غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)

Published On December 21, 2023
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی نے جو تیسری آیت اس سلسلہ میں استدلال کے لیے پیش کی ہے  وہ سورۃ المائدہ کی 48 نمبر آیت ہے ۔وہ پھر ان تین آیتوں سے کچھ  مصنوعی قواعد بناتے ہیں ۔ جس کا ہم آگے چل کر تجزیہ پیش کرینگے ۔ مگر اس آیت کا تعلق  ماضی کے صحیفوں سے ہے ۔کہ قرآن ان پر مھیمن ہے۔ان کی غلطیوں کا اصلاح کرتا ہے ۔ جناب غامدی نے بھی تشریح میں نام لیے بغیر ،، تفھیم القرآن ،، کا خلاصہ پیش کیاہے ۔جیساکہ ان کی عادت ہے کہ تفھیم القرآن کی عبارتیں بغیر نام لیے اورحوالہ دیئے اپنی کتابوں میں عموما اور “البیان” میں خصوصا نقل کرتے ہیں ۔مگر اس آیت سے متصل پہلے انھوں نے لکھا  ہےکہ ” اس پرکوئی چیز حاکم نہیں ہوسکتی ، بلکہ علم وہدایت کی قلم رومیں ہرجگہ اس کی حکومت ہوگی ، اور ہرشخص پابندہے کہ اس پر کسی چیز کو مقدم نہ ٹھیرائے” ( میزان ص 24) جناب غامدی نے اس مختصر عبارت میں چند باتیں کی ہیں :

(1) ایک تویہ بات کی ہے کہ قرآن پر کسی بھی چیز کو مقدم نہیں کرنا چاہئے ۔ یہ بات نصوص میں صراحتا تو کہیں مذکور نہیں ۔البتہ نصوص کا تقاضا ضرورہے ۔نصوص میں صراحتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تقدم کو منع کیاگیا ہے ، جیسا کہ فرمایاہے ( لاتقدموا بین یدی اللہ ورسولہ ) اور فرمایا کہ ( فلاوربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجدوا حرجا فیماقضیت ویسلموا تسلیما ) اور فرمایاکہ ( لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولاتجھروا بالقول کجھربعضکم لبعض ) مگر جناب نے ان آیاتِ مبارکہ کا ذکر نہیں کیا ۔ ممکن ہے ان کے خیال میں ان سے ،، حدیث ،، کی اہمیت کے بڑھنے کااسے اندیشہ ہو ۔ویسے بھی انھوں نے جس جوش وجذبے سے قرآن مجید کا تذکرہ لکھا ہے  اس کا عشرِعشیر بھی حدیث وسنت کے مبحث میں دیکھنے کونہیں ملتا ۔آحادیث سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے ۔عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو ایک حدیث ( لاتمنعوااماء اللہ عن المساجد )کے مقابلے میں بات کرنے پر بہت سخت

ڈانٹا ۔سیدنا ابوھریرہ نے فرمایا قریب ہے تم پر آسمان سے پتھر گرپڑیں، میں تمھیں اقوالِ رسول سناتاہوں  اورتم اپنی باتیں کرتے ہو ؟خلاصہ یہ ہے کہ تقدم کی بات درحقیقت قولِ رسول کے متعلق تھی ۔ جناب غامدی اس کو ادھر لےگئے ۔حالانکہ قرآن پرتقدم کی بات توکسی نے نہیں کی تھی ۔ لوگ تو جناب غامدی کی طرح آحادیث پر چڑھ دوڑنے والے تھے ۔اللہ تعالی کو اس کاپہلے سے علم تھا ۔اس لیے اس نے ان پر پہلے سے قدغن لگادی  (2) دوسری بات یہ کی ہے کہ علم وہدایت کی قلم رو میں ہرجگہ اس کی حکومت ہوگی ، اس پر کوئی چیز حاکم نہیں ہوگی ، ماضی میں بعض اہلِ علم نے یہ بات کی تھی کہ ،، حدیث ،، قرآن پر حاکم ہے ۔ اگرچہ ان کا مطلب برانہ تھا ، ان کی غرض اس بات سے یہ تھی کہ قرآن کی آیات میں چونکہ احتمالات زیادہ ہوتے ہیں ،، حدیث ،، ان میں کسی ایک کو راجح قرا دیتی ہے ، مگرامامِ احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے اس قول کو براجانا اوراس سے منع کیا ۔کیونکہ ان لوگوں کاخیال اگرچہ درست تھا  مگر اس قول میں برامفہوم موجود تھا  کہ بعد میں ممکن ہے لوگ اس  سےغلط مفہوم اخذ کریں ۔حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سے بڑادرجہ دیدیں  جیسے اب بعض لوگوں نے امامِ احمد کے قول سے اپنی من چاہی تعبیر لی ہے کہ آحادیث نظمِ قرآن میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہیں کرسکتیں (3) تیسری بات اس سلسلہ میں جناب غامدی نے یہ کی ہے کہ ،، علم وہدایت ،، کی قلم رو میں وہ حاکم ہے اس کی حکومت ہوگی ، دنیا میں اس کی حکومت اورحاکمیت کی کوئی بات نہیں کی ہے ۔ یہ بات غالبا اپنے متاخرنظریہ کوپیشِ نظر رکھ کرکہی گئی  ہے۔ ورنہ اس سے پہلے وہ بھی اسلامی اور قرآنی حکومت کے قائل تھے ۔ اگر چہ اپنی کتاب ،، اسلام کا سیاسی نظام ،، میں اس کے لیے ماخذ ،، لیظھرہ علی الدین کلہ ،، اور ،،  ان اقیمواالدین ،، کے بجائے ،، کونوا انصاراللہ ،، والی آیت کوبنایا تھا ۔مگر یہاں اس بات کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا ہے ۔علامہ آلوسی جب جاراللہ کا ایسا نکتہ بیان کرتے ہیں جس سے اعتزال ٹپک رہاہو ۔ تو وہ اسے ،، نزغہِ اعتزالیہ،، سے تعبیرکرتے ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ بھی ،، نزغہِ اعتزالیہ ،، ہی ہے ۔جیسا کہ گزرا ۔جناب غامدی ،، قرآن ،، کو فرقان اور میزان قرار دیتے ہیں ۔ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ جب آپ نے ،، اسلام کا سیاسی نظام ،، کتاب لکھی  اس میں آپ عورتوں کے لیے حجاب کے قائل تھے ، اسلامی نظام قائم کرنے کے قائل تھے ، عورتوں کے لیے ووٹ کے قائل نہ تھے ، عورتوں کوچراغِ خانہ پرمصرّتھے وغیرہ وغیرہ ۔اس وقت قرآن مجید ،، میزان ،، تھا؟ یااب جب کہ آپ کی کایا بالکل پلٹ گئی ہے ، قرآن ،، میزان ،، ہے ؟ اگر پہلے جو آپ نے اس کو ،، میزان ،، درست تھا ، تو پھر اب کاکیاحکم ہے ؟ اور اگر اب اسے درست ،، میزان ،، سمجھاہے ، تو پھر پرانے دوعاعی کا کیاحکم ہوگا ؟ یعنی ایک دور میں آپ نے اس قرآن کے ،، میزان ،، سمجھنے میں غلطی کی تھی ۔پس جب آپ جیسی شخصیت جس کو اپنے مقلدین آسمان کاسورج بناتے ہیں ، وہ بھی قرآن کو،، میزان ،، بنانے میں غلطی کرسکتے ہیں ،تو اب آپ کس برتے پر ،، ہرشخص ،، کو وہ ،، میزان ،، ہاتھ میں دیتے ہیں کہ وہ حق وباطل میں تمییز وتفریق کرے؟ گویا  ،، اوخویشتن گم است کرارہبری کند ،، یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں حالتوں میں ،، میزان ،، نے ساتھ دیا ہو ، جیساکہ روافض کا قول ہے کہ ،، الحق مع علی حیثمادار ،، مگر سوال تو صرف یہ نہیں ہے ۔ آپ کے ،،استاد امام ،، کا بھی یہی مسئلہ ہے ۔،، تدبرِ قران ،، کی پہلی جلدیں دیکھ لیں تو ایک قسم کاتصورِدین ہے ، مگر آخری جلدوں میں جاکر ایسی صورت اختیار کرلیتے ہیں ،، کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی ،، یہ آخر کس طرح کا ،، میزان ،، ہے ؟ ذراہمیں سمجھادیجئے ۔جناب غامدی ان آیات کو پیش کرنے کے بعد اب ان سے اصول اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، قرآن مجید کی یہ حیثیت ہے جو اس نے خود اپنے لیے ثابت قراردی ہے  لہذا اس کی بنیاد پر جو باتیں قرآن کے  بارے میں بطورِ اصول ماننی چاہیں وہ یہ ہیں (1) پہلی یہ کہ قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ، یہاں تک کہ خداکا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہواہے ،اس کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اس میں کوئی ترمیم وتغیر نہیں کرسکتا ، دین میں ہرچیز کے ردوقبول کافیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں ہوگا ( میزان ص 25)

اس سلسلے میں ہماری پہلی گذارش یہ ہے کہ ان تین مذکورہ آیات سے یہ بات اور اصول کس طرح معلوم ہوگیا  ؟ ان آیات سے یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی ۔ ایک مثال دیکھ لیتے ہیں اس سے ہماری بات احباب کو سمجھ آجائے گی ، جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات معیارصدق ومیزانِ حق اور فاروق بین الحق والباطل ہے لیکن ان کی کسی بات میں تخصیص ہونے جیسے زیادہ بیویوں کا مسہلہ ھے ، صومِ وصال کا مسئلہ ہے ، اور  جس طرح ،، الاالاذخر ،، کے الفاظ بعد میں فرما ئے ،یاپھر کسی چیز کاحکم دیدیاہو  پھر بعد میں اسے منسوخ قرار دیا ہو ۔ن باتوں سے ان کے معیارِصدق ہونے ، یامیزانِ حق ہونے ، یاپھرفاروق بین الحق والباطل ہونے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا ۔ تو آحادیث یاسنتِ متواترہ یا پیغمبر کے کسی تحدید وتخصیص سے قرآن پرکیامنفی اثر پڑے گا ؟ کوئی نہیں پڑتا ۔ اوران صفاتِ مذکورہ کا  کیایہ تقاضاہے ؟ یہ گویا بقولِ محمودآلوسی ،، نزغہِ اعتزالیہ ،، ہے ۔

 دوسری گذارش یہ ہے کہ ،، جب قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی قرآن کی کوئی تخصیص وتحدید یاترمیم وتغیر نہیں کرسکتی ،، تو اس کامطلب یہ ہوا کہ ،، سنتِ متواترہ ،، سے قران کے کسی حکم میں تخصیص وتحدید یہ حضرات نہیں مانتے ہیں  کیونکہ وہ بھی تو قرآن سے باہر کی وحی ہے ۔خودجناب غامدی کافرمان ہے کہ ،، تیسرا اصول یہ ہے کہ عملی نوعیت کی وہ چیزیں بھی ،، سنت ،،  نہیں ہوسکتیں جن کی ابتدا  پیغمبر کے بجائے قران سے ہوئی ہے ،، (میزان ص 58)  تومعلوم ہوا کہ ،، سنت ،، قرآن سے بالکل الگ چیز ہے ۔لیکن وہ بقولِ غامدی صاحب ،، سنت متواترہ ،، ہے ۔،،حدیث ،، سے اگر قرآن کی تخصیص وتحدید نہیں ہوسکتی تو اس کے لئے انھوں نے کوئی عذرِ لنگ تلاش کرلیاہے ،مگر سنتِ متواترہ سے تحدید وتخصیص نہ ہونے کےلیے تو کوئی عذرِلنگ بھی موجود نہیں ہے   بلکہ خود ان کے بقول قرآن اور سنتِ متواترہ میں کوئی فرق نہیں ہے ، وہ لکھتے ہیں ،، سنت یہی ہے اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قران میں مجید میں کوئی فرق نہیں ہے ( میزان ص 14) بعینہ یہی بات اصلاحی صاحب نے کی ہے کہ ،، سوجہاں تک معروف دینی اصطلاحات کاتعلق ہے یہ سوال کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اس لیے کہ اس قسم کی ساری اصطلاحات کاحقیقی مفہوم بالکل عملی شکل میں سنتِ متواترہ کے اندرمحفوظ کردیاگیاہے ،اور یہ سنتّ متواترہ انہی قطعی ذرائع سے ثابت ہے جن سے قران مجید ثابت ہے ( تدبرِ قران ج1ص 29)  جب سنتِ متواترہ کی حقیقت ان کے نزدیک بھی یہی ہے  تو پھراس قرآن کی آیات کی تحدیدوتخصیص کی نفی کرنا محض مکابر اورتحکم ہے ۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…