸‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ یہ مضمون قرآنی دلائل سے مزین اور ناقابل تردید حقائق پر مبنی تھا جس کا اٹھارہ سال کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی جناب معز امجد صاحب جواب نہ دے سکے۔
تیس اپریل 2014ء کو غامدی صاحب کے کچھ سرگرم اور جذباتی پیروکاروں نے پیرسدی تخت بھائی مردان میں جناب بخت زادہ صاحب سے ایک مناظرہ بھی کیا، وہ اپنی تقریروں میں یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ یہود و نصاریٰ مشرک نہیں ہیں، اور آج بھی جو شرک کرتا ہے وہ بھی شرک کرنے سے مشرک نہیں ہوتا۔ اپنے مؤقف کی حمایت میں ان کے پاس دلیل نام کی سرے ہی سے کوئی چیز نہ تھی، البتہ انہوں نے قرآنی آیات سے غلط استدلال کرتے ہوئے چرب زبانی اور چالاکی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے جناب بخت زادہ صاحب نے اپنی باری میں مدلل انداز میں ان کے مؤقف کا مکمل رد پیش کیا۔ انہوں نے سورۃ المائدہ کی آیات نمبر ۱۷ ،۱۸،۷۲، ۷۳،۷۴،۷۵ ، سورۃالنساء کی آیا ت نمبر۴۷ ،۴۸،۴۹، ۵۰ ،۵۱ ،۱۱۶،۱۱۷، سورۃ التو بہ کی آیات نمبر۲۸،۲۹،۳۰،۳۱ ،۳۲ ، ۳۳ ، ۳۴ ،۳۵ ، سورۃ آل عمران کی آیت نمر ۱۰۵ ، سورۃ الانعام کی آیات نمبر۱۲۱، سورۃالحج کی آیت نمبر۱۷، سورۃ الروم کی آیات نمبر۳۱ ،۳۲، سورۃ البینہ آیت نمبر ۴ اوردیگر بہت سی آیات تلاوت کرکے بتایا کہ تعجب کی بات ہے کہ ہمارے یہ بھائی مانتے ہیں کہ اہل کتاب نے شرک کیا تھا اور بہت بڑا شرک کیا تھا، یہود و نصاریٰ عزیر علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کے بیٹے کہتے تھے، عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کہتے تھے، خود کو اللہ کے بیٹے اورچہیتے کہتے تھے، تثلیث کا عقیدہ رکھتے تھے، قرآن نے جگہ جگہ ان کی شرک کی نشان دہی کی ہے مگر اس کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ و ہ مشرک نہ تھے؟ بخت زادہ صاحب نے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ یہ تمھاری علمی غلطی ہے اور قرآن پر تدبر کی کمی کی وجہ ہے کہ تم کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صرف بنی اسماعیل کو مشرک کہا ہے اور شرک کے باوجود بنی اسرائیل کو مشرک نہیں کہا ہے۔ بخت زادہ صاحب نے اس نظریے پر ایسا کاری ضرب لگائی کہ وہ لاجواب ہوکر چلے گئے۔
پہلے پہل تو غامدی صاحب، معزامجد صاحب اور ان کے پیروکاروں کے نزدیک صرف یہود و نصاریٰ، مجوس، صابی مشرکین کی فہرست سے خارج تھے اور اب ان کے اس نظریہ نے مزید ترقی کر لی ہے، اور انہوں نے اعلان کیا ہے کہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد دنیا بھرمیں کسی کو نہ کافر کہہ سکتے ہیں اور نہ مشرک، یہاں تک کہ ہندو، بدھ مت والے اور سکھ کو بھی، کیونکہ وہ جان بوجھ کر شرک نہیں کرتے ہیں بلکہ تاویل کا سہارا لے کر شرک کرتے ہیں۔ یہ ہم محض الزام نہیں لگا رہے ہیں بلکہ ہمارے پاس ان کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ ہم نے ان سے سوالات پوچھے ہیں اور انہوں نے یہی جواب دیا ہے۔ فیاض الدین صاحب کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں
’’ السلام علیکم! مشرک قران کی ایک اصطلاح ہے جوعموماً وہ عرب کے ان مشرکین کے لیے استعمال کرتا ہے جو شرک کو جانتے بوجھتے اپنے مذہب کے طور پر اختیار کیے ہوئے تھے۔ اگرچہ قرآن کے مطابق عیسائیوں نے بھی شرک کا ارتکاب کیا تھا مگر وہ انہیں اس معنی میں المشرکین کہہ کر مخاطب نہیں کرتا اور نہ ان کے لیے وہ سزا تجویز کی جو رسول کے ان منکرین پر اتمام حجت کے بعد جاری کی جنہوں نے رسول اللہ کا انکار کیا۔ اس اعتبار سے ہم ہر اس شخص کو علی الاطلاق مشرک نہیں کہہ سکتے جو ہمارے نقطۂ نظر میں شرک کا مرتکب ہے۔ جو لوگ شرکیہ اعمال اور عقائد رکھتے ہیں مگر یہ تاویل کرتے ہیں کہ وہ اصل میں توحید کے قائل ہیں انہیں مشرک نہیں کہا جائے گا۔ ہندؤں میں متعدد طرح کے لوگ ہیں۔ ان میں وہ لوگ جو تاویل کا سہارا لیتے ہیں انہیں بھی علی الاطلاق اس معنی میں مشرک کہنا ٹھیک نہیں ہوگا جس میں قرآن یہ لفظ مشرکین عرب کے لیے
استعمال کرتا ہے۔ والسلام ۔‘‘ (پیر ۳۰ جون ۲۰۱۴ ء بوقت ۳۰؛۹ رات ۔
مزید دیکھیں! ایک سوال کہ’’ کیا ہندو مشرک ہے؟‘‘ کے جواب میں لکھتے ہیں
’’ہمارے نزدیک مشرک وہ شخص ہے جس نے شرک کی حقیقت واضح ہوجانے کے بعد بھی شرک کو بطور دین اپنا رکھا ہو۔ چونکہ اب کسی ہندو کے بارے میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے شرک کی حقیقت واضح ہوجانے کے بعد بھی شرک ہی کو بطور دین اپنا رکھا ہے، لہذا اسے مشرک نہیں قرار دیا جا سکتا ۔‘‘
http://urdu.understanding-islam.org
ان کے علاوہ خود غامدی صاحب کیویڈیوز موجود ہیں جن میں انہوں نے بڑے فخر کے ساتھ اعتراف کیا ہے کہ آپ دنیا کے اندر کسی بھی گروہ خواہ وہ مسیحی ہوں، یہود ہوں یا ہنود یا بدھ مت والے، کسی کو بھی کافر یا مشرک نہیں کہہ سکتے۔ اگرچہ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ شرک کا ارتکاب کر رہے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو کفر کا ارتکاب کر رہے ہیں لیکن ہم ان کی تکفیر نہیں کریں گے۔ اگر کوئی ملحد یا دہریہ ہے یا خدا کی ہستی کا منکر ہے تو اس آدمی کو خود بتانا چاہیے لیکن ہمارا یہ کام نہیں کہ ہم ان پر کوئی حکم لگائیں۔ غامدی صاحب اس سوال کہ: آپ رسالت مآب ﷺ کے چلے جانے کے بعد کسی انسان کو کافر قرار دینے کے قائل نہیں ہیں لہٰذا اس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہو جاتی ہے کہ آپ پوری دنیا کے غیر مسلموں کے لیے نجات کا احتمال تسلیم کرتے ہیں؟ کے جواب میں کہتے ہیں کہ میں نے جو بات بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک چیز ہے کفر، کفر کی سزا ابدی جہنم ہے۔ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ بات قرآن میں واضح کر دی ہے کہ یہ سزا اس وقت دی جائے گی جب کسی شخص نے جانتے بوجھتے حق کا انکار کیا ہے، حق اس پر واضح ہوگیا لیکن وہ اپنی ضد، اپنی ہٹ دھرمی اور تعصب کی وجہ سے ماننے کے لیے تیار نہ ہوا، اس کو میں یا آپ یا کوئی عدالت نہیں جان سکتی، ہم جو کچھ کرسکتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ہم بتائیں کہ کفر کیا ہے؟ شرک کیا ہے؟ لیکن فرد کی تکفیر کرنا کہ فلاں آدمی نے کفر کا ارتکاب کیا ہے، یہ وہ چیز ہے جس کا فیصلہ اللہ اور رسول کے سوا کسی کو کرنا ممکن نہیں۔ مزید کہتے ہیں کہ دنیا کے اندر مسلمانوں کے علاوہ مسیحی ہیں، یہود ،ہنود اور بدھ مت والے ہیں، آپ ان کا نام بھی لے سکتے ہیں اور ایک بڑی کیٹیگری میں ان کو غیر مسلم بھی کہہ سکتے ہیں لیکن ہم کافر کسی کو بھی نہیں کہہ سکتے۔ کفر یہ ہے کہ ایک شخص نے کسی حد تک جانتے بوجھتے اللہ کا انکار کیا ہے، یہ چیز اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تو اس وجہ سے تکفیر جسے کہتے ہیں، کسی کو کوکافر قرار دینا، منکر قرار دینا، یہ اللہ کا کام ہے۔‘‘
بات صرف اسی پر رکتی نہیں کہ انہیں کافر یا مشرک نہ کہیں اور غیرمسلم کہہ دیں بلکہ یہ ان کو جنت کے سرٹیفیکیٹ بھی عطا کر دیتے ہیں حالانکہ اہل علم جانتے ہیں کہ صحیح اسلامی عقیدے کے مطابق ایمان کے بغیر کوئی شخص جنت میں نہیں جا سکے گا اور اس ایمان سے مراد اللہ پر ایمان لانا، اس کے فرشتوں پر، اس کے نبیوں پر، اس کی کتابوں پر، آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر کے منجانب اللہ ہونے پر ایمان لانا۔ مگر غامدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ کوئی شخص اللہ کے فرشتوں، اس کے نبیوں اور اس کی کتابوں پر ایمان لائے بغیر بھی محض خدا اور آخرت پریقین رکھنے سے جنت کا حقدار ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ان کا ایک انٹرویو مصعب سکول سسٹم جوہر ٹاؤن لاہور (یاد رہے کہ مصعب سکول سسٹم خود غامدی صاحب کی سرپرستی میں قائم ہے ) کے سالانہ مجلہ ’’مصعبی‘‘ میں ان کی تصویر کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اس میں انٹرویونگار کا ایک سوال اور غامد ی صا حب کا جواب ملاحظہ کیجیے
سوال: کیا جنت میں صرف مسلمان ہی جائیں گے؟ کیا کوئی نیک غیر مسلم بھی جنت میں جا سکتا ہے؟
جواب: جنت میں جانے کا معیار قرآن میں بیان ہے، خدا اور آخرت پر یقین، اچھے اعمال کرنا اور جرائم سے دور رہنا، خواہ اب وہ مسلمان ہو، یہودی ہو یا کسی بھی مذہب کو ماننے والا جنت کا حقدار ہے۔ (سالانہ مجلہ مصعبی ۲۰۰۸، ۲۰۰۹ صفحہ ۱۵ لاہور )
یہ کتنی بڑی جسارت ہے کہ قرآن وحدیث کے علی الرغم انہوں نے نہ صرف یہود و نصاریٰ کے شرک کو ناقابل مواخذہ قرار دیا بلکہ یہ بھی اعلان کردیا کہ ہندو، بدھ مت والے اور دیگر گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ (بقول ان کے ’’غیر مسلم‘‘) بھی مشرک یا کافرنہیں جبکہ یہود و نصاریٰ کو پہلے ہی سے غامدی صاحب نے جنت کا سرٹیفیکیٹ عطا کیا ہے۔
میں یہاں صرف ان کے دو نکات کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں (جبکہ باقی نکات پر اہل علم حضرات تفصیل سے روشنی ڈال کر ان کے مؤقف کو غلط ثابت کر چکے ہیں)
اول ۔ ان کے نزدیک صرف شرک وہی قابل مؤاخذہ ہے جوجانتے بوجھتے کیا جائے۔ اور جو تاویل کا سہارا لے کر کسی غلطی یا غلط فہمی یا لاعلمی کی بنا پر شرک کا ارتکاب کرے، وہ مشرک نہیں ہے، چونکہ یہود ونصاریٰ اور دیگر مرتکیبن شرک جانتے بوجھتے شرک نہیں کرتے ہیں بلکہ تاویل کا سہارا لے کر شرک کرتے ہیں، اس لیے وہ مشرک نہیں۔
دوم ۔ اور چونکہ بنی اسماعیل کسی تاویل کا سہارا لیے بغیر جان بوجھ کر شرک میں ملوث ہوگئے تھے، اس لیے وہ مشرک تھے۔ بنی اسماعیل کے علاوہ قرآن نے کسی بھی گروہ کو مشرک نہیں کہا ہے۔
اس ضمن میں جناب معز امجد صاحب کے ارشادات ملاحظہ فرمائیں! مندجہ بالا وجوہات کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں
’’یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں بنی اسماعیل ہی کو مشرک کہا گیا ہے۔ یہود و نصاریٰ اور دوسرے گروہوں کو ان میں پائے جانے والے شرک کی نشاندہی کرنے کے باوجود قرآن نے کسی بھی مقام مشرک نہیں کہا۔‘‘ (اقامت دین صفحہ ۱۴۵) ’’ کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم نے شرک کے ساتھ ’’جانتے بوجھتے‘‘ کی جو شرط عائد کی ہے اس کی دلیل کیا ہے؟ مزید براں کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ اس معاملے میں غلطی قابل معافی ہے؟ ہمارے نزدیک معاملہ، خواہ شرک کا ہو یا کسی اور جرم کا، قابل مواخذہ وہی ہے جو جانتے بوجھتے کیا جائے۔‘‘ آگے انہوں نے اپنے دلیل میں سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵ پیش کرکے اس سے استدلال کیا ہے کہ غلطی اور بھول چوک سے جوگناہ ہم سے ہوجاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر ہمارا مواخذہ نہیں فرمائیں گے۔‘‘ (اقامت دین صفحہ ۱۶۵)
اب انہیں کون بتائے کہ غلطی یا بھول چوک سے ایک عام گناہ سرزد ہوجانے اور اعتقاداً، عملاً، قصداً اور عمداً شرک کا ارتکاب کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ آپ نے مذکورہ آیت سے غلط استدلال کیا ہے، آپ اس کے سیاق وسباق میں اس پر نظر ڈال کر اسے غور سے پڑھیں تو واضح ہو جائے گا کہ اس آیت کا شرک یا مرتکبین شرک کی معافی سے کوئی تعلق نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر گناہ جو شرک کے زمرے میں نہیں آتا ہے، کو معاف کرنے کا وعدہ کیا ہے مگر شرک جو ظلم عظیم اور ناقابل معافی جرم ہے کو معاف نہ کرنے کا اعلان کیا ہے اوراس کے ارتکاب کرنے والوں پر جنت حرام کی ہے اور ان کا ٹھکانا جہنم بتایا ہے۔ (دیکھیں سورۃ النساء آیت نمبر ۴۸ ،۱۱۶ ، سورۃ المائدہ آیت نمبر ۷۲) تو سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر ۵ سے جناب معز امجدصاحب کا یہ استدلال (کہ ’’معاملہ خواہ شرک کا ہو یا کسی اور جرم کا قابل مواخذہ وہی ہے جو جانتے بوجھتے کیا جائے‘‘ اور چونکہ یہود و نصاریٰ اوردیگر مرتکبین شرک جانتے بوجھتے شرک نہیں کرتے تھے اس لیے ان کا شرک قابل مواخذہ نہ ہوگا بلکہ اللہ اسے معاف فرمائیں گے) یقیناً غلط ہے۔ نہ صرف غلط بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر افتراء باندھنے کی کوشش بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ پر بہت بڑے بڑے احسانات کیے تھے، ان کو حکمرانی عطا کی تھی، ان کی طرف انبیاء اور رسل علیہم السلام مبعوث کیے تھے، کتابیں اتاری تھیں، ان کو علم سے نوازا تھا، وہ بے علم اور جاہل نہ تھے، وہ خوب جانتے تھے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ معاملہ خواہ تحریف فی الکتاب کا تھا یا تحویل ِقبلہ کے حکم سے انکار کا ، مسئلہ کتمانِ حق کا تھا یا ارتکابِ شرک کا، انہوں نے جانتے بوجھتے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی خلاف ورزی کی، ان کی ان ساری نافرمانیوں، عہد شکنیوں، وعدہ خلافیوں، سرکشیوں، منافقتوں، تحریفات، اعتقاد و اعمال کی خرابیوں، کتمان ِحق، کفریات اور شرکیات کا ذکر قرآن میں بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ موجود ہے۔ چند آیات پیشِ خدمت ہیں
وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (سورۃ البقرہ آیت نمبر ۴۲) باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو۔
أَفَتَطْمَعُونَ أَن یُؤْمِنُواْ لَکُمْ وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُونَ کَلاَمَ اللہ ثُمَّ یُحَرِّفُونَہُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوہُ وَھمْ یَعْلَمُونَ (سورۃ البقرہ آیت نمبر ۷۵) اے مسلمانو! اب کیا ان لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمھاری دعوت پر ایمان لائیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔
وَإنَّ الَّذِیْنَ أُوْتُواْ الْکِتَابَ لَیَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقُّ مِن رَّبِّھمْ (سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۴۴) بے شک وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ (تحویل قبلہ کا) یہ حکم حق ان کے رب کی طرف سے حق ہے۔
وَإِنَّ فَرِیْقاً مِّنْہُمْ لَیَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَھمْ یَعْلَمُونَ (سورۃ البقرہ آیت نمبر ۱۴۴) اور بے شک ان ( اہل کتاب )میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپا رہا ہے۔
اور تقریباً یہی ترجمہ جناب امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر تدبر قرآن میں بھی کیا ہے، وہ لکھتے ہیں، ان میں ایک گروہ ہے جو جانتے بوجھتے حق کو چھپاتا ہے ۔
یَا أَھلَ الْکِتَابِ لِمَ تَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللّہِ وَأَنتُمْ تَشْہَدُونَ یَا أَھلَ الْکِتَابِ لِم تَلْبِسُونَ الْحَق بِالْبَاطِلِ وَتَکْتُمُونَ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ (سورۂ آل عمران آیت نمبر۷۰ ،۷۱) اے اہل کتاب! کیوں اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم خود گواہ ہو ۔اے اہل کتا ب ! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟
انَّ الدِّیْنَ عِندَ اللہ الاسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِیْنَ أوْتُواْ الْکِتَابَ الامِن بَعْدِ مَاجَاءھمُ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْْنَہُم (سورۂ آل عمران آیت نمبر ۱۹) اللہ کا اصل دین اسلام ہے۔اہل کتاب نے تو اس میں اختلاف علمَ حق کے آجانے کے بعد محض باہمی ضدّم ضدّا کے سبب سے کیا ہے۔ (ترجمہ از تدبر قرآن جلد دوم صفحہ ۴۶)
اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے جناب امین احسن اصلاحی صاحب اپنی تفسیر تدبر قرآن میں لکھتے ہیں
’’مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ عدل وقسط کو قائم کرنے والا ہے اس وجہ سے اس نے بندوں کو صحیح زندگی گزارنے کاطریقہ بتانے کے لیے ایک دین عطا فرمایا جس کا نام اسلام ہے۔ یہی دین اللہ کا دین ہے۔ اس سے الگ اس نے کسی کو کوئی اور دین نہیں دیا لیکن یہود و نصاریٰ نے باہمی اختلاف وعناد اور ضدم ضدا کی وجہ سے اس میں بہت سے اختلافات پیدا کر دیے اور یہودیت و نصرانیت کے نام سے اپنے الگ الگ دین کھڑے کر لیے۔ ان کا یہ اختلاف کسی بےخبری پر مبنی نہیں تھا بلکہ حق واضح ہو جانے کے باوجود محض شرارت نفس، باہمی عناد اور اپنی اپنی بدعات کی پچ میں تھا۔ اس طرح انہوں نے اللہ کی عظیم نعمت ضائع کردی۔‘‘ (تدبر قرآن جلد دوم صفحہ ۵۱ ،۵۲ )
آگے آیت نمبر ۲۰ کی تشریح کرتے ہوئے انہوں نے صفحہ ۵۴ پر لکھا ہے
آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ نے جس وقت اللہ کے دین اسلام کو یہودیت ونصرانیت کی صورت میں مسخ کیا، جان بوجھ کر مسخ کیا اور اب جو یہودیت ونصرانیت کی حمایت اور اسلام کی مخالفت میں یہ تم سے مناظرہ ومباحثہ چھیڑے ہوئے ہیں، یہ بھی جان بوجھ کر ہی ہے۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ حق کیا ہے اور تم جس دین کی دعوت دے رہے ہو اس کی حیثیت کیا ہے ؟ اس وجہ سے ان کے ساتھ بحث وجدال میں وقت ضائع کرنے سے کچھ حاصل نہیں۔‘‘ (تدبر قرآن صفحہ ۵۴)
وَإنَّ مِنْہُمْ لَفَرِیْقاً یَلْوُونَ أَلْسِنَتَہُم بِالْکِتَابِ لِتَحْسَبُوہُ مِنَ الْکِتَابِ وَمَاھوَ مِنَ الْکِتَابِ وَیَقُولُونَ ھوَ مِنْ عِندِ اللہ وَمَاھوَ مِنْ عِندِ اللہ وَیَقُولُونَ عَلَی اللہ الْکَذِبَ وَھمْ یَعْلَمُون ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جوکتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو جوکچھ وہ پڑھ رہے ہیں و ہ کتا ب ہی کی عبارت ہے، حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی، وہ کہتے ہیں کہ یہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں ہوتا، وہ جان بوجھ کر جھوٹ بات اللہ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ ( سورۂ آل عمران آیت نمبر۷۸)
(یہ ترجمہ تفہیم القرآن سے لیاگیا ہے اور تقریباً ایسا ہی ترجمہ تدبر قرآن میں بھی کیا گیا ہے۔آخری حصے کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ’’اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے حالانکہ وہ اللہ کے پاس سے نہیں ہے۔ وہ اللہ پر جانتے بوجھتے جھوٹ باندھتے ہیں۔‘‘)
قُلْ یَا أَھلَ الْکِتَابِ لِمَ تَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللہ وَاللہ شَہِیْدٌ عَلَی مَا تَعْمَلُون قُلْ یَاأَھلَ الْکِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَن سَبِیْلِ اللہ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَہَا عِوَجاً وَأَنتُمْ شُہَدَاء وَمَا اللہ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (سورۂ آل عمران آیت نمبر ۹۸ ،۹۹)کہو ، اے اہل کتاب !تم کیوں اللہ کی آیات ماننے سے انکار کرتے ہو ، اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس پر گواہ ہے ۔کہو اے اہل کتاب ! تم ایمان لانے والوں کو اللہ کی راہ سے کیوں روکتے ہو اور چاہتے ہو کہ وہ ٹیڑھی راہ چلے حالانکہ تم خود (اس کے راہ راست ہونے پر) گواہ ہو۔ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔
وَلَقَدْ آتَیْْنَا بَنِیْ إسْرَائِیْلَ الْکِتَابَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ وَ رَزَقْنَاھم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ وَآتَیْْنَاھم بَیِّنَاتٍ مِّنَ الْامْرِ فَمَا اخْتَلَفُوا إلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءھمْ الْعِلْمُ بَغْیْاً بَیْْنَہُمْ إِنَّ رَبَّکَ یَقْضِیْ بَیْْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْمَا کَانُوا فِیْہِ یَخْتَلِفُونَ اور بے شک ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب اور حکومت اور نبوت سے سرفراز کیا اور ان کو پاکیزہ رزق عطا کیا اور دنیا والوں کو ان پر فضیلت بخشی اور ان کو شریعت الٰہی کے کھلے کھلے احکام دیے۔ تو انہوں نے نہیں اختلاف کیا مگر بعد اس کے کہ ان کے پاس علم آچکا تھا ،محض باہمی ضدّم ضدّام کے سبب سے، بے شک تیرا رب ان کے درمیان فیصلہ کرے گا قیامت کے دن ان تمام چیزوں کے بارے میں جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ (سورۃ الجاثیہ آیت نمبر ۱۶ ،۱۷)
ان آیات سے ثابت ہوا کہ بنی اسرائیل کو کتبِ الٰہی اور نبوت و رسالت سے بھی سرفراز کیا گیا تھا، ان کو شریعت ِالٰہی کے کھلے کھلے احکام اور علم و دانائی سے بھی نوازا گیا تھا۔وہ حق اور باطل سے اچھی طرح واقف تھے، وہ بےعلم اور بے خبر نہ تھے مگراس کے باوجود انہوں نے اپنے حقیقی مالک کے ساتھ احسان فر اموشی کا رویہ اختیار کرکے جانتے بوجھتے نافرمانی کی۔ حق واضح ہو جانے کے بعد انہوں نے محض باہمی ضد اور عناد کی وجہ سے دین ِ حق سے اختلاف کیا۔ اسی طرح ان کا ارتکاب ِشرک بھی کسی غلط فہمی، بے خبری، لاعلمی اور ناسمجھی کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ وہ جانتے بوجھتے شرک کرتے تھے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں بنی اسماعیل امی تھے جن کے پاس نبی ﷺ سے پہلے نہ کوئی نبی یا رسول آیا تھا، نہ انہیں کوئی کتاب دی گئی تھی اور نہ انہیں علم سے نوازا گیا تھا۔ ان کی اکثریت جاہل تھی اور علم سے محروم تھی۔
(دیکھیے سورۃ النحل آیت نمبر ۷۳ تا ۷۵، سورۃ النمل آیت نمبر۶۱، سورۃ العنکبوت آیت نمبر ۶۳ ،۶۴، سورۂ لقمان آیت نمبر ۲۵، سورۃ الانبیاء آیت نمبر ۲۴ اور سورۃ الملک آیت نمبر ۱۰)
کیا یہ آیات اس بات کی دلیل نہیں کہ مشرکین عرب کی اکثریت جاہل ،ان پڑھ، بے علم ،عقل وشعور سے عاری اور سوچ سمجھ کی صلاحیت سے محروم تھی؟ وہ محض قیاس وگمان کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور سمجھتے تھے کہ اللہ ہمارے شرک سے راضی ہے، اس لئے وہ اپنے شرک کی یوں تاویل کرکے کہتے تھے : ۔{لَوْ شَاء اللّہُ مَا أَشْرَکْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَیْْء } : ۔ ’’اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا ، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔‘‘ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مشرکین عرب اپنی جہالت،نادانی ،لاعلمی اورغلط فہمی ،تاویل اور کلامی قسم کی موشگافیوں کی وجہ سے شرک میں ملوث ہوئے تھے جبکہ بنی اسرائیل کا ارتکاب ِشرک کسی غلط فہمی ، بے خبری ، لاعلمی اور ناسمجھی کی بنیاد پر نہ تھا بلکہ وہ جانتے بوجھتے شرک کرتے تھے۔
جس طرح ان کا یہ فلسفہ غلط ہے کہ یہود و نصاریٰ یا دیگر مرتکبین شرک جانتے بوجھتے شرک نہیں کرتے بلکہ وہ غلطی سے، بھول چوک سے اور لاعلمی سے شرک میں مبتلا ہیں بلکہ وہ تاویل کا سہارا لے کر شرک کرتے ہیں، اس لیے ان کا شرک قابل مؤاخذہ نہیں، بالکل اسی طرح ان کا یہ فلسفہ بھی یقیناً سو فی صد غلط اور خلاف قرآن ہے کہ مشرکین مکہ کا شرک بلاتاویل تھا۔ آئیے! اس سلسلہ میں بھی قرآن سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں
وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوا مِن دُونِہِ أَوْلِیَاء مَا نَعْبُدُھمْ إلَّا لِیُقَرِّبُونَا إلَی اللہ زُلْفَی (سورۃ الزمر آیت نمبر ۳ ) اور جن لوگوں نے اللہ کے سوا اور دوست بنائے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم ان کو اس لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں۔
وَیَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللہ مَا لاَ یَضُرُّھمْ وَلاَ یَنفَعُھُمْ وَیَقُولُونَ ھـؤُلاء شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللہ (سورۃ یونس آیت نمبر۱۸) اور وہ اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انہیں ضرر پہنچا سکتے ہیں اورنہ انہیں نفع دے سکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس ہمارے سفارشی ہیں۔
بَلْ قَالُوا إنَّا وَجَدْنَا آبَاء نَا عَلَی أُمَّۃ وَإنَّا عَلَی آثَارِھم مُّہْتَدُونَ (سورۃ الزخرف آیت نمبر۲۲) بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے باپ دادا کو ایک رستے پر پایا ہے اور ہم ان ہی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔
لَوْ شَاء اللہ مَا أَشْرَکْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَیْْء (سورۃ الانعام آیت نمبر ۱۴۸)’’اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا ، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔‘‘
ان آیات میں قرآن نے مشرکین عرب کی چار تاویلات کا ذکر کیا ہے، اول یہ کہ وہ بتوں کی عبادت محض اس لیے کرتے تھے کہ وہ ان کو تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ دوم یہ کہ وہ ان کو اللہ کے ہاں اپنے سفارشی سمجھتے تھے۔ سوم یہ کہ وہ اپنے باپ دادا کے نقش قدم، راستے اور طریقے کی پیروی کرکے ان کو پوجتے تھے۔ چہارم یہ کہ مشرکین عرب کی اکثریت جاہل، بےعلم، عقل و شعور سے عاری اور سوچ سمجھ کی صلاحیت سے محروم تھی اور وہ محض قیاس وگمان کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور سمجھتے تھے کہ اللہ ہمارے شرک سے راضی ہے، اس لیے وہ اپنے شرک کی یوں تاویل کرکے کہتے تھے:
لَوْ شَاء اللہ مَا أَشْرَکْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَیْْء ’’اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا ، اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے ۔‘‘
یہ بات تو قرآن ہی سے ثابت ہوئی کہ مشرکین عرب جو شرک کرتے تھے، تاویل ہی کا سہارا لے کر کرتے تھے۔ اب اگر بقول جاوید غامدی صاحب اور معز امجد صاحب صرف وہی شرک قابل مؤاخذہ ہے جو جانتے بوجھتے کیا جائے یا بلا تاویل کیا جائے اور اہل کتاب جانتے بوجھتے شرک نہیں کرتے بلکہ غلطی یا غلط فہمی اور ناسمجھی سے تاویل کا سہارا لے کر شرک کے مرتکب ہوئے تھے تو اس لیے ان کا شرک قابل مواخذہ نہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جگہ جگہ ان کی شرک کی نشان دہی کرکے انہیں عذاب کی وعید کیوں سنائی؟ اور اس کا جوش غضب بھڑک اٹھ کر ان پر کفر کے فتوے کیوں لگائے؟ اگر واقعی وہ تاویل کی غلطی سے، لاعلمی سے یا غلط فہمی سے شرک میں مبتلا تھے اور جانتے بوجھتے شرک نہ کرتے تھے اور یہ بقول معز امجد صاحب قابل مواخذہ نہ ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ پورے قرآن میں اور خصوصاًسورۃ المائدہ آیت نمبر ۱۶ ،۱۷ ، ۷۲ ، ۷۳ میں ان پر کفر کے فتوے لگا کر ان کا ٹھکانا جہنم نہ بتاتے اور سورۃ التوبہ آیت نمبر ۳۰ ،۳۱ ، ۳۲ ،۳۳ ، ۳۴ اور ۳۵ میں ان کے شرک کی نشان دہی کرکے انہیں مشرک قرار نہ دیتے اور ان کے لیے عذابِ الیم اور نارِ جہنم کی سزا نہ سنا دیتے۔
بشکریہ دلیل
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں...