محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 21)
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...
ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر
محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...
قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط
محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
مولانا واصل واسطی
دوسرا نکتہ جناب غامدی نے ان کے اپنے الفاظ میں یہ بیان کیاہے کہ ،، ثانیا آپ کو بتایا ہے کہ یہ دوسری قراءت قران کو جمع کرکے ایک کتاب کی صورت میں مرتب کردینے کے بعد کی جائے گی ، اور اس کے ساتھ ہی آپ اس بات کے پابند ہوجائیں گے کہ آئندہ اسی قراءت کی پیروی کریں ، اس کے بعد اس سے پہلے کی قراءت کے مطابق اس کو پڑھنا آپ کے لیے جائز نہ ہوگا ( میزان ص 28)
ہم اس حوالے سے چند باتیں اپنے احباب کی خدمت میں پیش کرتے ہیں (1) پہلی بات تو یہ ہے کہ اس بات کا تذکرہ بھی قران کی ان درج شدہ آیات میں سرے موجود ہی نہیں ہے جیسا کہ اوپر کے دعاوی کا کوئی ذکر ان آیات میں موجود نہ تھا ۔گویا مطلب الشعر فی بطن الشاعر والا مسئلہ درپیش ہے۔ان آیات میں قراءتوں کا مسئلہ فی الحقیقت موجود ہی نہیں ہے چاہے وہ پہلی قراءت کا مسئلہ ہو یا پھر دوسری قراءت کا ہو ۔یہ بات تو بہت دور کی کوڑی ہے کہ پہلی قراءت پھر منسوخ ہوگئی ۔اس کے مطابق آپ کے لیے قران کو پڑھنا جائز نہیں ہوگا ، اور دوسری قراءت کی پابندی تم پرلازم ہوگی ۔ پتہ نہیں ان باتوں کو جناب غامدی کہاں سے لےآئے ہیں (2) دوسری بات یہ ہے کہ یہ کوئی معقول بات ہی نہیں لگتی کہ اللہ تعالی اپنے بندے کوابتدائے نزولِ قران اور مکی میں آیات میں یہ فرمائے کہ میں تم پر قران تو ایک قسم کی قراءت کے مطابق اتارتا ہوں مگر جب قران کو مکمل نازل کرکے جمع کردونگا تو اس قراءت کو بیک جنبش قلم منسوخ کردونگا ۔ اس وقت دوسری قراءت دونگا جس کی پابندی تم پر لازم ہوگی اور پہلی قراءت کے مطابق پڑھنا پھر تمہارے لیے کسی طرح جائز نہیں ہوگا ۔ایسی نامعقول بات بھلاکون کرسکتاہے ؟ غامدی صاحب کی ایسی باتوں کی ایک پرانی مثال سنو !جناب غامدی نے ایک زمانے میں لکھا تھا کہ ،، سیدنا عیسی علیہ السلام وفات پاگئے ہیں اور ان کی لاش کو اللہ تعالی نے ان یہود کی بے عزتی سے بچانے کےلیے آسمان پر اٹھالیا ہے ،، بندہ پوچھ سکتاہے کہ کیا اللہ تعالی کو زمین پرکوئی جگہ ان کوچھپانے کےلیے نہیں ملی جو ادھرآسمان پران کو لےگئے ؟ ہم نے توسنا بھی ہے پڑھا بھی ہے کہ سیدنا دانیال علیہ السلام کی قبر کوسیدنا عمر نےعام سادہ لوح لوگوں سے چھپا لیا تھا یعنی مخفی رکھاتھا کہ لوگ شرک میں مبتلا نہ ہو جائیں ۔ تواللہ تعالی نے کیوں سیدنا عیسی کو آسمان پراٹھالیا ؟ اس میں تو سیدنا عیسی علیہ السلام کی عزت کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔دین کی حفاظت بھی اس سے نہیں ہوئی ، لوگوں کا دین ( بزعمِ جناب غامدی) بھی خراب ہوا کہ لوگوں نے انھیں یعنی سیدنا عیسی کو زندہ سمجھ لیا ہے ، اور ان کے دوبارہ نزول کے بھی قائل ہوگئے ہیں ۔کوئی سوچے اس لاشِ مبارک کے لے جانے کے فوائد زیادہ ہوگئے ہیں یا پھر نقصانات ؟ مگر ان کے لیے ایسی باتیں کرنا کوئی عیب نہیں بلکہ کمال ہیں ،، سوال اس اصل بات کے متعلق یہ ہے کہ اگر اس قراءت میں پورے قران کو نازل کرنا اور نبی علیہ الصلاة والسلام کو سکھانا جائز تھا تو پھر بیک جنشِ قلم اس کا منسوخ کرنا چہ معنی دارد ؟ اگر کوئی کہے کہ اختلاف سے بچنے کے لیے ایسا اقدام کیا گیا ہے ؟ تو سوال یہ ہے کہ اختلاف تو اس طرح بھی ختم ہوسکتا تھا کہ اسی ایک قراءت کو جائز رکھتے ، دوسری قراءتوں کی اجازت ہی نہ دیتے ۔ اوراگر اس قراءت میں کوئی خرابی تھی معاذاللہ تو پھر اس میں پہلے پورا قران نازل کرنے اور اسے نبی علیہ کو سکھانے کا کیا جواز تھا ؟ بالفرض اگر جناب غامدی اور انکے متبعین رافضیوں کی طرح ،، بداء ،، کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالی کو اس قراءت کی خرابی کا علم نہ تھا تو درمیان میں ہی اس کو بدل لیتے ، یہ آخر میں بدلنے کی کیا بات ہے ؟ اور اس کی کیا منطق ہے ؟ کہ پورے تئیس سال قران نازل ایک قراءت میں کریں اور اسی کو سکھائیں مگر جب وہ مکمل ہوجائے توپھر وہ ناجائز ہوجائے اور دوسری قراءت کے وہ پابندکردیئے جائیں
( 3) تیسری بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ نبی علیہ السلام والصلاة کو جناب غامدی کی اس تحقیق کی بنا پر مکہ کے ابتدائی دورمیں ابتدائی سورتوں کے نزول کے وقت یہ اطلاع دی گئی تھی کہ قران ایک قراءت میں نازل ہوگا ۔ اس کی تکمیل کے بعد اس کی دوسری قراءت مجھے سکھائی جائے گی ۔ پہلی یعنی نزول والی قراءت بعد میں منسوخ اور ناجائز ہو جائے گی جس کے مطابق پھر قران پڑھنا ناجائزو ناروا ہوگا ۔ اوردوسری یعنی نئی قراءت کی پابندی سب پر لازم ہوگی بلکہ وہ قراءتِ عامہ ہوگی ۔مگر نبی علیہ السلام نے پورے دورِنبوت میں یہ بات کسی کو نہ علانیہ بتائی اور نہ خفیہ بتائی ، نہ ہی کسی مستند روایت میں اس کا ذکر موجود ہے ۔جناب غامدی کے اپنے بقول ،، ہرشخص اندازہ کرسکتا ہے کہ یہ کیسی سنگین بات ہے اوراس کی زد کہاں کہاں پڑسکتی ہے ،، ؟ یعنی نبی علیہ السلام اور صحابہ نے باتفاق اس بات کو اس طرح نظرانداز کردیا ہے کہ کسی صحابی اور محدث نے بھی اس کا نام تک نہیں لیا ۔ امام بخاری نے اخری عرضہ اور مدارسہ کا ذکر تو بعض روایات میں بے شک کیا ہے مگر ان دو قراءتوں کی طرف اشارہ تک نہیں کیا حتی کہ غامدی صاحب کو دوتابعین ابوعبدالرحمن السلمی اورابن سیرین کی بے سند روایتوں کا سہارالینا پڑگیا ہے۔اس ،، اخفاء ،، سے زیادہ دین دشمنی کی بات کوئی دوسری ہوسکتی ہے ؟ قطعا نہیں ہوسکتی ہے ،، اس کے بعد جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، ثالثا یہ بتایا گیاہے کہ قران کے کسی حکم سے متعلق اگر شرح ووضاحت کی ضرورت ہوگی تو وہ اس موقع پرکردی جائے گی ۔اور اس طرح یہ کتاب خود اس کے نازل کرنے والے کی طرف سے جمع وترتیب اور تفھیم وتبیین کے بعد ہرلحاظ سے مکمل ہوجائے گی ( میزان ص 28) یہ ،، اگر ،، کا لفظ ادھر کیوں آگیا ہے ،، اگر ضرورت پڑی تو وضاحت وتبیین اس موقع پرکردی جائے گی ،، اس وضاحت وتبیین سے جناب غامدی کی کیا مراد ہے ؟ کیا وہ جملے مراد ہیں جن سے بعض اوقات قران کی کچھ آیات کی توضیح وتشریح ہوتی ہے جیسے ،، یبین اللہ لکم وغیرہ ، یا پھر پورے دین کی توضیح وتشریح مراد ہے ؟ اگر پہلی قسم مراد ہے تب ،، اگر ،، کا لفظ رکھنا تو اگرچہ درست ہے مگر باقی دین ( جو جناب غامدی کے نزدیک صرف سنتِ مواترہ ہے ) کا کیاکریں گے ؟ کیا وہ ،، ثم ان علینا بیانہ ،، میں شامل نہیں ہے ؟ اگر شامل ہیں پھر ،، اگر ،، کالفظ لگانے کی کیا ضرورت تھی ؟ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دین کے سمجھنے اور سمجھانے کی ہروقت ضرورت پڑتی تھی مثلا نماز اور اس کی کمیت اورکیفیت دونوں اجتہاد سے تو معلوم نہیں ہوسکتے ، نہ ان کے اوقات اجتہاد سے معلوم ہوسکتے ہیں ۔ اس کے لیے وحی کی بہرحال ضرورت تھی ۔اسی طرح زکوة ، روزہ ، حج وغیرہ کے احکام ہیں ، گویا سوال یہ ہے کہ گذشتہ آیت مبارکہ میں ،، بیانہ ،، کو وحی جلی تک محدود رکھتے ہیں یا پھر وحی خفی تک محدود رکھتے ہیں ، اور یا پھراس سے ،، مطلق وحی ،، اہلِ سنت کی طرح مراد لیتے ہیں ؟ اگر وحی جلی تک ہی اس کو محدود کرتے ہیں تو آپ اورجناب پرویز میں کوئی فرق نہیں رہا، کہ آپ دونوں کے نزدیک ،، وحی منحصر فی القران ،، ہے ۔ اس سے خارج میں ،، وحی ،، کا کوئی تصور آپ لوگوں کے ہاں موجود نہیں ہے ۔ اوراگر اس کو وحی خفی تک محدود کرتے ہیں تب اس سے قران مجید نکل گیا ہے ۔اس کا کیا کریں گے ؟ اور اگر گذشتہ آیتِ مبارکہ میں ،، بیانہ ،، کو ہماری طرح مطلق وحی شمارکرتے ہیں تب اس میں پورا دین آجائے گا مگر اس میں پھر ،، اگر مگر ،، کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ اگر کچھ لوگ ،، ثم ان علینا بیانہ ،، میں ،، بیان ،، سے صرف قران کی تبیین وتفھیم ہی مراد لیں ، جیساکہ جناب غامدی کی اس مبحوث عنہ کتاب سے معلوم ہوتا ہے ، اور اخبارِآحاد کو ،، دین ،، سے خارج قراردیں تو ہم عرض کریں گے کہ قرانی آیت ،، مااتکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا (الحشر 7 ) کا کیا کیاکروگے جس میں ،، ما ،، عموم کےلیے ہے جو نہ تو قران سے مقید ہے اور نہ سنتِ متواترہ سے مقید ہے ۔جس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر وہ حکم جوان کے ساتھ مخصوص نہ ہو تم پر ماننا لازم ہے ۔ آیت کے پہلے ٹکڑے میں دین بیزار لوگوں کی تردید ہے جو آحادیث سے جان چھڑاتے ہیں ، اور دوسرے ٹکڑے میں بعض متقشف صوفیوں پرنقد ہے جو نفسِ عدمِ نقل از نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عام معاملات میں حرمت کی دلیل قرار دیدیتے ہیں ۔ اس لیے یہ نہیں فرمایا ،، ومالم یؤتکم ،، بلکہ ،، ومانھاکم عنہ ،، فرمایا ہے ۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے بعد جناب غامدی لکھتے ہیں کہ ،، قران کی یہی آخری قراءت ہے جسے اصطلاح میں ،، عرضہِ آخیرہ ،، کی قراءت کہاجاتا ہے ۔روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جبریلِ امین ہرسال جتنا قران نازل ہو جاتا تھا رمضان کے مہینے میں اسے نبی علیہ السلام کو پڑھ کرسناتے تھے۔ آپ کی زندگی کے آخرسال میں جب یہ عرضہِ آخیرہ کی قراءت ہوئی تو انھوں نے اسے دومرتبہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھ کرسنایا سیدناابوھریرہ فرماتے ہیں ،، کان یعرض علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم کل عام مرة فعرض علیہ مرتین فی العام الذی قبض فیہ ،، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرسال ایک مرتبہ قران پڑھ کر سنایا جاتا تھالیکن آپ کی وفات کے سال یہ دومرتبہ آپ کوسنایا گیا ( میزان ص 28) یہ روایت درست ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قران بھول نہ جائیں اس لیے ہرسال کی عرضہ اوراخری عرضہ میں کوئی فرق صحیح السند روایات میں موجود نہیں ہے ۔اور جناب غامدی پرلازم ہے کہ مستند روایات سے یہ بات ثابت کریں کہ ہرسال تو عرضہ پرانی قراءت کے مطابق ہوتاتھا اور آخری سال دوسری اور نئی قراءت کے مطبق ہوا جیسا کہ ان کا دعوی ہے ۔اس طرح کی اور بھی روایات بخاری وغیرہ میں موجود ہیں مگر ان میں کوئی ایک مرفوع مستند روایت ایسی موجود نہیں ہے جس میں اس ایک قراءت کی بات موجود ہو جو غامدی صاحب کامدعی ہے ورنہ جناب غامدی تابعین کی روایات سے کس طرح استدلال کو گوارا کرلیتے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا...
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط...
ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر
محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے...