غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط ہفتم)

Published On January 22, 2024
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی

نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی

عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ

ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...

امام النواصب جاوید غامدی

امام النواصب جاوید غامدی

احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل

محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟

شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...

ڈاکٹر خضر یسین

قرآن مجید کے متعلق غامدی صاحب کی تحریر و تقریر سے یہ تاثر لئے بغیر، آپ نہیں رہ سکتے کہ وہ کسی ادبی کتاب کے متعلق اپنی انتقادی تحسین بیان کر رہے ہیں۔ الوہی ہدایت کے مقابل، ہدایت وصول کرنے والے انسان کا طرزعمل اور احساس و تاثر ایک نقاد کا کبھی نہیں ہوتا۔ قرآن مجید سے ہدایت کا حصول مقصد ہو تو آرزو علم کو اولیت حاصل نہیں ہوتی بلکہ حصول ہدایت ہر آرزو پر مقدم ہوتی ہے۔ قرآن مجید کا علمی تجزیہ اور اس پر ادیبانہ نقد کا رویہ غالب ہو تو ہدایت اور حصول ہدایت ثانوی شے بن جاتی ہے۔ محترم غامدی صاحب کی تحریر و تقریر سے یہی عیاں ہوتا ہے جیسے علمیت کا غلبہ ہے اور ایک مہتدی کا طرزعمل اور طرز احساس ناپید نہ بھی ہو تو بھی “عبودیت” کھل کر سامنے نہیں آتی۔ مندرجہ ذیل باتوں کو دیکھئے، جن میں عبودیت سے زیادہ علمیت کا غلبہ واضح نظر آ رہا ہے۔

ایک سوال اٹھاتے ہیں:قرآن مجید اصناف سخن میں سے کونسی صنف ہے؟ یعنی یہ نظم ہے، نثر ہے یا کچھ اور ہے؟

پھر کہتے ہیں: قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے اس کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ وہ پس منظر، تقاضے اور صورت حال معین کرنے کی کوشش کریں جس میں کوئی سورت نازل ہوئی ہے۔

ہر مقام پر اس کے خطاب کا رخ متعین کیا جائے۔ قرآن مجید میں مشرکین، اہل کتاب، الانسان وغیرہ خطاب عام نہیں ہے۔ اس سے مراد تمام مشرکین، سب اہل کتاب اور الانسان سے پوری اولاد آدم مراد نہیں ہے۔

مذکورہ بالا باتوں سے ایک تو یہ عیاں ہوتا ہے، قرآن مجید ہدایت کے بجائے تاریخ کی کتاب ہے۔ دوسرا آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جیسے غامدی صاحب نے قرآن کی زبان کو قریش یا ام القری کی زبان بتانے میں ناروا بلکہ نازیبا اصرار کیا تھا، یہاں بھی قرآن مجید کی ہدایت کو مخصوص طبقے کے خطاب تک محدود کرنے پر ناروا اصرار کر رہے ہیں۔

الوہی ہدایت کی آفاقیت تو یہ ہے کہ مورد چاہے خاص ہو، مگر اس کا حکم عام ہوتا ہے۔ لیکن غامدی صاحب اس پر زور دینے میں مصروف رہتے ہیں کہ مشرکین بنی اسماعیل سے باہر قرآن مجید کا حکم نہ جا پائے اور اہل کتاب مراد جزیرة العرب کے باسی یہود و نصاری تھے۔

حالانکہ قرآن مجید کی زبان و بیان کا یہ اعجاز ہے کہ اسے توجہ سے پڑھنے والا باآسانی ادراک کر لیتا ہے کہ کیا بات کی جا رہی ہے اور توجہ کا مرکز صرف یہ نہیں رہتا کہ خطاب کا رخ کہاں سے کہاں چلا گیا ہے۔ بندوں تک جس بات کا ابلاغ مقصود ہوتا ہے، تبدیلی خطاب سے وہ متاثر نہیں ہوتی الا یہ کہ کسی نے پہلے سے طے کر رکھا ہو: اس کا مخاطب میں نہیں ہوں اور وہ ہے۔

غامدی صاحب فرماتے ہیں:قرآن مجید الفرقان اور المیزان ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قرآن مجید الفرقان اور المیزان ہے۔ المیزان اور الفرقان قرآن مجید کی صفت ہے، جو کچھ اس نے بتا دیا ہے وہی الحق ہے۔ اس کا مخالف موقف باطل ہے۔ حق اور باطل کا الوہی میزان قرآن ہے۔ یہ جو کچھ بیان کرتا ہے، وہی حق ہے اور جس کی نفی کرتا ہے، وہی باطل ہے۔ اگر یہ قرآن المیزان اور الفرقان ہے تو کیا صرف مشرکین بنی اسماعیل کے شرک کو یہ باطل بتاتا ہے؟ یا اس کا بیان علی الاطلاق درست ہے؟ اگر قرآن مجید الفرقان اور المیزان ہے تو کیا اس بیان صرف یہود و نصاری کے ان قبائل کے لئے حق ہے جو نزول کے وقت جزیرة العرب میں مقیم تھے یا اس کا “الحق” علی الاطلاق “الحق” ہے اور قیامت اس کے مقابل آنے والا ہر تصور، عقیدہ باطل ہے؟

قرآن مجید “مہیمن” ہے تو جن کتب کو منزل من اللہ یہ خود بتاتا ہے یا دوسری اقوام بتاتی ہیں، ہم ان کی سچائی کو صرف اسی صورت میں قبول کریں گے جب ان کے مندرجات کی تصدیق قرآن مجید کرے گا۔ قرآن مجید جن کتب کے مندرجات کی تصدیق نہیں کرتا، وہ منزل من اللہ ہونے کی لاکھ دعویدار ہوں، ہمارے لئے باطل ہیں۔

قرآن مجید اگر حق و باطل کا میزان، فرقان اور مہیمن ہے تو قیامت تک یہی میزان، فرقان اور مہیمن ہے اور اس میزان، فرقان اور مہیمن ہونا، زمان و مکان کی قید کے مقید نہیں ہے۔ یہ علی الاطلاق “الحق” کا میزان، فرقان اور مہیمن ہے۔

اختلاف قرآت کی بابت غامدی صاحب کا موقف اپنی تفصیلات اور نتائج کے اعتبار سے بہت دلچسپ ہے۔ بیشتر مواقف کی طرح، ان کا یہ موقف بھی اللہ تعالی کی اسکیم کے ادراک پر مبنی ہے۔ اس سلسلے میں ان کے تمام دلائل روایتی مذہبی نوعیت کے ہیں۔ روایات پر ان کی حرف گیری یا نقد بھی خالصتا روایتی ہے۔

اصل بات یہ ہے: “عبادت” عابد کی صفت ہے اور معبود کی صفت نہیں ہے جس “کتابت” کاتب کی صفت ہے، مکتوب کی نہیں ہے، اسی طرح قرآت بھی، قاری کی صفت ہے، مقروء کی صفت نہیں ہے۔ نادانوں نے قرآت کو قاری کے بجائے مقروء کی صفت بنا دیا ہے اور قرآن مجید کی کئی قرآتیں بنا ڈالی ہیں۔ ان روایات کا محتاط مطالعہ کیا جائے، جن میں قرآن مجید کی مختلف قرآتوں کا ذکر ہے تو آپ باآسانی سمجھ جائیں گے کہ پڑھنے والوں کی مجبوری پیش نظر تھی۔ قرآن مجید کی قرآتیں مختلف نہیں تھیں۔ عام مشاہدہ ہے، بعض افراد بعض الفاظ ادا نہیں کر سکتے۔ محنت و مشقت کے باوجود بھی وہ تلفظ کی صحت حاصل نہیں کر پاتے۔ ایسے افراد کو مجبور کرنے سے روکا گیا ہے اور بر بنائے مجبوری آن غلط تلفظ کو بھی سند جواز فراہم کی گئی ہے۔ لیکن نئے علوم ایجاد کرنے کے شوق نے مسلمان علماء کو ایسے ایسے علوم ایجاد کرا دئیے، جن کی ضرورت علمی تھی اور نہ اہمیت دینی تھی۔

قرآن مجید میں قرآت کا اختلاف پڑھنے والوں کا مسئلہ ہے، یہ قرآن مجید کی صفت نہیں ہے۔ قرآت قاری کی صفت ہوتی ہے اور مقروء یعنی قرآن مجید کی صفت نہیں ہو سکتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے؛ اتنی سی بات پر توجہ نہ کرنے کے نتیجے میں پورا ایک ڈسپلن کھڑا کر دیا گیا ہے۔

“محکم اور متشابہ” کے متعلق غامدی صاحب کا موقف صرف قلت تتبع کا ہی نہیں، قلت تفحص کا بھی منہ بولتا ثبوت ہے۔ معنی پر بیان کی دلالت محکم ہوتی ہے تو وہ کثرت معنی کا حامل ہوتا ہے اور متحمل ہوتا ہے۔ لیکن جب معنی پر بیان کی دلالت متشابہ ہوتی ہے تو مدلول کا تعین قرآئن کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یہ تعین تاویل کہلاتا ہے۔ لہذا متشابہ کو جب تک موول نہ بنا دیا جائے اس وقت تک اس کی دلالت متشابہ ہوتی ہے۔ “متشابہ الدلالہ” کو جب تک موول نہ بنا دیا وہ ظنی الدلالہ ہوتا ہے اور نہ قطعی الدلالہ ہوتا ہے بلکہ صرف “متشابہ الدلالہ” ہوتا ہے۔ لیکن متشابہ الدلالہ کی تاویل جب کر دی جاتی ہے اور اس کا معنی یا مدلول متعین کر دیا جاتا ہے تو یہ معنی یا مدلول “ظنی” ہوتا ہے۔

غامدی صاحب پہلے تو متشابہ کا معنی سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ وہ دلالت کے اشتباہ کو مدلول کا اشتباہ فرض کر لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: متشابہات صرف وہ آیات ہیں، جن میں آخرت کی نعمتوں اور نقمتوں کو تمثیلی و تشبیہی انداز میں کیا گیا ہے۔

غامدی صاحب کے بیان سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ دلالت کے اشتباہ کو مدلول کا اشتباہ سمجھ رہے ہیں۔ متشابہات اگر آیات ہیں تو ان کی دلالت مشتبہ ہو گی، مدلولات کیسے مشتبہ ہو سکتے ہیں؟

تشبہ کی تین شکلیں ہوتیں ہیں۔ ایک “تشبہ دالی” ہوتا ہے، ایک “تشبہ مدلولی” ہوتا اور ایک “تشبہ دلالت” میں ہوتا ہے۔ آیات متشابہات میں تشبہ دالی ہے اور نہ مدلولی ہے، بلکہ یہاں تشبہ دلالت میں ہے۔ اس نوع کا علمی تجزیہ بعض طبائع پر یقینا گراں ہو گا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ غامدی صاحب آیات متشابہات کو شروع ہی میں موول بنا لیتے ہیں کہ وہ آخرت کی نعمتوں اور نقمتوں کو تمثیلی و تشبیہی انداز میں بیان ہے۔ آگے کسی تاویل کی اب ضرورت ہی نہیں ہے، اس لئے کہ یہاں موول کو موول بنانے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ حالانکہ اللہ تعالی نے متشابہات کی تاویل سے منع فرمایا گیا ہے۔ ان کے اصل معنی و مدلول کو متعین کرنے کے درپے ہونے سے منع فرمایا ہے۔

غامدی صاحب فرماتے ہی: آیات متشابہات کے معنی کو سمجھنا ممکن ہے، ان کے حقیقت اللہ کے سواء کوئی نہیں جانتا۔ تاویل کا معنی حقیقت کرتے ہیں۔ یہاں حقیقت سے ان کی مراد مابعدالطبیعاتی تصور ہے، زمانی و مکانی حقیقت نہیں ہے۔ حالانکہ حکم یہ ہے: متشابہ کو موول بنانے کے پیچھے پڑنے والے فتنہ پرور ہوتے ہیں۔ متشابہ الدلالہ کی ایک مثال خود اس آیت میں بھی موجود ہے، جیسے “راسخون فی العلم” آیات متشابہات کا علم رکھتے ہیں یا نہیں رکھتے؟ اب “راسخون فی العلم” کو متشابہات کا علم ہے اور علم نہیں ہے، ان دونوں باتوں میں سے جو بھی موقف اختیار کیا جائے گا، وہ تاویل ہی ہو گا۔

غامدی صاحب قرآن و حدیث کے متعلق یہ موقف اختیار فرماتے ہیں:حدیث قرآن کی محدد و مخصص نہیں ہے۔ جہاں کہیں ایسا معلوم ہوتاہے کہ حدیث نے قرآن مجید کی تحدید و تخصیص کی ہے، وہ کتاب اللہ کی تخصیص و تحدید نہیں ہے بلکہ فطرت کا بیان ہے۔ وحی گویا عقل کی اور عقل وحی کا تسلسل اور توسیع ہے، متصادم و متزاحم نہیں ہے۔ وہ فرماتے ہیں:یہ غلط فہمی، سوء فہم اور قلت تدبر کا نتیجہ ہے جو قرآن مجید کے بعض اسالیب اور بعض آیات کے موقعہ و محل کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوئی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی نوعیت واضح نہ ہونے کے باعث پیدا ہوئی ہے۔

ہم غامدی صاحب کی اس نوع کی شاعرانہ تعلیوں کو اپنی تنقید کا موضوع نہیں بنانا چاہیے جن میں اپنی عربی دانی اور ہمہ دانی کا وہ مظاہر فرماتے رہتے ہیں۔ ہم ان کے اصل موقف کی جانچ تک خود کو محدود رکھنا چاہیے ہیں۔ لہذا اس علمیاتی انتقاد کی حدود بالکل واضح رکھنی ضروری ہیں۔

غامدی فرماتے ہیں:کھانے پینے کی چیزوں میں نبی علیہ السلام کی احادیث میں جو حلت و حرمت آئی ہے، وہ درحقیقت “حکم شریعت” (حکم اللہ) نہیں ہیں بلکہ بیان فطرت ہے۔ وہ فرماتے ہیں:جانوروں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک انسان کے کھانے کے قابل ہیں اور دوسرے اس لئے کھانے کے قابل نہیں کہ ان سے تزکیہ نفس حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ غامدی صاحب کی پیش کردہ تقسیم اللہ کے حلال کردہ جانوروں اور اللہ کے حرام کردہ جانوروں پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس تقسیم کی اساس، فطری عقل ہے یا عقلی فطرت ہے۔ نیز اس تقسیم کی بنیاد صرف انسانی عقل بھی نہیں ہے اور نہ ہی صرف انسانی فطرت ہے۔ آپ عقل کی بنیاد پر اس تقسیم کو باآسانی چیلنج کر سکتے ہیں اور فطرت کی بنیاد پر بھی بلاتردد رد کر سکتے ہیں۔ عقلی فطرت اور فطری عقل ایسا دو مارا ہے کہ آپ فطرت پر کھڑے ہو کر عقل فیصلے کو اور عقل کے پیچھے کھڑے ہو کر فطرت کو باآسانی نشانہ بنا سکتے ہیں۔

غامدی صاحب کہتے ہیں؛ اس میں شبہ نہیں کہ فطرت کبھی کبھی مسخ بھی ہو جاتی ہے۔ ہماری گزارش یہ ہے کبھی کبھی صرف فطرت ہی مسخ نہیں ہوتی، عقل بھی کبھی کبھی مسخ ہو جاتا ہے۔

وہ فرماتے ہیں: بعض جانوروں کا گوشت کھانے سے تزکیہ پر اثر پڑتا ہے اس لئے ان سے ابا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ کیا واقعتا جن جانوروں کے گوشت سے میری یا آپ کی طبیعت یا فطرت ابا کرتی ہے، وہ “تزکیہ نفس” پر اثرانداز ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے؟ یہ تصور کہاں سے آیا ہے کہ “ماس خوری” تزکیہ نفس کے منافی ہے؟ “تنزیلات ربانیہ” میں تو ایسی کوئی بات نہیں آئی ہے۔ ہندو مت میں البتہ “ماس خوری” کے متعلق یہ تصور ضرور پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایک سچا ویدانتی (ہندو) عمر بھر گوشت نہیں کھاتا اور گھاس پھوس کھاتا رہتا ہے۔ اسلام میں تزکیہ پر اثرانداز ہونے والی شے صرف ایک ہے اور وہ اللہ کے حلال کردہ کو حرام کرنا اور اللہ حرام کردہ حلال کرنا ہے اور بس۔

انسان کو اللہ تعالی نے انسان بنایا ہے، اس کی طبیعت و فطرت پہلے سے بنی بنائی ہے۔ انسان اپنی اسی پہلے سے بنی بنائی فطرت کی بنیاد پر اللہ کے حکم کا مخاطب ہے۔ لیکن اللہ نے جن باتوں کا حکم دیا ہے، وہ حکم ہی ان باتوں کے بارے میں اصل الاصول ہے۔ انسان کا ذہنی الجھاؤ اللہ کے حکم کا سبب نہیں ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالی نے جن جانوروں کو حرام فرمایا ہے، وہ درحقیقت انسان کے لئے “خنثہ مشکلہ” تھے، جیسا کہ غامدی صاحب نے منزل من اللہ حرام جانوروں کے متعلق موقف اختیار فرمایا ہے۔ وہ کہتے ہیں:

چنانچہ شریعت کا موضوع اس باب میں صرف وہ جانور ہیں جن کا فیصلہ انسان تنہا عقل سے نہیں کر سکتا تھا جیسے خنزیر ہے، جو گوشت بھی کھاتا ہے اور گھاس بھی کھاتا ہے یعنی درندہ بھی ہے اور مویشی بھی ہے۔

میں حیران ہوں یہ کس قدر لغو موقف ہے! کیا اس زاویہ نگاہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماں اور بہن سے نکاح اس لئے حرام کیا گیا ہے کہ ان میں بھی انسان فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا؟ فطرت و عقل ماں، بہن اور بیٹی سے نکاح کرنے اور نہ کرنے میں رہنمائی دینے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی تب اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ تم پر تمہاری مائیں، بہنیں ۔ ۔ ۔ ۔ حرام ہیں؟

غامدی صاحب کا موقف یہ ہے: عقل و فطرت کی روشنی میں جن سوالوں کا جواب دینا مشکل تھا، اللہ نے اپنے نبیوں کے ذریعے ان کے متعلق رہنمائی انسان کی فرمائی ہے۔ گویا وحی مستقل بالذات منبع ہدایت نہیں ہے بلکہ انسان کی فطری کمی و کوتاہی کا ازالہ ہے۔

گزارش ہے: نبوت و رسالت طفیلی شے نہیں ہے بلکہ مستقل بالذات منبع ہدایت ہے۔ انسان کی کمی کوتاہی کا ازالہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی کے سامنے بالارادہ سرنڈر کرنے کا امتحان ہے۔ جو انسان بالارادہ حکم اللہ کے آگے غیرمشروط اطاعت و اتباع کے لئے تیار ہو جاتا ہے، وہی حق اور ہدایت پر ہوتا ہے۔

حدیث کے متعلق غامدی صاحب کا موقف حیران کن حد تک التباس گزیدہ ہے۔ یہ کہنا کہ احادیث سے جو احکام ثابت ہوتے ہیں، “کتاب اللہ” کی تخصیص و تحدید نہیں کرتے، بلکہ ان کی نوعیت اور ہے۔ حدیث سے آگہی رکھنے والے کے لئے از حد لایعنی موقف ہے۔ اس پر تفصیل سے ہم اگلی قسط میں عرض کرتے ہیں۔ سردست کھانے پینے کی اشیاء کی حلت و حرمت کے باب میں غامدی صاحب موقف پر مزید کچھ عرض کرنا ہے۔

اللہ تعالی قرآن مجید میں کچھ کاموں کو کرنے کا حکم دیا ہے، یہ “مامور بہ” امور کہلاتے ہیں، کچھ کاموں کو نہ کرنے کا حکم دیا ہے، یہ “منہی عنہ” کہلاتے ہیں دیگر تمام کاموں کو انسان پر چھوڑ دیا ہے، یہ “مخیر فیہ” کہلاتے ہیں:

١ – احلت لکم بہیمة الأنعام ( مامور بہ ہے)

٢ – حرمت علیکم میتیة و الدم و لحم الخنزير و ما اهل به لغير الله ( منہی عنہ ہے)

٣ – ما سواء سب کا سب ( مخیر فیہ ہے)

چونکہ غامدی صاحب کی دینی فکر میں وحی کی ممتاز و منفرد حیثیت نہیں ہے بلکہ وہ عقل و فطرت کا تتمہ و تکلہ ہے۔ جس کے باعث وہ منزلات کو مستنبطات سے الگ نہیں کرتے بلکہ انہیں ایک ہی صف کے ممبر بنا کر سوچتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

حدیث میں جن چیزوں کو حرام بتایا گیا ہے، وہ درحقیقت بیان فطرت ہیں اور خدا کی شریعت (یعنی وحی) سے اس کا ٹکراو نہیں ہے۔ گویا فطرت جن باتوں کو حرام کرتی ہے وہ شریعت کی حرام کردہ چیزوں سے نہیں ٹکراتیں، بلکہ اسی کا تسلسل یا توسیع ہے۔ یعنی تنزیل، روایت کا اور روایت، تنزیل کا تسلسل اور توسیع ہیں۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…