غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 4)

Published On December 12, 2023
۔”خدا کو ماننا فطری ہے”  مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ

مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...

تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد

تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد

ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب تلخیص : زید حسن رمضان المبارک کی بابرکت ساعات میں امتِ مسلمہ روزے اور عبادات میں مشغول ہے ، لیکن سوشل میڈیا پر چند ایسی آوازیں گاہے بگاہے اٹھتی نظر آتی ہیں جن میں ان عبادات کا انکارکیا گیا ہے جن پر امتِ مسلمہ ہزاروں سالوں سے عمل کرنی چلی...

ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت

ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت

سمیع اللہ سعدی علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فتاوی شامی میں متعدد مقامات پر مسئلہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :۔و ھذا مما یعلم و یکتم یعنی یہ مسئلہ سیکھنا تو چاہیے ،لیکن عممومی طور پر بتانے سے گریز کیا جائے ۔فقاہت اور دین کی گہری سمجھ کا یہی تقاضا ہے کہ کتابوں میں...

علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی

علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی

ڈاکٹر زاہد مغل صاحب   جناب غامدی صاحب علم کلام پر ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ علم بے معنی و غیر ضروری ہے اس لئے کہ یہ فلسفے کے اس دور سے متعلق ہے جب وجود کو علمیات پر فوقیت دی جاتی تھی، علم کلام وجودی فکر والوں کے طلسم خانے کا جواب دینے کے لئے وضع کیا...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی صاحب آگے اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ  ” دین لاریب انھی دوصورتوں میں ہے ۔ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے نہ اسے دین قرار دیا جاسکتاہے ( میزان ص15)”

ہم عرض کرتے ہیں کہ جناب غامدی نے دین کو بہت مختصر کر دیا ہے  کیونکہ جن 25 سنن کو انھوں  نےابراھیمی سنن اور متواتر قرار دیاہے (1) ان میں ماشاء اللہ نمازِجنازہ کا بھی ذکر نہیں ہے اور قران میں بھی اس کا ذکر نہیں ہے ۔ تو یہ اس خود ساختہ دین سے خارج ہوگیاہے (2) ان مذکورہ سنن میں ڈاڑھی کا بھی ذکرنہیں ہے ۔ اور قران میں بھی اس کے رکھنے کا ذکر نہیں ہے ۔ اگر چہ حدیث میں ہے مگر وہ توجناب کے مطابق دین نہیں ہے لہذا اس سے بھی فارغ ہوگئے ہیں  (3) پردے اورحجاب کا حکم ان 25 سنن میں نہیں ہے ۔ اور قرآن میں جوفرمان موجود ہے وہ بقولِ جناب غامدی امہات المومنین تک خاص ہے ۔ دوسرے مسلمان اس کے مخاطب ہی نہیں ہیں  (4) عورت کی مردوں کے لیے امامت کی ممانعت ان مقررہ 25 سنن میں بھی نہیں ہے اور قران میں  بھی نہیں ہے ۔البتہ ان مذکورہ چیزوں کا ذکر حدیث میں ہے  مگر وہ تو دین ہی نہیں ہے۔ (5) عورت کی حکمرانی کی نفی نہ ان 25 سنن میں ہے اور نہ قران میں ہے  لہذا وہ بھی جائز ہوگئی ہے (6) اختلاطِ مردِ وزن اورایک دوسرے سے مصافحہ وغیرہ کی ممانعت نہ ان 25 سنن میں ہے  اور نہ قران میں ہے  تو وہ بھی جائزہوگئے ہیں (7) عید کی قربانی نہ ان سنن میں بیان ہوئی ہےاورنہ قرآن میں اس کا کوئی ذکر ہے لہذا وہ بھی دین نہیں ہے  ۔ (8)قیام رمضان نہ ان 25 سنن میں موجود ہے اور نہ قران میں اس کا ذکر ہے  لہذا اس سے بھی فارغ ہوگئے ہیں ۔قران میں قیام اللیل کا نبی علیہ السلام کےلیے ذکر ہے (9) نبی علیہ السلام کے میراث کا تقسیم نہ ہونا ، نہ ان مذکورہ 25 سنن میں موجود ہے  اور نہ قرآن میں موجود ہے لہذا تمام صحابہِ کرام نے بالکل غلطی کی ہے جو سیدہ فاطمہ اوران کے آل وعیال کو میراثِ نبی علیہ السلام سے محروم کیاتھا  (10) چار سے زیادہ بیویوں کے نکاح کا منع ہونا نہ ان 25 سنن میں موجود ہے اور نہ قران میں ثابت ہے  اس لئے وہ بلامضایقہ جائز ہیں ۔آیتِ قرانی ،، فانکحوا ماطاب لکم مثنی وثلاث ورباع فان خفتم الاتعدلوا فواحدة ،،( النساء ) میں چار کی حد بندی کی کوئی بات موجود نہیں ہے  (11) پھوپھی اور بھتیجی کونکاح میں جمع کرنے کی ممانعت نہ ان مقررہ 25 سنن میں کوئی بات موجود ہے  اور نہ قران میں ثابت ہے لہذاوہ بھی جائز ہے(12) قبروں پر مساجد بنانے کی ممانعت کا نہ ان مقررہ سنن میں کوئی ذکرہے اونہ قران میں اس کی ممانعت ہے لہذا ان پر مسجد بنانا جائز ہے ۔اگر کوئی شخص کہے کہ احادیث میں اس کا ذکر ہے ، ہم عرض کرینگے کہ جناب غامدی نے صاف لکھا ہے ،، کہ ،، حدیث ،، ان دوصورتوں یعنی سنتِ ابراھیمی اور قران کے علاوہ دین قطعا نہیں ہے ،، آگے بھی ان کی عبارت میں یہ بات آئے گی ۔

یہ چند مثالیں ہم نے بیان کردی ہیں ، جو اس ،، خود ساختہ دین ،، میں موجود ہونی چائیں کیونکہ ان کے نزدیک یہ چیزیں دین نہیں ہیں توحرام بھی نہیں ہیں ۔پوری تفصیل اب نہیں کرسکتے پھر کبھی سہی ۔ لہذا جولوگ پرانے دین سے بیزار ہیں اور  آزادی چاہتے ہیں   ان لوگوں کے لیے اس ،، خود ساختہ دین ، میں داخل ہونے کا بہترین موقع ہے۔ جناب غامدی آگے لکھتے ہیں کہ ،، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر وتصویب کے اخبارِآحاد جنھیں بالعموم ،، حدیث ،، کہا جاتاہے ان کے بارے میں یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ ان کی تبلیغ وحفاظت کے لیے آپ نے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا بلکہ سننے اور دیکھنے والوں کے لیے چھوڑدیا  کہ چاہیں تو انھیں آگے پہنچائیں ، اورچاہیں تو نہ پہنچاہیں ( میزان ص 15) ہم اس حوالے سے چند گزارشات پیش کرتے ہیں  (1) پہلی گذارش یہ ہے کہ جناب غامدی کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوگئی ہے کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ،لہذا وہ اپنی کسی بات کے لیے دلیل دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے ۔حالانکہ ایسی باتوں کو معقول اورجہان دیدہ لوگ بغیر دلیل کے نہیں مانتے ۔ممکن ہے کچھ نادیدہ نوجوان جناب غامدی کے ان دعاوی پر بغیردلیل کے بھی مطمئن ہوجائیں  مگر اہلِ فکرونظر کاخالی خولی دعوی پر مطمئن کرنا ازبس متعذر ہے (2) دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو کس نے کھا ہے کہ نبی علیہ السلام نے ،، حدیث ،، کے جمع کرنے کے لیے کوئی اہتمام نہیں کیا تھا ؟ یہ بات کیسی ناقابلِ تردید حقیقت بن گئی ہے ؟ یہ بات درحقیقت مستشرقین کی پھیلائی ہوئی ہے ۔  ورنہ محققین نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہِ کرام کو آحادیث کا املاء کرانا اور صحابہِ کرام کا اس کو لکھنا درجہِ تواترکو پہنچا ہوا ہے  ۔ڈاکٹر مصطفی اعظمی مرحوم لکھتے ہیں کہ ،، املاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکذالک کتابة الصحابة للاحادیث النبویة التی وصلت درجة التواتر ( دراسا ت فی الحدیث ج1ص 79) اگر اس مسئلہ میں صرف تین آحادیث ہی موجود ہوتیں  تب بھی کوئی مسلمان جناب غامدی کے اس خرافے کو قبول نہیں کرسکتا تھا ۔ کجا کہ بے شمار روایات اس سلسلہ میں الحمدللہ وارد ہیں  جن کا استقصاء حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مدافعین نے بطریقِ احسن کیا ہے ۔ احباب ان کتابوں کی طرف رجوع کریں ۔ ہم صرف تین روایات پیش کرتے ہیں ۔جو درج ذیل ہیں ۔(1) ایک روایت یہ ہے کہ خطبہِ حجةالوداع کے بعد ایک شخص نے صلی اللہ علیہ وسلم سے اس خطبہ کے لکھنے کا سوال کیا   تو نبی علیہ السلام نے فرمایا ،، اکتبوا لابی شاہ (بخاری) دوسری روایت سیدنا عبداللہ بن عمرو کے متعلق ہے کہ ان کو دیگر صحابہِ کرام نے ہرحدیث کے لکھنے پر ملامت کی کہ نبی علیہ السلام کبھی غصہ میں ہوتے ہیں اور کبھی درست حال میں ہوتے ہیں ۔انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی  تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،، اکتب فوالذی نفسی بیدہ ماخرج منی الاحق ( حم) اور تیسری مشہور روایت سیدالحفاظ سیدناابوھریرہ کی چادر والی ہے جس میں ،، دعالہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بالحفظ (بخاری) سیدنا ابوھریرہ فرماتے تھے صرف عبداللہ بن عمروبن العاص مجھ سے زیادہ روایات بیان کرتے تھے کہ وہ لکھتے تھے میں لکھتانہ تھا ،، ۔اسی طرح  دعا والی حدیث ہے اس شخص کے لیے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت کو محفوظ رکھا ،  ، نضر اللہ امرءا سمع مقالتی فوعاھا واداھا کما سمعھا ،، اور حدیث ،،الا لیبلغ الشاھد الغائب ،، یہ ہم نے صرف چند صحیح روایات کا تذکرہ کیا ہے ۔ ورنہ محققین نے اس موضوع پر پوری پوری کتابیں مرتب کی ہیں ۔ کیا(1) احادیث کے حفظ کرنے والے کے لیے مختلف الفاظ میں دعا کرنا  (2) اور مختلف اشخاص کو حدیث لکھنے کا حکم کرنا (3) لوگوں کے سامنے یہ بیان کرنا کہ تم میں سے حاضر لوگ غائب لوگوں کو یہ حدیثیں  پہنچائیں ۔ کیا یہ ترغیب واہتمام نہیں ہے ؟ یہ باتیں ان صحیفوں سے الگ ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں لکھے گئے تھے ۔ اگر یہ بھی ترغیب واہتمام نہیں ہے تو پھر آپ ہی بتائے کہ نبی علیہ السلام نے قران کو جمع کرنے کا اس سے زیادہ کیا اہتمام کیا تھا ؟ ہاں مگر اتنی بات یاد رہے کہ جواب میں ،، حدثنا واخبرنا ،، ہم نہیں سنیں گے ۔کیونکہ آپ کایہ ،، خود ساختہ دین ،، ان دولفظوں کا بقولِ شما محتاج نہیں ہے۔ ان اوپر ذکرکردہ روایات کے بعد کیا کوئی شخص بسلامتئ ہوش وحواس یہ دعوی کرسکتاہے کہ ،،  اسے( حدیث) دیکھنے اور سننے والوں کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ چاہیں توانھیں اگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں ،  اس لیے دین میں ان سے کسی عقیدہ وعمل کا اضافہ بھی نہیں ہوتا ( میزان ص15)  مگر اس بزعمِ خویش دانشور صاحب نے یہ دعوی کردیا ہے ۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ پھر سیدنا ابوبکرصدیق اور سیدنا عمرِفاروق وغیرھم کے دورمیں صحابہِ کرام سے وہ حدیثیں کیوں تلاش کرتے تھے جو نہ قران کی تفسیر کے تحت آتی تھیں اور نہ آپ کے سننِ مقررہ کے تحت ، مثلا وبا کے مقام میں داخل  ہونا یا اس سے چلا جانا ، اسی طرح اکسال وانزال کا مسئلہ وغیرہ ۔بے شمار دلائل دورِ صحابہِ کرام کے موجود ہیں  جو آپ کے نزدیک دین نہیں ہیں ۔مگر صحابہِ کرام بہت دن تک اس کے لیے انتظار کرتے تھے  کہ کسی شخص کے پاس کوئی حدیث موجود ہو  تو وہ اسے ہمارے سامنے پیش کرے اورہم اس پر عمل کریں۔  اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالاکالا ہے ۔ کمال تویہ ہے کہ انہیں اپنی تحریرات میں تضاد کا بھی احساس نہیں ہوتا اس لیے تو آگے لکھتے ہیں کہ ،، دین کے متعلق جوچیزیں ان ( آحادیث)میں آتی ہیں ، وہ درحقیقت قرآن وسنت میں محصور اسی دین کی تفھیم وتبیین اوراس پر عمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کا بیان ہے ، حدیث کا دائرہ یہی ہے ، چنانچہ دین کی حیثیت سے اس دائرے سے باہر کوئی چیز نہ حدیث ہوسکتی ہے ، اورنہ محض حدیث کی بنیاد پر اسے قبول کیاجاسکتاہے ( میزان ص15) حدیث کا دائرہ اگر واقعتا یہی ہے  کہ صرف ان پچیس سنت اور قران کا بیان کریں   تب ، میتہ ، دم ، خنزیر ،اور مااھل لغیراللہ کے سوا سب حیوانات آپ کے ،، خود ساختہ دین ،، میں جائز ہونگے کیونکہ آپ کے مقرر کردہ 25 سنن اور قران میں ان چیزوں کی حرمت بیان نہیں ہوئی ۔اور آپ نے دین کو انہی دو میں منحصر کرکے بیان کیاہے لہذا آپ کے اس ،، خود ساختہ دین ،، میں کتا ، گدھا ، گیڈڑ ، بھیڑیا ،  بلی ، درند وچرند سب ہی حلال ہونگے بلکہ ہونے چاہئیں حالانکہ آپ نے کہاتھا کہ گدھا گدھوں کےلیے حلال ہے۔آپ کی اس عظیم فکر سے بعض ان جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بہت خوشی ہوگی جو دینِ الہی کی مشقت اورمولوی کی قیادت سے دور بھاگتے ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…