غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 38)

Published On March 5, 2024
پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

غلبہ دین : غلطی پر غلطی

حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)

سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)

حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی طیبات اورخبائث کے بارے میں اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے اگے لکھتے ہیں ،، چانچہ شریعت کا موضوع اس باب میں صرف وہ جانوراور ان کے وہ متعلقات  ہیں   جن کی حلت وحرمت کا فیصلہ تنہا عقل وفطرت کی راہنمائی میں کرلینا انسان کےلیے ممکن نہ تھا ،سؤر انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہیں جو  درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتے ہیں  ، پھر اسے کھانے کا جانور سمجھا جائے یا نہ کھانے کا ؟  وہ جانور جنہیں ہم ذبح کرکے کھاتے ہیں  اگر تذکیے کے بغیر مرجائیں تو ان کا کیا حکم ہوناچاہئے؟ انہی جانوروں کا خون کیا ان کے بول وبراز کی طرح نجس ہے یا اسے حلال وطیب قرار دیا جائے گا ؟ یہ اگر خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کردیئے جائیں ، تو کیا پھر بھی حلال ہی رہیں گے ؟ ان سوالوں کا کوئی قطعی اور واضح  جواب چونکہ انسان کے لیے دنیا میں مشکل تھا   اس لیے اللہ تعالی نے اپنے نبیوں کے ذریعے اسے بتایا کہ سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کےنام پر ذبح کیے کیے جانور بھی کھانے کے لیے پاک نہیں ہیں ۔ اورانسان کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے ( میزان ص 36)   درج ذیل   چار سوالات پر ذرا غور فرمالیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا   کہ یہ لوگ کس طرح کی سخن سازی کرتے ہیں؟ ان چار سوالات کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے   اورنہ یہ ان  سوالات کے لیے کسی تاریخ و فقہی کتاب کا حوالہ دے سکتے ہیں کہ نبیوں کے زمانے میں لوگوں کے ذہنوں میں یقینا یہ چارسوالات گردش کررہے تھے ؟ ایسی کوئی بات بہرحال تاریخِ انبیاءِکرام میں موجود نہیں ہے ۔ یہ اس طرح کے فرضی سوالات ہیں  جیسے ہمارے فقہاء اسے قائم کرتے ہیں ۔ اسی طرح جناب غامدی نے بھی مقرر کیے ہیں ۔اس میں بھی جناب کی ،، محنت اور تکلف ،، کا ظہور موجود نظر آتاہے ۔ اب دیکھئے کہ وہ ،، خنزیر ،،  یعنی سؤر کے متعلق لکھتے ہیں  کہ وہ انعام کی قسم کے بہائم میں سے ہے   مگر گوشت بھی کھاتا ہے ،، اب اس بات سے وہ اپنے قارئین کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ چونکہ ،، کچلی والے درندوں ،، کا ممنوع اور حرام ہونے کو انسان اپنی فطرت کے ذریعے سے پہچانتا ہے کہ وہ گوشت کھاتا ہے ، مگر یہ بہائم قسم کے حیوانات میں سے بھی ہے ، اس لیے ،، خنزیر ،، کے متعلق بھی لوگوں کے ذہنوں میں درجِ بالا سوال پیدا ہوا تھا  حالانکہ اگر بات اس طرح کی ہوتی  جیسے جناب غامدی سمجھاتے ہیں تب لوگوں کی دنیا میں بڑی تعداد اسے کبھی نہ کھاتی ۔  مگر اب بھی بڑی تعداد میں لوگ اسے خوشی خوشی سے کھاتے اور دوستوں کو کھلاتے ہیں ۔ پھر اگر سوال انسانی اذہان میں واقعی یہی پیدا ہوا تھا   جیسا کہ جناب غامدی ہمیں باور کراتے ہیں   توپھر  قران اور دیگر کتابوں نے باربار اس کے حرام اورخبیث ہونے کا تو تذکرہ کیا ہے   مگر ایک بار بھی یہ بات نہیں بتائی ہے کہ اس کی حرمت کی اصل ،، علت ،،  کچلی والے جانوروں کے مانند گوشت کھانا ہے۔ اس سے یہ بات بالکل روزِ روشن کی طرح عیان ہو جاتی ہے   کہ نہ تو انسانوں کے اذہان میں اس اشکال کا کوئی تصور موجود تھا   اور نہ اس کے حرمت کی اصل وجہ یہی ہے ۔ بلکہ یہ جناب غامدی کے ،، تصورات ،، کا ایک اور کرشمہ ہے ۔عام لوگ اس کی ،، خباثت ،، کو علتِ حرمت قراردیتے ہیں ۔اب دوسری بات کو ملاحظہ فرمالیں ۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی موجود نہ تھا   کہ ،، کھانے جانے والے حیوانات اگر بغیر تذکیہ کے مرجائیں تو ان کا کیا حکم ہونا چاہئے ،، یہ محض بنی بنائی بات ہے   جس کا دنیا کے مسلمہ حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ہماری اس بات  کی بہت ساری وجوہات موجود ہیں  مگر ہم صرف اس ایک ہی آیت پر بات کے لیے اکتفاء کرتے ہیں جو سورتِ انعام میں موجودہے ۔اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ،، وقالوا مافی بطون ھذہ الانعام خالصة لذکورنا ومحرم علی ازواجنا وان یکن ،، میتة ،، فھم فیہ شرکاء سیجزھم وصفھم انہ حکیم علیم ( الانعام 139) اس آیت سے معلوم ہوا  کہ وہ  لوگ ،، میتہ ،، سب مل کر کھاتے تھے ۔اگر ان کے اذہان میں یہی سوال موجود تھا   تو اس کا بھی کہیں کسی نص میں تذکرہ یا اس کی طرف اشارہ ہوناچاہئے تھا مگر قران کے طول وعرض میں آپ کو یہ بات کہیں بھی نہیں ملے گی ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کا بھی حقایق کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر جناب غامدی کا یہ کہنا بھی عجیب ترین ہے کہ ،، چنانچہ شریعت کا موضوع اس باب میں صرف وہ جانوراور ان کے متعلقات ہیں ، جن کی حلت اور حرمت کا فیصلہ عقل اور وفطرت کی راہنمائی میں کرلینا انسان کے لیے ممکن نہ تھا ،، حالانکہ ان کو اس بات کے بجائے یہ بات لکھنی چاہئے تھی ، کہ شریعت کا موضوع اس باب میں صرف وہ جانور اور ان کے متعلقات  ہیں جن کی حلت اورحرمت کے بارے میں عقل وفطرت غلط فیصلے کرتے ہیں ،،  کیونکہ یہاں تو عقل وفطرت نے غلط فیصلے کیے ہیں جو قران میں صراحت کے ساتھ موجود ہیں   جیسے ان کا ،، خنزیر ،،  کو حلال جاننا ،، میتة ،، کو حلال جاننا ، اور،، مااھل لغیراللہ بہ ،،  کوحلال جاننا ، اور ،، دم ،، کو بھی حلال قراردینا  جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے کہ ،، واما الدم فکانت العرب تجعل الدم فی مباعرھا وتشویھا ثم تاکلھا فحرم اللہ الدم ( الکبیر ج2ص 192)وغیرہ ۔ مگر جناب غامدی نے اس اصل بات میں بھی ڈنڈی ماری ہے  کیونکہ انہوں نے پہلے لکھا ہے ،، کہ انسانوں کی عادات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ فطرت بالعموم درست فیصلہ کرتی ہے ،، اب اگر وہ یہاں اصل بات ہی کہتے کہ ،، فطرت وعقل ،، نے یہاں غلط فیصلے کیے ہیں   تو پھر ان کی اس مذکورہ دعوی کی تردید ہو جاتی کہ دیکھئے عقل وفطرت نے تو یہ غلط فیصلے کیے ہیں ۔ لیکن ان کو یہ منظور نہیں تھا کہ انھوں نے ،،  انسانوں کے اکثر عادات کا جوگہرااور عمیق مطالعہ کیا ہے ، جس کانتیجہ یہ ہے کہ وہ بالعموم درست فیصلہ کرتی ہے ،، اس پر کوئی انگلی اٹھائے ۔ جبکہ فی الحقیقت نہ انہوں نے انسانی عادات کا کوئی مطالعہ کیا ہے  اور نہ اس مطالعہ کا حاصل آور نتیجہ یہ نکلا ہے ۔ جناب غامدی اپنے ،، استاد امام ،، کی طرح محض دعاوی سے ہی کام چلاتے رہتے ہیں ۔ اب تیسرے مسئلہ کو لیں لجئیے ۔ اس کے متعلق بھی قران سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی عقل اورفطرت سے غلط فیصلہ کیا تھا قران میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ،، وجعلوا للہ مما ذرا من الحرث والانعام نصیبا فقالوا ھذاللہ بزعمھم وھذالشرکاءنا فماکان لشرکاءھم فلایصل الی اللہ وماکان للہ فھو یصل الی شرکاءھم ساء مایحکمون ( الانعام 136) اور اگے اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ،، وقالوا ھذہ انعام وحرث حجر لایطعمھا الامن نشاء بزعمھم وانعام حرمت ظھورھا وانعام لایذکرون اسم اللہ علیھا افتراء علیہ سیجزھم بماکانوا یفترون ( الانعام 138) ان آیاتِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ انہوں نے اس کے متعلق بھی اپنی عقل وفطرت سے غلط فیصلہ ہی کیا تھا ۔ اسی طرح وہ انعام کا دمِ مسفوح بھی استعمال کرتے تھے ۔اس بحث سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ طیبات اورخبائث کو معلوم کرنےکے لیے محض عقل وفطرت پراکتفاء کرنا جیسا کہ اس مذکورہ گروہ کے محققین کاخیال ہے ، وہ   انسان کو گمراہ کرتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ انسان کے پاس ،، وحی ،، کی روشنی بھی اس باب میں دیگر ابواب کی طرح موجود ہو ۔ہم نے پیچھے اس کے تین عقلی وجوہات بھی بیان کیے ہیں ۔ احباب ان کو دیکھ سکتے ہیں ۔ جناب غامدی بعض اوقات سوالات بھی جلدبازی کی وجہ سے مناسب قائم نہیں کرپاتے ۔ مثلا ان کایہ قول دیکھ لیں کہ ،، انہی جانوروں کا خون کیا ان کے بول وبراز کی طرح نجس ہے یا اسے حلال وطیب قرار دیا جائے گا ،، کیا خیال ہے یہ سوال کوئی معقول آدمی کرسکتا ہے ؟ یہ پوچھنا تو ہزار ممکن ہے کہ خون نجس وناپاک ہے یا پاکیزہ و طیب ہے ؟ اسی طرح یہ سوال کہ خون کا کھانے وغیرہ کے لیے استعمال درست یا پھر نادرست ہے ؟ مگر اس کا بول و براز کی طرح نجس ہونے کا قول جناب غامدی جیسے محقق کے علاوہ کون سوال کرسکتا ہے ؟ پھر کیا یہ ساری مذکورہ حرام چیزیں ،، بول وبراز ،، کی طرح نجس ہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے  تو پھر سب کے بارے میں اس طرح کے الفاظ ہونے چاہئے تھے۔ اور اگر جواب نہیں میں ہے  تو پھر صرف خون بےچارے کا کیا مسئلہ تھا کہ اسے بول وبراز کی طرح قرادینے کا سوال ہوا ؟ اگر جناب غامدی کا اپنا مسلک یہی ہے تو پھر اسے دوسروں کی طرف کیوں منسوب کیا گیا ؟ پھر حرمت اور نجاست میں کوئی ملازمہ بھی تو نہیں ہے کہ جو چیز بھی حرام ہوگی وہ نجس بھی ضرور ہوگی ۔ شراب حرام ہے   مگر اس کی نجاست کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ اورادھرموضوع بھی جیسا کہ احباب جانتے ہیں محرمات اور محللات کا چل رہا ہے ۔ مگر جناب غامدی نے انجانے میں اسے نجاست سے مخلوط کرلیا ۔ جناب غامدی کی اوپر کے مختصر سے فقرے سے یہ بات بھی معلوم ہوئی   کہ خنزیر کا خون اور اس کا ،، شحم ،، ان کے نزدیک جائز ہے   کیونکہ ،، دم ،، کو انھوں نے اوپر کے سوال میں ،، انہی حلال جانوروں ،، سے متعلق کیا ہے ۔ اور قران میں جگہ جگہ ،، لحم الخنزیر ،، کے الفاظ وارد ہیں ۔یہ بات بھی انہوں نے صراحت سے  ایک اور مقام میں کہی ہے کہ مذکورہ چارچیزوں کی حرمت صرف اکل کی حدتک ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ،، یہ سب چیزیں ، جس طرح کہ قران کی ان آیات سے واضح ہے صرف خورو نوش کے لیے حرام ہیں ۔رہے ان کے دوسرے استعمالات تو وہ بالکل جائز ہیں ۔کسی صاحبِ ایمان کو اس معاملے میں ہرگز کوئی تردد نہیں ہوناچاہئے ( میزان ص 637)  پس جب ،، دم ،، کی حرمت کا مسئلہ ،، انہی حلال جانوروں ،، تک منحصر ہے   اور قران نے ،، لحمِ خنزیر ،، تک اکل کی حرمت کو محدود رکھا ہے   تو اس کا لازم نتیجہ یہی ہوگا   کہ خنزیر کاخون اور شحم بھی جائز ہوجائے گا ۔ مسلم کی حدیث میں اگر ،، دمِ  خنزیر ،، کا لفظ معرضِ ذم میں آیا ہے تو وہ تو خبرِ واحد ہے ۔اوراسی طرح ،، خنزیر ،، کے دوسرے استعمالات بھی جائز ہیں ۔اگر بخاری وغیرہ میں حدیثِ تحریمِ بیع کی بات آئی ہے تو اس کا کوئی اعتبار بھی نہیں ہے کہ وہ بھی ،، خبرِ واحد ،، ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…