غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 25)

Published On February 20, 2024
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

تصورِ جہاد ( قسط چہارم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

تصورِ جہاد ( قسط سوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟  غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

تصورِ جہاد ( قسط دوم)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...

تصورِ جہاد ( قسط اول)

تصورِ جہاد ( قسط اول)

شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

سود ، غامدی صاحب اور قرآن

حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...

سود اور غامدی صاحب

سود اور غامدی صاحب

حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی نے اسی مبحث میں اگے ،، سبعةاحرف ،، والی روایت کو تختہِ مشق بنایا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ،، یہاں ہوسکتاہے کہ ،، سبعة احرف ،، کی روایت بھی بعض لوگوں کے لیے الجھن کا باعث بنے ، موطا میں یہ روایت اس طرح بیان ہوئی ہے ،، عن عبدالحمن بن عبدالقاری انہ قال سمعت عمربن الخطاب یقول سمعت ھشام بن حکیم بن حزام یقراء سورةالفرقان علی غیرما اقرءھا وکان رسول اللہ اقرءنیھا ، فکدت ان اعجل علیہ ثم امھلتہ حتی انصرف ثم لببتہ برداءہ ،فجئت بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقلت یارسول اللہ ، انی سمعت ھذا یقراء سورة الفرقان علی غیرما اقرءتنیھا ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارسلہ ثم قال اقرء یاھشام فقراء فقراءالقراءةالتی سمعتہ یقراء فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ھکذا انزلت ثم قال لی اقرء فقراتھا فقال ھکذا انزلت ، ان ھذاالقرآن انزل علی سبعةاحرف  فاقرؤا ماتیسر منہ ( ترجمہ ) عبدالرحمن بن عبدالقاری کی روایت ہے کہ عمربن الخطاب نے میرے سامنے فرمایا کہ ہشام بن حکیم بن حزام کو میں نے سورہِ فرقان اس سے مختلف طریقے سے پڑھتے ہوئے سنا  جس طرح میں اسے پڑھتاتھا  اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خود پڑھائی تھی ۔ چانچہ میں اسی وقت اسے پکڑنا چاہتاتھا ، پھر میں نے اسے مہلت دی ، یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوگیا ، تو اس کی چادر کو پکڑ کر کھنچے ہوئے میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا ، اور عرض کی یارسول اللہ میں اس سے مختلف طریقے پر اسے سورہِ فرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے جس طرح آپ نے یہ مجھے پڑھائی ہے ،آپ نے فرمایا اسے چھوڑ دو ، پھر ہشام سے کہا پڑھو : اس نے اسی طرح پڑھی جس طرح میں نے اسے پڑھتے ہوئے سنا تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح ( یہ آیت) اتری ہے۔، پھر مجھ سے کہا پڑھو:چنانچہ میں  نےبھی پڑھی تو فرمایا اسی طرح اتری ہے ، یہ قران سات حرفوں پراتراہے تم ان میں سے جسے آسان سمجھو اس کےمطابق پڑھ سکتے ہو ( میزان ص 30) اگے جناب غامدی نے اس روایت پرچار پانچ اعتراضات وارد کیے ہیں اور پھر بتایا ہے کہ یہ روایت ہرگز لوگوں کےلیے  لائقِ اعتناء حدیث نہیں ۔ بلکہ درحقیقت یہ قطعی بے معنی حدیث ہے ۔تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ۔ہم ان اعتراضات کو ایک ایک کرکے اس کا جائزہ لیتے ہیں  تاکہ احباب کومنکرینِ حدیث کے نقطہِ نظر اور ان کے علمی استدلالات کا پتہ  بھی چل سکیں ۔ وہ پہلا اعتراض اس حدیث پر یوں اٹھاتے ہیں  کہ ،، اول یہ ہے کہ یہ روایت اگرچہ حدیث کی امہات کتب میں بیان ہوئی ہے  لیکن اس کا مفہوم ایک ایسا معما ہے جسے کوئی شخص اس امت کی پوری تاریخ میں کبھی حل کرنے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔امام سیوطی نے اس کی تعیین میں متعدد اقوال اپنی کتاب ،،الاتقان ،، میں نقل کیے ہیں ، پھر ان میں ہرایک کی کمزوری کا احساس کرکے موطا کی شرح ،، تنویر الحوالک ،، میں بالاخر اعتراف کرلیا ہے کہ اسے من جملہِ متشابہات ماننا چاہئے جن کی حقیقت اللہ کے سواکوئی نہیں جانتا ، وہ لکھتے ہیں ،، وارجحھا عندی قول من قال ، ان ھذا من المتشابہ الذی لایدری تاویلہ ( ترجمہ ) میرے نزدیک سب سے بہتر رائے اس معاملے میں انہی لوگوں کی ہے جوکہتے ہیں کہ یہ روایت امورِ متشابہات میں سے ہے جن کی حقیقت کسی طرح نہیں سمجھی جاسکتی ( میزان ص 30) 

ہم جناب غامدی کی اس اعتراض کے حوالے سے چند گذارشات پیش کرنا چاہ رہے ہیں ۔ پہلی گذارش یہ ہے کہ سیوطی یا جعفر بن حمدان وغیرہ میں سے کسی عالم کا یہ کہنا کہ فلان آیت یافلان حدیث مشکلات یامتشابہات میں سے ہے ، اس کے معنی کو اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا ،  اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آیا ہے کہ پوری امت کی تاریخ میں اس مسئلہ کا حل کسی نے پیش نہیں کیا ہے ممکن ہے اس شخص کوکوئی ذاتی مسئلہ اور مشکل در پیش ہو ؟ محمود آلوسی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ( ،، فالفائدة الخامسة ،، فی بیان المراد بالاحرف السبعة التی نزل بھاالقران اقول روی احد وعشرون صحابیا حدیث نزول القرآن علی سبعةاحرف حتی نص ابوعبیدہ علی تواترہ وفی مسندابی یعلی ان عثمان رضی اللہ عنہ قال علی المنبر اذکراللہ رجلا سمع النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال ان القرآن انزل علی سبعةاحرف کلھا کاف شاف لما قام فقاموا حتی لم یحصوا فشھدوابذلک فقال وانا اشھدمعھم واختلف فی معناہ علی اقوال احدھا انہ من المشکل الذی لایدری معناہ لا شتراک الحرف وفیہ ان مجرد الاشتراک لایستدعی ذالک اللھم الا ان یکون بالنظر الی ھذاالقائل ( روح المعانی ج1ص 21) اس سے معلوم ہوا کہ یہ اس محقق کا اپنا ذاتی مسئلہ ہےپوری امت کا مسئلہ نہیں ہے کما زعم الغامدی ۔ اگر واقعی بات ایسی ہی ہوتی جیسا کہ جناب غامدی نے دعوی کیاہے  تو پھر کیا وہ سیوطی کا حوالہ دیتے ( جو بقول بعض محدثین کے محض حاطب اللیل ہے )یا پھر امت کے اساطین میں سے کسی کی عبارت پیش کرتے ۔ اس سے اندازہ بندے کو ہوجاتا ہے  کہ دال میں کچھ کالاکالاضرور  ہے ۔ہم متشابہات کے حوالے سے ایک عبارت جناب فخرِالدین رازی کی پیش کرتے ہیں ، پھر بات کرتے ہیں ۔وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ،، واعلم ان ھذا موضع عظیم فنقول ، ان کل واحد من اصحاب المذاھب یدعی ان الایات الموافقة لمذھبہ محکمة وان الایات الموافقة لقول خصمہ متشابھة فالمعتزلی یقول قولہ ( فمن شاء فلیؤمن ومن شاء فلیکفر ،، الکھف 29 ) محکم وقولہ ( وماتشاؤن الا ان یشاء اللہ رب العالمین ،،التکویر 29) متشابہ والسنی یقلب الامر فی ذالک فلابدھھنا من قانون یرجع الیہ فی ھذالباب فنقول اللفظ اذاکان محتملا لمعنیین وکان بالنسبة الی احدھما راجعا وبالنسبة الی الاخر مرجوحا فان حملناہ علی الراجح ولم نحملہ علی المرجوح فھذا ھو المحکم واما ان حملناہ علی المرجوح ولم نحملہ علی الراجح فھذاھوالمتشابہ فنقول صرف اللفظ عن الراجح الی المرجوح لابدفیہ من دلیل منفصل ، وذلک الدلیل المنفصل اما ان یکون لفظیا واماان یکون عقلیا ( الکبیر ج3 ص 139) اب کوئی بندہ جنابِ رازی کے اس قانون کو لیکر قران کی بیشتر ایات کے متعلق ،، متشابہات ،، کا دعوی کرلے اور ساتھ کہے کہ یہ ایک ایسا معماہے جسے امت کی تاریخ میں کسی نے حل نہیں کیا ہے توکیا جناب غامدی اس قبول کرلیں گے ؟اگر کوئی شخص ان کی اس بات کو قبول کرتاہے تو اس محقق کو اس کے عقل کی داد بہرحال دینی چاہیے ۔ ایسی بات جناب غامدی نے یہاں ،، سبعةاحرف ،، کے مبحث میں لکھی ہے  اور آیتِ قرانی یاحدیثِ نبوی کی تفسیر میں کثیر اقوال کا درآنا کوئی اس آیت کے معما اور بے معنی ہونے کی دلیل نہیں ہے۔ بلکہ مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے مکتبِ فراہی کے بانی جناب عبدالحمید فراہی کی کسی تحریر( غالبا مجموعہِ تفاسیر فراہی) میں پڑھا تھا کہ کسی آیت کے مختلف معانی وتوجیہات کو مختلف تفاسیر سے جمع اورنقل کرکے اس آیت کو کثیر المعنی قرار دینا درحقیقت قلتِ تدبّر کا نتیجہ ہے ۔ بالکل اسی طرح کسی حدیث کو ،، متشابہ لایدری تاویلہ ،، قراردینا بھی قلتِ تدبر کا ہی نتیجہ ہے ۔کجا کہ کوئی آدمی اسی بات کو اصل قرار دے کر حدیث کو رد کرنے کی کوشش کریں ۔تو ہم اس کو بناء الفاسد علی الفاسد قراردیں گے۔ پھر ہم نے اس سے پہلے سلفِ طیب ( امام شافعی اور یحی بن سعیدالقطان) کے دواقوال گذشتہ مباحث میں پیش کیے تھے کہ ،، ان کے نزدیک ،، سبعةاحرف ،، والی روایت سے مراد امت مسلمہ کو تیسیر اور آسانی کو فراہم کرنا ہے ، یہی بات دیگراہلِ علم نے بھی فرمائی ہے کہ اللہ تعالی نے قران کریم کی تلاوت میں آسانی پیداکرنے کی کےلیے امتِ محمدیہ کو ایک سہولت یہ عطا فرمائی ہے کہ اس کے الفاظ کومختلف طریقوں سے پڑھنے کی اجازت دی ہے کیونکہ بعض اوقات کسی شخص سے کوئی ایک طریقے سے نہیں پڑھا جاتا تواسے دوسرے طریقے سے اسے پڑھ سکتاہے ۔ اب کسی دوسرے شخص کے لیے ذہنی تکلیف کی بنا پر اسے مشکل بن جائے تو خرابی اس سہولت دینے والے میں نہیں ہوتی  بلکہ اس آدمی کی ذات اور اس کے ذہن میں مسئلہ درپیش ہوتا ہے ۔ وہ اس سہولت کو ختم کرنے کے بجائے پورا زور اپنے آپ کو درست بنانے پرخرچ کریں ۔بعینہ یہی مسئلہ ہمیں جناب کے ساتھ یہاں پر درپیش ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…