ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 8)
(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...
جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص
حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...
مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...
خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت
ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...
غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی نے جو تیسری آیت اس سلسلہ میں استدلال کے لیے پیش کی ہے وہ سورۃ المائدہ کی 48 نمبر آیت ہے ۔وہ پھر ان تین آیتوں سے کچھ مصنوعی قواعد بناتے ہیں ۔ جس کا ہم آگے چل کر تجزیہ پیش کرینگے ۔ مگر اس آیت کا تعلق ماضی کے صحیفوں سے ہے ۔کہ قرآن ان پر مھیمن ہے۔ان کی غلطیوں کا اصلاح کرتا ہے ۔ جناب غامدی نے بھی تشریح میں نام لیے بغیر ،، تفھیم القرآن ،، کا خلاصہ پیش کیاہے ۔جیساکہ ان کی عادت ہے کہ تفھیم القرآن کی عبارتیں بغیر نام لیے اورحوالہ دیئے اپنی کتابوں میں عموما اور “البیان” میں خصوصا نقل کرتے ہیں ۔مگر اس آیت سے متصل پہلے انھوں نے لکھا ہےکہ ” اس پرکوئی چیز حاکم نہیں ہوسکتی ، بلکہ علم وہدایت کی قلم رومیں ہرجگہ اس کی حکومت ہوگی ، اور ہرشخص پابندہے کہ اس پر کسی چیز کو مقدم نہ ٹھیرائے” ( میزان ص 24) جناب غامدی نے اس مختصر عبارت میں چند باتیں کی ہیں :
(1) ایک تویہ بات کی ہے کہ قرآن پر کسی بھی چیز کو مقدم نہیں کرنا چاہئے ۔ یہ بات نصوص میں صراحتا تو کہیں مذکور نہیں ۔البتہ نصوص کا تقاضا ضرورہے ۔نصوص میں صراحتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تقدم کو منع کیاگیا ہے ، جیسا کہ فرمایاہے ( لاتقدموا بین یدی اللہ ورسولہ ) اور فرمایا کہ ( فلاوربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجدوا حرجا فیماقضیت ویسلموا تسلیما ) اور فرمایاکہ ( لاترفعوا اصواتکم فوق صوت النبی ولاتجھروا بالقول کجھربعضکم لبعض ) مگر جناب نے ان آیاتِ مبارکہ کا ذکر نہیں کیا ۔ ممکن ہے ان کے خیال میں ان سے ،، حدیث ،، کی اہمیت کے بڑھنے کااسے اندیشہ ہو ۔ویسے بھی انھوں نے جس جوش وجذبے سے قرآن مجید کا تذکرہ لکھا ہے اس کا عشرِعشیر بھی حدیث وسنت کے مبحث میں دیکھنے کونہیں ملتا ۔آحادیث سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے ۔عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو ایک حدیث ( لاتمنعوااماء اللہ عن المساجد )کے مقابلے میں بات کرنے پر بہت سخت
ڈانٹا ۔سیدنا ابوھریرہ نے فرمایا قریب ہے تم پر آسمان سے پتھر گرپڑیں، میں تمھیں اقوالِ رسول سناتاہوں اورتم اپنی باتیں کرتے ہو ؟خلاصہ یہ ہے کہ تقدم کی بات درحقیقت قولِ رسول کے متعلق تھی ۔ جناب غامدی اس کو ادھر لےگئے ۔حالانکہ قرآن پرتقدم کی بات توکسی نے نہیں کی تھی ۔ لوگ تو جناب غامدی کی طرح آحادیث پر چڑھ دوڑنے والے تھے ۔اللہ تعالی کو اس کاپہلے سے علم تھا ۔اس لیے اس نے ان پر پہلے سے قدغن لگادی (2) دوسری بات یہ کی ہے کہ علم وہدایت کی قلم رو میں ہرجگہ اس کی حکومت ہوگی ، اس پر کوئی چیز حاکم نہیں ہوگی ، ماضی میں بعض اہلِ علم نے یہ بات کی تھی کہ ،، حدیث ،، قرآن پر حاکم ہے ۔ اگرچہ ان کا مطلب برانہ تھا ، ان کی غرض اس بات سے یہ تھی کہ قرآن کی آیات میں چونکہ احتمالات زیادہ ہوتے ہیں ،، حدیث ،، ان میں کسی ایک کو راجح قرا دیتی ہے ، مگرامامِ احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے اس قول کو براجانا اوراس سے منع کیا ۔کیونکہ ان لوگوں کاخیال اگرچہ درست تھا مگر اس قول میں برامفہوم موجود تھا کہ بعد میں ممکن ہے لوگ اس سےغلط مفہوم اخذ کریں ۔حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سے بڑادرجہ دیدیں جیسے اب بعض لوگوں نے امامِ احمد کے قول سے اپنی من چاہی تعبیر لی ہے کہ آحادیث نظمِ قرآن میں کسی قسم کا کوئی تغیر نہیں کرسکتیں (3) تیسری بات اس سلسلہ میں جناب غامدی نے یہ کی ہے کہ ،، علم وہدایت ،، کی قلم رو میں وہ حاکم ہے اس کی حکومت ہوگی ، دنیا میں اس کی حکومت اورحاکمیت کی کوئی بات نہیں کی ہے ۔ یہ بات غالبا اپنے متاخرنظریہ کوپیشِ نظر رکھ کرکہی گئی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے وہ بھی اسلامی اور قرآنی حکومت کے قائل تھے ۔ اگر چہ اپنی کتاب ،، اسلام کا سیاسی نظام ،، میں اس کے لیے ماخذ ،، لیظھرہ علی الدین کلہ ،، اور ،، ان اقیمواالدین ،، کے بجائے ،، کونوا انصاراللہ ،، والی آیت کوبنایا تھا ۔مگر یہاں اس بات کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا ہے ۔علامہ آلوسی جب جاراللہ کا ایسا نکتہ بیان کرتے ہیں جس سے اعتزال ٹپک رہاہو ۔ تو وہ اسے ،، نزغہِ اعتزالیہ،، سے تعبیرکرتے ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ بھی ،، نزغہِ اعتزالیہ ،، ہی ہے ۔جیسا کہ گزرا ۔جناب غامدی ،، قرآن ،، کو فرقان اور میزان قرار دیتے ہیں ۔ہم ان سے سوال کرتے ہیں کہ جب آپ نے ،، اسلام کا سیاسی نظام ،، کتاب لکھی اس میں آپ عورتوں کے لیے حجاب کے قائل تھے ، اسلامی نظام قائم کرنے کے قائل تھے ، عورتوں کے لیے ووٹ کے قائل نہ تھے ، عورتوں کوچراغِ خانہ پرمصرّتھے وغیرہ وغیرہ ۔اس وقت قرآن مجید ،، میزان ،، تھا؟ یااب جب کہ آپ کی کایا بالکل پلٹ گئی ہے ، قرآن ،، میزان ،، ہے ؟ اگر پہلے جو آپ نے اس کو ،، میزان ،، درست تھا ، تو پھر اب کاکیاحکم ہے ؟ اور اگر اب اسے درست ،، میزان ،، سمجھاہے ، تو پھر پرانے دوعاعی کا کیاحکم ہوگا ؟ یعنی ایک دور میں آپ نے اس قرآن کے ،، میزان ،، سمجھنے میں غلطی کی تھی ۔پس جب آپ جیسی شخصیت جس کو اپنے مقلدین آسمان کاسورج بناتے ہیں ، وہ بھی قرآن کو،، میزان ،، بنانے میں غلطی کرسکتے ہیں ،تو اب آپ کس برتے پر ،، ہرشخص ،، کو وہ ،، میزان ،، ہاتھ میں دیتے ہیں کہ وہ حق وباطل میں تمییز وتفریق کرے؟ گویا ،، اوخویشتن گم است کرارہبری کند ،، یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دونوں حالتوں میں ،، میزان ،، نے ساتھ دیا ہو ، جیساکہ روافض کا قول ہے کہ ،، الحق مع علی حیثمادار ،، مگر سوال تو صرف یہ نہیں ہے ۔ آپ کے ،،استاد امام ،، کا بھی یہی مسئلہ ہے ۔،، تدبرِ قران ،، کی پہلی جلدیں دیکھ لیں تو ایک قسم کاتصورِدین ہے ، مگر آخری جلدوں میں جاکر ایسی صورت اختیار کرلیتے ہیں ،، کہ پہچانی ہوئی صورت بھی پہچانی نہیں جاتی ،، یہ آخر کس طرح کا ،، میزان ،، ہے ؟ ذراہمیں سمجھادیجئے ۔جناب غامدی ان آیات کو پیش کرنے کے بعد اب ان سے اصول اخذ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ،، قرآن مجید کی یہ حیثیت ہے جو اس نے خود اپنے لیے ثابت قراردی ہے لہذا اس کی بنیاد پر جو باتیں قرآن کے بارے میں بطورِ اصول ماننی چاہیں وہ یہ ہیں (1) پہلی یہ کہ قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی ، یہاں تک کہ خداکا وہ پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہواہے ،اس کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اس میں کوئی ترمیم وتغیر نہیں کرسکتا ، دین میں ہرچیز کے ردوقبول کافیصلہ اس کی آیاتِ بینات ہی کی روشنی میں ہوگا ( میزان ص 25)
اس سلسلے میں ہماری پہلی گذارش یہ ہے کہ ان تین مذکورہ آیات سے یہ بات اور اصول کس طرح معلوم ہوگیا ؟ ان آیات سے یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی ۔ ایک مثال دیکھ لیتے ہیں اس سے ہماری بات احباب کو سمجھ آجائے گی ، جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکات معیارصدق ومیزانِ حق اور فاروق بین الحق والباطل ہے لیکن ان کی کسی بات میں تخصیص ہونے جیسے زیادہ بیویوں کا مسہلہ ھے ، صومِ وصال کا مسئلہ ہے ، اور جس طرح ،، الاالاذخر ،، کے الفاظ بعد میں فرما ئے ،یاپھر کسی چیز کاحکم دیدیاہو پھر بعد میں اسے منسوخ قرار دیا ہو ۔ن باتوں سے ان کے معیارِصدق ہونے ، یامیزانِ حق ہونے ، یاپھرفاروق بین الحق والباطل ہونے پر کوئی منفی اثر نہیں پڑتا ۔ تو آحادیث یاسنتِ متواترہ یا پیغمبر کے کسی تحدید وتخصیص سے قرآن پرکیامنفی اثر پڑے گا ؟ کوئی نہیں پڑتا ۔ اوران صفاتِ مذکورہ کا کیایہ تقاضاہے ؟ یہ گویا بقولِ محمودآلوسی ،، نزغہِ اعتزالیہ ،، ہے ۔
دوسری گذارش یہ ہے کہ ،، جب قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی قرآن کی کوئی تخصیص وتحدید یاترمیم وتغیر نہیں کرسکتی ،، تو اس کامطلب یہ ہوا کہ ،، سنتِ متواترہ ،، سے قران کے کسی حکم میں تخصیص وتحدید یہ حضرات نہیں مانتے ہیں کیونکہ وہ بھی تو قرآن سے باہر کی وحی ہے ۔خودجناب غامدی کافرمان ہے کہ ،، تیسرا اصول یہ ہے کہ عملی نوعیت کی وہ چیزیں بھی ،، سنت ،، نہیں ہوسکتیں جن کی ابتدا پیغمبر کے بجائے قران سے ہوئی ہے ،، (میزان ص 58) تومعلوم ہوا کہ ،، سنت ،، قرآن سے بالکل الگ چیز ہے ۔لیکن وہ بقولِ غامدی صاحب ،، سنت متواترہ ،، ہے ۔،،حدیث ،، سے اگر قرآن کی تخصیص وتحدید نہیں ہوسکتی تو اس کے لئے انھوں نے کوئی عذرِ لنگ تلاش کرلیاہے ،مگر سنتِ متواترہ سے تحدید وتخصیص نہ ہونے کےلیے تو کوئی عذرِلنگ بھی موجود نہیں ہے بلکہ خود ان کے بقول قرآن اور سنتِ متواترہ میں کوئی فرق نہیں ہے ، وہ لکھتے ہیں ،، سنت یہی ہے اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قران میں مجید میں کوئی فرق نہیں ہے ( میزان ص 14) بعینہ یہی بات اصلاحی صاحب نے کی ہے کہ ،، سوجہاں تک معروف دینی اصطلاحات کاتعلق ہے یہ سوال کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اس لیے کہ اس قسم کی ساری اصطلاحات کاحقیقی مفہوم بالکل عملی شکل میں سنتِ متواترہ کے اندرمحفوظ کردیاگیاہے ،اور یہ سنتّ متواترہ انہی قطعی ذرائع سے ثابت ہے جن سے قران مجید ثابت ہے ( تدبرِ قران ج1ص 29) جب سنتِ متواترہ کی حقیقت ان کے نزدیک بھی یہی ہے تو پھراس قرآن کی آیات کی تحدیدوتخصیص کی نفی کرنا محض مکابر اورتحکم ہے ۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص
حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو...
مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟
ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید...
خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت
ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض...