فراہی مکتب فکر کا قطعی الدلالت: جناب ساجد حمید صاحب کی تحریر سے مثال

Published On December 8, 2023
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

ڈاکٹر زاہد مغل

محترم غامدی صاحب کے شاگرد محترم ساجد حمید صاحب نے کسی قدر طنز سے کام لیتے ہوئے اصولیین کے اس تصور پر تنقید کی ہے کہ الفاظ قرآن کی دلالت ظنی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بگاڑ کی اصل وجہ امام شافعی ہی سے شروع ہوجاتی ہے جس میں اصولیین، فلاسفہ و صوفیا نے بقدر جثہ حصہ ڈالا ہے۔ اس ضمن میں ساجد صاحب نے جو مقدمہ کھڑا کیا ہے نیز اس کے لئے وہ جو دلائل لائے ہیں، اس پر ہم ان شاء اللہ کسی فرصت میں تبصرہ کریں گے، ہمارے نزدیک انہوں نے امام شافعی سمیت جمیع اصولیین کا مقدمہ سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ تاہم فی الوقت ہم قارئین کے سامنے مکتب فراہی کے دیگر افراد کی طرح محترم موصوف کے تصور قطعی کا حال واضح کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے ہم ان کہ تحریر میں درج ایک مثال کا مختصرا تجزیہ کرتے ہیں۔ قرآن میں مطلقہ خواتین کو تین قروء عدت گزارنے کا حکم دیا گیا ہے۔ فقہا کے مابین اس بات پراختلاف ہوا کہ قروء کا مطلب حالت حیض ہے یا طہر۔ طرفین کے موقف و دلائل کی صحت و عدم صحت سے ہمیں یہاں دلچسپی نہیں، اصل بات یہ ہےکہ ساجد حمید صاحب کے بقول یہاں قروء کا مطلب حیض ہے اور یہ بات قرآن کی ایک اور آیت سے صاف ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں

“عدت کے احکام کو دوسری جگہ دیکھیں۔ ارشاد ہے
وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآءِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُھُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْھُرٍ…. (الطلاق۶۵: ۴)
’’یعنی تمھاری وہ عورتیں جو حیض سے مایوس ہو چکی ہیں، ان کے بارے میں اگر شک ہو تو عدت تین ماہ ہے۔‘‘

ان دو مقامات سے واضح ہے کہ عدت کے شمار اور تعینِ اولاد کے لیے ایک ہی چیز بیان ہوئی ہے وہ حیض ہے، قرآن مجید کا مدعا دو ٹوک ہے۔لیکن اس کے باوجود (فقہا کے نزدیک) کلام ظنی ہی مانا جائے گا”

آئیے اس “دو ٹوک” نتیجے کے لئے کئے جانے والے استدلال کا حال ملاحظہ کرتے ہیں۔

عدت کے احکام سے متعلق جن دو آیات کو ملاکر وہ قروء سے مراد قطعی طور پر حیض قرار دینا چاہتے ہیں اس کی کمزوری بالکل سامنے کی چیز ہے۔ آیت وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ الخ یہ کہہ رہی ہے کہ جو خواتین مایوسی کے ایام کو پہنچ چکیں، چونکہ ان کے حق میں حیض وطہر میں فرق کا کوئی پیمانہ ممکن نہیں رہا اس لیے وہ دنوں (یعنی تین ماہ) کو معیار بنائیں گی۔ لیکن اس سے یہ کس لغوی دلالت سے معلوم ہوا کہ قروء کا مطلب حیض ہے؟ شوافع اس استدلال پر یہ کہیں گے کہ اس سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان خواتین کے حق میں “طہر”، جو اصلا قروء کا مطلب ہے، جب تک ان کے درمیان حیض مدخل نہ ہو تو وہ لامتناہی حد تک چلتا رہے گا اور نتیجتاً گنتی ناقابل تصور ہو جائے گی، لہذا شارع نے ان خواتین کے لئے دن معیار مقرر کردئیے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے مستحاضہ کے حق میں طہر بظاہر ناقابل تصور ہو جاتا ہے کہ اسے مستقل خون آتا رہتا ہے، اس لیے اس کے لیے عادت وغیرہ کے ذریعے سے کسی دوسرے پیمانے کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ پس آیت کے الفاظ “جو حیض سے مایوس ہوئیں” سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قروء والی آیت میں اس سے حیض مراد ہے، چہ جائیکہ اسے قطعی بھی کہا جاسکے۔ ہاں اگر کسی چیز کو محض لفاظی کے زور پر دو ٹوک کہہ دینے سے وہ قطعی ہوجاتی ہے تو الگ بات ہے۔ بات کو اصولی زبان میں مزید کھولا جائے تو بات یہ ہے کہ اس آیت کی بنیاد پر قروء سے حیض مراد لینا عبارت النص، اشارۃ النص، دلالت النص و اقتضاء النص کے ذریعے تو رہا ایک طرف، مفہوم مخالف (جو الفاظ سے مفہوم اخذ کرنے کا کمزور و مختلف فیہ طریقہ ہے) سے بھی ثابت نہیں ہوتا۔ یہاں “جسے حیض نہیں آتا، تو مہینوں کا اعتبار کرے” منطوق ہے جس کا مفہوم مخالف “جسے حیض آتا ہے وہ مہینوں کا اعتبار نہ کرے” بنتا ہے۔ اس سے قروء کا مطلب حیض نکال لینا کونسی قطعی لغوی دلالت ہے جسے دو ٹوک کہا جاسکے؟ البتہ یہ بات درست ہے کہ ایسے قرینے (کہ “دیکھو دنوں کا تقابل حیض نہ آنے سے کیا گیا ہے”) مجتہد کے حق میں وجوہات ترجیح ہوسکتے ہیں لیکن انہیں “دو ٹوک” کہنے سے گریز ضروری ہے کیونکہ ان قرآئن میں تشریحات کے واضح احتمالات موجود ہوتے ہیں جیسا کہ یہاں واضح کیا گیا اور اگر دوسرا مجتہد دیگر قوی دلائل یا قرائن کی بنا پر دوسری رائے کو ترجیح دے تو وہ بھی مصیب ہوسکتا ہے۔

ہم پہلے بھی گزارش کرتے رہے ہیں اور پھر کہیں گے کہ مکتب فراہی کا تصور قطعی ان اصولیین کے تصور ظنی کے سوا کچھ نہیں جن کے نزدیک الفاظ قرآن کی دلالت ظنی ہے۔ ساجد صاحب کی یہ مثال بھی اس کی پرفیکٹ مثال ہے اور ایسی “قطعیت” کی درجنوں مثالیں اس مکتب فکر کی کتب میں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ قطعی الدلالۃ اگر اسی چیز کا نام ہے کہ ایک ہی آیت سے متعلق مولانا فراہی و مولانا اصلاحی و جناب غامدی و جناب ساجد حمید صاحبان نظم قرآن کے تحت الگ الگ باتیں کہہ دیں مگر پھر بھی نہ صرف یہ کہ یہ سب مسلمان رہیں بلکہ عند اللہ ماجور نیز اپنے فہم کے مطابق حکم اللہ کے مکلف رہیں تو اس مفہوم میں “قطعی دلالت” کا انکار کس نے کیا ہے کہ اسے منوانے کے لئے ساجد صاحب کی طویل تحریر کی ضرورت ہو؟ مسئلہ یہ ہے کہ جب آپ اصولیین کے ظنی کو اپنے ہاں قطعی بنا کر بحث کرتے رہیں گے اور اس بات کو اگنور کردیں گے کہ قطعی سے وہ کیا مراد لیتے ہیں تو اس کا حاصل لفظی نزاع کے سوا کیا ہے؟ اس لفظی نزاع کو وقیع بنانے کے لئے امام شافعی سے کہانی کا آغاز کرنا مفید نہیں۔ امام غزالی کتاب المستصفی میں مباحث اجتہاد کے تحت کہتے ہیں کہ قطعی مسائل میں حق صرف ایک ہوتا ہے اور ان میں اختلاف جائز نہیں ہوتا بلکہ اختلاف کرنے والا گنہگار یہاں تک کہ بدعتی و کافر تک ہوتا ہے، البتہ مسائل ظنیہ میں ہر مجتہد مصیب ہوسکتا ہے۔ آپ قطعیات کی مثالیں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عالم حادث ہے، حادث کے لئے محدث ہے، اجماع حجت ہے، نماز فرض ہے وغیرہ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ متعلقہ مثال میں قروء سے مراد حیض ہونے کے لئے ساجد صاحب نے جن دلائل کا تذکرہ کیا ہے، یہ اس مسئلے پر احناف کےدلائل ہیں جن پر فریقین کا موقف اور جوابی موقف کتب فقہ میں موجود ہے۔ امام رازی نے “تفسیر کبیر” میں آیت قروء کے تحت ان دلائل سمیت شافعی و حنفی ہر ایک موقف کے حق میں لگ بھگ آدھ درجن دلائل ذکر کئے ہیں جن کی تفصیل وہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ ان دلائل کے بعد آپ لکھتے ہیں:

أَنَّ عِنْدَ تَعَارُضِ هَذِهِ الْوُجُوهِ تَضْعُفُ التَّرْجِيحَاتُ، وَيَكُونُ حُكْمُ اللَّهِ فِي حَقِّ الْكُلِّ مَا أَدَّى اجْتِهَادُهُ إِلَيْهِ
یعنی ان معارض وجوہات کی بنا پر کسی ایک جانب کو راجح قرار دینے کی بنیاد کمزور ہوجاتی ہے اور اس لئے ہر مجتہد کے حق میں حکم اللہ اس کے اجتہاد کے مطابق ہوتا ہے

جی ہاں، جب وجوہات ترجیح کمزور ہوں تبھی ہر مجتہد مصیب اور اپنے اجتہاد کا مکلف ہوا کرتا ہے۔ امام رازی چونکہ کلام، اصول، فقہ و لغت سب علوم جانتے تھے لہذا انہیں یہاں “دو ٹوک” کی غلط فہمی نہیں لگی۔ امام غزالی المستصفی میں فرماتے ہیں کہ دو آراء کے مابین ایک کو ترجیح دیا جانا ظنیات کے باب کی چیز ہے کیونکہ قطعیات میں ترجیح کا تصور نہیں ہوتا کہ قطعی میں گمان غالب یا اولی ہونے کا پہلو نہیں ہوتا بلکہ ہونے وہ نہ ہونے کا پہلو جاری ہوتا ہے۔ چنانچہ مکتب فراہی سے متعلق اہل علم سے ہماری مؤدبانہ گزارش ہے کہ اصولیین پر نقد سے قبل ان کے ہاں قطعی و ظنی کے مفہوم کی تفصیلات و احکام ضرور دیکھ لیجئے۔

زاہد صدیق مغل، نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں معاشیات کے استاذ اور متعدد تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…