غامدی منہج پر علمیاتی نقد ( قسط نمبر 13)

Published On January 24, 2024
خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

سید متین احمد شاہ غامدی صاحب کی ایک تازہ ویڈیو کے حوالے سے برادرِ محترم علی شاہ کاظمی صاحب نے ایک پوسٹ لکھی اور عمدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ صحابہ کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے غامدی صاحب کی اور بھی کئی ویڈیوز ہیں۔ جس طرح انھوں نے بہت سے فقہی اور فکری معاملات میں...

حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط دوم

حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط دوم

مولانا محبوب احمد سرگودھا غامدی صاحب کے تیسرے اعتراض کی بنیاد سورہ مائدہ کی آیت ہے 117 میں موجود عیسی علیہ السلام کا روز قیامت باری تعالٰی سے ہونے والا مکالمہ ہے۔ آیت یہ ہے: فلما توفيتني كنت انت الرقيب عليهم، وانت على كل شيء شهید (قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں عیسی...

حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط اول

حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط اول

مولانا محبوب احمد سرگودھا   پہلی تحریر میں عیسی علیہ السلام کے رفع الی السماء" کے بارے میں غامدی صاحب کے نظریہ کا تجزیہ پیش کیا گیا، اس تحریر میں  اُن کے نزول الی الارض کے بارے میں غامدی صاحب کا نظریہ پیش خدمت ہے:۔  اولاً غامدی صاحب کی عبارت ملاحظہ کی جائے ، اپنی...

غامدی صاحب اور ’چند احکام‘ کا مغالطہ

غامدی صاحب اور ’چند احکام‘ کا مغالطہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کا معروف موقف ہے کہ حکومت و سیاست سے متعلق شریعت نے بس چند احکام ہی دیے ہیں۔ بسا اوقات سورۃ الحج کی آیت 41 کا حوالہ دے کر ان چند احکام کو ’بس چار احکام‘ تک محدود کردیتے ہیں: نماز قائم کرنا ، زکوۃ دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے...

قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت

قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت

جہانگیر حنیف قرآنِ مجید کتابِ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید نے اپنا تعارف جن الفاظ میں کروایا ہے، اگر ان پر غور کیا جائے، تو قرآنِ مجید کا کتابِ ہدایت ہونا ان سب کو شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو اگر کسی ایک لفظ سے تعارف کروانے کی ضرورت پیش آجائے، تو کچھ اور کہنے کی...

قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت

قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت

ڈاکٹر خضر یسین قانون اتمام حجت ایک ایسا مابعد الطبیعی نظریہ ہے جو ناسخ قرآن و سنت ہے۔اس "عظیم" مابعد الطبیعی مفروضے نے سب سے پہلے جس ایمانی محتوی پر ضرب لگائی ہے وہ یہ ہے کہ اب قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تصدیق روئے زمین پر افضل ترین ایمانی اور...

مولانا واصل واسطی

ہم نے گذشتہ پوسٹ میں قران کے قطعی الدلالة ہونے کی طرف اشارہ کیا تھا ، کہ قران کی تمام آیات اپنے مفہوم میں قطعی الدلالة نہیں ہیں ، بعض الفاظ ، اسالیب اور تراکیب ظنی الدلالة بھی ہوتے ہیں ، لیکن جناب غامدی قران کی تمام آیات اور تمام کلمات کو قطعی الدلالة قرار دیتے ہیں ، اس دعوی کو بھی وہ اپنے دیگر دعاوی کی طرح مدلل و مبرہن نہیں کرتے ، بلکہ اس بات پر اکتفاء کرتے ہیں ، کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا ، اب اس طرح کے دعاوی بغیر برہان کے اس کے مقلدین مان لیں تو مان لیں ، عام آزاد روش رکھنے والے معقول لوگ ایسی باتوں کو قبول نہیں کرتے ۔پہلے جناب غامدی کی عبارت دیکھتے ہیں ، وہ ،، الفاظ کی دلالت ،، کے زیرِعنوان لکھتے ہیں کہ ،، دنیا کی ہرزندہ زبان کے الفاظ واسالیب جن مفاہیم پر دلالت کرتے ہیں ، وہ سب متواترات پرمبنی ہوتے ہیں ، اور ہرلحاظ سے قطعی ہوتے ہیں ، لغت ونحو اور اس طرح کے دوسرے علوم اسی تواتر کو بیان کرتے ہیں ،، ( میزان ص 32) اور آگے جاکر لکھتے ہیں ،، لفظ اور معنی کا سفر کبھی الگ الگ نہیں ہوتا ، وہ جب تک مستعمل رہتا ہے اپنے معنی کے ساتھ مستعمل رہتا ہے ، ہم کسی لفظ کے مفہوم سے ناواقف ہوسکتے ہیں ، اور اس کی تعیین میں غلطی بھی کرسکتے ہیں ، لیکن وہ اپنے مفہوم کی قطعیت کے بغیر ہی مستعمل ہے ، یا کسی دور میں مستعمل رہا ہے اس کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا ( میزان ص 33) ہم عرض کرتے ہیں ، کہ جناب غامدی کی یہ بات کہ ،، لفظ ، الفاظ ، اسالیب اور جملے وغیرہ سب اپنے معنی اور مفہوم پر قطعی دلالت کرتے ہیں ،، عمومی حیثیت میں بالکل درست نہیں ہے بلکہ انھوں نے تو آگے جاکر عجیب بات کہی ہے کہ ،، ان کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ خیال اگر پیداہوجائے کہ ان کے الفاظ کی دلالت اپنے مفہوم پرقطعی نہیں ہے توان میں سے ہرچیز بالکل بے معنی ہوکر رہ جائے ، چنانچہ یہ نقطہِ نظر نری سوفسطائیت ہے ،،( ایضا ص 33) ہمارے ہاں علمی طورپر دونقطہِ نظر پائے جاتے ہیں ، ایک یہ ہے ،، کہ الفاظ سرے سے مفیدِیقین نہیں ہیں۔ یہ بقولِ محققین اشاعرہ کا نقطہِ نظر وخیال ہے ،، دوسرا نقطہِ نظر بعض صوفیاء اور جناب غامدی وغیرہ کاہے کہ تمام الفاظ ، جملے ، اسالیب اپنے مفھوم پر قطعی دلالت کرتے ہیں ، ہمارے نزدیک یہ دونوں نقطہِ نظرافراط وتفریط پر مبنی ہیں ۔پہلے موقف سے قران وسنت کے سارے نصوص بے معنی ہوجاتے ہیں ، جبکہ دوسرے موقف سے ، ظاہر ، خفی ، مشترک، ماول ، وغیرہ کی نفی ہوجاتی ہے ، اس پر ہم الگ سے بحث کرناچاہے ہیں ۔سرِدست اشارات پر کفایت کرتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ بعض ایسے الفاظ ، جملے اور تراکیب بھی ہوتے ہیں کہ جن کا قطعی طور پرایک مفہوم قرار دینا کارِمشکل ہوتا ہے ۔ اس کی ایک مثال دیکھ لیتے ہیں :قران مجید میں اللہ تعالی نے تعالی نے فرمایا ہے کہ ،، واذ قلنا للملئکة اسجدوا لادم فسجدوا الا ابلیس ابی واستکبر وکان من الکافرین ( البقرہ 34) یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو ، تو انھوں نے سجدہ کیا ، مگر ابلیس نے ، اس نے انکار کیا اور گھمنڈ کیا اور کافروں میں سے بن گیا ،، اس آیت کی تفسیر جناب غامدی کے ،، استاد امام ،، جناب اصلاحی فرماتے ہیں کہ ،، سجدہ کا لفظ عربی زبان میں جھکنے کے معنی میں آتاہے ، جھکنے کے مختلف مدارج ہو سکتے ہیں (1) کسی کے آگے سر نہیوڑا دینا بھی جھکناہے (2) اورپیشانی اورناک زمین پررکھ دینا بھی جھکنا ہے ، پچھلے مذاہب میں تعظیم کی یہ قسم غیراللہ کے لیے جائز تھی لیکن عموما اس کی حد وہی تھی جو ہمارے ہاں رکوع کی ہے ، بنی اسرائیل میں اس طرح کی تعظیمی سجدے کا عام رواج تھا اور تورات کے مختلف مقامات سے اس کی جو شکل متعین ہوتی ہے وہ رکوع سے ملتی جلتی ہوئی ہے ۔اسلام نے تعظیم کی اس شکل کو خدائے رب العزت کے لیے خاص کردیاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام خدا کا آخری اور کامل دین ہے ۔اس نے توحید کی حقیقت کو مکمل طور پر اجاگر کردینے کےلیے خداکےلیے تعظیم وتذلل کی شکلیں بھی خاص کردی ہیں ، تاکہ اس کے اندر شرک کے داخل ہونے کے لیے کوئی رخنہ باقی نہ رہ جائے ( تدبرِقران ج 1ص 163) اصلاحی صاحب کی اس عبارت سے دوتین باتیں صاف صاف معلوم ہوگئی ہیں (1) پہلی بات یہ ہے کہ سجدہ کا مطلب جھکنا ہے ، لیکن اس کے پھر مختلف مراتب ومدارج ہیں ، سرکو جھکادینا یا ناک زمین پر رکھ دینا ، اس سے معلوم ہوا کہ سجدہ کا لفظ صرف ایک معنی ومفہوم پرقطعی دلالت نہیں کررہا ، ممکن ہے اس لفظِ ،، اسجدوا ،، سے یہاں سجدہِ تعظمی مراد ہو ، اور ممکن ہے اصل اور حقیقی سجدہ مراد ہو ۔ اصلاحی صاحب کی اس تحقیق سے جناب غامدی کے تصور کی واضح تردید ہوگئی ہے الحمدللہ ، باقی اصلاحی صاحب کا یہ کہنا کہ ،، تورات سے اس کا مفہوم رکوع کے قریب نکلتا اورمتعین ہوتاہے ، اور یہ پہلی شریعتوں میں جائز تھا ،، تو اس کے متعلق ہم دوباتیں عرض کرتے ہیں پہلی بات یہ ہے کہ تورات تو بہت بعد کی منزل کتاب ہے اس کے اس مقرر شکل کو سیدنا آدم علیہ السلام کے متعلق حکم کا مفہوم متعین نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو بنی اسرائیل سے بہت ہی مقدم ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے والدین اور بھائیوں کے متعلق قران مجید میں وارد ہے ،، ورفع ابویہ علی العرش وخرّوالہ سجدا ( یوسف 100) خرور عربی میں ایسے سقوط کو کہتے جس میں آواز بھی ہو ، جیسے ،، فکانما خرمن السماء ،،
،، فلماخرّتبینت الجن ،، ،،فخرّعلیھم السقف ،، اور سمین حلبی کہتے ہیں ،، الخرور السقوط من علو یکون معہ صوت غالبا ( عمدةالحفاظ ج 2 ص 497) جب یہ بات ثابت ہوگئی تو آیتِ سورتِ یوسف میں اس کا مطلب زمین پرسجدہ میں گرنا ہے ، نہ کہ محض رکوع کرنا ، جیسا کہ اصلاحی صاحب کہتے ہیں ۔تیسری بات اصلاحی صاحب کی درجِ بالا عبارت سے یہ معلوم ہوگئی ہے کہ اسلام نے انسانوں کو سجدہِ تعظیمی کرنےکوحرام قرار دیاہے تاکہ شرک کے لیے کوئی رخنہ بھی باقی نہ رہے ۔ہم جنابِ غامدی اور اس کے اہلِ مکتب سے سوال کرتے ہیں کہ سجدہِ تعظیمی کو اسلام میں اللہ تعالی نے قران مجید میں حرام قرار دیا ہے یا کہ پھر آحادیث میں ؟ اگر قران میں اس کی حرمت موجود ہے تو ذرا وہ آیت پیش کردیں تاکہ ہم فقیر لوگ بھی اس استفادہ کرلیں ۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ آیت قطعی الدلالة ہو ، کثیر المعانی کا محتمل نہ ہو ، کیونکہ آپ کے نزدیک قران کی ہرآیت اپنے مفہوم پرقطعی دلالت کرتی ہے ، اور اگرآحادیث میں اس کی نفی موجود ہے تو یہ آپ کے مذہب میں جائز نہیں ہے کیونکہ ،، قران کے متن کی تحدید وتخصیص نہ تو کسی وحی جلی وخفی سے جائز ہے اور نہ قولِ نبی علیہ السلام والصلاة سے ،، اب آپ لوگ دوصورتوں میں سے ایک صورت کو اختیار کرسکتے ہیں ۔ یا تو سجدہِ تعظمی کو کچھ گمراہ صوفیوں کی طرح جائز رکھیں ، اوریا پھر یہ بات مان لیں کہ قران مجید کے تحدید وتخصیص احادیثِ مبارکہ سے بھی ہوسکتی ہے ۔ اور قران مجید سے اس کی نفی کو ثابت کرناخرط القتاد کےمانند ہے ۔ باقی رہی جناب اصلاحی صاحب کی یہ بات کہ ،، تاکہ اس کے اندر شرک کے داخل ہونے کا کوئی رخنہ باقی نہ رہ جائے ،، تو اس کا مفہومِ مخالف یہی ہوا نا ں کہ پرانے مذاہب میں اللہ تعالی نے شرک کے رخنوں کو باقی رکھا تھا ، اور یہ تو سراسرافتراہے ، لیکن ممکن ہے غفلت کی وجہ سے ان سے یہ ہواہو ، انا للہ واناالیہ راجعون ، اس کے بعد جنابِ اصلاحی لکھتے ہیں کہ ،، فرشتوں کو آدم کے لیے سجدہ کرنے کاحکم دینے میں شرک کا کوئی پہلو نہیں ہے اس لیے کہ اولا تو سجدہ خداکے کی حکم کی تعمیل میں تھا اس لیے گویا خداکو سجدہ تھا ، ثانیا سجدہ شرک کی علامت جیساکہ عرض کیاگیا ، اسلام میں قرار دیا گیا ہے ( تدبرِ قران ج1ص ص163) ہم یہاں پھر اس مکتب والوں سے سوال کرینگے کہ ،، سجدہ ،، کہاں قران مجید میں شرک کی علامت قرار دیاگیاہے؟ ذراتعین کرکے فرمادیں ؟ اور اگر اس کو آحادیث میں شرک کی علامت قرار دیاہے تو پھر آپ کے مذہب میں اس کو جائز قرار دینا چاھئےکیونکہ نہ تو ،، آحادیث ،، سے قران کی تحدید وتخصیص ہوسکتی ہے اور نہ قران وسنتِ ابراہیمی سے زائدکوئی چیز دین میں سے ھوسکتی ہےلہذا کیسے ان کے ذریعے سے قران مجید کی تخصیص کرلیں گے ؟

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…