نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش، منگولوں کے حملے، اور صلیبی جنگوں جیسے مصائب معلوم و معروف ہیں، اور ان میں مضمر خطرات کی سنگینی سے مسلمان بالعموم باخبر ہیں۔ یوروپی استعمار زہرناکی میں ان فتنوں سے بڑھ کر تھا۔ مغربی استعمار کا تہذیبی...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط ششم)
جاوید احمد غامدی اور بنو امیہ کے سرکاری بیانیہ کی ترجمانی
عامر حسینی جاوید احمد غامدی صاحب کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ اس ویڈیو میں ان سے حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ اور معاویہ ابن ابی سفیان کے بارے میں سوال ہوا کہ کس کا موقف درست تھا۔ اس کے جواب میں انھوں نے جو گفتگو کی اس کا لب لباب یہ تھا:۔ غامدی...
حدیثِ عمار رضی اللہ عنہ
ایڈمن آف اسلام اینڈ ڈائورسٹی حدیث نبوی، حدیث عمار (رض) ہمارے لئے قطعی نص ہے اور رسول اللہ (ع) کی نبوت کی واضح نشانیوں میں سے ہے اور ہمارے لئے خط احمر کا درجہ رکھتی ہے،اس پر تشکیک کرنے والا ہمارے نزدیک ضال ومضل ہے – غامدی صاحب نے اس صحیح حدیث کا انکار کر کے اپنی ناصبیت...
امام النواصب جاوید غامدی
احمد الیاس ہر ضلالت کی طرح ناصبیت بھی اپنی ہر بات کی تردید خود کرتی ہے۔ ایک طرف یہ ضد ہے کہ سسر اور برادر نسبتی کو بھی اہلبیت مانو، دوسری طرف انتہاء درجے کی بدلحاظی اور بدتمیزی کے ساتھ امام النواصب جاوید غامدی کہتے ہیں کہ داماد اہلبیت میں نہیں ہوتا لہذا علی بن ابی...
سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی سیاسی اہلیت کا تقابل
محمد فہد حارث محترم جاوید احمد غامدی کے سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کے شخصی فضائل و سیاسی اہلیت کے تقابل سے متعلق ایک ویڈیو بیان کو لیکر آج کل کافی شور مچا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم اس ویڈیو کے سلسلے میں جناب جاوید احمد غامدی صاحب کی شخصیت پر تبصرہ کریں جیسا کہ بیشتر...
کیا سیدنا علی کوئی مغلوب حکمران تھے ؟
شاہ رخ خان غامدی صاحب سیدنا علی -رضی اللہ عنہ- کی حکومت کے متعلق یہ تاثر دیے چلے آ رہے ہیں کہ سیدنا علیؓ اپنی سیاست میں ایک کمزور حکمران تھے۔ جب کہ ابھی تک یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ موصوف کے نزدیک سیاست کس چیز کا نام ہے؟ اگر غلبہ کی بات کی جائے تو وہ تو سیدنا علیؓ...
ڈاکٹر خضر یسین
غامدی صاحب کی دینی فکر اور اس کے پورے تنظیمی ڈھانچے کو سمجھنا خاصہ دشوار کام ہے کیونکہ ان کا بیان ایک منظم فکر کی ضرورت کو پورا کرتا ہے اور نہ دین اور دینی شعور کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے۔ ممکن ہے، میرا یہ تبصرہ بعض احباب کو سخت گیری کا مظہر لگے۔ لیکن علمی دیانت کے ساتھ جن لوگوں نے غامدی صاحب کی دینی فکر کا مطالعہ کر رکھا ہے، میری معروضات کی صداقت کا انکار نہیں کر سکتے۔ میں امید کرتا ہوں، جو اصحاب علم بھی میری ان معروضات کا مطالعہ کریں گے، وہ بھی میرے اس بیان کی صداقت جان لیں گے۔
اصول و مبادی کی بحث میں غامدی صاحب تدبر قرآن، تدبر سنت اور تدبر حدیث کے مبادی پر مفصل بحث کرتے ہیں۔ اپنے تدبر کے دوران وہ اپنے موقف کے مقدمات اور انتہائی نتائج سے بالکل بے نیاز رہتے ہیں اور پوری فراخ دلی کے ساتھ اپنے ہی نتائج فکر کی نفی کرتے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم ان کے تدبر قرآن کے مبادی کو زیر بحث لاتے ہیں۔
ان کے نزدیک قرآن مجید ام القری کی عربی معلی ہے جو اس دور جاہلیت میں قریش بولا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت کو لافانی معجزہ بنا دیا ہے لیکن یہ اہل مکہ کی زبان تھی، جزیرہ العرب کے دیگر علاقوں اور قریوں میں بولی جانے والی “عربی” نہیں تھی۔
اگر آپ غامدی صاحب کے بیان پر غور فرمائیں گے تو یہ بات بہت آسانی سے سامنے آئے گی کہ قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت درحقیقت جزیرہ العرب میں بولی جانے والی عربی زبان کی فصاحت و بلاغت نہیں تھی بلکہ قریش میں بولی جانے والی زبان کی فصاحت و بلاغت کا ایک نمونہ تھی۔ غامدی صاحب جب یہ فرماتے ہیں:”لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے یہ وہی زبان ہے جو خدا کا پیغمبر بولتا تھا اور جو اس زمانے میں اہل مکہ کی زبان تھی”۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اس نشاندہی کی یہاں کیا ضرورت ہے؟ الا یہ کہ قرآنی فصاحت و بلاغت کو اہل مکہ کے زبان و بیان کی صفت سمجھانا مقصود ہو۔ بالفرض “ام القری” کی زبان جزیرة العرب میں بولی جانے والی زبان سے قابل لحاظ حد تک ممتاز و منفرد تھی تو پھر قرآنی فصاحت و بلاغت کو صرف اسی کی صفت قرار دینے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ لیکن خود غامدی بھی دوسرے ماہرین لسانیات کی طرح اس بات کے یقینا قائل نہیں ہوں گے کہ قرآنی فصاحت و بلاغت صرف ام القری کی زبان کی صفت ہے۔
آگے چل کر وہ فرماتے ہیں:قرآن مجید کی عربی وہ نہیں ہے جو حریری و متنبی اور زمخشری و رازی نے لکھی ہے۔ اسی طرح قرآنی عربی دور جدید کے صحافیوں اور ادیبوں والی عربی بھی نہیں ہے۔ قرآن مجید ان کے بقول عربی معلی ہے۔ ام القری کی عربی اور جزیرہ العرب کے دیگر علاقوں میں بولی جانے والی عربی زبان کا فرق واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں
قرآنی عربی میں اور اس کے سواء عربی میں لب و لہجہ، اسلوب و انداز اور الفاظ و محاورات میں کم و بیش وہی فرق ہے جو مثال کے طور پر میر و غالب اور سعدی و خیام کی زبان اور ہمارے اس زمانے میں ہند و ایران کے اخبار و جرائد اردو اور فارسی میں ہے۔
غامدی صاحب کا مطلب ہے؛ قرآن مجید جس لب و لہجے اور الفاظ و محاورات میں ہے، اب وہ متروک ہو چکے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے: قرآن مجید جس فصاحت و بلاغت کا دعویدار ہے، وہ بھی اب از کار رفتہ ہو چکی ہے۔ قرآن مجید فصاحت و بلاغت کا لافانی معجزہ ضرور ہے لیکن فصاحت و بلاغت کا معاصر معیار وہ نہیں ہے جو نزول قرآن کے وقت تھا۔ لہذا یہ صرف اسی معنی میں معجزہ ہے۔
میری گزارش ہے:قرآن مجید صرف لفظا محفوظ نہیں چلا آتا، معنی کے اعتبار سے بھی محفوظ چلا آ رہا ہے۔ الأمة نے اس کے الفاظ کو ہی نہیں، اس کے معنی کو بھی مستحضر رکھا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا بیان اور متعلقات بیان آج تک پوری آب و تاب کے ساتھ محفوظ و مامون ہے۔ قرآن مجید جس عربی زبان میں نازل ہوا ہے، وہ صرف قریش کی زبان نہیں تھی، اس زبان کے معنی اور بیان کے متعلقات سے تمام عرب یکساں آگاہ تھے۔
بالفرض غامدی صاحب کی یہ بات درست ہے اور اہم بھی ہے کہ قرآن مجید ام القری کے لب و لہجہ میں نازل ہوا تھا، یہ مخصوص علاقے اور مخصوص قبیلے میں بولی جاتی تھی یعنی ام القری کے باسی قریش کی زبان تھی۔ مجھے ایک بات سمجھنے خاصی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وہ دشواری یہ ہے: عرب وہ قوم تھی جو اپنے چھوٹے سے چھوٹے امتیاز کو پورے فخر اور مباہات کے ساتھ بیان کرتی اور بڑھا چڑھا کر اسے پیش کرتی تھی۔ آخر یہ راز ام القری کے باسیوں پر کیوں منکشف نہیں ہوا کہ قرآن مجید ایسی فصیح و بلیغ کتاب ان لب و لہجے میں نازل ہوئی ہے اور نہ ام القری سے باہر رہنے والوں پر یہ راز نہ کھل سکا کہ قرآن مجید ہمارے لہجے میں نہیں ہے تو اسے فصاحت و بلاغت کے اعلی درجے پر فائز ماننے سے انکار کر دیں۔ غامدی صاحب کی طرح، عرب تہذیب و ثقافت سے واقف لوگوں کے لئے یہ انہونی بات نہیں ہے کہ عرب اپنی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بڑا بنا کر پیش کرنے میں ماہر تھے اور دوسرے قبائل کی بڑی سے بڑی فضیلت کو بھی پامال کرنے میں تردد نہ کرتے تھے۔
واقعہ یہ ہے:علمی انکوائری غیرضروری حد تک پھیلا دی جائے تو اس نوع کی غیرمتعلق باتیں، تحقیق کا شاہکار متصور ہوتی ہیں۔ جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہوتا یا قابل التفات نہیں ہوتا۔
غامدی صاحب جس روایت فکر کے امین ہیں، اس کا سارا زور زبان و بیان پر رہتا ہے اور جن مسائل پر توجہ مرتکز کی جاتی ہے، علمی اعتبار سے یقینا اہم ہوں گے مگر دینی اعتبار ان کی اہمیت خاصی مخدوش ہوتی ہے۔
غامدی فرماتے ہیں:قرآن مجید کی لفظی اور معنوی مشکلات کے حل میں احادیث کا ذخیرہ، اگرچہ روایت بالمعنی ہونے کی وجہ سے، اس کا بہت تھوڑا حصہ قابل اعتبار رہے گیا ہے۔ تاہم قرآن مجید جس زبان میں نازل ہوا تھا اس کا نمونہ اس میں اہل ذوق کے لئے متاع بے بہا ہے۔
سوال یہ ہے:کیا قرآن مجید واقعتا اتنا مشکل اور پیچیدہ کتاب ہے، جس میں لفظی مشکلات کے ساتھ معنوی مشکلات بھی پائی جاتی ہیں؟ اور جب تک آپ جاہلی ادب سے لیکر معاصر عربی ادب تک واقف نہیں ہو لیتے، بلکہ قابل لحاظ حد تک مہارت حاصل نہیں کر لیتے، اس کو نہیں سمجھ سکتے؟
غامدی صاحب فرماتے ہیں:اہل جاہلیت کا کلام عرب تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار ہے، جس کا صحیح تصور اگر ذہن میں موجود نہ ہو تو قرآن مجید میں اشارہ و تلمیح اور تعریض و کنایہ کے ان اسالیب کو سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے جو اس شہ پارہ ادب کا اصل سرمائے بلاغت ہے۔ سوال یہ ہے؛ قرآن مجید کو ادب کا شہ پارہ سمجھ کر پڑھنا ہے یا الوہی ہدایت مان کر اتباع کرنی ہے؟
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں، اب اسے دہرا دیتا ہوں؛ الأمة کی ہستی “نبوت” سے قائم ہے اور “نبوت” کتاب و سنت میں مقید و محدد ہے۔ چنانچہ خود الأمة کا وجود نبوت کا حامل و عامل ہے۔ الأمة نے قرآن مجید کے صرف الفاظ ہی نہیں، اس کے معنی بھی اسی طرح محفوظ رکھے ہوئے ہیں جیسے اس کے الفاظ حفظ کر رکھے ہیں۔ قرآن مجید کے الفاظ جس معنی پر دلالت کرتے ہیں اور جو معنی اس کے الفاظ کا مدلول ہیں، دونوں نقل الكافة عن الكافة ہیں۔ اختلاف کا مبداء نقل الفرد المشخص عن الفرد المشخص ہے۔ الوہی الفاظ کو غیرالوہی معنی دینا، جس طرح الأمة کے نزدیک غیرایمانی حرکت ہے اسی طرح غیرالوہی معنی کے لئے الوہی الفاظ کو ظرف بنانا بھی غیرایمانی حرکت ہے۔
میں کہتا ہوں: عربی زبان سیکھنا مسلمان کے لئے ام الفراض ہے۔ لیکن اس کا مطلب، عرب تہذیب و ثقافت میں مہارت نہیں ہے۔ قرآن مجید انتہائی سہل زبان میں بیان ہوا ہے۔ اس کی “ادبیت” کو سراہانا، اتنا اہم نہیں ہے جتنا ہدایت مان کر اس کی اتباع ضروری ہے۔ روایتی علماء میں ایک بات خاصی مشہور ہے۔ قرآن مجید پڑھنے اور سمجھنے کے لئے اٹھارہ علوم پر مہارت ضروری ہے۔ جب تک ان علوم پر آپ عبور حاصل نہیں کر لیتے، وہ کہتے ہیں: قرآن مجید مت کھولو۔ صرف علماء کی اندھی پیروی کرو۔ محترم غامدی صاحب نے بالکل وہی پوزیشن اختیار کی ہے۔ لیکن ان کے اٹھارہ علوم کا تعلق صرف اور صرف لسانی علوم سے ہے۔ اب جو عربی سے اس اعلی درجہ سے واقف نہیں ہے، جس کا مطالبہ غامدی فرماتے ہیں، اسے صرف غامدی کے ترجمے پر ایمان بالغیب رکھنا ہے اور ان تفسیر کو حرف آخر ماننا ہے۔
زبان و بیان کی نسبت غامدی صاحب بعض اوقات حیران کن موقف اختیار کرتے ہیں۔ لسانیات کا طالب علم ان کی باتیں یا وضاحتیں پڑھ حیران رہ جاتا ہے۔ قرآن مجید کی عربی کے متعلق فرماتے ہیں
قرآن مجید صرف عربی میں نہیں، عربی مبین میں نازل ہوا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں کوئی لفظ و اسلوب شاذ ہے اور نہ غرابت گزیدہ ہے۔ بظاہر اس موقف کا مقصد ہندوستان میں بعض علماء کے تراجم رد کرنا معلوم ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں
“والنجم و الشجر یسجدان”، “النجم” سے مراد ستارہ ہے اور جھاڑی یا بوٹی مراد نہیں ہے۔ “الا اذا تمنی القی الشیطان” میں “تمنی” سے مراد خواہش و ارمان ہے اور پڑھنا نہیں ہے۔ “کانھن بیض مکنون”، “بیض” سے مراد انڈے ہیں اور انڈے کی چھپی ہوئی جھلی نہیں ہے۔ “افلا ینظرون الی الابل کیف خلقت”، الابل سے مراد اونٹ ہے اور بادل نہیں ہے۔ اسی طرح “فصل لربك و انحر”، انحر سے مراد قربانی ہے اور سینے پر ہاتھ باندھنا نہیں ہے۔
لفظ و اسلوب کا شاذ ہونا، ایک مستقل بحث ہے، ہم اس بحث میں یہاں نہیں پڑتے۔ لیکن چند ایک گرازشات عرض کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ جہاں تک لفظ کا تعلق ہے تو اس کی معنوی جہت کا تعین شاذ یا غرابت بیان نہیں کرتی بلکہ سیاق کلام کا نظم اس کا سزاوار ہوتا ہے۔ ایک لفظ کے دس معنی ہو سکتے ہیں لیکن جب وہ سیاق کے نظم میں آتا ہے تو سیاق کلام کا نظم ایک جبر پیدا کرتا ہے، جس سے لفظ کی معنوی جہت متعین ہو جاتی ہے۔ سیاق کلام سے باہر لفظ کا قلیل الاستخدام معنی شاذ ہوتا ہے۔ لیکن سیاق کلام کا نظم متکلم اور مخاطب کے ذہن، لفظ کی معنوی غرابت کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتا۔ سیاق کلام کے نظم کو خاطر میں نہ لایا جائے تو زبان و بیان کے لایعنی اور لاینحل مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔
محترم غامدی صاحب نے اوپر دو مثالیں ایسی دی ہیں، جن پر وہ خود غالبا متوجہ نہیں ہوئے۔ اپنے اساتذہ گرامی کی ان دیکھی تقلید ہی کی ہے اور اصل مسئلے کی طرف خود متوجہ نہیں ہوئے۔
“النجم” کا ایک معنی بوٹی یا جھاڑی ہے اور ایک معنی ستارہ بھی ہے۔ لیکن “والنجم و الشجر” کی ترکیب میں النجم سے ستارہ مراد لینا، خود اسلوب کی غرابت ہے اور دوسری طرف لسانی ذوق کے گلے پر چھری پھیرنے کے برابر ہے۔ جہاں تک لفظ “تمنی” کا تعلق ہے تو اس مراد ارمان اور خواہش لینا یہاں ممکن ہی نہیں ہے۔ اگر اس آیت میں “تمنی” سے خواہش مراد ہے تو نبی کی خواہش میں شیطانی القاء، مریض القلوب افراد کے لئے فتنہ کیسے بن سکتا ہے؟ سیاق کلام کا نظم واضح طور پر بتا رہا ہے کہ “تمنی” کے معنی یہاں پر پڑھنے کے ہی ہیں۔
قرآن مجید اسلوب بیان و بلاغت بیان کے لحاظ سے اعلی درجے کا متن ہے۔ ایک اعلی و ارفع اسلوب بلاغت میں الفاظ کا شاذ معنی استعمال نہیں کیا جاتا، یہ غامدی صاحب اور ان کے اساتذہ گرامی کی خام خیالی ہے۔ شذوذ و مستثنیات بلاغت کے ہمیشہ منافی نہیں ہوتے بلکہ بعض اوقات تو شذوذ و مستثنیات فصاحت و بلاغت کی بہت اہم ضرورت بن جاتے ہیں۔
غامدی صاحب اور ان اساتذہ گرامی کی باتیں بعض اس قدر باہم متناقض ہوتی ہیں، میرا جیسا طالب علم پریشان ہو جاتا ہے۔ ایک طرف ان حضرات کا دعوی ہے کہ قرآن مجید کا بیان واضح اور دو ٹوک ہے، دوسری طرف انہیں یہی واضح بیان، تفسیر کا محتاج بھی نظر آتا ہے۔ معلوم نہیں یہ کونسا کشف و وضوح ہے جو تفسیر کا محتاج بھی ہے؟
غامدی صاحب اور ان کے اساتذہ گرامی کے ہاں قرآن مجید کے متعلق یہ سوچ پروان چڑھتی ہے کہ قرآن مجید کی تفسیر کیسے کی جائے؟ وہ یہ کبھی نہیں سوچتے : کیا قرآن مجید تفسیر کا محتاج ہے بھی؟
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
جاوید غامدی کی تکفیری مہم: وحدت الوجود اور دبِستانِ شبلی
نادر عقیل انصاری اسلامی تاریخ میں یونان و روم کے فکری تصورات کی یورش،...
اتہامِ انکارِ حدیث اور غامدی حلقے کی پہلو تہی
محمد خزیمہ الظاہری غامدی حلقہ انکار حدیث کی صاف تہمت سے اس لئے بچ نکلتا...
انتقالِ دین میں تواتر کی شرط اور خوارج و روافض
محمد خزیمہ الظاہری دین و شریعت کے قابلِ قبول ہونے کے لئے تواتر کی شرط...