غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 22)

Published On February 14, 2024
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

مولانا واصل واسطی

جناب غامدی اسی سلسلے میں اگے لکھتے ہیں کہ ،، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو آپ کی قراءت یہی تھی ۔ آپ کے بعد خلفاء راشدین تمام صحابہ ، مہاجرین وانصار اسی کے مطابق قران کی تلاوت کرتے تھے ، اس معاملے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہ تھا ، بعد میں یہی قراءت ،، قراءتِ عامہ ،، کہلائی ، ابوعبدالرحمن السلمی کی روایت ہے کہ ،، کانت قراءة ابی بکر وعمر وعثمان وزید بن ثابت والمھاجرین والانصار واحدة کانوا یقرؤن القراءةالعامة وھی القراءة التی قراھا رسول اللہ صلی علیہ وسلم علی جبریل مرتین فی العام الذی قبض فیہ وکان زید قد شھد العرضة الاخیرة وکان یقرئ الناس بھا حتی مات

  ترجمہ :ابوبکر ، عمر ، عثمان ، وزید بن ثابت اور ( تمام )  صحابہ ومہاجرین وانصار کی قراءت ایک ہیں تھی ، وہ قراءتِ عامہ کے مطابق قران پڑھتے تھے ، یہ وہی قراءت ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے اپنی وفات کے سال جبریلِ امین کو دومرتبہ قران سنایا ، عرضہ اخیرہ کی اس قراءت میں زید بن ثابت بھی موجود تھے ، دنیا سے رخصت ہونے تک وہ لوگوں کو اسی کے مطابق قران پڑھاتے تھے ( میزان ص 29)  ہم نے اس روایت کے متعلق پہلے بھی کچھ باتیں احبابِ کرام کی گوش گزار کی ہیں ۔ چند باتیں اور سن لیں  کہ ابوعبدالرحمن السلمی کی اس منقول روایت میں تیں دعاوی کا ذکر ہے (1) پہلا دعوی انہوں نے یہ کیا ہے کہ صحابہِ کرام یعنی بقولِ جناب غامدی تمام صحابہِ کرام چاہے وہ مہاجر ہوںیاانصار ہوں قراءتِ عامہ کرتے تھے ،، ہم عرض کرتے ہیں  کہ سب مشکلات سے صرفِ نظر کرکے بھی اگر ابوعبدالرحمن السلمی کی اس روایت کو ہم من وعن تسلیم کرلیں  تب بھی جناب غامدی کا مدعی اس سے ثابت نہیں ہوتا ۔ان کا مدعی تو یہ تھا کہ قران کی تکمیل کے بعد آپ کو دوسری قراءت دی جائے گی ، پھر اس کے بعد آپ کو پہلی قراءت کے مطابق قران مجید کو پڑھنا ناجائز ہو جائے گا جیسا کہ ان کی گذشتہ عبارات میں یہ باتیں بصراحت گذرگئیں ہیں ۔ مگر ابوعبدالرحمن السلمی کی اس روایت میں ایسی کوئی بات الحمدللہ ہرگز موجود نہیں ہے ۔کسی ایک قراءت کو پڑھنے سے آخر یہ بات کس طرح ثابت ہوگئی کہ باقی قراءتیں ممنوع اور حرام ہیں ؟ معلوم ہوتا ہے کہ جناب غامدی ابوعبدالرحمن السلمی کے منہ میں اپنی مزعوم بات ڈالنا چاھہے ہیں لہذا جنابِ غامدی کو پہلے چاہئے کہ اپنے ذکر کردہ دعوی کو مبرہن ومزین کرلیں ۔اس کے بغیر آپ کے لیے اس گھاٹی کو پارکرنا بہت ہی دشوار ہو جائے گا ۔اسی دعوے کے حوالے سے دوسری بات یہ ہے کہ عرضہِ اخیرہ کی اس بات کا تذکرہ دیگر محدثینِ کرام  نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں سندِ متصل کے ساتھ صحابہِ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے نقل کیا ہے مگر ان روایات میں یہ بات قطعا مذکور نہیں ہے کہ تمام صحابہِ کرام عرضہِ اخیرہ کے بعد وہی قراءت کرتے تھے  جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اخری عرضہ میں جبریل کے سامنے کی تھی ۔ اب ایک ابو عبدالرحمن السلمی کی روایت کی بنیاد پر یہ بات آخر کس طرح تسلیم کی جاسکتی ہے ۔ جبکہ وہ صحابی بھی نہیں ہے بلکہ تابعی ہے  ۔ اور اس روایت کی سند بھی مذکور نہیں ہے۔ بدرالدین زرکشی ،، البرھان فی علوم القران ،، میں کب سند کا اہتمام کرتے تھے ، عام طور پر اہلِ علم مرفوع اورمتصل اسناد سے اپنے  مطلوب مدعی کو ثابت کرتے ہیں ۔ پھر وہ دیگر روایات جن میں کچھ نہ کچھ خلل ہوتا ہے ، ان کو ان متصل اور مرفوع روایات کے مضمون پر محمول کرکے کام لیتے ہیں اور یحمل المطلق علی المقید کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔مگرہمارے یہ مہربان ،، مجددِعلوم وفنون ،، دوست پہلے بے سروپا روایات کا تذکرہ کرتے ہیں پھر بخاری ودیگر کتابوں کی صحیح اورمطلق روایات کو ان کے مضمون پر محمول کرکے اپنا کام نکالتے ہیں۔ ممکن ہے علوم کی تحقیق کاجدید طریقہِ کار یہی ہو اورہمیں اس کا علم نہ ہو ( 2) دوسرا دعوی جناب غامدی نے اس عبارت میں یہ کیا ہے کہ ،،  جس قراءت کو نبی علیہ السلام نے عرضہِ اخیرہ میں اختیار کیا تھا اس کو بعد  سب صحابہِ کرام نے بھی اختیار کرلیا تھا۔ وہ قراءت عرف میں قراءتِ عامہ کہلاتی ہے ، جو آج جناب غامدی کی نقطہِ نظر سے پوری دنیا میں رائج ہے ۔ہم اس دعوی کے تعلق سے صرف دو باتیں اپنے احبابِ کرام کے سامنے رکھتے ہیں :پہلی بات تو یہ ہے کہ کچھ محققین سرے سے اس بات کو ہی تسلیم نہیں کرتے کہ عرضہِ اخیرہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ہی قراءت کی تھی بلکہ وہ کہتے ہیں ، کہ اس عرضہِ اخیرہ میں انہوں نے متواتر قراءآت کو ہی جبریل علیہ السلام کے ساتھ مکررکیا تھا ۔ مذہبِ احناف کے مشہور محقق جناب زاہدالکوثری لکھتے ہیں کہ ،، والقراءةالواردة فی العرضة الاخیرة ھی ابعاض القران المتواترة فی کل الطبقات فیکفر جاحد حرف منھا الا ان من القراءة المتواترة ماھو معلوم تواترہ بالضرورة عند الجماھیر ومنھا مایعلم تواترہ حذاق القراءالمتفرغون لعلوم القراءة دون عامتھم فانکار شئ من القسم الاول کفر باتفاق واما الثانی فانمایعد کفرا بعد اقامة الحجة علی المنکروتعنتہ بعد ذالک ( المقالات ص 21)  ایک اور مقام پر اسی طرح کے الفاظ لکھتے ہیں کہ ،،  والقراءآت المرویة بطریق التواتر مدی القرون منذ آخر عرضة عرض فیھا علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی آخررمضان من عمرہ الکریم ھی ابعاض القران المرویة بواسطة الایمةالسبعة بل العشرة تواترا ،  فیکون انکار شئ من تلک القراءآت فی غایة الخطورة ، الا ان من القراءآت المتواترة مایعلم الجماھیر تواترہ بالضرورة ومنھا مایعلم تواترہ حذاق القراء المتفرغون لعلوم القراءة فقط دون عامتھم ( ایضا ص 30) ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ عرضہِ اخیرہ میں بھی ایک قراءت کا دعوی محققین کے نزدیک درست نہیں ہے بلکہ یہ محققین میں اختلافی مسئلہ ہے ۔اگراس میں ایک جانب کو ترجیح دینا درست ہو تو پھر وہ وہی ہے جس کی طرف ہم نے ابھی ابھی اشارہ کیا ہے ۔ دوسری بات جناب غامدی کی اسی دعوی کے حوالے سے یہ ہے کہ آپ کا کہنا تو یہ ہے کہ عرضہِ اخیرہ کے بعد دیگر قراءتیں منسوخ ہوگئیں  اس لیے صحابہِ کرام نے اسی قراءتِ عامہ کو اختیار کیا اور یہی قراءت بعد میں قراءتِ عامہ کہلائی ۔ اگر اس بات کو ہم درست مان بھی لیں تب بھی آپ اس سے حقائق کی روشنی میں تمسک نہیں کرسکتے ہیں ۔ کیونکہ بہت سارے محققین نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ سیدنا عثمان نے قراءآت متواترہ کو اپنے مصحف میں جمع کردیا تھا ، اوران قراءآت سے کسی حرف کو بھی ساقط نہیں کیاتھا ۔قاضی ابوبکر باقلّانی فرماتےہیں کہ ،، وان عثمان لم یقصد قصدابی بکر فی جمع نفس القران بین لوحین ، وانما قصد جمعھم علی القراءآت الثابتة المعروضة علی الرسول صلی اللہ علیہ وسلم ، والغاء مالم یجر مجری ذلک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وانہ لم یسقط شیئا من القراءآت الثابتة عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولامنع منھا وحظرھا( الانتصار ج1 ص 65)  اب ہم ایک سوال جنابِ غامدی سے پوچھتے ہیں کہ کیا سیدناعثمان صرف اسی اخری عرضہ والی قراءت کے قائل تھے جیسا کہ ابو عبدالرحمن السلمی کی روایت میں یہ بات آئی ہے اور باقی قراءتوں کو منسوخ سمجھتے تھے کما ھومذھبکم الفاسد ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر کوئی ہمیں بتائیں کہ انھوں نے صحابہِ کرام کی موجودگی میں اس سے انحراف آخر سیدنا عثمان کےلیے مصحف لکھتے ہوئے کس طرح کرلیا تھا جبکہ ،، تمام صحابہ ،، کامذہب بقولِ آپ کے یہی تھا ؟ کیا کوئی آدمی ان میں ایسا نہیں تھا جو اس مسئلہ میں سیدنا زیدبن ثابت کو سمجھا دیتے؟ حالانکہ انہوں نے مختلف مصاحف کے لکھنے میں پانچ سال لگادیئے تھے۔ یعنی 25 ہجری سے 30 تک کا عرصہ ۔اگر کوئی شخص یہ تصور کرتا ہے کہ یہ صرف باقلانی کادعوی ہے تو اسے دوسروں پرتنقید سے پہلے اپنی لاعلمی کا ماتم کرنا چاہئے کیونکہ جن مصاحف کے خطوط کے متعلق آج تک کوئی معلومات حاصل ہوئی ہیںان میں بھی بالکل یہی بات موجود ہے جواوپر درج کردی گئی ہے یعنی کہ وہ متواتر قراءت تھی ۔ اگے ہم کچھ اشارات اس مسئلہ کی طرف کریں گے جس سے اس بات کی مزید وضاحت ہوجائے گی ، ان شاءاللہ ۔خلاصہِ کلام یہ ہوا کہ نہ عرضہِ اخری میں دیگر قراءتیں منسوخ ہوگئی تھیں  اور نہ اخری قراءت ہی دی گئی تھی ، اور نہ یہ قراءتِ عامہ تھی ، یہ ساری باتیں ،، جناب غامدی ،، کی ،، چرتیات ،، کا نتیجہِ فاسدہ ہیں  (3) تیسرا دعوی جناب غامدی نے السلمی کی اس روایت کے ذریعے یہ کیا ہے کہ ،، سیدنا زید بن ثابت نے عرضہِ اخری کی قراءت سنی تھی اور پھر ساری عمر اسی پر قائم رہے اور وہی پڑھاتے رہے ۔اس  دعوی کے متعلق ہم دو باتیں عرض کرتے ہیں ۔ ایک بات تو یہ ہے کہ سیدنا زید بن ثابت ان لوگوں میں شامل تھے جنھوں سیدنا عثمان کےلیے مصحف کو لکھا تھا جیساکہ شیخ ابوعمروالدانی لکھتے ہیں کہ ، قال ابن شھاب فاخبرنی آنس بن مالک ان حذیفة بن الیمان قدم علی عثمان وکانوا یقاتلون علی مرج ارمینیہ فقال حذیفة لعثمان یاامیرالمؤمین  انی قدسمعت الناس اختلفوا فی القران اختلاف الیھود والنصاری حتی ان الرجل لیقوم فیقول ھذہ قراءة فلان بن فلان قال فارسل عثمان الی حفصة ان ارسلی الینا بالصحف فننسخھا فی المصاحف ثم نردھا الیک قال فارسلت الیہ بالصحف قال فارسل عثمان الی زیدبن ثابت والی عبداللہ بن عمروبن العاص والی عبداللہ الزبیر والی ابن عباس والی عبدالرحمن بن الحارث بن ھشام فقال انسخوا ھذہ الصحف فی مصحف واحد الخ ( المقنع ج1 ص 336)  یہاں اتنی بات اور یاد رکھنی چاہئے کہ جو لوگ حدیث کے منکر ہیں  وہ عرب میں کاتبین کی قلت کے مدعی ہوتے ہیں ۔مگریاد رکھنا چاہئے کہ مکہ میں صرف قران کے کاتبین تقریبا چالیس تھے ۔ اس اوپر والی روایت اوراس جیسی دیگر روایات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سیدنا زیدبن ثابت کاتبینِ مصاحف کے اس کمیٹی میں شامل تھے  جنھوں نے سیدنا عثمان کے لیے مصاحف کو لکھ لیا تھا ۔ اب اگروہ اس رائے پر قائم تھے جو ہمیں جناب غامدی سمجھاتے رہے  ہیں  توانھوں نے متواتر قراءة والے مصحف کو پھر کیسے لکھا تھا ؟ کیونکہ پھر وہ دیگر قراءتوں کو ناجائز سمجھتے ہونگے جیسا کہ ہمارے یہ مہربان سمجھتے ہیں ۔ اور اس کے باوجود انہوں نے وہ ناجائز کام بقولِ باقلانی کیا بھی ۔اور حتی کہ ان متواترقراءتوں سے ایک حرف ساقط نہیں کیا ؟ یہ تصور ان کے متعلق ایسے لوگ تو کرسکتے ہیں جنہوں نے دین کو بازیچہِ اطفال بنایا ہوا ہے  مگر دین کو دل سے چاہنے اور پسند کرنے والے لوگ صحابہِ کرام کے متعلق اس طرح کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔دوسری بات یہ ہے کہ ممکن ہے سیدنا زید بن ثابت کو ان جائز قراءتوں میں اس اخری قراءت کو بطورِانتخاب لیا ہو ، ان کاخیال ہو کہ قراءتیں تو سات یا دس ہیں اور سب جائز ہیں مگر مجھے اچھی یہی لگتی ہے ۔اگر مسئلہ کی حقیقت ایسی ہی ہو تو پھر اس انتخاب اور سیدنا عثمان والے کام میں تنازع اور تضاد کا کوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔گویا ایک قراءت اسے پسند تھی ۔ اور باقی کو بھی وہ  جائزسمجھتے تھے ۔ اورپھر سیدنا عثمان کے حکم پر اس جائز کو سرانجام دیاہے ۔ اس سے نہ تو سیدنازید بن ثابت کے عمل پرکوئی حرف آتا ہے الحمدللہ ، اور نہ تاریخی حقائق کی نفی ہوتی ہے  جو جناب غامدی اپنے مقلدین سے کروانا چاہتے ہیں

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…