غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 5)

Published On December 13, 2023
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

مولانا واصل واسطی

ہم نے اوپر جناب غامدی کی ایک عبارت پیش کی ہے کہ ،، چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہوسکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیاجاسکتاہے (میزان ص15) میں نے کہیں جناب غامدی کا اپنا قول غالبا،، اشراق ،، کے کسی شمارے میں پڑھاتھا کہ ،، احادیث تمام کی تمام قران سے ماخوذ ومستنبط ہیں ،، لیکن وہ جگہ اب یاد نہیں آرہی ۔ تو اس کا علاج دوسرے طریقے سے کرینگے کہ ان کے ،، استاد امام ،،( یہ لقب اصل میں محمد عبدہ کے شاگردان کے لیے استعمال کرتے تھے کمافی قال فی المنار والمراغی وغیرھما فی غیرھا ، انہوں نے وہاں سے لیاہے ) مولوی امین احسن اصلاحی کا قول نقل کرلیتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ ،، تفسیر کے ظنی ماخذوں میں سب سے اشرف اور سب سے زیادہ پاکیزہ چیز ذخیرہِ آحادیث وآثار ہے ۔ اگر ان کی صحت کی طرف سے پورا پورا اطمینان ہوتا تو تفسیر میں ان کی وہی اہمیت ہوتی جو اہمیت سنتِ متواترہ کی بیان ہوئی ہے ۔لیکن ان کی صحت پراس طرح کا اطمینان چونکہ نہیں کیا جاسکتا اس وجہ سے ان سے اسی حدتک فایدہ اٹھایا جاسکتاہے  جس حدتک یہ ان قطعی اصولوں سے موافق ہوں  جو اوپربیان ہوئے ہیں۔ 

۔۔۔ میں آحادیث کو تمام تر قران سے ماخوذ ومستنبط سمجھتاہوں ۔ اس وجہ سے میں نے صرف انہی آحادیث تک استفادے کو محدود نہیں رکھا ہے  جو قران کی کسی آیت کے تعلق کی صراحت کے ساتھ وارد ہوئی ہیں  بلکہ پورے ذخیرہِ آحادیث سے اپنے امکان کی حدتک فایدہ اٹھایاہے ( تدبرِقران ج1 ص 30) اصلاحی صاحب کی اس عبارت میں دوچیزیں صاف واضح ہیں (1) ایک یہ چیز کہ آحادیث چونکہ اخبارِ آحاد ہیں  اور وہ ظنی ہیں ، اس لیے وہ تفسیرِقران کے قطعی ذرایعے میں سے نہیں ہیں ۔گویا انھوں نے بالفاظِ دیگر عام علماء کی بات کی ہے  کہ خبرِ واحد مفیدِ ظن وعمل تو ہے مگر مفیدِ علم ویقین نہیں ہے ۔اگرچہ محققین اسے مفیدِ علم ویقین مانتے ہیں ۔سنتِ متواترہ کو وہ بھی جناب غامدی کی طرح قطعی مانتے ہیں۔ اگرچہ اس کے انطباق میں پھر دونوں کی راہیں الگ الگ ہیں اور فراہی صاحب  بھی اس اختلاف میں اصلاحی صاحب کے ساتھ ہیں جس کے بیان کرنے کا یہ مختصر مضمون اچھا موقع نہیں ہے ۔دوسری جگہ ہم اس اختلاف کی بھی تفصیل کریں گے ان شاءاللہ (2) دوسری یہ چیز کہ آحادیث تمام تر قرانِ مجید سے ماخوذ ومستنبط ہیں چاہے وہ قران کی تشریح وتبیین ہو یا اس پر زائد ہوں ۔اسی لیے توانھوں نے کہا ہے کہ میں نے صرف متعلق بالقران آحادیث کاہی مطالعہ نہیں کیا بلکہ پورے ذخیرہِ احادیث سے حسبِ توفیق فایدہ اٹھایا ہے ۔اب ہمارا سوال یہ ہے کہ جب آپ جیسے لوگوں کے نزدیک آحادیث تمام تر قران سے ماخوذ ومستنبط ہیں  تو اس استنباط پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے قائم رکھا ہے یا نہیں رکھا ؟ بالفاظِ دیگر اللہ تعالی نے ان کے ان استنباطات کی تصویب وتقریر کی ہے یا پھرتردید وتغلیط کی ہے ؟ اگراللہ تعالی نے اس کی تصویب وتقریر کی ہے  تو پھر یہ استنباطات حجت ہوگئے ہیں یا حجت نہیں ہوئے؟ قران کے نصوص سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی استنباط میں غلطی ہوتی ہے تواللہ ان کو اس پر برقرار نہیں رکھتے بلکہ اس پر انھیں تنبیہ کردیتے ہیں ۔اور جب کسی استنباط پر انھیں تنبیہ نہیں کرتے تو پھر اہلِ علم کے ہاں ان کا وہ استنباط حجت ہوتی ہے ۔اب جب یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ آحادیث سارے کے سارے قران سے مستنبط ہیں اور ان پر اللہ تعالی نے ان کی تصویب وتقریر کی ہے اور ان کی تقریر وتصویب عام اہلِ علم کے نزدیک حجت ہے (یاد رہے کہ یہ بات ہم نے محض ارخاء العنان کے طور پرکی ہے ورنہ عام اہل سنت والجماعت کےہاں تواحادیث بھی قران مجید کی طرح وحی ہے  )توکیا جو چیز دین میں حجت ہو  اس کے حفاظت کا اہتمام کرنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے ضروری ہے یا پھر غیرِضروری ؟ اگر ضروری ہے تو پھر آحادیث کی حفاظت کا اہتمام کیوں انھوں نے نہیں کیا ؟ اور اگر غیرضروری ہے تو پھر وہ حجتِ شرعی کیونکر ہے ؟ اس اعتراض سے گلوخلاصی اس طرح نہیں ہوتی کہ کوئی کہے کہ ایک بیان متواتر ہے اور ایک بیان غیر متواتر ہے ۔کیونکہ ایسا تو بالعموم ہوتا ہے کہ کلاس میں کبھی سب لڑکے حاضر ہوتے ہیں ، کبھی چندلڑکے حاضر ہوتے ہیں۔ استاد دونوں حالتوں میں طلبہ کو پڑھاتا ہے ۔مگر ان لوگوں کی عقل پرماتم کی ضرورت ہے جوکہتے ہیں کہ جس دن سب طلبہ کو سبق پڑھایا ہو وہ تو حجت ہے  اور جس دن چند لڑکوں کو پڑھایا ہو وہ سبق ساقط عن الحجت ہے ۔پھرہم کہتے ہیں کہ آپ نے اوپر لکھا ہے کہ ،، حدیث کے بارے میں یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ ان کی تبلیغ وحفاظت کےلیے آپ نے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کے لیے چھوڑدیاہے کہ چاہیں توانھیں اگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں ( میزان ص 14) ہم عرض کرتے ہیں کہ اس عبارت میں آپ نے حدیثِ متواتر اورخبرِ واحد کا فرق روانہیں رکھاہے اور بسلامتئ ہوش وحواس رکھ بھی نہیں سکتے تھے ۔اور یہ بات توسب لوگ جانتے ہیں کہ متواتر بھی تو حدیث ہی ہے ۔پس جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سرے سے حدیث کی حفاظت وتبلیغ کا کوئی اہتمام نہیں کیا تھا توپھرحدیثِ متواتر کی حفاظت کا کیا طریقہ تھا ؟اس کے بھی تو تبلیغ وحفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہوا تھا ؟ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِمبارک میں ان دونوں  یعنی احاد ومتواتر میں فرق روا رکھا گیا تھا ؟ اگرجواب ہاں میں ہے تو اس بات کے دلائل فراہم کرنا آپ لوگوں پر لازم ہے جو خیال است ومحال است وجنون کے زمرے میں آتے ہیں  ۔پھر یا تو حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فی نفسہ تمام مسلمانوں کے لیے حجت وبرھان ہے یاپھر نہیں ہے ؟ اگر حجت وبرھان ہے تو پھراس کی دوسروں کو تبلیغ کرنا اور انھیں دوسروں تک پہنچانا فرض ہے ، چاہے وہ خبرِ واحد ہو یاخبرِ متواتر؟ اور اگر حدیث حجت وبرھان نہیں ہےتوپھر ان دونوں میں کسی کی تبلیغ کرنا  اور دوسروں کو پہنچانا نہ فرض ہے اور نہ ہی ضروری۔ باقی رہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِمبارک میں ایک کاحجت وبرھان ہونا اوردوسرے کا حجت وبرھان نہ ہونا ، ثابت کرنا کسی مائی کے لعل کے بس میں نہیں ہے ۔ جناب غامدی اگے لکھتے ہیں کہ ،، اس دائرے کے اندر ، البتہ اس کی حجت ہراس شخص پر قائم ہوجاتی ہے جو اس کی صحت پر مطمئن ہوجانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل یاتقریر وتصویب کی حیثیت سے اسے قبول کرلیتاہے ، اس سے انحراف پھر اس کے لیے جائز نہیں رہتا بلکہ ضروری ہوجاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یافیصلہ اگر اس میں بیان کیاگیا ہے تو اس کے سامنے سرِتسلیم خم کردے ( میزان ص 15) میں نے پہلے لکھا تھا کہ ان صاحب کی تحریرات تضادات کا پلندہ ہوتے ہیں ۔ اب ان صاحب کو ( اگرہم حسنِ ظن سے کام لیں ) ادھر یہ خیال نہیں رہا کہ جب ایک حدیث فی نفسہ حجت نہیں ہے ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ السلام نے اس کی حفاظت کے لیے کوئی اہتمام نہیں کیا، مسلمانوں کو اس کی تبلیغ تک کرنے کاکوئی حکم نہیں کیا، بلکہ یہ کام ان کی مرضی پر چھوڑ دیاہے ، تو وہ کسی شخص کے اطمینان کے بعد ان پرحجت آخر کس طرح بنتا ہے ؟ اس سے انحراف اس کے لیے جائز کیوں نہیں ہوگا ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عدمِ تبلیغ اور عدمِ حفاظت کی صورت میں اس سے انحراف کو جائز سمجھنا ، اور بعد کے لوگوں پر اطمینان کی وجہ سے اسے لازم سمجھنا صرف مجنون کی بڑ ہے ۔ ورنہ کوئی معقول آدمی اس غتربود کا تصور بھی نہیں کرسکتا کیوں کہ عدمِ اہتمام حفاظت اور اس کی تبلیغ کے حکم نہ کرنے سے اس کالزوم ووجوب کافلسفہ معدوم ہوجاتاہے ۔اب یا تو حدیث کو لازم مانوگے تب آپ کی پہلی بات اڑجائےگی۔یا پھر غیرلازم مانو گے تو آپ کی دوسری بات اڑجائے گی۔ ان دوکشتیوں پربیک وقت سفر کرنا کسی قائل کو موت کا راستہ ہی دکھا ئے گا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…