غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 30)

Published On February 29, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

مولانا واصل واسطی

چوتھے اعتراض میں جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، یہی معاملہ ان روایتوں کا بھی ہے جو سیدنا صدیق اور ان کے بعد سیدنا عثمان کے دور میں قرآن کی جمع وتدوین سے متعلق حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ قران  جیسا کہ اس بحث کی ابتداء میں بیان ہوا ، اس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ وہ براہِ راست اللہ تعالی کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عینِ حیات  میں مرتب ہوا ہے  ۔لیکن یہ روایتیں اس کے برخلاف دوسری ہی داستان سناتی ہیں  جسے نہ قران قبول کرتا ہے اور نہ عقلِ عام ہی کسی طرح ماننے کےلیے تیار ہوسکتی ہے ، صحاح میں یہ روایات اصلا ابن شھابِ زہری کی وساطت سے آئی ہیں ، آئمہِ رجال انہیں تدلیس اورادراج کا مرتکب تو قرار دیتے ہی ہیں اس کے ساتھ اگران کے وہ خصائص بھی پیش نظر رہیں  جوامام لیث بن سعد نے امامِ مالک کے نام اپنے ایک خط میں بیان فرمائے ہیں  تو ان کی کوئی روایت بھی اس طرح کے اہم معاملات میں قابلِ قبول نہیں ہوسکتی ، وہ لکھتے ہیں ،، وکان یکون من ابنِ شھاب اختلاف کثیر اذالقیناہ واذا کاتبہ بعضنا فربما کتب فی الشئ الواحد علی فضل رایہ وعلمہ بثلاثةانواع ینقض بعضھا بعضا ولایشعر بالذی مضی من رایہ فی ذالک الامر فھو الذی یدعونی الی ترک ماانکرت ترکی ایاہ ( ترجمہ ) ہم لوگ جب ابن شہاب سے ملتے تھے  تو بہت سے تضادات سامنے آتے تھے اور ہم میں کوئی جب ان سے لکھ کر دریافت کرتا توعلم وعقل میں فضیلت کے باوجود ایک چیز کے متعلق ان کا جواب تین طرح کا ہوا کرتا تھا  جن میں ایک دوسرے کا نقیض ہوتا  اورانہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا تھا  کہ وہ اس سے پہلے کیا کہہ چکے ہیں ۔ میں نے ایسی ہی چیزوں کی وجہ سے انھیں چھوڑا تھا  جسے تم نے پسند نہیں کیا ،،  ۔یہ ان روایتوں کی حقیقت ہے ( میزان ص 32) ہم جناب غامدی کے ان اعتراضات کے حوالے سے چند گذارشات پیش کرتے ہیں ۔ جن سے احباب ان واہی اعتراضات کی حقیقت کو جان سکیں ان شاءاللہ  ( 1) پہلی گذارش اس سلسلے میں یہ ہے کہ جناب غامدی کے بقول ،، اسی طرح سیدنا صدیق اور سیدنا عثمان کے دور میں قران کی جمع وتدوین کے متعلق بھی یہ روایتیں دوسری ہی داستان سناتی ہیں جسے نہ قران قبول کرتا ہے اور نہ عقلِ عام اسے مان سکتی ہے ،، ہم کہتے ہیں جناب غامدی اس بات کو گول کر گئے ہیں ۔ پوری وضاحت نہیں کی ہے کہ روایات کیا بات سناتی ہیں ۔ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ روایتیں ،، تحریف ،، وغیرہ کی باتیں سناتی ہیں  تو پھر سوال یہ ہے کہ ان روایتوں کو تو تمام اہلِ سنت والجماعت بالاتفاق دورِصحابہ سے مانتے آئے ہیںمگر ان روایات کا یہ مفہوم اہلِ سنت میں سے کس معتبر عالم نے لیا ہے ؟ اپ کو یہ بات تحقیق اورحوالوں سے بتانی پڑے گی ۔اور اگر کسی نے یہ مفہوم ان روایات کا لیا ہی نہیں ہے  تب آپ کو دوسروں کے متعلق چھوڑ کر خود اپنے بارے میں سوچنا ہوگا کہ آپ نے ان روایات کا وہ مطلب کیوں لیا ہے جو کسی معتبر عالم یا گروہ نے ان کا نہیں لیا ۔ اوراگر بالفرض اہلِ سنت والجماعت نے ان روایات سے ،، تحریف ہی ،، کا مفہوم برآمد کرلیا ہے اور ،، تحریف ،، کے بالاتفاق قائل بھی ہوئے ہیں تو پھر محض آپ کے رد کرنے سے کیا ہو سکتا ہے؟ کیا آپ کا ان روایات کو رد کرنے سے  پورے امتِ مسلمہ کا دامن اس اعتراض سے صاف ہوجائے گا جبکہ آپ کے حدود بھی ،، ماڈل ٹاؤن ،، تک ہی محدود ہوں ؟ قطعا ان کا دامن آپ کی تردید سے صاف نہیں ہوسکتا۔ بلکہ لوگ امت مسلمہ کو ،، تحریف ،، کے قائل ہی قرار دینگے  لہذا آپ کی محنت ادھر بالکل ضائع ہو گئی ہے ۔کسی اور موضوع پر کوشش اور خامہ فرسائی کرلیجیے ۔اوراگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ یہ روایات قران کے جمع وتدوین کے متعلق ،، تواتر ،، کا مفہوم نہیں دے رہی ہیں تو بھی یہ بات غلط ہے  کیونکہ امتِ مسلمہ نے بالاتفاق ان روایات سے ،، تواتر ،، کا ہی مفہوم ماخوذ کر کے لیا ہے ۔ ہمارے علم کی حدتک کسی مخالف نے امتِ مسلمہ کو ان روایات کی بنا پر اس الزام کا مورد نہیں بنایا ۔کیونکہ محدثین نے ان روایات کے اصل مورد کو اپنی اپنی شروح میں بالتفصیل متعین کیا ہے ۔ اور اگر کوئی ،، الا الذین ظلموا ،، خواہ مخواہ اعتراضات پیدا کرنا چاھہے ہیں  تو وہ سلسلہ روکنا کسی کی بس میں نہیں ہے۔آپ خواہ مخواہ ان روایات کے وجود سے پریشان نہ ہوں ۔ اللہ تعالی خیر کرے گا ( 2) دوسری گذارش یہ ہے  کہ جناب غامدی نے امام ابن شہاب زہری کو اپنے ،، استاد امام ،، کی اتباع میں ادراج وتدلیس وغیرہ سے متہم کیا ہے ۔ مگر تاثر یہ دیا ہے کہ انھوں نے اس مسئلہ میں ان سے الگ راستہ اختیار کرلیا ہے۔مگر جناب کی پوری عبارت کو پڑھ کر یہ تاثر زائل ہوجاتا ہے ۔ جناب کے ،، استاد امام ،،  امین احسن اصلاحی نے اپنی حدیثی شرح میں ،، ابن شہاب زہری کو وضع وتخلیق کا امام قراردیا ہے ،، ہمارا اس وقت یہ موضوع نہیں ہے اور اس پر احباب کو تحقیق کرنی چاہئے  مگر اتنی بات تو بہرحال ہر عاقل عالم جانتا ہے کہ دنیا کے مستند ترین حدیثی مجموعات کے اس مرکزی راوی پر یہ ،، الزام پہلے کسی نے نہیں لگایا ۔ جناب غامدی نے ،، ابن شھاب زہری ،، کے متعلق تین اعتراضات وارد کیے ہیں ۔ پہلا اعتراض یہ ہے کہ وہ ،، تدلیس ،، کے مرتکب ہیں ۔مجھے تعجب ہوتا ہے جب جناب غامدی بھی کتبِ رجال سے استفادہ کرتے ہیں ۔ اگر وہ واقعی اس پر یقین کرتے ہیں  تو ذرا اپنے پسندیدہ آئمہ کے متعلق بھی ان کے اقوال دیکھ لیں ۔جناب غامدی مسلکا ( ممکن ہے یہ مصلحتا ہوں)حنفی ہیں اورانہیں ہونا بھی چاہئے  کہ انہی کے وسیع المشرب مذہب میں ان کے افکار قبولیت پاسکتے ہیں ۔مگر اتنی بات تو بہرحال ہر آدمی کو معلوم ہونی چاہئے کہ ان کے آئمہ ومتقدمین کا مذہب اس سلسلہ میں کیا ہے ؟ احناف ،، تدلیس ،، کو سرے سے حدیث میں عیب نہیں مانتے ہیں  جیساکہ عبدالعزیز بخاری نے شرح بزدوی میں لکھا ہے وتبین بھذا ان التدلیس بترک اسم المروی عنہ لایصلح للجرح عندنا لان عدالة الراوی تقتضی انہ ماترک ذکرہ الا لانہ عدل ثقةعندہ لماذکرنا فی المرسل ویجری ذالک مجری تعدیلہ صریحا والصحابة کانوایروون احادیث ویترکون اسامی رواتھا کماذکرنا فی المرسل فلوکان ذالک یوجب سقوط الخبر لما استجازوا ذالک ( کشف الاسرار ج 3 ص 147) خاص کر جب وہ راوی خیرالقرون میں ہو کیونکہ بعض محققین کے بقول ان کے نزدیک ،، مرسل روایت ،، قرونِ ثلاثہ ،، میں بالاتفاق منظور ہے  تو جب یقینی ،، مرسل روایت ،، کو وہ بالاتفاق قبول کرتے ہیں  تو موہمِ ارسال روایت ،، پران کو کیا اعتراض ہوگا ؟ ہمارے ایک حنفی معاصر لکھتے ہیں ،، ثم ان التدلیس لیس بجرح عندالحنفیة لانہ یوھم الارسال وحقیقةالارسال لیس بجرح عندھم فکیف بموھمہ وقد فعلہ خیارالامة کالاعمش والثوری وانما فعلوہ لامرین الاول انھم قصدواالاختصار وتقریب الاسناد علی السامعین والثانی انھم ارادوا بالارسال تاکید الحدیث والقطع علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولم یقصدواالتزین بعلوالاسناد ( دراسات فی اصول الحدیث ص 405)  اس سے پہلے ،، تدلیس الاسناد وتدلیس الشیوخ ،، کی وضاحت کی ہے اور پھر ،، مدلّس ،، کی روایت کے حکم کو بیان کیا ہے اورلکھا ہے کہ ،، حکمہ حکم المرسل عند ایمةالحنفیة دون ای فرق قال الجصاص فی ،، الفصول فی الاصول ،، والقول فیہ عندنا انہ ان کان المدلس مشھورا بانہ لایدلس الاعمن یجوز قبول روایتہ فروایتہ مقبولة وان کان الظاھر من حالہ انہ لایبالی عمن دلسہ من ثقة او غیرثقة فانہ لایقبل روایتہ الا ان یذکر سماعہ فیہ علی نحو ما بیناہ فی ارسالہ الحدیث ( دراسات فی اصول الحدیث ص 405)  جب آپ  کامذہب یہ ہے  تو پھر آپ کس برتے پرابن شہابِ زہری کو متہم کرسکتے ہیں ؟ جبکہ ابن شھاب زہری کا شماران مدلسین میں ہوتا ہے جن کو بخاری ومسلم وغیرہ قبول کرتے ہیں  یعنی پہلے یابعض کے نزدیک دوسرے درجے کے مدلسین میں سے ہیں ۔ مگر ممکن ہے کہ جناب غامدی بھی دشمنی میں اپنے ،، استاد امام ،، پر گئے ہوں ۔ اورابن شہاب کی دشمنی میں احناف کو چھوڑ کر محدثین کرام خاص کر امام شعبہ وغیرہ کے اقوال مانتے ہوں ۔ مگر اس بات کا پھر کیا کریں گے جب ہم امام ابوحنیفہ کی ،، تدلیس ،، پیش کریں گے ؟ دوسرا اعتراض جناب غامدی نے ابن شہاب زہری پر ادراج کا کیا ہے ۔ احناف کی معاصراصولی کتابوں میں اس عنوان پر کچھ موجود نہیں ہے ۔ غالبا وہ اس کو بھی حدیث میں عیب نہیں سمجھتے ۔ جناب غامدی نے ان دونوں الفاظ ( تدلیس اورادراج ) کےلیے  ،، ارتکاب ،، کا لفظ اوپر درج عبارت میں استعمال کیا ہے  جس سے ان کی فکر کا اندازہ ہوجاتاہے ،، ادراج ،، درحقیقت کوئی عیب نہیں ہے اگر اس کے ساتھ بیان ووضاحت یاقرائن موجود ہوں کیونکہ اس سے مراد راوی کے نزدیک حدیث کے کسی جملے یا لفظ کی تفسیر ہوتی ہے ۔ ہم اس وقت اس موضوع پر تفصیل سے تو نہیں لکھ سکتے صرف ایک دوباتوں پر اکتفاء کرلیتے ہیں ۔ایک توادراج کی تعریف نوٹ کرنے کی چیز ہے تاکہ کوئی دھوکہ نہ دے سکے۔ امام ذھبی لکھتے ہیں کہ ،، ھی الفاظ تقع من بعض الرواة متصلة بالمتن لایبین للسامع الاانھا من صلب الحدیث ویدل دلیل علی انھا من لفظ راو بان یاتی الحدیث من بعض الطرق بعبارة تفصل ھذا من ھذا وھذاطریق ظنی ( الموقظہ ز 54) اس تعریف کو جاننے کے بعد اس کو عیب وخیانت وغیرہ میں شمارکرنا انتہائی مغفل ہونے کی علامت ہے ۔بعض معاصر لوگوں نے اس کی بڑی ،، جامع ،، تعریف کی ہے ، وہ بھی ملاحظہ فرمالیں ،، ھوان یدخل الراوی فی الحدیث الذی یرویہ مالیس منہ اخذا من الروایات الاخری وھو خطا بالنسبة للطریق الذی یرویہ دون تمییز واضح ( شرح الموقظہ ص 411) اب صرف ایک اور جملہ ایک معاصر عالم کا امام ابن شہاب زہری کے ،، ادراج ،، کے متعلق نوٹ فرمالیں ، وہ لکھتے ہیں کہ ،، واعلم ان الامام محمدبن مسلم بن شھاب الزھری کان ممن عرف بالادراج فی المتون یدرج اللفظ یفسر فیہ اللفظ ونحو ذالک ولیس بالکثیر فی حدیثہ ( تحریر علوم الحدیث ج2 ص 1016) امام ذہبی نے بھی لکھا ہے کہ خطیبِ بغدادی نے بہت زیادہ ،، ادراج ،، کادعوی کیاہے جس کوتسلیم کرنا مشکل ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…