حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ یُّوْقِنُوْنَ (سورۃ المائدہ آیت 50)تو کیا جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا حکم یقین والوں کے...
غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 17)
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا جاتا ہے لیکن یہ تعین کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جانا جائے کہ آيا حدیث واقعتا قرآن کے خلاف ہے یا آپ کے فہم قرآن کے خلاف۔ غزوہ بدر سے متعلق مولانا اصلاحی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ مسلمان ابتدا ہی سے قریش...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی چھوڑی گئی نئی پھلجڑیوں پر راے مانگی، تو عرض کیا کہ غامدی صاحب اور ان کے داماد آج کل میری کتاب کا نام لیے بغیر ان میں مذکور مباحث اور تنقید کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں یہ کوشش کرنے دیں۔...
غلبہ دین : غلطی پر غلطی
حسن بن علی ياأيها الذين آمنوا كونوا قوامين لله شهداء بالقسط ولا يجرمنكم شنآن قوم ألا تعدلوا اعدلوا هو أقرب للتقوى ترجمہ: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط دوم)
حسن بن عل غامدی صاحب کے اصول حدیث قرآن میں کسی قسم کا تغیر اور تبدل نہیں کر سکتی (یعنی نہ تنسیخ کر سکتی ہے نہ تخصیص اور یہی معاملہ مطلق کی تقيید كا بھی ہے) کی روشنی میں حدیث قرآن کے مطلق (لفظ) کی تقيید نہیں کر سکتی یعنی ان کے اصول کی روشنی میں مطلق (لفظ) کی تقيید بھی...
سنت ، بیانِ احکام اور غامدی صاحب ( قسط اول)
حسن بن علی غامدی صاحب کا فکر فراہی کے تحت یہ دعوی ہے کہ حدیث قرآن پر کوئی اضافہ نہیں کر سکتی (نہ تخصیص کر سکتی ہے نہ تنسیخ) اور چونکا رسول کی ذمہ داری بیان احکام مقرر کی گئی ہے (لتبين للناس ما نزل عليهم؛ ترجمہ: تاکہ آپ لوگوں کے لیے بیان کر دیں جو آپ پر نازل ہوا) اور...
مولانا واصل واسطی
دوسری بات یہ ہے کہ جناب غامدی نے قراءتِ قران کے متعلق دوآیتیں پیش کی ہیں جن کا سرے سے اس موضوع سے تعلق ہی نہیں ہے ، لطف اور مزے کی بات یہ ہے کہ یہ صاحب قران کو میزان اور فرقان بھی قراریتے ہیں جن کا مفہوم ان کے نزدیک ،، قران کے الفاظ کااپنے مفہوم پر قطعی ہوناہے ،، آیتِ 6 ،7 سورت اعلی کا ترجمہ جنابِ غامدی کے قلم سے اوپر کی تحریر میں ایک بار پھر پڑھ لیں ۔کیا اس میں قراءت کا مسئلہ مذکور ہے ؟ ہرگز نہیں۔ مگر جناب غامدی نے اس آیت سے وہ مسئلہ برآمد کرلیا ہے ۔ اب احبابِ کرام ذرا دیگر مفسرین کی چندآراء ملاحظہ فرمالیں ، مولانا ابولاعلی مودودی آیت کاترجمہ یوں لکھتے ہیں کہ ،، ہم تمھیں پڑھوادینگے ، پھر تم نہیں بھولوگے ، سوائے اس کے جواللہ چاہے وہ ظاہرکوبھی جانتاہے اورجوکچھ پوشیدہ اس کو بھی ،، اور اس کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ ،، حاکم نے سیدنا سعدبن ابی وقاص سے اور ابن مردویہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ قران کے الفاظ کو اس خوف سے دہراتے جاتےتھے کہ بھول نہ جائیں۔ مجاھد اور کلبی کہتے ہیں کہ جبریل وحی سناکر فارغ نہ ھوتے تھے کہ حضور بھول جانے کے اندیشے سے ابتدائی حصہ دہرانے لگتے تھے ، اسی بناپر اللہ تعالی نے آپ کو یہ اطمینان دلایا کہ وحی کے نزول کے وقت آپ خاموشی سے سنتے رہیں ، ہم آپ کو اسے پڑھوادیں گے ، اور ہمیشہ کےلیے آپ کویاد ہوجائے گی ، اس بات کا کوئی اندیشہ آپ نہ کریں کہ اس کاکوئی لفظ بھی آپ بھول جائیں گے ۔ یہ تیسرا موقع ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی اخذکرنے کاطریقہ سکھایاگیا ، اس سے پہلے کے دومواقع ، سورہِ طہ آیت 114 ، اور سورہِ القیامہ آیت 16تا 19، میں گذرچکے ہیں ، اس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قران جس طرح معجزے کےطور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کیاگیاہے اسی طرح معجزے کے طور پر ہی اس کا ایک ایک لفظ آپ کے حافظے میں محفوظ کردیاگیا ہے ( تفھیم القران ج6ص 313) باقی آیت کی تفسیر کاخلاصہ ہمارے الفاظ میں یہ ہے کہ قران ایک ایک لفظ کا تیرے حافظے میں محفوظ ہوجانا تیراکرشمہ نہیں ہے بلکہ اللہ کی توفیق ہے، اور یہ بھی مطلب ہوسکتاہے کہ بالفرض کچھ بھول بھی گئے تو وہ عارضی طور پر ہوگا مسقلا نہیں ہوگا ( ایضا )مولانا محمدعلی کاندھلوی ترجمہِ آیت یوں لکھتے ہیں کہ ،، ہم تجھے پڑھائیں گے سوتو نہ بھولے گا ، مگرجو اللہ تعالی چاہے وہ کھلی بات کو جانتاہے اور( اسے بھی ) جوچھپاہے ،، خلاصہ یہ بیان کیاہے کہ ،، ہمارے پڑھائے ہوئے کو تم نہیں بھولتے ، مگر اس میں سے جوخداچاہے بھول بھی جاتےہو ، اصل مطلب وہی ہے جواوپر بیان ہواکہ ہمارے پڑھائےہوئے کایہ نشان ہے کہ تم اسے نہیں بھولتے حالانکہ دوسری باتوں کو بھول بھی جاتے ہو ، اور قران توساتھ ساتھ لکھابھی جاتاتھا ، پس اس کا کوئی حصہ نہیں بھلایا گیا ،( بیان القران ج 2 ص 1461) کاندھلوی نے درج آیت میں ،، الاماشاء اللہ کے ،، استثناء کومنقطع قرار دیاہے ۔اور مفتی محمد شفیع ترجمہِ آیت یہ کرتے ہیں کہ ،، البتہ ہم پڑھائیں تجھ کو پھر تو نہ بھولے گا ،مگر جوچاہے اللہ وہ جانتہھے پکارنے کو اور جو چھپا ہواہے ،، پھر یہ تفسیر کرتے ہیں کہ ،، سابقہ آیات میں حق تعالی نے اپنی قدرت وحکمت کے چندمظاہرفرمانیکے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے فریضہِ پیغمبری کی طرف چندہدایات دی ہیں ۔ اورہدایات سے پہلے آپ کے کام کو آسان کردینے کی خوشخبری سنائی ہے ، وہ یہ ہے کہ ابتدا میں جب آپ پرقران نازل ہوتا اورجبریلِ آمین کوئی آیتِ قرانی سناتے تو آپ کو یہ فکرہوتی تھی کہ ایسا نہ ہو کہ الفاظ ذہن سے نکل جائیں اس لیے جبریلِ امین کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ بھی الفاظِ قران پڑھتے جاتے تھے ، اس آیت میں حق تعالی نے یہ کام یعنی قران کایاد کرانا اپنے ذمے لےلیا ، اور آپ کوبے فکر کردیا ، کہ جبریلِ امین کے چلے جانے کےبعد آیاتِ قران کا آپ سے صحیح صحیح پڑھوادینا پھر ان کو یاد میں محفوظ کرادینا ہماری ذمہ داری ہے آپ فکر نہ کریں جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ،، فلاتنسی الا ماشاءاللہ ،، یعنی آپ قران کی کوئی چیز بھولیں گے نہیں بجز اس کے کہ کسی چیز کو اللہ تعالی ہی اپنی حکمت ومصلحت کی بناپر آپ کے ذہن سے بھلادینا اورمحوکردینا چاہیں ۔ مراد یہ ہے کہ اللہ جو بعض آیاتِ قران کو منسوخ فرماتے ہیں اس کا ایک طریقہ تومعروف ہے کہ صاف حکم پہلے حکم کے مخالف آگیا ۔اور ایک صورت منسوخ کرنے کی یہ بھی ہے کہ اس آیت ہی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسب مسلمانوں کے ذہن سے محواورفراموش کردیاجائے جیساکہ نسخِ قرانی کی آیت میں فرمایاہے ،، ماننسخ من آیة اوننسھا ،، یعنی ہم جوآیت منسوخ کرتے ہیں یاآپ کے ذہن سے بھلادیتے ہیں ۔اور بعض حضرات نے ،، الاماشاءاللہ ،، کے استثنا کامفہوم یہ قراردیاہے کہ یہ ہوسکتاہے کہ اللہ کسی مصلحت اورحکمت کی بناپر عارضی طور سے کوئی آیت آپ کے ذہن سے بھلادیں ، پھر یاد آجائے ، جیساکہ بعض روایاتِ حدیث میں موجود ہے ( معارف القران ج 8ص 725) ہم نے قارئین کے واسطے اردو تفاسیر سے استفادہ کیا ہے ۔ ان تفاسیر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس آیت کا قراءت کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔سورت کے مضمون سے بھی اس مسئلہ کی مناسبت موجود نہیں ہے ، اور پھر سورت بھی مکی ہے (3) تیسری بات اس مبحث کے متعلق یہ ہے کہ سورت القیامہ کی آیت 16 تا 19 کابھی اس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ احباب پہلے جناب غامدی والا ترجمہ اوپر پڑھ لیں ،جناب غامدی نے ،، فاتبع قرانہ ،، کا ترجمہ یوں کیا ،، تو( ہماری ) اس قراءت کی پیروی کرو ،، تاکہ مذکورہ مسئلہ سے آیت کا تعلق بنادیں ۔ بخاری میں سیدنا ابن عباس سے منقول ہے کہ ،، کان رسول اللہ یعالج من التنزیل شدة وکان ممایحرک شفتیہ فقال ابن عباس فانااحرکھما لکم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔،، ان علینا جمعہ وقرانہ ،، قال جمعہ لک فی صدرک وتقراہ ،، ثم ان علینا بیانہ ،، ثم ان علینا ان تقراہ فکان رسول اللہ بعدذالک اذااتاہ جبریل استمع فاذاانطلق جبریل قراہ النبی علیہ السلام کماقراہ ( تقریب الاصول ج1 ص21) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم وحی سے تکلیف محسوس کرتے تھے کہ کہیں بھول نہ جائیں اسی لیے جبریل کے پڑھنے کے وقت بھی ہونٹوں کوحرکت دیتے تھے پھر سیدنا ابن عباس نے اس کی عملا حکایت کی ،، ان علینا جمعہ وقرانہ ،، کامطلب ہے تمھارے سینے میں اس کو جمع کردینگے پھر آپ اسے پڑھوگے ،، ان علینابیانہ ،، کامطلب ہے کہ ہم پرتمھیں پڑھوانا بھی ضروری اور لازم ہے ۔ اس وحی کے بعد جب جبریل علیہالسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم پاس وحی لاتے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سنتے رہتے ، ان کے جانے کے بعد اس طرح اسے پڑھتے جیساکہ جبریل پڑھتے تھے ،، مفسرین نے بھی ایسی ہی توجیہ کی ہے ، ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ،، ثم قال تعالی ،،ان علینا جمعہ ،، ای فی صدرک ،، وقرانہ ،، ای ان تقراہ ،، فاذا قراناہ ،، اذاتلاہ علیک الملک عن اللہ عزوجل ،، فاتبع قرانہ ،، فاستمع لہ ثم اقراہ کما اقرءک ،، ثم ان علینا بیانہ ،، ای بعد حفظہ وتلاوتہ نبینہ لک ونوضحہ ونلھمک معناہ علی مااردنا وشرعنا ( تفسیرالقران ج6 ص 223) ابن کثیر کی عبارت سے مفہوم ہوتا ہے کہ ،،ان علینابیانہ ،، پھرقران کامعناہ ومفہوم تمھیں سمجھانا ہماری ذمہ داری ہے ۔ مگر جناب غامدی نے اپنے ترجمہ میں ،، اگرضرورت پڑی ،، کے الفاظ رکھ کر ڈنڈی مارنے کی کوشش کی ہے ، اور پھر اس ذریعے سے حدیثِ رسول کی اللہ تعالی کیطرف سے ہونے کاراستہ ہی بند کردیا ہے ۔ مولانا مودودی نے ،، ان علینا بیانہ ،، کی تشریح اس طرح کی ہے کہ ،، یہاں سے لیکر ،، پھراس کامطلب سمجھادینا بھی ہمارے ذمے ہیں ،، تک کی پوری عبارت ایک جملہِ معترضہ ہے جوسلسلہ کلام کو بیچ میں توڑ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرکے ارشاد فرمائی گئی ہے جیساکہ ہم دیباچہ میں بیان کرآئے ہیں ( تفھیم القران ج6 ص 167) مولانا مودودی نے ،، ان علینا بیانہ ،، میں ،، بیانہ ،، سے حدیث وسنت کاعلم مرادلیاہے ، اور منکرینِ حدیث کی خوب خبرلی ہے ۔احبابِ کرام خود دیکھ لیں ہم اس تفصیل کی نقل سے اس وقت معذور ہیں ۔ اور مفتی محمد شفیع نے بھی اسی مفہوم کومختصرا لکھا ہوا ہے ( معارف القران ج 8 ص 627) دیگر تفاسیر میں ایسی ہی باتیں مذکور ہیں گویا اس آیت میں تین باتیں کی گئی ہیں (1) ایک قران کا جمع کرنا (2) دوسرا قران کاپڑھوادینا (3) تیسراقران کا بیان ان کے سامنے کرنا اورانہیں اس کا مطلب سمجھادینا ۔یہ تینوں کام اللہ تعالی نے اپنے ذمے لیے تھے اوربطریقِ احسن پورے بھی کردیئے۔ بہرحال ہمارے علم میں جوتفاسیر ہیں ، قراءت کا مسئلہ ان میں کسی نے بھی ذکر نہیں کیا ہے ہاں بعض لوگوں نے،، فاذاقراناہ فاتبع قرانہ ،، کے ترجمہ میں قراءت کالفظ بہرحال اختیار کیاہے کیونکہ وحی کسی نہ کسی قراءت میں تو ہوگی نا ، قراءتِ جبریل کی تابعداری کرنا الگ مسئلہ ہےاورقراءت کا موضوع ہونا بالکل الگ مسئلہ ہے کیونکہ اس وقت جبریل کی قراءت کا علم ہی نہیں تھا کہ وہ کونسی قراءت کرتے تھے ؟ اس آیت میں یہ جناب غامدی کا ایجاد کردہ مسئلہ ہے ، جو قران کو ،، میزان وفرقان ،، ماننے کاڈھنڈورا بھی پیٹتے رہتے ہیں حالانکہ یہ سورتیں مکی ہیں ۔وہاں یہ مسئلہ درپیش ہی نہ تھا ، اور سیاق وسباق میں بھی یہ ،، ایجاد ،، درست معلوم نہیں ہوتا
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
پردہ اور غامدی صاحب
حسان بن عل اَفَحُكْمَ الْجَاهِلِیَّةِ یَبْغُوْنَؕ-وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ...
مکتبِ غامدی ، حدیث اور فہمِ قرآن
حسان بن علی اگر حدیث قرآن کے خلاف ہو تو اسے (درایتا) غیر معتبر ٹھہرایا...
غامدی صاحب کے نظریۂ حدیث کے بنیادی خد و خال
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کئی احباب نے حدیث کے متعلق غامدی صاحب کے داماد کی...