غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 90)

Published On August 5, 2024
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

مولانا واصل واسطی

تیسری بات اصل عبارت کے حوالے سے یہ ہےکہ ہمیں اسرائیلی روایات کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ملے ہیں کہ ہم نہ توان روایات کی تکذیب کرتے ہیں اور نہ ہی تصدیق” قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا حدثکم اہل الکتاب فلاتصدقوہم ولاتکذبوہم” (ابوداود ۔ احمد ۔ابن حبان۔ وسندہ جید) اورایسی روایات بھی منقول ہیں کہ بنی اسرائیل سے روایت بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم” بلغوا عنی ولوآیة ۔ وحدثواعن بنی اسرائیل ولاحرج” ( بخاری والترمذی )         اب ان دو روایات میں سے کسی ایک کو منسوخ قراردیں گے ؟ یا پھر ان میں کسی ایک کو ترجیح دیں گے دوسرے کو مرجوح قراردیں گے یا پھر ان میں جمع وتطبیق پیداکریں گے ؟ ہمارے اکابرومشائخ نے اس تیسرے راستے کو اختیارکیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے اقوال کو ہم اگے نقل کریں گے ۔ جناب غامدی کی فکر میں چونکہ آحادیث کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے  اس لیے اس مبحث میں انہوں اس موضوع پر کلام نہیں کیا ہے۔ مگر ہماری تو مجبوری ہے کہ ہم آحادیث کے قائل ہیں بلکہ اس محبت کے گھائل ہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس بارے میں دونوں قسم کی روایات میں تطبیق یوں دی ہے کہ ” ولکن ہذہ الاحادیث الاسرائیلیة تذکر للا ستشہاد لاللاعتقاد ۔ فانہا علی ثلاثةاقسام احدہا ماعلمنا صحتہ ممابایدینا ممایشہد لہ بالصدق فذاک صحیح ۔ والثانی ماعلمنا کذبہ بماعندنا ممایخالفہ ۔ والثالث ماہومسکوت عنہ لامن ہذاالقبیل ولامن ہذاالقبیل فلانؤمن بہ ولانکذبہ وتجوز حکایتہ” ( مجموع الفتاوی ج13 ص 196)  اس کاحاصل یہ ہے کہ اسرائیلیات کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ ہے جس کی تصدیق ہماری کتابیں کرتی ہیں ، وہ صحیح ہیں ۔ دوسری وہ ہے کہ جس کی تکذیب ہماری کتابیں کرتی ہیں، یہ مکذوب ہیں ۔ تیسری وہ جس کی نہ ہماری کتابیں تکذیب کرتی ہیں اور نہ تصدیق ، یہ مسکوت عنہ ہیں۔ البتہ ان کی روایت جائز ہے ۔ یہی بات پھر حافظ ابن کثیر نے اگرچہ شیخ الاسلام کا حوالہ نہیں دیاہے مگربات بعینہ وہی مقدمہ میں لکھی ہے ۔ اور پھر سورہِ اعراف کے آخر میں بھی معاد کی ہے ۔ان کی عبارت بھی دیکھ لیں ۔” ولکن ہذہ الاحادیث الاسرائیلیة تذکر للاستشہاد لاللاعتضاد فانہا علی ثلثة اقسام احدہا ماعلمنا صحتہ ممابایدینا ممایشہدلہ بالصدق فذاک صحیح  والثانی ماعلمناکذبہ مماعندنا ممایخالفہ والثالث ماہو مسکوت عنہ لامن ہذاالقبیل ولامن ہذاالقبیل فلانؤمن بہ ولانکذبہ ویجوز حکایتہ لماتقدم” ( تفسیرالقران ج1 ص 16)  پس جب بات اسی طرح ہے تو ہم اسرائیلی روایات کو “اصل ماخذ ” جناب غامدی کی طرح قطعا نہیں مان سکتے ۔ البتہ ضرورت کی بنا پر اس سے استفادہ کرناجائز ہے ۔ اوریہ بات تو بالکل بدیہی ہے کہ بعض احکام اورصور میں کسی کتاب یاکسی آدمی کی تصدیق کرنے کامطلب اسے   ماخذ   بنانا نہیں ہوتا۔ ورنہ اگر کوئی شخص اس طرح سے اپنے مقاصد کوثابت کرناچاہے   تو پھر ان کی تحریروں سے اس کے مردود مسلک کو بھی بڑی دیدہ دلیری سےثابت کیاجاسکتاہے ۔ مگر کیا کریں کہ ہمیں پالا ایسے ہی محققین سے پڑا ہواہے ۔جناب غامدی آگےاسی قانون اتمامِ حجت پر لکھتے ہیں جس کے متعلق ہم نے تفصیل سے لکھا ہے ۔ لہذا اس پر دوبارہ بحث کرنا مشکل ہے ۔ مگر سورہِ مجادلہ کی ایک آیت سے وہ باربار اور جگہ جگہ اس موقف کےلیے استدلال کرتے ہیں ۔ حالانکہ اس سے ان لوگوں کو مدعی ومطلب ہرگز ثابت نہیں ہوتا ۔ آیت یہ ہے ” ان الذین یحادون االلہ ورسولہ اولئک فی الاذلین ۔ کتب اللہ لاغلبن انا ورسلی ان اللہ قوی عزیز” ( المجادلہ 20 ۔21) یعنی “بےشک   وہ لوگ جواللہ اوراس کے رسول کی مخالفت کررہے ہیں وہی ذلیل ہوں گے ۔ اللہ نے لکھ رکھاہے کہ میں اورمیرے رسول غالب رہیں گے۔ بے شک اللہ قوی اور بڑا زبردست ہے “اس آیت کے بارے میں ہم دو باتیں پیش کرنا چاہتے ہیں ۔(1) پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت سے جناب غامدی اور اس کے ساتھی اس بات پراستدلال کرتے ہیں کہ میں اورمیرے تمام رسول اپنے دشمنوں پرغالب رہیں گے۔  یہی تو وجہ ہے کہ جہاں انہیں احساس ہو جاتا ہے کہ یہاں بظاہر رسول کا غلبہ ثابت نہیں ہے وہاں پھر وہ بڑی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ چاہے ان کے متبعین غالب ہوں  وہ بھی دراصل رسولوں کا ہی غلبہ ہے ۔ ہمارے نزدیک یہ بات ہی غلط ہے ۔ کیونکہ عربیت کامشہور قاعدہ یہ ہے کہ جب جمعِ مکسر مضاف ہوجاتا ہے تو بعض اوقات استغراقِ حقیقی اس سے مراد ہوتا ہے ۔ بعض اوقات استغراقِ عرفی مراد ہوتا ہے ۔ ہمیشہ اس سے استغراق حقیقی کومراد لینا   عربیت سے نااشنائی کی دلیل ہے ۔  مثلا  کوئی آدمی” جاءت رجال قومی ” کہتا ہے  تو سارے عربی جاننے والے لوگ جانتے ہیں کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ میری قوم کے سارے لوگ آگئے ۔ بلکہ عموما بعض افراد اس سے مراد ہوتے ہیں ۔  سورہِ المجادلہ کی درجِ بالا آیت میں چونکہ” رسل ” جمع مکسر ہے اور ضمیرِمتکلم کی طرف مضاف ہے ۔ اس لیے اس میں جس طرح استغراقِ حقیقی کا احتمال ہے اسی طرح استغراقِ عرفی کا بھی احتمال ہے ۔ ہمارے نزدیک اس آیت میں استغراقِ عرفی ہی راجح بلکہ ارجح ہے ۔ کیونکہ بعض رسولوں کو اپنے مخالفین پر غلبہ حینِ حیات میں حاصل نہیں ہواہے ۔ یہ اس بات کامضبوط قرینہ ہے کہ اس آیت میں رسل سے مراد سارے رسل نہیں ہیں ۔ قران مجید میں اس کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں ۔ سورہِ النحل میں ہے”وماذرالکم فی الارض مختلفا الوانہ ” ( النحل 13) بڑا ظلم کرے گا جو آدمی اس آیت میں لفظِ  ” الوانہ ” کی اضافت میں ” الوان” سے استغراق حقیقی مراد لے گا ۔ اسی طرح قران مجید میں ہے یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹے یوسف سے فرمایا کہ ” لاتقصص رؤیاک علی اخوتک فیکیدوا لک کیدا” ( یوسف 5) کون شخص ادہر ” اخوة”  جمع مکسر مضاف سے استغراق حقیقی کا مطلب لے سکتا ہے کہ مقصود سیدنا یعقوب کا اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کو سارے بھائیوں کو خواب سنانے سے منع کرنا تھا ۔ ایک یا دو بھائیوں سے منع کرنا ان کامقصود نہیں تھا ؟ ایک دومثالیں اور قران سے سن لیجئے سورہِ المجادلہ میں ہے ” لاتجد قوما یؤمنون باللہ والیوم الاخر یوادون من حاداللہ ورسولہ ولوکانوا آباءہم اوابناءہم اواخوانہم “( المجادلہ 22) ۔ اسی طرح سورہِ اعراف میں ہے کہ ” ونادی اصحاب الجنةاصحاب الناران قدوجدنا ماوعدنا ربنا حقا ( الاعراف 44)  اب یہاں بہت  ہی سادہ آدمی ہوگا جو یہ ترجمہ کرے گا کہ ہرآگ والے شخص نےہرجنت والے شخص کو یہ آواز دی ۔ بلکہ بعض لوگوں کے ایسا کرنے سے بھی مفہوم بالکل ٹھیک رہتا ہے ۔ اب ایک حدیث کو دیکھ لیتے ہیں  ” ما انا علیہ واصحابی” اس میں بھی استغراقِ عرفی مراد ہے ۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ جس پر میرے سارے صحابہ کاربندہوں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس پراتنے صحابہ کاربند ہوں جن پرجمع کااطلاق ہو سکے ۔ یعنی صرف ایک فرد کا عمل نہ ہوجیسے مثلاسیدنا ابوذرغفاری کازکات کے باب میں عمل ۔ کیونکہ اصحاب جمع مکسر جو ضمیرِ متکلم کی طرف مضاف ہے ۔ امید ہے کہ احباب اس قاعدے کوسمجھ گئے ہوں گے۔ اگراحباب نے اس کو سمجھ لیا تو بہت ساری پریشانیوں سے بچ جائیں گے ان شاءاللہ ۔ (2) دوسری بات یہ ہے کہ ” لاغلبن  کے  لفظ  میں جو غلبہ  موجود ہے اس سے ہمارے نزدیک مقابل کاخاتمہ اورمعدومیت نہیں ہے بلکہ ان کو مقہور ومغلوب کرنا ہے ۔ قران میں کالب اور یوحنا کی زبانی اللہ تعالی نے نقل کیاہے” فاذادخلتموہ فانکم غالبون “( المایدہ 23) جب تم وہاں ہوجاؤگے توتم ہی غالب رہوگے ۔ اس کایہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لوگ نیست ونابود ہوجائیں گے ۔ بلکہ مغلوب اوربے قوت بن جائیں گے ۔ اور فرمایا ہے کہ ” کم من فئة قلیلة غلبت فئةکثیرة” ( البقرہ 249) یعنی   بہت ساری چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں  جو بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں ۔  یہاں بھی اس بڑی جماعت کا معدوم ہونا قطعا مراد نہیں ہے  بلکہ اس  چھوٹی غالب جماعت کے تحت الاختیار ہونا مراد ہے ۔   سمین حلبی  نے واللہ غالب علی امرہ   کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے ” ای قوی قادرای غالب بالحق علی امر یوسف “( عمدة الحفاظ ج3ص 168) قران مجید میں ہے ” الم غلبت الروم فی ادنی الارض وہم من بعد غلبہم سیغلبون” (الروم 3۔1 )  اب یہاں غلبت الروم اگر کوئی یہ مطلب لیتا ہے کہ وہ معدوم ہوگئے تھے تو پھر ” من بعد غلبہم سیغلبون ” کیسے ممکن ہوگا ؟ قران میں ایک اور جگہ ہے “قال الذین غلبوا علی امرہم” (الکہف 21) سمین حلبی نے ترجمہ کیا یعنی رؤساءہم المستولین علی امرہم ( ایضا ) اورجادوگر کہنے لگے تھے” انا لنحن الغالبون” ( الشعراء 44) یہ اتنی کثیر آیات ہم نے صرف اس لیے پیش کیں کہ جناب غامدی اور ان کے ساتھی جن رسولوں کے قوموں پر عذاب نازل ہوگئے ہیں   ان کو آیتِ المجادلہ ” لاغلبن انا ورسلی ” کے مصداق قرار دیتے ہیں ۔ حالانکہ اس آیت میں وہ مفہوم موجود ہی نہیں ہے ۔ کیونکہ ایک کا غلبہ دوسرے کے معدوم ہونے کو مستلزم نہیں ہوتا ہے ۔ ہاں ان کی قوت البتہ تتّربتّرہو جاتی ہے ۔ دیکھئے جناب غامدی نے پہلے ایک عبارت لکھی ہے  پھر دلیل میں آیت المجادلہ پیش کی ہے ” اللہ تعالی جن لوگوں کوخلق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرماتے ہیں ۔ اور اپنی طرف سے وحی والہام کے ذریعے سے ان کی راہنمائی کرتے ہیں ، انہیں نبی کہا جاتا ہے ۔ لیکن ہرنبی کے لیے ضروری نہیں کہ وہ رسول بھی ہو ۔ رسالت ایک خاص منصب ہے جو نبیوں میں سے چندہی کوحاصل ہواہے ۔ قران میں اس کی تفصیلات کے مطابق رسول اپنے مخاطبین کےلیے خداکی عدالت بن کرآتا ہے ۔ اوران کا فیصلہ کرکے دنیاسے رخصت ہوجاتاہے۔ اس دعوت کی جوتاریخ قران میں بیان ہوئی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس موقع پربالعموم دوہی صورتیں پیش آتی ہیں ۔ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھی بھی کم ہوں   اوراسے کوئی دارالہجرت بھی میسر نہیں ہو ۔ دوسرے یہ کہ وہ معتدبہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کولیکر نکلتاہے ۔پہلی صورت میں رسول کا قوم کوچھوڑدینے کے بعد یہ ذلت اس پر اس طرح مسلط کی جاتی ہے کہ اسمان کی فوجیں نازل ہوتی ہے  اساف وحاصب کاطوفان اٹھتاہے   اورابروباد کے لشکر اس قوم پرحملہ آور ہوجاتے ہیں کہ رسول کے مخالفین میں کوئی آدمی بھی زمین پرباقی نہیں رہتا ۔ قران سے معلوم ہوتا ہے کہ قومِ نوح ،قوم لوط ، قوم صالح ، قوم شعیب  اور اس طرح کی بعض دوسری اقوام کے ساتھ بھی یہی معاملہ پیش ایا “( میزان ص 49) ہم نے اس بات کی پہلے تفصیل سے وضا حت کی تھی کہ  اس کاسبب ان کی قوم کا ظلم ہی تھا ۔ اور جس آیتِ مجادلہ سے جناب نے استدلال کیا ہے   وہ اس مطلب کےلیے سرے سے مفید ہی نہیں ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…