غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 28)

Published On February 29, 2024
( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

( اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط دوم

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد پچھلی قسط کے اختتام پر لکھا گیا کہ ابھی یہ بحث پوری نہیں ہوئی، لیکن غامدی صاحب کے حلقے سے فوراً ہی جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اگر جواب کی طرف لپکنے کے بجاے وہ کچھ صبر سے کام لیتے اور اگلی قسط پڑھ لیتے، تو ان حماقتوں میں مبتلا نہ ہوتے جن میں...

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

(اہلِ غزہ کے معاملے میں غامدی صاحب کی اصولی غلطیاں (قسط اول

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ حج اور جہاد کی فرضیت صرف اسی کےلیے ہوتی ہے جو استطاعت رکھتا ہو۔ بظاہر یہ بات درست محسوس ہوتی ہے، لیکن اس میں بہت ہی بنیادی نوعیت کی غلطی پائی جاتی ہے اور اس غلطی کا تعلق شرعی حکم تک پہنچنے کے طریقِ کار سے ہے۔ سب سے پہلے...

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

جہاد، قادیانی اور غامدی صاحب، اصل مرض کی تشخیص

حسان بن علی بات محض حکمت عملی کے اختلاف کی نہیں کہ مسلمان فی الحال جنگ کو چھوڑ رکھیں بلکہ بات پورے ورلڈ ویو اور نظریے کی ہے کہ غامدی صاحب کی فکر میں مسلمانوں کی اجتماعی سیادت و بالادستی اساسا مفقود ہے (کہ خلافت کا تصور ان کے نزدیک زائد از اسلام تصور ہے)، اسى طرح...

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

مولانا فراہی کی سعی: قرآن فہمی یا عربی دانی ؟

ڈاکٹر خضر یسین مولانا فراہی رحمہ اللہ کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ قرآن مجید کی خدمت میں صرف ہوا ہے۔ لیکن یہ قرآن مجید کے بجائے عربی زبان و ادب کی خدمت تھی یا تخصیص سے بیان کیا جائے تو یہ قرآن مجید کے عربی اسلوب کی خدمت تھی۔ قرآن مجید کا انتخاب صرف اس لئے کیا گیا تھا کہ...

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

خدا پر ایمان : غامدی صاحب کی دلیل پر تبصرہ اور علم کلام کی ناگزیریت

ڈاکٹرزاہد مغل علم کلام کے مباحث کو غیر ضروری کہنے اور دلیل حدوث پر اعتراض کرنے کے لئے جناب غامدی صاحب نے ایک ویڈیو ریکارڈ کرائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن سے متعلق دیگر علوم جیسے کہ اصول فقہ، فقہ و تفسیر وغیرہ کے برعکس علم کلام ناگزیر مسائل سے بحث نہیں کرتا اس لئے کہ...

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

غزہ، جہاد کی فرضیت اور غامدی صاحب

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب سے جہاد کی فرضیت کے متعلق علماے کرام کے فتوی کے بارے میں پوچھا گیا، تو انھوں نے تین صورتیں ذکر کیں:۔ایک یہ کہ جب کامیابی کا یقین ہو، تو جہاد یقینا واجب ہے؛دوسری یہ کہ جب جیتنے کا امکان ہو، تو بھی لڑنا واجب ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نصرت...

مولانا واصل واسطی

تیسرااعترض جناب غامدی نے اس روایت پر یہ کیاہے کہ ،، سوم یہ کہ اختلاف اگر الگ الگ قبیلوں کے افراد میں بھی ہوتا تو ،، انزل ،، کالفظ اس روایت میں ناقابلِ توجیہ ہی تھا  اس لیے کہ قران نے اپنے متعلق پوری صراحت کے ساتھ بیان فرمائی ہے کہ وہ قریش کی زبان میں نازل ہواہے۔اس کے بعد  یہ بات توبے شک  مانی جاسکتی ہے کہ مختلف قبیلوں کو اسے اپنی اپنی زبان میں اور لہجے میں پڑھنے کی اجازت دی گئ لیکن یہ بات کس طرح مانی جائے گی کہ اللہ تعالی ہی نے اسے مختلف قبیلوں کی زبان میں اتارا تھا ( میزان ص 31) ہم اس اعتراض کے حوالے سے تین باتین احبابِ کرام کی خدمت میں عرض کرنا چاھتے ہیں ، (1) پہلی بات تو یہ ہے کہ جناب غامدی کا یہ دعوی ک ،، قران نے  اپنے متعلق یہ بات پوری صراحت کے بیان فرمائی ہے کہ وہ قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے ،، محض دعوی ہ،ے ان کے دیگر دعاوی کی طرح  ، قران مجید میں ایسی کوئی بات صراحت کے ساتھ قطعا موجود نہیں ہے ۔ ومن ادعی خلافہ فعلیہ البیان بالبرھان ، اگر ایسی بات قران مجید میں بالصراحت مذکور ہوتی تو پھر امت کے اساطین اس صریح بیان سے ہرگز اختلاف کی جراءت نہیں کرسکتے تھے ۔ مگر اب انھوں نے صراحت کے ساتھ یہ بات لکھی ہے ۔ہم تفصیل کی ضرورت تو محسوس نہیں کرتے ہیں کیونکہ چند ہی عبارات سے بھی جناب کا یہ بلادلیل دعوی ٹوٹ جاتا ہے ۔امام بخاری نے الجامع الصحیح میں ایک عنوان قائم کیا ہے ،، باب نزل القران بلغة قریش والعرب ،، اس کی وضاحت میں حافظ الدنیا ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ ،، واما نزولہ بلغة قریش فمذکور فی الباب من قول عثمان وقد اخرج ابوداود من طریق کعب الانصاری ان عمر کتب الی ابن مسعود ،، ان القران نزل بلسان قریش فاقرئ الناس بلغة قریش لا بلغة ھذیل ،، واما عطف العرب علیہ فمن عطف العام علی الخاص لان قریشا من العرب واما ما ذکرہ من الایتین فھوحجة لذلک ، وقد اخرج ابن ابی داود فی ،، المصاحف ،، من طریق اخری عن عمر قال اذااختلفتم فی اللغة فاکتبوھا بلسان مضر ،، ومضرھو ابن نزار بن معد بن عدنان والیہ تنتھی انساب قریش وقیس وھذیل وغیرھم ،،  اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ جناب کا دعوی محض بلا دلیل ہے البتہ بعض صحابہ کا قول ضرور ہے مگر انہی صحابہ کا دوسرا قول مضر کے متعلق بھی وارد ہے ۔آگے پھر قاضی ابوبکرباقلانی کا قول نقل کیا ہے کہ ،، قال القاضی ابوبکر معنی قول عثمان نزل القران بلسان قریش ای معظمہ وانہ لم تقم دلالة قاطعة علی ان جمیعہ بلسان قریش فان ظاھر قولہ تعالی ( انا جعلناہ قرانا عربیا ) انہ نزل بجمیع السنةالعرب ومن زعم انہ اراد مضر دون ربیعة او ھما دون الیمن او قریشا دون غیرھم فعلیہ البیان لان اسم العرب یتناول الجمیع تناولا واحدا ولو ساغت ھذہ الدعوی لساغ للآخر ان یقول نزل القران بلسان بنی ھاشم مثلا لانھم اقرب نسبا الی النبی علیہ الصلاة والسلام من سائر قریش ( فتح الباری ج 10 ص 11 )، اور خود قاضی ابوبکرباقلانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ،، وان الحجة القاطعة لم تقم علینا بان القران منزل بلغة قریش فقط دون جمیع العرب وان کام معظمہ منزلا بلغة قریش ( الانتصار ج1 ص 61)  اور مذہبِ احناف کے مشہور محقق جناب زاہدالکوثری بھی لکھتے ہیں کہ ،، والواقع ان القران الکریم کان ینزل معظمہ علی لغةِ قریش علی حرف واحد الی ان فتحت مکة وبدء الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا واخذت وفود القبائل العربیة المختلفة تتوافد ، فاذن اللہ سبحانہ علی لسان نبیہ ان یقرؤوہ علی لغاتھم ولھجاتھم تیسیرا لھم لصعوبة تحولھم من لغتھم الی لغة النبی علیہ الصلاة والسلام بمرة واحدة کمایدل علی ذالک حدیث ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عندالبخاری ومسلم والترمذی ( المقالات ص 31) اسی طرح کی بات ابن عطیہ اور دیگر مفسرین نے بھی لکھی ہے مگر اس وقت ان عبارات کے نقل کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے ۔ ان عبارات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ قران کا معظم اوربڑا حصہ اگرچہ لغتِ قریش میں ہی نازل ہوا ہےمگر یہ دعوی کرنا کہ قران میں یہ بصراحت مذکور ہے کہ قران لغتِ قریش میں نازل ہواہے حقیقت کے بالکل کےخلاف ہے ۔ ہاں اگر کسی صحابی کے کسی قول کاحوالہ جناب غامدی دیتے تب تو کوئی مضایقہ نہیں تھا جیسا کہ ان کے اقوال گذرگئے ہیں ۔ مگر قران کے متعلق خلافِ حققیت دعوی کرنا بہر صورت  ناقابلِ قبول ہے ( 2) دوسری بات یہ ہے کہ ہم جناب غامدی سے کہیں گے کہ جناب ،، انزلت ،، پر اعتراض آپ جیسے لوگوں کے لیے تو قطعا مناسب نہیں ہے  کیونکہ قران وحدیث میں جہاں بھی یہ لفظ ،، صفات الہی ،، میں وارد ہوا ہے  آپ لوگ ان کی تاویل کرتے رہے ہیں  بلکہ غیرِ صفاتِ الہی میں بھی اسی طرح کی تاویل کرتے ہیں ، وانزلنا الحدید ( الحدید 25) کی آپ لوگ کیا تعبیر کرتے ہیں؟ کیااسے حقیقی معنی پر محمول کرتے ہیں؟ کیا آپ اسے ٹھیٹھ لغوی معنی محمول کرتے ہیں ؟ یا کیا معنی کرتے ہیں ؟ ذرابتا نے کی تکلیف گواراکرلیجیے ؟ اسی طرح قران میں وارد ہے کہ ،، وانزل لکم من الانعام ثمانیةازواج ( الزمر 6) کیا اس آیت میں آپ لفظِ ،، انزال ،، کو لغوی معنی پر محمول کرتے ہیں ؟ اگر ادھر اس لفظ کو لغوی معنی پر محمول نہیں کرتے تو قراءت کے باب میں اسے مجازی معنی پرحمل کرنا کیوں آپ کےلیے مشکل ہو رہا ہے یا اس بات کاثابت ہونا آپ کےلیے سوہانِ روح ہے ؟ بلکہ خود لفظِ ،، نزل ،، کا مطلب لغت میں حلول فی المکان یااوپر سے نیچے کواترنے کا نام ہے۔ مگراتنی بات یاد رہے کہ  یہاں ،، حلول ،، سے محض دخول مراد ہے حلولِ طریانی اور سریانی وغیرہ مراد نہیں ہے۔ اب ہم پوچھتے ہیں کہ آپ قران سے مراد یا تو کلامِ لفظی مراد لیں گے کما ھو مذھب اھلِ السنةوالجماعة یا پھر اس سے مراد کلامِ نفسی مراد لیں گے ؟ کما ھو مذھب الکلابیة ۔دونوں حالتوں میں آپ سے سوال ہے کہ ،، انزال وتنزیل ،، کو آپ کس معنی میں لیتے ہیں ؟ جبکہ ،، کلام ،، دونوں معنوں کے لحاظ سے آپ کے اہلِ مکتب کے ہاں ،، نزول من الاعلی الی الاسفل ،، کو قبول نہیں کرتا ہے ؟ اسی طرح شب کے آخر میں ،، نزولِ باری تعالی ،، کو آپ لوگ کس معنی میں لیتے ہیں اگر اسے حقیقی معنی پرحمل نہیں کرتے ہیں ؟ تو پھر ادھر قراءت کے باب میں کیا چیز مجازی معنی میں لینے سے مانع ہے؟ لطف یہ ہے کہ آپ محدثین اور اہلِ حدیث کے خلاف یہ ڈھنڈورا بھی پیٹتے رہتے ہیں  کہ وہ ،، احادیثِ نبویہ ،، کو اکثر بالمعنی بھی روایت کرتے ہیں جبکہ وہ زبان کے ماہر بھی نہیں ہوتےتو بہت ممکن ہے کہ راویوں نے اس حدیث کے لفظ ،، انزلت ،، کو اجازت کے مفہوم میں بالمعنی روایت کیا ہو ؟ اگر ایسا ہو تو پھر آپ کےاس اعتراض میں کوئی وزن باقی نہیں رہتا ۔ اس تحقیق سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ قراءت کے مسئلہ پر جناب غامدی کے اعتراضات محض سطحی قسم کے اعتراضات ہیں جن کی علم کی دنیا میں کوئی قیمت وحیثیت نہیں ہے  ( 3) تیسری بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے نسبتوں کے متعلق معمولی سے بھی حاصل کیے ہوںوہ اس طرح کے مقامات میں کبھی نہیں اٹکتے ۔ بچوں کو بھی ان نسبتوں کا علم ہوتا ہے ۔ہم مثلا لاہور جاتے ہیں  توجب گاڑی لاہور پہنچتی ہےہم کہنے لگ جاتے ہیں کہ لاہور آگیاہے حالانکہ لاہور تو اپنی جگہ سے ہلا تک نہیں ہوتا۔مگر ہم نسبت آنے کی اس کی طرف کرتے ہیں ۔ اس پرمحاورات میں کوئی شخص اعتراض بھی نہیں کرتا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…