غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 2)

Published On December 8, 2023
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی

محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا ہے کہ بہت سی بنیادی چیزیں (نماز کا طریقہ وغیرہ) حدیث سے نہیں بھی لیتا تو تواتر سے لے لیتا ہے. یعنی یہاں صرف مصدریت میں اختلاف ہے کہ ایک ہی چیز دو طبقے لے رہے ہیں مگر ایک حدیث سے, دوسرا تواتر سے۔...

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض

محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط لگانا روافض و خوارج کی ایجاد ہے۔ اہل علم نے ہمیشہ اس موقف کی تردید کی ہے۔ ان اہل علم کا تعلق صرف اہل ظاہر سے نہیں بلکہ ان میں کثرت سے مذاہبِ اربعہ کے فقہاء بھی شامل ہیں۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی...

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

ہدایتِ دین اور شرطِ تواتر

محمد خزیمہ الظاہری دین کی ہر ہدایت کا تواتر سے منتقل ہونا ضروری نہیں ہے اور نا ہی کسی نقل ہونے والی چیز کے ثبوت کا اکلوتا ذریعہ تواتر ہے.. سب سے پہلی اصل اور بنیاد کسی بات کے ثبوت پر اطمینان ہے اور اسکے لئے ہمہ وقت تواتر کا احتیاج نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی لٹریچر کو...

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

قبولیتِ حدیث میں تواتر کی شرط

محمد خزیمہ الظاہری منکرین حدیث جس تواتر کا چرچا کرتے ہیں یہ از خود ہمیشہ ان اخبار و روایات کا محتاج ہوتا ہے جسے ظن و آحاد قرار دے کر انکی اہمیت گھٹائی جاتی ہے۔ متواتر چیز سے متعلق جب تک روایات اور اخبار کے ذریعے سے یہ بات معلوم نا ہو کہ گزشتہ تمام زمانوں میں وہ بات...

پردہ اور غامدی صاحب

پردہ اور غامدی صاحب

حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن

حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...

مولانا واصل واسطی

ہم نے پہلی پوسٹ میں لکھاہے کہ جناب غامدی کلی طور پرمنکرِحدیث ہیں ، کہ وہ حدیث کو سرے سے ماخذِدین اور مصدرِشریعت نہیں مانتے ، انہوں نے اپنی فکرکی ترویج کے لیے جن اصطلاحات کو وضع کیاہے ان میں سے ایک اصطلاح  ،، سنت ،، کی بھی ہے ، عام علماء کرام ،، حدیث ،، اور ،، سنت ،، کو بالعموم مترادف قرار دیتے ہیں ، جیساکہ الکفایہ ، مقدمہِ ابن الصلاح ، نخبة الفکر ،اور الفیہ للعراقی کی شروح سے معلوم ہوتا ہے ، مگر بعض لوگ ان دونوں اصطلاحات میں کچھ فرق بھی کرتے ہیں ، جناب غامدی نے بھی حدیث اور سنت میں فرق کیا ہے ، مگر صرف متقدم علماء کی طرح  فرق نہیں کیاہے ، بلکہ ،، سنت ،، کی اصطلاح میں بعض خود ساختہ تصرفات بھی کیے ہیں ، تاکہ امت سے اس کی راہ الگ ہوسکے ، نئی اصطلاحات قائم کرنا کوئی جرم نہیں ہے ، مگر ان میں ایسے تصرفات کرنا کہ جن سے دین کا وہ پورا نقشہ تہ وبالاہوجائے ، جودورِنبوی سے جاری وساری ہے ، یہ بالکل ناجائز اورغلط طریقہ ہے ، اس بات کو ہم ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، مثلا ایک دانشور آدمی دین میں رائج اصطلاح ،، سنت ،، کو ،، فرض ،، کی جگہ استعمال کرتا ہے ، اور فرض کو سنت کی جگہ پر رکھ لیتا ہے یعنی اس کے نزدیک تسبیحات وغیرہ رکوع وسجود میں فرض ہیں اور خود رکوع و سجود اور قراءت سنت ہیں ، تو ہمیں اس دانشور پر کوئی اعتراض نہیں ہے ، اگرچہ عوام کے ذہن اس سے مشوش اورپریشان تو ہوتے ہیں ، لیکن اگر وہ کہے کہ میں نے جن چیزوں کو فرض قرار دیا ہے ، اس سے میرا مقصود یہ ہے کہ ان کے بغیر نمازنہیں ہوتی ہے ، اگر کسی نے اس کے بغیر نمازاداکی ہے ،تو اسے پھرلوٹا دے ، اور جن افعال کو میں نے سنت قرار دیاہے ،ان کے بغیرنماز ہوجاتی ہے ، یعنی نماز بغیرقراءت ورکوع وسجود کے بھی درست ہے  اس دانشور کے نزدیک ، تو اس تصرف کے بعد ہم اس کی اس اصطلاح کو بدعت اورامت کے اجتماعی عمل کی مخالفت قرار دینگے ، کیونکہ اس دانشور نے صرف اصطلاح کو تبدیل نہیں کیا بلکہ دین کاحلیہ ہی بگاڑ دیا ہے ، بعینہ جناب غامدی اسی طرح کے تلبیسات اورحربوں سے کام لیتے ہیں ، ہم نے اوپر کھا ہے کہ محدثین میں سے بعض لوگ ،، سنت ،،  کو عملی احکام اور حدیث کو قولی اور تقریری احکام میں تقسیم کرتے ہیں ، یہ کوئی برائی نہیں تھی ، مگر جناب غامدی نے اسے اور رنگ دینے کی کوشش کی ہے ، وہ لکھتے ہیں کہ ،، سنت سے ہماری مراد دینِ ابراھیمی کی وہ روایت ہے ، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے ، قران میں آپ کو ملتِ ابراھیمی کی اتباع کا حکم دیاگیاہے ، یہ روایت بھی اسی کا حصہ ہے ،ارشاد فرمایا ہے ،، ثم اوحینا الیک ان اتبع ملةابراھیم حنیفا ، وماکان من المشرکین ( النحل 123) پھر ہم نے تمھیں وحی کی کہ ملتِ ابراھیم کی پیروی کرو جو بالکل یکسو تھا ، اور مشرکوں میں سے نہیں تھا ، ( میزان ص 14) اس کے بعد جناب غامدی نے ،، سننِ ابراھیمی ،، کی تعین کی ہے ،اور ان کی تعداد پچیس تک بتائی ہے ، پھر لکھتے ہیں کہ ،، سنت یہی ہے اس کے بارے میں یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قران مجید میں کوئی فرق نہیں ہے ، وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے ، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے ، اور قران ہی کی طرح ہردورمیں مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہوتی ہے ، لہذا اس کے بارے میں اب کسی بحث ونزاع کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے (میزان ص14)  جناب غامدی نے بحث ونزاع کا دروازہ اس لیے بند کیا ہے کہ انہیں  ان باتوں کا ثابت کرنا مشکل ہورہاتھا لیکن بحث کا دروازہ تو کھلا ہے ، ہم عرض کرتے ہیں ، کہ سورتِ نحل کی جوآیت اوپر آپ نے پیش کی گئی ہے ، اس سے یاتو مراد عقیدہِ توحید ہوگا ، جیساکہ آیت کے آخر ( وماکان من المشرکین )سے معلوم ہوتاہے ، اگر ایسا ہو تو پھر آپ کا اس آیت سے اپنے اس مدعی کے لیے استدلال کرنا محض وقت کاضیاع ہے ، اور عقیدہِ توحید مراد لینے سے ایک اور مسئلہ بھی حل ہوجاتاہے ، کہ بعض  ،، حنیف ،، لوگ اس وقت مکہ میں موجود بھی تھے ، جو نہ بتوں کو پوجتے تھے ، اور نہ ہی ان کے لیے ذبیحہ کرتے تھے ، اور اگراس آیت سے وہ فروعی 25 احکام و سنن مراد ہوں جو جناب غامدی نے بیان کیے ہیں ،  مثلا ختنہ کرنا ، مونچھیں پست رکھنا ، میت کا غسل دینا ، زیرِناف کے بال کاٹنا ، حیض ونفاس کے بعد غسل کرنا ، وغیرہ توپھر تین بڑے اشکالات اس پر واردہوتے ہیں ۔

پہلا اشکال یہ ہے کہ نبی علیہ السلام سے پہلے ان فروعات کاوجود مشرکینِ عرب میں رائج نہ تھا ، جبکہ ،، فاتبع ملةابراھیم ،، کا حکم موجود اور رائج احکام ہی کے متعلق ہوسکتا ہے ، جیساکہ آیت کامتبادر مفھوم ہے ، لہذا پہلے آپ کو یہ بات اس معاشرے میں رائج ہونا ثابت کرنا پڑے گا ، مگر یہ بہت مشکل ہے ، یہ بات صرف ہم نہیں کررہے ہیں ، بلکہ جناب غامدی کے استادامام بھی دبے الفاظ میں یہی بات کہتے ہیں ، وہ لکھتے ہیں کہ ،، قران میں عرب کی پچھلی قوموں مثلا عاد ،ثمود ، مدین ،قومِ لوط وغیرہ کی تباہی کا ذکر ہے ، ساتھ ہی ان کے معتقدات ان کے انبیاء کی دعوت اور اس دعوت پر ان کے ردِعمل کی طرف اشارات ہیں ، علاوہ ازیں حضرتِ ابراھیم اورحضرتِ اسماعیل کی عرب میں آمد ،ان کی قربانی ان کی دعوت ان کے ہاتھوں تعمیرِ بیت اللہ اور ان کی برکت سے عرب کی اخلاقی ، تمدنی ،معاشرتی ، معاشی حالات کی تبدیلی کا مختلف اسلوبوں سے بیان ہے ، بعد میں قریش نے دینِ ابراھیم کوجس طرح مسخ کیا ، اوربیت اللہ کو جومرکزِتوحید تھا ، جس طرح ایک بت خانہ بنایا او اس کے نتیجے میں جورسوم اور بدعتیں ظہورمیں آئیں ، ان کے جگہ جگہ حوالے ہیں ، ان ساری باتوں کو اچھی طرح سمجھنے کےلیے ضرورت ہے کہ اس دور کی پوری تاریخ پر آدمی کی نظرہو ، لیکن بدقسمتی سے اس دور کی کوئی مستند تاریخ موجود نہیں ہے ،( تدبرِقران ج1ص 44) پس جب اہلِ مکہ کے اس دور کی مستند تاریخ ہی موجود نہیں ہے ، صرف بعض اشارات ہیں ، تو پھر ،، فاتبع ملةابراھیم ،، سے وہ معدوم چیزیں کیونکر مراد ہوسکتی ہیں  جیسا کہ جناب غامدی کا دعوی ہے ؟

 دوسری بات یہ ہے  کہ پھر نبی علیہ السلام کو چاہئے تھا کہ وہ مکی دور میں اہھی چیزوں پر زور دیتے اور انہیں  رائج کرلیتے کہ ان سنن اور قران میں کوئی فرق بقولِ جناب غامدی موجود نہیں ہے ، مگر پوری سیرتِ رسول کو پڑھ جائیے ، اس میں صرف عقائد کے متعلق مشرکینِ مکہ  سے بھرپور نزاع وجدال ملے گا ، اورہر جگہ یہی بات ملے گی ، کہ نبی علیہ السلام روز وشب دعوتِ توحید میں مصروف تھے ، مخالفت بھی صرف اسی بنا پران کی شدت سے ہورہی تھی ، ورنہ ان فروعی احکام میں نزاع وجدال چہ معنی دارد ؟ پھر جبکہ یہ احکام ان کے معاشرے میں رائج بھی ہوں ، کمازعم الغامدی؟

 تیسرااعتراض یہ وارد ہوتا ہے ، کہ اس فہرستِ سنن  میں اکثر سنن واحکام قران میں مذکور نہیں ہیں ، البتہ آحادیث میں موجود ہیں مگر وہ آحادیث آحاد ہیں ، اب یاتو آپ یہ دعوی کرینگے جساکہ اوپر آپ نےکیابھی ہے ، کہ یہ سنن واحکام بھی قران کی طرح تواتر سے منقول ہیں ، اگر ایسا ہےتو ہم آپ سےاس تواتر کےاثبات کا مطالبہ کرینگے ، جس کاثابت کرنا آپ پرلازم ہے ، محض خالی خولی باتوں سے دعاوی ثابت نہیں ہوتے ہیں ، جب آپ ان سنن کے تواتر کےلیے دلائل فراہم کرینگے ، ہم بھی اس وقت اپنے خیالات تفصیل سے پیش کرینگے ان شاءاللہ ، اس وقت صرف انہی باتوں پر اکتفاء کرتے ہیں ، باقی رہا مکی دور میں قران کے تواتر کا دعوی تو اس کاثابت کرنا بھی آپ کے ذمے ہیں ، ہاں اتنی بات یادرکھنے کی ہے ، کہ اس بات کو ثابت کرنے کےلیے جو دلائل آپ پیش کرینگے ، اس میں ،، حدثنا اوراخبرنا ،، کے الفاظ موجود نہ ہو ں اس لیے کہ آپ لوگوں کا دین ان الفاظ کا سرے سے محتاج نہیں ہے ، یا پھر آپ ان سنن کو تواتر کے بجائے آحاد سے ثابت مانیں گے ، اگر ایسا ہوتو آپ کامقدمہ ہی اڑگیا ہے کیونکہ ،، آحادیث ،، سے آپ کے نزدیک نہ دین میں کسی عقیدہ کا اضافہ ہوسکتاہے ، اور نہ ہی کسی عمل کا ، لہذا آپ کو پھران سنن سے ہاتھ دھونا پڑےگا ، اب آپ کی جوبھی مرضی  ہے جس شق کو بھی اختیار کرنا چاہتے  ہیں ، ہم کو آپ ان شاء اللہ تعالی حاضر پائیں گے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…