سید متین احمد شاہ غامدی صاحب کی ایک تازہ ویڈیو کے حوالے سے برادرِ محترم علی شاہ کاظمی صاحب نے ایک پوسٹ لکھی اور عمدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ صحابہ کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے غامدی صاحب کی اور بھی کئی ویڈیوز ہیں۔ جس طرح انھوں نے بہت سے فقہی اور فکری معاملات میں...
قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط
حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط دوم
مولانا محبوب احمد سرگودھا غامدی صاحب کے تیسرے اعتراض کی بنیاد سورہ مائدہ کی آیت ہے 117 میں موجود عیسی علیہ السلام کا روز قیامت باری تعالٰی سے ہونے والا مکالمہ ہے۔ آیت یہ ہے: فلما توفيتني كنت انت الرقيب عليهم، وانت على كل شيء شهید (قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں عیسی...
حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط اول
مولانا محبوب احمد سرگودھا پہلی تحریر میں عیسی علیہ السلام کے رفع الی السماء" کے بارے میں غامدی صاحب کے نظریہ کا تجزیہ پیش کیا گیا، اس تحریر میں اُن کے نزول الی الارض کے بارے میں غامدی صاحب کا نظریہ پیش خدمت ہے:۔ اولاً غامدی صاحب کی عبارت ملاحظہ کی جائے ، اپنی...
غامدی صاحب اور ’چند احکام‘ کا مغالطہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کا معروف موقف ہے کہ حکومت و سیاست سے متعلق شریعت نے بس چند احکام ہی دیے ہیں۔ بسا اوقات سورۃ الحج کی آیت 41 کا حوالہ دے کر ان چند احکام کو ’بس چار احکام‘ تک محدود کردیتے ہیں: نماز قائم کرنا ، زکوۃ دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے...
قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت
جہانگیر حنیف قرآنِ مجید کتابِ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید نے اپنا تعارف جن الفاظ میں کروایا ہے، اگر ان پر غور کیا جائے، تو قرآنِ مجید کا کتابِ ہدایت ہونا ان سب کو شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو اگر کسی ایک لفظ سے تعارف کروانے کی ضرورت پیش آجائے، تو کچھ اور کہنے کی...
قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت
ڈاکٹر خضر یسین قانون اتمام حجت ایک ایسا مابعد الطبیعی نظریہ ہے جو ناسخ قرآن و سنت ہے۔اس "عظیم" مابعد الطبیعی مفروضے نے سب سے پہلے جس ایمانی محتوی پر ضرب لگائی ہے وہ یہ ہے کہ اب قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تصدیق روئے زمین پر افضل ترین ایمانی اور...
محمد خزیمہ الظاہری
منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔
متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات ایسے ہی منتشر تھی جیسے آج ہے اس وقت تک اسکے متواتر ہونے کا علم نہیں ہو سکتا۔
مثلاً آج کسی بھی چیز سے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ کے زمانے سے آج تک یہ عمل ایسے ہی متواتر چلا آ رہا ہے تو ہمیں اس بات کا علم کیسے ہو گا کہ آج سے پانچ سو سال پہلے یہ عمل واقعی متواتر تھا؟
ہم نے صرف آج کے زمانے میں ہی اپنی آنکھوں سے متواتر قرار دی جانے والی چیزوں کو دیکھا ہے،اس سے چند صدیاں پیچھے جائیں گے تو اس دور کے حالات و احوال کیسے معلوم کریں گے؟
ما سوائے ان لکھی ہوئی روایات و اخبار کے اور کوئی ذریعہ نہیں جو اسکا پتہ دے،وہ اخبار و روایات جنہیں ہر حال میں ظنی کہا جاتا ہے۔
جب تک روایاتِ آحاد پر یقین سے اعتماد نہیں ہو گا اس وقت تک تواتر صرف ایک ہوائی خیال رہے گا،روایات ہی باتی ہیں کہ فلاں فلاں زمانے میں فلاں فلاں چیز متواتر تھی،یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے اجماع ہوتا ہے کہ اسے نقل کرنے والے چند ایک ہی ہوتے ہیں جو اجماعات پر کتابیں لکھ کر بتاتے ہیں کہ فلاں فلاں چیز پر اجماع ہے مگر از خود یہ چیز بیان کرنے والے چند گنے چنے لوگ ہوتے ہیں۔
تواتر کی اصطلاح جہاں سے آئی ہے اور جس فن کے ماننے والوں نے تواتر کو ثبوت کا قطعی ذریعہ بتایا ہے انکے ہاں بھی صراحت سے یہ بات نہیں ملتی کہ تواتر فی نفسہ الگ سے کوئی مستقل چیز ہے اور اپنے وجود میں آحاد و مظنونات کی محتاج نہیں ہے،بلکہ اسکے بر عکس یہ ضرور ملتا ہے کہ تواتر سے آپ کسی دوسرے پر حجت قائم ہی نہیں کر سکتے اگرچہ آپ خود اس متواتر چیز پر مطمئن ہوں (یہ گفتگو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب الرد على المنطقيين میں موجود ہے)۔
اسی طرح اس فن کے بہت سے اہل علم جن میں امام غزالی رحمہ اللہ سر فہرست ہیں،انہوں نے جہاں یقینی اور قطعی مقدمات کا ذکر کیا ہے وہاں تواتر کو کوئی جگہ نہیں دی،صرف اولیات،فطریات،مشاھدات اور تجربیات پر اکتفاء کیا ہے،۔
انہیں اخبار و روایات کی قدر نا کرنے کی وجہ سے عیسائیوں کو اس بحث کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ نعوذ باللہ عیسی علیہ السلام کا کوئی شخصی وجود بھی تھا یا وہ ایک فرضی شخص ہیں؟؟
اس ساری گفتگو سے یہ بتانا مقصود ہے کہ جن چیزوں کو متواتر کا درجہ حاصل ہو گا انکی بنیاد اخبار و روایات پر ہی ہو گی اور ان اخبار و روایات کو (بعض صورتوں میں) قطعی تسلیم کیا جائے گا تو ہی متواتر کی حیثیت سامنے آ سکے گی۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط دوم
مولانا محبوب احمد سرگودھا غامدی صاحب کے تیسرے اعتراض کی بنیاد سورہ مائدہ...
حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط اول
مولانا محبوب احمد سرگودھا پہلی تحریر میں عیسی علیہ السلام کے رفع...
غامدی صاحب اور ’چند احکام‘ کا مغالطہ
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کا معروف موقف ہے کہ حکومت و سیاست سے...