شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا اور سادہ معروف مطلب چھوڑ کر غامدی صاحب نے ایک اچھوتا مطلب لیا ہے جو یہ ہے کہ جیسے رسول اپنی قوم پر شاہد ہوتا ہے اور رسول اللہ ﷺ صحابہ پر شاہد تھے ، ایسے ہی صحابہ کو اور صرف صحابہ کو دیگر محدود...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 24)
تصورِ جہاد ( قسط سوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی نظریے کے غلط ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ امت کے اجتماعی ضمیر کے فیصلے سے متصادم ہے، لیکن اگر کچھ نادان امت کے اجتماعی ضمیر کو اتھارٹی ہی تسلیم نہ کرتے ہوں اور اپنے دلائل پر نازاں ہوں تو...
تصورِ جہاد ( قسط دوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری اسلامی تاریخ میں اہل سنت کا کوئی قابل ذکر فقیہ مجتہد، محدث اور مفسر اس اچھوتے اور قطعی تصور جہاد کا قائل نہیں گذرا، البتہ ماضی قریب میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مرزا غلام احمدقادیانی نے اس قبیل کی...
تصورِ جہاد ( قسط اول)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد کچھ عرصہ قبل راقم نے غامدی صاحب کے شاگر در شید اور مولانا زاہد الراشدی صاحب کے فرزند من پسند جناب عمار خان ناصر صاحب کے نظریہ جہاد کے نقد و تجزیے کے لیے ایک مضمون سپر د قلم کیا تھا، جو ماہنامہ صفدر میں قسط وار چھپنے کے علاوہ "عمار خان کا نیا...
سود ، غامدی صاحب اور قرآن
حسان بن علی پہلے یہ جاننا چاہیے کہ قرآن نے اصل موضوع سود لینے والے کو کیوں بنایا. اسے درجہ ذیل نکات سے سمجھا جا سکتا ہے ١) چونکا سود کے عمل میں بنیادی کردار سود لینے والے کا ہے لہذا قرآن نے اصل موضوع اسے بنایا. ٢) سود لینے والے کے لیے مجبوری کی صورت نہ ہونے کے برابر...
سود اور غامدی صاحب
حسان بن علی غامدی صاحب کے ہاں سود دینا (سود ادا کرنا) حرام نہیں ہے (جس کی کچھ تفصیل ان کی کتاب مقامات میں بھى موجود ہے) اور جس حدیث میں سود دینے والے کی مذمت وارد ہوئی ہے، غامدی صاحب نے اس میں سود دینے والے سے مراد وہ شخص لیا ہے جو کہ سود لینے والے کے لیے گاہک تلاش...
مولانا واصل واسطی
جناب غامدی اپنے مدرسہِ فکر کی تعریف میں یوں مدح وثنا کی حدکرتے ہیں کہ ،، قران مجید پراگر اس کی نظم کی روشنی میں تدبّر کیا جائے تو اس کے داخلی شواہد بھی پوری قطعیت کے ساتھ یہی فیصلہ سناتے ہیں ۔مدرسہِ فراہی کے اکابر اہلِ علم نے جو کام اس زمانے میں قران پر کیا ہے اس سے یہ بات بالکل مبرہن ہوجاتی ہے کہ قران کامتن اس کے علاوہ کسی دوسری قراءت کو قبول ہی نہیں کرتا ( میزان ص 29) یہ پورا مقدمہ ان لوگوں کا اس بات پر مبنی ہے کہ یہ قراءتیں لوگوں کی اپنی ایجاد کردہ ہیں ، اللہ تعالی کی طرف سے وارد اور مجاز نہیں ہیں جیسا کہ جناب غامدی کا اپنا فرمان ہے ،، کہ یہ ان فتنوں کا اثر ہے جس سے افسوس کہ مسلمانوں کا کوئی شعبہِ علم محفوظ نہیں رہ سکا ہے ،، اورجب کوئی بندہ ان قراءتوں کو ،، سازشی فتنوں ،، کا اثر قرار دے گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ اس کے متعلق کم ازکم نرم الفاظ میں بھی یہی کہے گا کہ ،، قران کا متن ان دیگر قراءتوں کے الفاظ کو قبول ہی نہیں کرتا ،، اور یہ تو بدیہی بات ہے کہ ریشم اوکیمخواب کے کپڑوں میں ٹاٹ کے پیوند تو عام دنیا میں بھی نہیں لگا ئے جاتے۔ مگر اس مقدمہ کے موقوف علیہ قول کو جناب غامدی اور ،، مدرسہِ فراہی کے اکابر اہلِ علم ،، نے اب تک ثابت کرکے نہیں دکھایا اور نہیں بتایا ہے ۔زیادہ سے زیادہ نرے دعاوی کرتے ہیں ۔ وگرنہ اگر وہ اس بحث کے موقوف علیہ مقدمہ کو ثابت کرلیتے تو ان کو اتنے پاپڑ بیلنے کی قطعی ضرورت نہ پڑتی۔ اس بات کی دوسری دلیل یہ ہے کہ امت کے اکابر علماء ومفسرین نے جگہ جگہ انہی متواتر قراءتوں کے مطابق قران کی تفسیر کرکے دکھائی ہے ۔ آج تک کسی معتبر محقق مفسر نے ان کے متعلق یہ دعوی عوامِ امت میں دائر نہیں کیا کہ انھوں نے قران مجید جو اللہ تعالی کی واحد معتبراور مستند کتاب ہے کو مجروح اورمقدوح کیا ہے ۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ،، مدرسہِ فراہی کے اکابر اہلِ علم ،، کا یہ دعوی محض بے بنیاد ہے جس کی علمی دنیا میں کوئی قدر وقیمت موجود نہیں ہے ۔تیسری دلیل اس بات کی یہ ہے کہ جن علماء ادب اور بلاغت نے لوگوں کو قران کے اعجاز کے قائل کرنے کے لیے زندگیاں ان میں صرف کی ہیں انھوں نے ان قراءات کو متواتر اورخدا کی طرف سے مقرر کردہ مان لیا ہے ۔اگر ان قراءتوں سے قران کی فصاحت اور بلاغت یامعنویت وحکمت پر کوئی حرف آتا تو وہ اس کو کبھی بھی قبول نہ کرتے ۔پس جب انھوں نے فصاحت وبلاغت کے اعلی مقام پرفائز ہونے کے باوجود ان قراءتوں کی درستگی اور تواتر کا اقرار کیاہے تو یہ اس بات کا فی نفسہ مضبوط ثبوت ہے کہ ان قراءت کے مطابق قران کی تفسیر کرنا ، کسی طرح بھی اس کو مجروح اور مقدوح نہیں کرتا ۔ باقی رہی اس آدمی کی بات جو فراہی سے فراغتِ علمی کے بعد بھی محدث مباکپوری کے سامنے قراءت کرتے ہوئے ،، عرف ،، کے صیغے کوبکسر الکاف پڑھتا ہے محدثِ مذکوراسے شرم دلانے کے بجائے راجع اللغة کا جملہ فرماکر سمجھاتے ہیں تو اس کی وہ حیثیت نہیں ہے کہ فصاحت وبلاغت کے صف میں انہں اکابرِامت کے ساتھ لا کرکھڑا کیاجائے ۔کجا کہ کوئی شخص ان کی جرح علی القرءات المتواترہ کو قبول کرلے؟ ابوالقاسم زمخشری جیسے علم الاعلام اورعربی علوم ماضغ الشیح والقیصوم جس کو ان قراءات کے بارے میں شبہات پڑے ہیں ، ان کو بھی اس باب میں کوئی پوچھنے والا تک نہیں ، تابہ دیگران چہ رسد ؟ ابوحیان اندلسی ،، اتکمیل والتذئیل ،، اور ،،ارتشاف ،، جیسی کتابوں کے مصنف اور اس جیسے نحوی اسی ابوالقاسم زمخشری کے متعلق جگہ جگہ لکھتے ہیں کہ ،، والعجب کل العجب لعجمی ضعیف فی النحو یرد علی القرءات المتواترة ،، چوتھی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ فقہاءِکرام مختلف قراءات کو مختلف آیات کی طرح مستقل بالحکم قرار دیتے ہیں ۔ان سے مختلف احکام کا استنباط کرنے کے لیے استدلال کرتے ہیں ۔کیا اگر وہ ان قراءتوں کو عجمی فتنہ کے اثرات قرار دے لیتے ، انہیں متواتر قراءات نہ مانتے تو وہ اس سے پھر ایسے استدلالات کو جائز قرار دے سکتے تھے ؟جبکہ امام شافعی کے اقوال سے تو محققین عربیت کی اثبات کے لیے بھی استدلال کرتے ہیں جیساکہ محدث احمد شاکر مرحوم وغیرہ نے لکھا ہے ۔ مدرسہِ فراہی کو چھوڑ کر ذرا امام شافعی کے قول کو سن لیں اختلافِ قراءات کے متعلق فرماتے ہیں کہ ،، قال فاذا کان اللہ لرافتہ بخلقہ انزل کتابہ علی سبعة احرف معرفة منہ بان الحفظ قد یزل لیحل لھم قراتہ وان اختلف اللفظ فیہ مالم یکن فی اختلافھم احالة معنی کل ما سوی کتاب اللہ اولی ان یجوز فیہ اختلاف اللفظ مالم یحل معناہ ( الرسالہ ص 272) ایسے مواقع پرمجددِ الف ثانی کا وہ مشہورِزمانہ جملہ دہرایا جاتا ہے کہ ،، فتوحاتِ مدنیہ مارااز فتوحاتِ مکیہ مستغنی ساختہ است ،، تقریبا یہی بات جناب خطیبِ مشرق ابوبکر خطیب رحمہ اللہ نے یحی بن سعید القطان سے نقل کی ہے کہ آخاف ان یضیق علی الناس تتبع الالفاظ لان القران اعظم حرمة ووسع ان یقرا علی وجوہ اذاکان المعنی واحدا ( الکفایہ ص 316) امام شافعی اور یحی بن سعید القطان کے ان دو عبارات سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے ، کہ ،، احرفِ سبعہ ،، یہ لوگ کیا مراد لیتے تھے ؟ مگر یہ بحث ہم اگے جاکر کرلیں گے ، ان شاء اللہ تعالی ، اب ذراجناب غامدی کے ،، استاد امام ،، کے قول کو ملاحظہ فرمالیں تاکہ آپ کے علم میں اضافہ ہوسکے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ،، استاد امام ،، امین احسن اصلاحی کی تفسیر ،، تدبّر قران ،، کوکوئی شخص اگرچاہے تو اس کی مثالیں جگہ جگہ دیکھ سکتا ہے ۔ وہ خود لکھتے ہیں :قراءتوں کا اختلاف بھی اس تفسیر میں دورکردیاگیاہے ، معروف اورمتواتر قراء ت وہی ہے جس پر یہ مصحف ضبط ہواہے ، جو ہمارے ہاتھوں میں ہے ، اس قرائت میں قران کی ہرآیت اورہرلفظ کی تاویل لغتِ عرب ،نظمِ کلام ، اورشواہدِقران کی روشنی میں اسی طرح ہوجاتی ہے کہ اس میں کسی شک کا احتمال باقی نہیں رہ جاتا ۔چانچہ میں نے ہرآیت کی تاویل اسی قرائت کی بنیاد پرکی ہے اور میں پورے اعتماد سے یہ کہتا ہوں کہ اس کے سوا کسی دوسری قرائت پر قران کی تفسیر کرنا اس کی بلاغت ، معنویت ، اور حکمت کو مجروح کیے بغیر ممکن نہیں ہے ( میزان ص 29) ہم جناب غامدی کے ،،استاد امام ،، کو تو چیلنج نہیں کرسکتے ہیں ۔ ہماری ،، استاد امام ،، کے بالمقابل حیثیت ہی کیا ہے ، ان کے سامنے تو بڑے بڑے ،، امام الزمان اور اساطین ،، کہلانے والے بقولِ جناب غامدی کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے ۔ اسی لیے توجناب ان کے متعلق حالی کایہ شعراکثر لکھتے رھہے ہیں کہ
غالبِ نکتہ دان سے کیا نسبت
خاک کو آسمان سے کیانسبت
مگر ہم صرف اتنی بات اپنی حیثیت کے مطابق پوچھتے ہیں کہ محقق مفسرین سورتِ فاتحہ کی آیت (مالک یومِ الدین ) بصیغہِ اسمِ فاعل اوربصیغہِ فعل بکسرالعین بھی پڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دونوں قرائتیں متواتر ہیں ۔اسماعیل بن کثیر لکھتے ہیں کہ ،، وقرء بعض القرّاء ( مالک یوم الدین ) وقرء آخرون ( ملِک یوم الدین ) وکلاھما صحیح متواتر فی السبع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وقد رجح کلا من القراءتین مرجحون من حیث المعنی وکلتاھما صحیحة حسنة ورجح الزمخشری ( ملِک ) لانھا قراءة اھلِ الحرمین ( تفسیر القران ج1ص 113) اسی کے قریب قریب بات جناب محمود آلوسی نے بھی لکھی ہے کہ ،، والمتواتر منھا قراءةمالک وملِک فھما نیرا سواریھاوقطبا فلک دراریھا وختلف فی الابلغ منھما قال الزمخشری وملِک وھو الاختیار لانہ قراءة اھلِ الحرمین ( روح المعانی ج1 ص 85) اب ہم اتنی سی بات پوچھنے کی جسارت کرتے ہیں کہ اس آیت میں ( ملِک بروزنِ فعل ) کی قراءت کے مطابق قران کی تفسیر کرنے سے اس کی بلاغت ، معنویت ، اورحکمت آخر کس طرح مجروح ہوجاتی ہے ؟ اورجن لوگوں نے یہ کام کیا ہے کیا انھوں نے قران کی ان تینوں خاصیات کو مجروح ہونے دیا ہے ؟ اس آیت میں زمخشری کی اختیارکردہ قراءت سے ہماری وہ بات پھر دوبارہ ثابت ہوگئی ہے کہ اگر مروج قراءت ہی ،، قراءتِ عامہ ،، ہے کمازعم الغامدی ، توزمخشری نے بارہ مقامات میں ،، قراءتِ عامہ ،، کو چھوڑ کر دیگر قراءآت کے مطابق قران مجید کی تفسیرآخر کیسے کردی ہے ؟کیاوہ ،، قراءةِ عامہ ،، اور اس کی قیمت سے ناواقف تھے ؟ اگر اس حوالے سے کوئی اور بات نہ بھی ہوتی تو یہی ایک بات جناب غامدئ کی تردید کے لیے کافی وشافی تھی ۔اسی طرح آیت ،، ومایخدعون ،، اور ،، ومایخادعون ،، بھی دونوں متواتر قراءتیں ہیں کماصرح بہ المفسرون ۔جیسا کہ ہم نے پہلے زمخشری سے نقل کیا تھا کہ انہوں نےمفاعلہ کے صیغے کے مطابق اس کی تفسیرکی ہے ۔ پھر دوسری قراءت کا بھی ذکرکیا ہے ۔اور محمود آلوسی کہتے ہیں کہ ،، ماعد القراءتین الاولیین شاذة( روح المعانی ج1ص 149) یعنی یہ دوقراءتیں متواترہیں باقی شاذ ہیں ۔اب جناب غامدی اوران کے ،، استادامام ،، ہم فقیروں کو ذرا تحقیق کرکے بتائیں کہ یہاں قران کی بلاغت ، معنویت اور حکمت کس طرح مجروح ومقدوح ہو گئی ہے ؟
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
تصورِ جہاد ( قسط چہارم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ شهادت علی الناس:۔ شہادت علی الناس کا سیدھا...
تصورِ جہاد ( قسط سوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد؟ غامدی صاحب کے دلائل کا جائزہ:۔ ویسے تو کسی...
تصورِ جہاد ( قسط دوم)
شعیب احمد غامدی تصورِ جہاد غامدی تصور جہاد کی سنگینی اور انوکھا پن:۔ پوری...