غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 6)

Published On December 15, 2023
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

ہم اس وقت ،، حدیث وسنت ،، کے موضوع سے ایک اور بحث کی طرف توجہ کرتے ہیں۔ کیونکہ جناب غامدی نے ،، حدیث اور سنت ،، نے مبحث کو مختلف مقامات میں پھیلا رکھاہے۔درمیان میں دیگر مباحث چھیڑ دیئے ہیں ، ہم بھی انہیں کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جاوید غامدی نے قرآن کی فضیلت اورحیثیت پر بحث کرتے ہوئے لکھاہے کہ قران کی صفات میں  ،، میزان اور فرقان ،، بھی آیا ہے لہذا اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ کسی وحیِ خفی یا جلی سے اس کی تخصیص وتحدید نہیں ہو سکتی ۔بلکہ قرآن کا لانے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس میں کسی طرح کی تحدید وتخصیص کا حق نہیں رکھتا۔پھر چند کمزور مسائل اس مورد کے لیکر جن سے جناب کے اس دعوی پر زد پڑتی تھی ، ان کی توجیہ کی  ہےتاکہ اپنے لوگوں کو یہ سمجھا سکیں کہ ان مسائل سے ان کے مکتب کے اس قاعدہ پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ الجھاؤ محض لوگوں کے قلتِ تدبر نے پیدا کیا ہے ۔ میں نے ان صاحب کو تحریر میں ہمیشہ دیکھا ہے کہ وہ مشکل مسائل سے جان چھڑانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ۔اور کمزور مقامات پر حملہ آورہوتے ہیں ۔ پھر ان کولکھنے کے بعد غرّاتے ہیں جیسے انھوں نے مونٹ ایورسٹ  سرکیا ہو ۔ اب آپ ان کی عبارت کو ترتیب وار ملاحظہ کرلیں پھر اس کا تجزیہ کرکے دیکھ لیں تاکہ آپ پر ان کے دعاوی کی حقیقت روشن ہو ۔ اس بحث سے پہلے جناب غامدی کے چند اور شہ پارے اور لطیفے دیکھ لیں ۔وہ ایک جگہ عرب کی جاہلی کلام کے متعلق لکھتے ہیں ،، اس کے بعد اس زبان کا سب سے بڑاماخذ کلامِ عرب ہے ، یہ امرؤالقیس ، زہیر ، عمروبن کلثوم ، لبید ، نابغہ ، طرفہ ، عنترہ ، اعشی ، اور حارث بن حلزہ ، جیسے شاعروں اور قس بن ساعدہ جیسے خطیوں کا کلام ہے ، اہلِ علم جانتے ہیں کہ اس کا بڑاحصہ شعرا کے دواوین اور ، اصمعیات ، مفضلیات ، حماسہ ، سبع معلقات ، اور جاحظ ومبرد اور اس طرح کے دوسرے اہلِ ادب کی کتابوں میں جمع ہے ۔ اس زمانے میں شعرائے جاہلیت کے ایسے بہت سے دواوین بھی شائع ہوئے ہیں جو اس سے پہلے ناپید تھے ۔اس میں شبہ نہیں کہ عربی زبان کے بیش تر لغات اہلِ زبان کے اجماع وتواتر سے نقل ہوئے ہیں ۔ اور ان کا ایک بڑاذخیرہ لغت کی امھات ، التھذیب ، المحکم ، الصحاح ، الجمھرہ ، النھایہ ، وغیرہ میں محفوظ ہے ( میزان 18) یہ ہے ان صاحب کے دلائل کی کل کائنات ۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ کے ان 11  کتابوں کی ذکر  سے عربی کے جاہلی شعرا کا کلام متواتر ہوگیا ہے ؟یہ کون مان لے گا ؟ جہاں جناب کا کام نہیں بن رہا وہاں وہ اجماع اور تواتر کا دعوی اپنالیتے ہیں ۔کہ ان جاہلی عرب شعرا کا کلام لوگوں کے تواتر اوراجماع سے منقول ہے۔  کیا یہ واقعی تواتر واجماع سے منقول ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے   تو بسم اللہ کرکے اس کے ثابت کرنے کے لیے دلائل فراہم کردیجئے  تاکہ ہم ان کا جائزہ لے سکیں کہ واقعی جناب غامدی نے بہت بڑامعرکہ سرکر لیا ہے ۔اب اگر کوئی شخص اسی طرح قراآت کے 11 یا 12کتابوں کے نام نہیں بلکہ 20 ، 30 کتابوں کے نام ذکر کردے  جبکہ ان کے اسناد بھی ساتھ موجود ہوں  اور پھران بے شمار مفسرین کی تفاسیر کا حوالہ دیدےجنھوں نے مختلف قراءتوں کو نقل کیا ہے ، اور ان پر طویل بحثیں کی ہیں ۔تو کیا جناب غامدی اور ان کے مقلدین ان قراآت کو متواتر تسلیم کرلیں گے ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو بسم اللہ فبھاونعمت ۔ اور اگر جواب نہیں میں ہے  تو آپ ہمیں ان 11 کتابوں سے کلامِ جاہلی شعرا کو کس طرح متواتر منوانے پرتلے ہوئے ہیں ؟  بلکہ اس طرح کی چند کتابوں میں وارد ہونے سے تو بہت ساری ان آحادیث کو بھی ،، اجماع وتواتر ،، سے ثابت کیاجاسکتاہے  جن کے جناب غامدی اور ان کےمقلدین منکر ہیں ۔توکیا وہ ان آحادیث کو بھی متواتر مان لیں گے ؟ ان آحادیث کا کلامِ جاہلی سے زیادہ کتابوں اور شروح میں ثابت کرنا ہمارے ذمے ہے۔ بعض لوگ شاید اس بحث سے بور ہوگئے ہونگے  کہ اس بحث کا انکارِحدیث سے آخر کیا تعلق ہے ؟ تو ہم عرض کرتے ہیں  کہ فی الحقیقت یہاں ایک مخفی اور بڑااعتراض جناب غامدی اور اس کے مکتب پر وارد ہے ۔جس سے وہ اس دعوی بلادلیل کے ذریعے جان چھڑانا چاہتے ہیں ۔ وہ یہ  کہ جناب غامدی بلکہ ان کے اساتذہ بھی عربِ شعرائے جاہلی کے ایک آدھ شعر کو پیش کرکے پھر قرانی آیت کی اپنی منشاومرضی کے مطابق تفسیر وتاویل کرتے ہیں ۔تو اس حوالے سے اہلِ علم جانتے ہیں کہ وہ ان  اشعار سےآیاتِ قرانیہ کے مفہوم کی تحدید بھی کرتے ہیں اور تخصیص بھی ۔ حالانکہ یہ کلامِ جاہلی بھی تو اخبارِ آحاد ہیں ؟ پھر ان میں مختلف روایتیں ہیں ؟ پھر مختلف کتابوں میں ان کی نسبتیں الگ الگ شعرا کی طرف ہیں ؟ تو جب آپ لوگ ان سے تحدید وتخصیصِ مفہومِ آیاتِ قرانی میں استدلال کرتے ہیں  تو پھر آحادیث سے آپ ان آیات کی تحدید وتخصیص کے قائل کیوں نہیں ہیں ؟ کیا عرب کے جاہلی شعرا کا کلام ان آحادیث سے بڑادرجہ رکھتاہے ؟ اس کی ایک مثال دیکھ لیں ۔جناب غامدی میراث کی بحث میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ،،  ،اخوة ، کا لفظ اس آیت میں ، ہمارے نزدیک محض وجود پر دلالت کرتاہے ، اس سے مقصود صرف یہ بتانا ہے کہ بھائی بہنوں کی موجودگی میں ، عام اس سے کہ وہ ایک ہو یادو یا دو سے زیادہ ہوں ، والدین کاحصہ اپنی اصل کی طرف لوٹ جائے گا ۔اس طرح کے اسلوب میں جمع بیانِ عدد کے لیے نہیں ، محض بیان ِوجود کےلیے آتی ہے ۔ ایک حماسی کا شعر ہے

إيّاك والأمرالذی إن توسعت

مواردہ ضاقت علیک المصادر

اس معاملے سے بچو جس میں داخل ہونے کے راستے خواہ کشادہ ہوں لیکن  تمہارے لئے نکلنے کی راہیں تنگ ہوں

شاعر نے یہاں موارد اور مصادر کے الفاظ جمع استعمال کیے ہیں ، بڑا ستم کرے گا وہ شخص جو اس کا مفہوم یہ بیان کرے کہ اس شعر میں ایک ایسے معاملے سے بچنے کے لیے کہاگیاہے جس کے موارد اور مصادر بہرحال تین یاتین سے زیادہ ہوں ( میزان ص 521) آپ نے دیکھا کہ کس طرح جناب نے اپنے مدعی کو ثابت کرنے کےلیے ایک ہی شعر سے آیت کے مفہوم کوتبدیل کردیاہے ؟ حالانکہ ،، موارد یا مداخل ،، کے کثرت تسلیم کرنے سے یہاں کوئی قیامت نہیں آجاتی ، البتہ ،، مصادر ،، کو جمع کرنے سے شعر کا مفہوم بگڑ جاتا ہے ۔ احباب جانتے ہیں کہ یہاں ،، مصادر ،، پر ،، ال ،، جنسی داخل ہے  جو جب جمع پر داخل ہو تو جمعیت کو وہ باطل قرار دیتا ہے  لہذا یہاں سرے سے وہ بات بنتی نہیں ہے  جو جناب غامدی اپنی تحقیق سے برآمد کرنا چاہتے ہیں ۔ہمارامقصود ادھر صرف یہ بات دکھانی تھی کہ اصل مسئلہ ان صاحب کوکونسا درپیش ہے ؟ اورکس وجہ سے انہوں  نےعرب کے جاہلی شعرا کے کلام کے تواتر کا دعوی کردیاہے ؟ حالانکہ اگروہ بات کو سمجھنے کی کوشش کرلیتے   توان کے لیے اپنے اس قاعدے کا جواب سمجھنا مشکل نہ تھا ۔جناب غامدی نے اگے لکھاہے کہ “قران قطعی ہے اورحدیث ظنی ہے ، اس لیے اخبارِآحاد سے اس کی تحدید وتخصیص نہیں ہوسکتی ۔”( میزان ص 32) تقریبا یہی بات جناب غامدی کے استاد نے بھی کہی ہے کہ ،، قران کے کسی حکم کو قرآن کے سوا کوئی دوسری چیز منسوخ نہیں کرسکتی بعض فقہاء نے حدیث کو بھی قرآن کے لیے ناسخ ماناہے ، لیکن ہمارے نزدیک یہ مسلک صحیح نہیں ہے ( تدبرِ قران ج1 ص315) ہم یہاں مختصر سی بات کرتے ہیں  تفصیل آگے آجائے گی ان شاء اللہ ۔جناب غامدی فخررازی کی تردید میں کہتے ہیں کہ ،، لفظ کی دلالت اپنے معنی پر قطعی ہے اور رازی کا اشکال بقولِ شاہ اسماعیل شھید ،، تہ برتہ جھالت کا کرشمہ ہے  ،،  ہم عرض کرتے ہیں کہ جب ،، لفظ کی دلالت اپنے معنی پر قطعی ہے ،، تو پھر صرف قرینہِ حالیہ یامقالیہ کی بنیاد پر اپنے قطعی معنی سے مجازی معنی میں کیسے منصرف ہو جاتاہے ؟ اگر لفظ اپنے قطعی معنی سے مجازی معنی میں محض ایک قرینے کی بنیاد پر لوٹ کر جاسکتا ہے  توپھر آحادیث کی بنیادپروہ آیت کیوں تبدیلی یاتخصیص وتحدید قبول نہیں کرسکتی ؟ یاتولفظ کی دلالت آپ کے نزدیک معنی پر قطعی ہے ؟ تب یہ مجاز کی طرف لفظ کے عود کرجانے کا قاعدہ بھی محلِ نظر ہوجائے گا۔اور یا پھر لفظ کی دلالت معنی پرآپ کے نزدیک ظنی ہے؟تب تحدید وتخصیص کی نفی کرنے والا قاعدہ ہی اڑ جائے گا

 فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ھے دل یاشکم

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…