محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 20)
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...
ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر
محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...
قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط
محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...
مولانا واصل واسطی
اب ہم ان تین نکات کو ترتیب وار لکھتے ہیں جو جناب غامدی نے سورت القیامہ اور سورت الاعلی سے سمجھے ہیں مگر اتنی سی بات پہلے جان لیں کہ جناب غامدی نے ان دو آیات کے ترجمہ میں چند الفاظ داخل کیے ہیں کہ وہ پھر اپنے مدعی کو ثابت کرنے میں ان کو کام آجائیں ( سنقرئک ) کا ترجمہ ،، عنقریب ( اسے ) ہم ( پورا ) تمھیں پڑھادیں گے ،، کیا ہے ، اور( انہ یعلم الجھر ومایخفی ) کا ترجمہ ،، وہ بے شک جانتاہے اس کو بھی جو اس وقت ( تمھارے ) سامنے ہے اور اسے بھی جو ( تم سے ) چھپا ہواہے ،، سے کرتے ہیں ۔ دوسری آیت میں بھی اپنی طرف سے چند الفاظ داخل کیے ہیں ، آیتِ قرانی ( فاذا قرءناہ فاتبع قرانہ) کا ترجمہ کیاہے ،، اس لیے جب ہم اس کو پڑھ چکیں تو ( ہماری ) اس قراءت کی پیروی کرو ،،۔ اور آخری آیت ( ثم ان علینا بیانہ ) کا ترجمہ یوں کیاہے ،، کہ پھر ہمارے ہی ذمہ ہے کہ ( تمھارے لیے اگر کہیں ضرورت ہو تو) اس کی وضاحت کردیں ،،۔ حالانکہ ان معانی کے الفاظ وکلمات قران مجید کی نظم میں کہاں ہیں ؟ بلکہ ان کے محذوف ہونے کے قرائن کہاں ہیں ؟ معانی اور ترجمہ میں یہ کلمات داخل کرنا صرف اپنے مدعی کے اثبات کے غرض سے ہیں ۔ اس کے بعد اصل موضوع پر آجائیں ، وہ لکھتے ہیں کہ ،، ان آیتوں میں قران کے نزول اور اس کی ترتیب وتدوین سے متعلق اللہ تعالی کی جو اسکیم بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے ، اولا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا ہے کہ حالات کے لحاظ سے تھوڑا تھوڑا کرکے یہ قران جس طرح آپ کو دیا جارہاہے ۔ اس کے دینے کا صحیح کا طریقہ یہی ہے لیکن اس سے آپ کو اس کی حفاظت میں اور جمع وترتیب کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہئے اس کی جو قراءت اس کے زمانہِ نزول میں اس وقت کی جارہی ہے ، اس کے بعد ایک دوسری قراءت ہوگی ۔اس موقع پر اللہ تعالی اپنی حکمت کے تحت اس میں کوئی چیز اگرختم کرناچاہیں گے تو اسے ختم کرنے کے بعد یہ آپ کو اس طرح پڑھادیں گے کہ اس میں کسی سہو ونسیان کاکوئی امکان باقی نہ رہے گا ، اور اپنی آخری صورت میں یہ بالکل محفوظ آپ کے حوالے کردیاجائے گا ( میزان ص 28) اس مختصر عبارت میں جناب غامدی نے ان دوآیتوں کے مضمون کے متعلق تین دعوے کیے ہیں (1) پہلا دعوی یہ ہے کہ ،، جس طرح تھوڑا تھوڑاکرکے آپ کو قران دیا جارہا ہے ، اس کے دینے کاصحیح طریقہ یہی ہے ،، (2) دوسرا دعوی یہ کیا ہے کہ ،، لیکن آپ کو اس کی حفاظت میں اور جمع وتدوین کے بارے میں کوئی تردد نہیں ہونا چاہیے ،، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قران مجید کی حفاظت اور جمع وتدوین کے متعلق پریشانی رہتی تھی (3) اور تیسرا دعوی یہ کیاہے کہ ،، اس کی جو قراءت اس وقت اس کے زمانہِ نزول میں کی جارہی ہے ، اس کے ایک دوسری قراءت ہوگی ۔ اس موقع پراللہ تعالی جو چیز اس سے ختم کرنا چاہیں گے وہ ختم کریں گےاورآپ کو پوراقران اس طرح پڑھادیں گے کہ اس میں کسی سہو ونسیان کا امکان نہیں ہوگا ،، حالانکہ ایک آزاد فکر آدمی جب ان دوسورتوں کو غور سے پڑھتاہے تو ان میں کوئی ایسی چیز مذکور ہی نہیں ہے ۔ اقبال نے خوب فرمایاتھا کہ
زمن برصوفی وملّا سلامے
کہ پیغامِ خدا گفتند مارا
ولے تاویلِ شان درحیرت انداخت
خداوجبرئیل ومصطفی را
یہاں بالکل ایسی ہی صورتِ حال ہے ۔احباب ان دوسورتوں کو ان آیتوں تک ایک بار خود مطالعہ فرمالیں۔ ہم نقل کرتے ہیں ۔ سورت الاعلی کی آیات یوں ہیں ، ( سبح اسم ربک الاعلی ۔ الّذی خلق فسوّی ۔ والّذی قدّر فھدی ۔ والّذی اخرج المرعی ۔ فجعلہ غثاء احوی ۔ سنقرئک فلاتنسی الّاماشاءاللہ ۔ انہ یعلم الجھر ومایخفی ( الاعلی 1تا 7) ترجمہ آیات کا مولانا مودودی کے قلم سے یہ ہیں (اے نبی ) اپنے ربِ برتر کے نام کی تسبیح کرو ۔ جس نے پیدا کیا اورتناسب قائم کیا ۔ جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی ۔ جس نے نباتات اگائیں پھر ان کو سیاہ کوڑا کرکٹ بنادیا ۔ ہم تمھیں پڑھوادیں گے ۔ پھر تم نہیں بھولوگے ۔ سوائے اس کے جو اللہ چاہے ۔ وہ ظاہر کو بھی جانتاہے ، اور جوکچھ پوشیدہ اس کوبھی )
اب ان آیات کا باربار مطالعہ کرلیں ، کیا ان آیات میں یہ بات موجود ہے کہ قران کو جوہم تھوڑاتھوڑا کرکے دے رہے ہیں ، یہ اس کا صحیح طریقہ ہے ؟ کیاان آیات میں یہ بات موجود ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قران کی حفاظت اور جمع وتدوین کے حوالے سے متردد اورپریشان رہتے تھے اللہ تعالی نے آپ کو ان آیات میں تسلی وتسکین دی ہے ؟ اور کیا ان آیات میں یہ بات موجود ہے کہ اس موجودہ قراءت کے بعد ایک اور قراءت بھی ہوگی ؟ جناب غامدی کی ان تینوں دعاوی میں سے کوئی دعوی بھی قران مجید کی ان آیات میں الحمد للہ موجود نہیں ہے ۔ مگر اس کے باوجود محترم قران کو ،، میزان وفرقان ،، قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں ۔ کم ازکم یہ دوصفات قران کی مانتے ومنواتے ہیں تو کچھ سچ وصدق کا تو بھی مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ اب دوسری سورت القیامہ دیکھ لیتے ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ( لااقسم بیوم القیامة ۔ ولااقسم بالنفس اللوّامة ۔ ایحسب الانسان الن نجمع عظامہ ۔ بلی قادرین علی ان نسوّی بنانہ ۔ بل یرید الانسان لیفجر امامہ ۔ یسئل ایّان یوم القیامة ۔ فاذا برق البصر ۔ وخسف القمر ۔ وجمع الشمس والقمر ۔ یقول الانسان یومئذ این المفرّ ۔ کلّا لاوزر ۔ الی ربک یومئذ ن المستقرّ ۔ ینبّؤا الانسان یومئذ بماقدّم واخّر ۔ بل الانسان علی نفسہ بصیرة ولوالقی معاذیرہ ۔ لاتحرّک بہ لسانک لتعجل بہ ان علینا جمعہ وقرانہ ۔ فاذا قرءناہ فاتبع قرانہ ۔ثم ان علینا بیانہ) ( القیامہ 1تا 19) اب مولانا مودوی کے قلم سے ان آیات کا ترجمہ بھی دیکھ لیں ( نہیں ، میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی ، اورنہیں ، میں قسم کھاتاہوں ملامت کرنے والے نفس کی ، کیاانسان یہ سمجھ رہاہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کوجمع نہ کرسکیں گے ؟ کیوں نہیں ؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پورپور تک ٹھیک ٹھیک بنادینے پرقادر ہیں ، مگر انسان چاہتا یہ ہے کہ اگے بھی بداعمالیاں کرتارہے ، پوچھتاہے ، آخرکب آنا ہے وہ قیامت کادن ؟ پھر جب دیدے پتھراجائیں گے اور چاند بے نور ہوجائے گا اورچاندسورج ملاکرایک کردیئے جائیں گے ، اس وقت انسان کہے گا ،، کہاں بھاگ کر جاؤں ؟ ،، ہرگزنہیں ، وہاں کوئی جائے پناہ نہ ہوگی ، اس روز تیرے رب ہی کے سامنے جاکر ٹھیرنا ہوگا ، اس روز انسان کو اس کا سب اگلا پچھلا کیاکرایا بتادیاجائے گا ، بلکہ انسان خودہی اپنے آپ کو خوب جانتاہے ، چاہے وہ کتنی معذرتیں پیش کرے ، اے نبی ، اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کےلیے اپنی زبان کوحرکت نہ دو ، اس کویاد کرادینا اور پڑھوادینا ہمارے ذمّہ ہے لہذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قراءت کو غور سے سنتے رہو ، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے )
ایک تو ہم نے مولانا مودودی کا ترجمہ اس لیے منتخب کیاہے کہ جناب غامدی اکثر انھیں کے افکار سے استفادہ کرتے ہیں ۔ مگر لطف یہ ہے کہ اپنے ،،استاد امام ،، کا حوالہ تو دیتے ہیں لیکن مولانا مودودی کی سینکڑوں مقامات میں حوالہ دیئے بغیر صفحات کے صفحات نقل کی ہیں جیسا کہ ان کی ،، استاد امام ،، کی بھی یہی عادت تھی ۔ مثلا وہ بھی دوسروں کی عبارتیں اپنے نام سے پیش کرنے کے بہت ماہرومشاق تھے ، ایک مثال سن لیں ، مثلا شیخ دسوقی شرح تلخیص میں ایک جگہ ایک شعر
،، ولست بنظّار الی جانب الغنی
اذا کانت العلیاء فی جانب الفقر
کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ جب مبالغہ کے صیغے پر نفی داخل ہوجاتی ہے تو پھر وہاں مبالغہ فی النفی مراد ہوتی ہے ،، اب اس شعر میں اگر کوئی بندہ ،، لست بنظّار ،، کو مبالغہ فی النفی پر محمول نہ کرے ، تو شعر کامفہوم ہی بگڑجاتا ہے ۔مگر جناب اصلاحی نے ،، وان اللہ لیس بظلاّم للعبید ،، کی تفسیر میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ لوگ اس بات کو ان کی تحقیق قرار دیں حالانکہ علومِ بلاغت کو پڑھنے طالب بالعموم ایسے قواعد سے شناسا ہوتے ہیں ۔پھر عربی ادب میں ان چیزوں کے مشق مشاق اساتذہ کراتے رہتے ہیں ، مثلا امرؤ القیس کا مشہور شعر ہے کہ
وقدعلمت سلمی وان کان بعلھا
بان الفتی یھذی ولیس بفعّال
اور طرفہ کے قصیدے کا ایک مشہور شعر ہے کہ
ولست بحلاّل التلاع مخافة
ولکن اذایسترفد القوم ارفد
ان سب مقامات میں مبالغہ فی النفی مرادہے ۔ اسی طرح ،، لا ،، کا کلام سے پہلے لانا ،، جیسے ( لااقسم بیوم القیامة ) ماسبق دعوی یا خیال وغیرہ کی نفی کے لیے ہونا کوئی جناب عبدالحمید فراہی کی ایجاد نہیں ہے بلکہ ان سے بہت پہلے امام فراء وغیرہ نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں ان باتوں کی صراحت کی ہے مگر یہ لوگ اسے اپنے نام سے پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح تقدیر کے متعلق بہت سارے اشکالات تھے ۔ پہلی دفعہ مولانا مودودی نے ان اشکالات کے پیشِ نظر ،، تقدیر کو ایمان باللہ کالازمہ ،، قراردے کر ان اشکالات کی دھجیاں آڑادیں ۔مگر جنابِ موصوف نے اس جیسی عظیم بات کو بھی بغیر حوالہ دیئے اپنے نام سے پیش کردیا ہے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ، دوسری بات جو عرض کرنے کی ہے ، وہ یہ ہے کہ اس سورت میں بھی ان تین دعاوی میں سے کوئی بات بہرحال موجود نہیں ہے ۔ نہ تو یہ بات موجود ہے کہ قران کو تھوڑاتھوڑا کرکے ہم نازل کرتے ہیں ، وہ اس کا صحیح طریقہ ہے ۔ نہ یہ بات موجود ہے کہ نبی علیہ السلام کو قران کی حفاظت اور جمع وتدوین کے متعلق تشویش وپریشانی تھی ۔ اور نہ ہی یہ بات موجود ہے کہ اس قران کی ایک دوسری قراءت بھی اس موجودہ قراءت کے بعد ہوگی ۔ معلوم ہوا کہ یہ جناب غامدی کے ہوائی حوالے ہیں جن کو ان کے مقلدین تو برضاورغبت قبول کرسکتے بلکہ کرتے ہیں مگر آزاد فکر لوگ اسے قطعا قبول نہیں کرسکتے ۔پھر یہ بات بھی توجہ کے لائق ہے کہ جناب غامدی نے ان سورتوں کا نام نہیں لیا بلکہ ان دوآیتوں کے متعلق ان تین دعاوی کا ذکر کیا ہے ۔ ان کے الفاظ ہیں ،، ان آیتوں میں قران کے نزول اور اس کی ترتیب وتدوین سے متعلق اللہ تعالی کی جو اسکیم بیان ہوئی ہے( میزان ص 27) اب ذرا محققین کی ایک دو عبارتیں ملاحظہ فرمالیں ،، مولانا مودودی اورمفتی محمد شفیع وغیرہ کی روایتیں پہلے ہم پیش کرچکے ہیں ، کہ ان آیات میں مسئلہ درحقیقت نبی علیہ السلام کے خیال میں یہ تھا کہ ایسا نہ ہو کہ جبریل علیہ السلام مجھے وحی سنا دیں ،اور میں اسے سینے میں محفوظ نہ کرسکوں بھول جاؤں ، اس لیے وہ جبریلِ امین کے ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے ۔ اسی لیے ہم نے پہلے صحیح بخاری سے سیدنا ابن عباس کے قران کی آیت ( ان علینا جمعہ وقرانہ ) کے متعلق تفسیری وتشریحی الفاظ ( قال جمعہ لک فی صدرک وتقرءہ ) نقل کیے تھے تاکہ احباب سمجھ لیں کہ درپیش مسئلہ خارج میں ،، قران کی حفاظت اور ترتیب وتدوین کا مسئلہ نہ تھا جیسا کہ جناب غامدی نے اس کا دعوی کیاہے ،، بلکہ سینہ کے اندر قران کو محفوظ رکھنے کا مسئلہ تھا ۔ اسی لیے امام بخاری وغیرہ محدثین یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ان آیات کے نزول کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم جبریلِ امین کی قراءت پہلے سنتے تھے ، ان کے جانے کے بعد پھر اسی کی طرح پڑھتے تھےکیونکہ ان آیات کے نزول سے ان کو تسلی ہوگئی تھی کہ اللہ قران کو ضائع نہیں ہونے دے گا اور میرے سینے میں محفوظ کرادے گا ۔الفاظ اس روایت کے یہ ہیں ( فکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعد ذالک اذااتاہ جبریل استمع فاذاانطلق جبریل قراءہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کما قراءہ ( تقریب الاصول ج1ص 21) مگر جناب غامدی نے اس الکافیہ کو غالبا میربلگرمی کی طرح تصوف کی کتاب سمجھ رکھا ہے ، ایک دو عبارتیں امام رازی کی بھی دیکھ لیں ، وہ روافض کے اعتراض کے جواب میں مناسبت یوں ذکر کرتے ہیں کہ ،، یحتمل ان یکون الاستعجال المنھی عنہ انما اتفق للرسول صلی اللہ علیہ وسلم عند انزال ھذہ الآیات علیہ فلاجرم نھی عن ذالک الاسعتجال فی ھذاالوقت وقیل لہ لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ وھذا کما ان المدرس اذاکان یلقی علی تلمیذہ شیئا فاخذالتلمیذ یلتفت یمینا وشمالا فیقول المدرس فی اثناء الدرس لاتلتفت یمینا وشمالا ثم یعود الی الدرس فاذانقل الدرس مع ھذاالکلام فی اثناءہ فمن لم یعرف السبب یقول ان وقوع تلک الکلمة فی اثناء ذالک الدرس غیرمناسب ( الکبیر ج 10 ص 727) اس اعتراض اوربات کا خلاصہ تفھیم القران میں موجود ہے ۔ اگے پھر ایک جگہ جناب رازی لکھتے ہیں کہ ،، ( فاتبع قرانہ) ای لاینبغی ان تکون قراءتک مقارنة لقراءة جبریل لکن یجب ان تسکت حتی یتم جبریل علیہ السلام القراءة فاذا سکت جبریل فخذانت فی القراءة وھذاالوجہ اولی لانہ علیہ السلام امر ان یدع القراءة ویستمع من جبریل علیہ السلام حتی اذا فرغ جبریل قراءہ ( الکبیر ج 10 ص 728) اس سے ہماری اوپروالی بات اچھی طرح واضح ہوگئی ہے
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا...
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط...
ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر
محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے...