قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت

Published On January 23, 2025
غامدی صاحب اور ’چند احکام‘ کا مغالطہ

غامدی صاحب اور ’چند احکام‘ کا مغالطہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کا معروف موقف ہے کہ حکومت و سیاست سے متعلق شریعت نے بس چند احکام ہی دیے ہیں۔ بسا اوقات سورۃ الحج کی آیت 41 کا حوالہ دے کر ان چند احکام کو ’بس چار احکام‘ تک محدود کردیتے ہیں: نماز قائم کرنا ، زکوۃ دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے...

قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت

قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت

جہانگیر حنیف قرآنِ مجید کتابِ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید نے اپنا تعارف جن الفاظ میں کروایا ہے، اگر ان پر غور کیا جائے، تو قرآنِ مجید کا کتابِ ہدایت ہونا ان سب کو شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو اگر کسی ایک لفظ سے تعارف کروانے کی ضرورت پیش آجائے، تو کچھ اور کہنے کی...

قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت

قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت

ڈاکٹر خضر یسین قانون اتمام حجت ایک ایسا مابعد الطبیعی نظریہ ہے جو ناسخ قرآن و سنت ہے۔اس "عظیم" مابعد الطبیعی مفروضے نے سب سے پہلے جس ایمانی محتوی پر ضرب لگائی ہے وہ یہ ہے کہ اب قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تصدیق روئے زمین پر افضل ترین ایمانی اور...

عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ : قسط اول

عدت میں نکاح: جناب محمد حسن الیاس کی عذر خواہی پر تبصرہ : قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت میں نکاح کے متعلق جناب جاوید احمد غامدی اور جناب محمد حسن الیاس کی وڈیو کلپ پر میں نے تبصرہ کیا تھا اور ان کے موقف کی غلطیاں واضح کی تھیں۔ (حسب معمول) غامدی صاحب نے تو جواب دینے سے گریز کی راہ اختیار کی ہے، لیکن حسن صاحب کی عذر خواہی آگئی ہے۔...

عدت کے دوران نکاح پر غامدی صاحب اور انکے داماد کی غلط فہمیاں

عدت کے دوران نکاح پر غامدی صاحب اور انکے داماد کی غلط فہمیاں

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد عدت کے دوران میں نکاح کے متعلق غامدی صاحب اور ان کے داماد کی گفتگو کا ایک کلپ کسی نے شیئر کیا اور اسے دیکھ کر پھر افسوس ہوا کہ بغیر ضروری تحقیق کیے دھڑلے سے بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ اگر غامدی صاحب اور ان کے داماد صرف اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے،...

حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السماء اور غامدی موقف

حضرت عیسی علیہ السلام کا رفع الی السماء اور غامدی موقف

مولانا محبوب احمد سرگودھا اسلامی عقائد انتہائی محکم ، واضح اور مدلل و مبرہن ہیں ، ان میں تشکیک و تو ہم کی گنجائش نہیں ہے۔ ابتدا ہی سے عقائد کا معاملہ انتہائی نازک رہا ہے، عقائد کی حفاظت سے اسلامی قلعہ محفوظ رہتا ہے۔ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہی سے کئی افراد اور جماعتوں...

جہانگیر حنیف

قرآنِ مجید کتابِ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید نے اپنا تعارف جن الفاظ میں کروایا ہے، اگر ان پر غور کیا جائے، تو قرآنِ مجید کا کتابِ ہدایت ہونا ان سب کو شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو اگر کسی ایک لفظ سے تعارف کروانے کی ضرورت پیش آجائے، تو کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں، ہمیں محض اسے کتابِ ہدایت سے متعارف کروانا چاہیے۔ قرآنِ مجید نے ہدایت کا عنوان خود اپنے لیے اختیار کیا ہے۔ ہمیں قرآن مجید کو انھی الفاظ میں متعارف کروانے کے ضرورت ہے۔ قرآن مجید کو کسی بھی دوسرے عنوانات سے متعارف کروانے میں بہت کچھ خطرات ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عنوان قرآن مجید نے اپنے لیے اختیار نہیں کیا۔ دوسرا یہ کہ ہمارے مزعومہ عنوان سے قرآن مجید کے آفاقی اور من جانب اللہ وحی ہونے کے کسی نہ کسی پہلو پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تیسرا مسئلہ تفسیری ہے۔ عنوانات کسی بھی کتاب کے لیے اس کتاب کے محتویات کا پیشگی تعارف فراہم کرتے ہیں۔ ہم کسی بھی کلام کے فہم سے اس کلام کے محتویات کا فہم حاصل کرنے کا آغاز کرتے ہیں۔ اگر قرآن مجید کو کسی ایسے عنوان سے موسوم کیا جائے گا، جو قرآن مجید نے خود اپنے لیے اختیار نہیں کیا، تو ہم قرآن مجید کے محتویات کا غلط فہم منتقل کرنے کی داغ بیل ڈالیں گے۔ آخری دلیل کے طور پر یہ سمجھ لیں کہ قرآن مجید خالقِ کائنات کا کلام یے۔ وہ اس کلام کو اتارنے والا ہے۔ اسی نے ہمیں اور ہمارے فہم کو خلق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات نے اگر مناسب نہیں سمجھا کہ وہ اپنے کلام کے لیے کسی ایسے عنوان کا انتخاب کرے، جو ہم جیسے اس کو دے رہے ہیں، تو وہ عنوان یقینا قابلِ تردید ہوگا۔ اس عنوان سے بلا شبہ قرآن مجید کے درست فہم میں نقصان کا خدشہ ہے۔

قرآن مجید کو ”پیغمبر کی سرگذشتِ انذار“ قرار دینا، ان تمام وجوہات کی بنا گمراہ کن ہے۔ یہ قرآن مجید پر خواہ مخواہ کا تحکم ہے۔ یہ کلام پر قاری کا وہ غلبہ ہے، جو کلام بالعموم اور کلام اللہ بالخصوص جس کی اجازت ہرگز نہیں دیتا۔ قرآن مجید کے قاری کو قرآن مجید کا فہم حاصل کرنے کے لیے اپنے ذہن کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ اس اجازت میں یہ شامل ہے کہ قاری اپنے علم کو قرآن مجید پر پیش کرے۔ یعنی یکسر خالی الذہن ہو کر کلام فہمی ناممکن ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قاری کلام کو ایسے حدود میں باندھ دے کہ کلام خود ان حدود کو پابندی کرنے والا نہ ہو۔ اگر یہ درست ہے، تو پھر قرآن مجید سے سائنس اور مارکسی نظریات اخذ کرنے کیوں غلط ہوسکتا ہے۔ قرآن مجید سائنس کی کتاب نہیں۔ اس میں دور جدید کے آئیڈیاز کو تلاش کرنا غلط ہے۔ علی ھذا القیاس، اس کتاب کو دور جدید کی ساختیات کے سپرد کرنا بھی غلط سے غلط تر ہے۔ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن مجید کا ہر فہم جو اسے کتابِ ہدایت مانے بغیر کیا جائے گا، وہ فہم کے نقص یا اس کے باطل ہونے پر منتج ہوگا۔ اس پر یہ اعتراض کہ قرآن مجید کو غیرِ مؤمن پڑھ کر کسیے ایمان لا سکتا ہے، قیاس مع الفارق ہے۔ اس کے دو جواب ہیں۔ پہلا یہ کہ قرآن مجید کے ایمانی محتویات اور اس کے علمی و دینی محتویات جو اصول الدین اور فقہ الدین کا موضوع بنتے ہیں، ان کے مابین نوعی امتیاز ہے۔ جو لوگ قرآن مجید کے ایمانی محتویات کو اس اعتراض کے تحت مشکوک بناتے ہیں، ان کے فہم پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمہ اللہ عنھما جب قرآن مجید کو دین کی بنیاد کی حیثیت میں دیکھتے ہیں، تو وہ دین کے کلی اور مجموعی موقف کو بیان کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔ محترم غامدی صاحب نے قرآن مجید کے جن معانی کو میزان میں تفصیل دیا ہے، وہ اصول الدین اور فقہ الدین کے دائرے سے متعلق ہیں۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید کی ہدایت ایمان کے پہلو سے بھی اس وقت ہمارے فہم میں داخل ہوتی ہے، جب قرآن مجید ہمارے ذہن کو تسخیر کر چکا ہوتا ہے اور یہ منوا چکا ہوتا ہے کہ مجھے خدا کا کلام تصور کرو۔ کلام اللہ اپنے قاری کو پہلے اپنی پوزیشن درست کرنے پر مائل کرتا ہے اور پھر جب قاری وہ پوزیشن اختیار کرلیتا یے، تو وہ اس کے دل و دماغ میں اپنے پیغام کو رسوخ دیتا ہے۔

پیغمبر کی سرگذشتِ انذار یہ کوئی ایمان قضیہ نہیں۔ یعنی خدا ایک یے، آخرت میں جوابدہی ہوگی۔ یہ ایمانی قضایا ہیں۔ پیغمبر کی سرگذشتِ انذار کوئی ایمانی قضیہ نہیں۔ غامدی صاحب نے اسے ایک علمی قضیہ کی حیثیت میں پیش کیا ہے۔ میزان غامدی صاحب کے فہمِ دین کو بیان کرتی ہے۔ ان کا فکر انحراف پر مبنی اور اصول سے کٹا ہوا ہے۔ وہ اس بات کو خود تسلیم کرتے ہیں اور اسے اپنے فکر کے امتیاز کی حیثیت میں بیان کرتے ہیں۔ اس علمی قضیہ کی حیثیت ایمانی قضایا جیسی نہیں۔ اس قضیہ کو مفروضہ مان کر قرآن مجید کا مطالعہ قرآن مجید کے کتاب ہدایت ہونے کو زک پہنچاتا ہے۔ اس کی آفاقیت کو متاثر کرتا ہے اور اس کے زماں و مکاں سے ماورا تمام انسانوں سے براہ راست مخاطب ہونے کو پسِ پشت ڈالتا ہے۔ اس علمی مگر غلط قضیہ سے قرآن مجید کے محتویات کا ایک غلط فہم قاری کے ذہن میں منتقل ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے محتویات کے بارے میں ایک غلط رائے قاری اس کلام کو پڑھنے سے پہلے قائم کرلیتا ہے۔ قرآن مجید کو کتابِ ہدایت قرار دینے میں اس نوعیت کے کسی بھی خطرہ کا سامنا نہیں ہوتا۔ قرآن مجید نور ہے۔ یہ دلوں کے لیے شفاء ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کیونکہ قرآن مجید کتابِ ہدایت ہے۔ قرآن مجید کا کتابِ ہدایت اس کے کل کو اپنے احاطہ میں لیے ہیں۔ سرگذشتِ انذار اسے ایک کہانی کی نوع میں لے جاتا ہے۔ جو قرآن مجید کے بارے میں انتہائی گمراہ کن موقف ہے۔ قرآن مجید زندہ جاوید کلام ہے۔ یہ کوئی سرگذشت نہیں۔ اس میں کچھ قصص بیان ہوئے ہیں۔ یہ خود کوئی قصہ نہیں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ جس کتاب میں کچھ قصص بیان ہوئے ہو، اور ان سے مقصود سامعین کی تعلیم و تربیت ہو۔ کوئی شخص اٹھے اور خود اس قرآن کو قصہ بنا دے۔ یہ ظلمِ عظیم ہے اور وہ بھی قرآن مجید جیسے بے مثل کلام کے ساتھ۔

 

 

 

 

 

 

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…