ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ وجود باری پر یقین رکھنا بدیہیات میں سے ہے، لہذا متکلمین دلائل دے کر بے مصرف و غیر قرآنی کام کرتے ہیں۔ یہاں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی کتاب "فلسفے کے بنیادی مسائل قرآن مجید کی روشنی...
غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)
داڑھی کی بابت جاوید احمد غامدی صاحب کے مؤقف کا جائزہ
مولانا نیاز محمد مروت صاحب جناب جاوید غامدی صاحب نے مردوں کے داڑھی رکھنے کے معمول چلے آنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داڑھی رکھنے کی عادت کا اعتراف کیا ہے ، جو کہ حق بات ہے، بشرطیکہ طبعی عادت کے طور پر نہیں، بلکہ معمول کے طور پر داڑھی رکھنا مراد ہو، چنانچہ اس پر...
تفہیمِ غامدی ، خبرِ واحد اور تصورِ سنت
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب تلخیص : زید حسن اس ویڈیو میں سپیکر حافظ محمد زبیر صاحب نے " بعض افراد" کے اس دعوے کہ آپ کی تفہیمِ غامدی درست نہیں ، کو موضوعِ بحث بنایا ہے ۔ لیکن اس پر از راہِ تفنن گفتگو کرنے کے بعد چند اہم مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے اور غامدی منہج پر سوالات...
تراویح کے متعلق غامدی صاحب کے غلط نظریات کا رد
ڈاکٹر نعیم الدین الازہری صاحب تلخیص : زید حسن رمضان المبارک کی بابرکت ساعات میں امتِ مسلمہ روزے اور عبادات میں مشغول ہے ، لیکن سوشل میڈیا پر چند ایسی آوازیں گاہے بگاہے اٹھتی نظر آتی ہیں جن میں ان عبادات کا انکارکیا گیا ہے جن پر امتِ مسلمہ ہزاروں سالوں سے عمل کرنی چلی...
ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت
سمیع اللہ سعدی علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فتاوی شامی میں متعدد مقامات پر مسئلہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :۔و ھذا مما یعلم و یکتم یعنی یہ مسئلہ سیکھنا تو چاہیے ،لیکن عممومی طور پر بتانے سے گریز کیا جائے ۔فقاہت اور دین کی گہری سمجھ کا یہی تقاضا ہے کہ کتابوں میں...
علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب جناب غامدی صاحب علم کلام پر ماہرانہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ علم بے معنی و غیر ضروری ہے اس لئے کہ یہ فلسفے کے اس دور سے متعلق ہے جب وجود کو علمیات پر فوقیت دی جاتی تھی، علم کلام وجودی فکر والوں کے طلسم خانے کا جواب دینے کے لئے وضع کیا...
ڈاکٹر خضر یسین
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، خاتم الوحی ہے اور آنجناب علیہ السلام کی ذات، خاتم النبیین ہیں۔ قرآن مجید کے بعد نہ ایسی وحی ممکن ہے جو انسانیت پر واجب الایمان و العمل ہو اور نہ آنجناب علیہ السلام کے بعد کوئی نبی و رسول ممکن ہے۔ آنجناب علیہ السلام پر نازل ہونے والی میں آنے والے تمام اخبار “منزل من اللہ” ہیں، ان کی فہرست میں کمی بیشی ممکن ہے اور نہ “منزل احکام” کی فہرست میں ترمیم و تنسیخ جائز ہے۔ قرآن مجید میں جو خبر نازل ہو چکی ہے، وہ انسان کے متعلق ہو یا آسمان سے تعلق رکھتی ہو، اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ عیسی بن مریم کے وجود کا انکار اسی طرح کفر ہے جس طرح وجود باری تعالی کا انکار کفر ہے۔ ابلیس کے وجود کا منکر بھی کافر ہے اور جبریل کے وجود کا منکر بھی کافر ہے اور دونوں بالکل ایک جیسے کافر ہیں۔
اب اگر :ذریت ابراہیم” علیہ السلام کی حیثیت اسی طرح منتخب من اللہ جماعت کی ہے، جس طرح رسول و نبی انسانوں میں منتخب من اللہ ہوتے ہیں اور یہ قرآن مجید میں آیا ہے تو اس پر ایمان رکھنا اتنا ہی واجب ہے جتنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنا واجب ہے۔
یہاں ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہئے؛ “نبوت” محل الرائے نہیں ہے۔ اگر آپ “تنزیلات ربانیہ” کے حضور اپنی رائے موقوف نہیں کر سکتے تو آپ ایک صاحب ایمان کی طرح سوچنے کے اہل نہیں ہیں۔ “تنزیلات ربانیہ” کے حضور اپنی رائے محفوظ رکھنا تو دور کی بات ہے، یہاں پر اپنی رائے نہ رکھنا ضروری ہے۔
ختم نبوت کے بعد “منزل اخبار و احکام” میں صرف ترمیم و تنسیخ سے ہم دست کش نہیں ہوئے، انہیں اخبار و احکام تک اپنے دین کو مقید و محدد رکھنے کے بھی ہم پابند ہیں۔ اگر “ذریت ابراہیم” ع کی یہ حیثیت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے تو ہم پر ایمانا واجب ہے کہ اس پر ایمان لائیں اور اس کے منکر کو کافر کہیں۔ لیکن اگر یہ محض ایک خیال آرائی ہے یا آیات قرآنی سے ایک انتزاع ہے تو اس کی حیثیت زیادے سے زیادہ “رائے” کی ہے۔
میں نے جیسے پہلے عرض کیا ہے؛ ختم نبوت کے بعد تمام منزل اخبار دینی عقائد ہیں جو پہلے آنجناب علیہ السلام پر واجب الایمان و العمل ہیں اور آنجناب علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں امت پر واجب الایمان و العمل ہیں۔
غامدی صاحب کا ایک تصور جو اسی سلسلے کی اگلی کڑی ہے، وہ امت محمدیہ کے علماء کے متعلق ہے۔ وہ فرماتے ہیں؛ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف کے جانے کے بعد لوگوں کو دین پر قائم رکھنے کے لئے “انذار” وہ واحد ذریعہ ہے، جسے علمائے امت نے کام میں لانا ہے۔ علماء کی ذمہ داری انذار ہے، بشارت کیوں نہیں ہے؟ مجھے اس کا بالکل علم نہیں ہے کہ محترم غامدی صاحب نے یہاں صرف انذار پر کیوں اصرار کیا ہے؟
غامدی صاحب اپنی تحریر و تقریر میں کہیں بھی یہ بات نہیں کرتے؛ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “تنزیلات ربانیہ” کے پہلے مکلف و مخاطب ہیں اور امت آپ علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں بالکل اسی طرح مکلف و مخاطب ہے جس طرح آنجناب علیہ السلام تھے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے غامدی صاحب کے نزدیک امت کا تصور یہ ہے کہ وہ ایک ایسا گروہ ہے، جس کے فرد اول آنجناب علیہ السلام نہیں ہیں۔ امت ایک طرف کھڑی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسری طرف کھڑے ہوئے ہیں۔ امت کا یہ تصور “تنزیل من رب العالمین” کے شایان شان نہیں ہے اور نہ تنزیل کے درست ادراک پر مبنی ہے۔ قرآن مجید نے “یا ایھا النبی” سے شروع ہونے والے خطاب کو جس فراوانی سے “جمع مخاطب” میں بلاتردد بدلا ہے، اس کی روح کے ادراک سے لسانیاتی ذوق رکھنے والے انسان کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔
“الأمة من حيث الأمة” کا غلط تصور، دین اور اس کی ماہیت کو سمجھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ انسانی گروہ جس کے فرد اول آنجناب علیہ السلام نہ ہوں، الأمة کبھی نہیں ہو سکتا۔ امت کے علماء کا وظیفہ “تنزیلات ربانیہ” کو امت کے دوسرے طبقات تک اسی دیانت داری سے پہنچانا ہے، جس دیانت داری کے ساتھ آنجناب علیہ السلام نے پہنچایا تھا۔ جو کچھ اوپر سے نازل ہوا تھا، آنجناب علیہ السلام نے بلا کم و کاست انسانوں کے سامنے رکھ دیا اور پوری دیانت داری کے ساتھ اس پر عمل کیا اور اپنی اطاعت و اتباع کی طرف انسانوں کو دعوت دی۔ جب کوئی عالم “ابلاغ نبوت” کی ذمہ داری کا بیڑا اٹھاتا ہے تو اس کا وظیفہ غیرمعمولی حساس نوعیت کا ہے، اس پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے ادنی درجے کی بھی اس میں مداخلت نہ کرے اور آنجناب علیہ السلام کی طرح پوری دیانت داری کا مظاہرہ کرے۔ اسی طرح جب کوئی مسلمان حکمران بنتا ہے تو اس وظیفہ حکم اللہ کی تعمیل یقینی بنانا ہے جس طرح آنجناب علیہ السلام نے بطور حکمران “حکم اللہ” کی تعمیل و نفاذ یقینی بنایا تھا۔ “الأمة” میں مختلف طبقات ہیں، جو فرد جس طبقے سے تعلق رکھتا ہے، اس پر واجب ہے کہ “تنزیلات ربانیہ” پر اسی طرح عمل کرے جس طرح آنجناب علیہ السلام نے کیا تھا۔
غامدی صاحب کا “تصور دین” روایتی علوم اور علماء سے ماخوذ ہے۔ وہ کہتے ہیں؛ “نبوت” ختم کر دی گئی ہے اور لوگوں کو دین پر قائم رکھنے کے لئے انذار کی ذمہ داری اب قیامت اس امت کے علماء پر ہے، تو دراصل نہ صرف وہ “ابلاغ نبوت” کی حساس ترین ذمہ داری کو نظرانداز کر دیتے ہیں بلکہ “الأمة” کے وجود کا درست ادراک بھی ضائع کر دیتے ہیں۔
اسلام اور ایمان میں بنیادی فرق صرف اتنا ہے کہ الأمة کی تہذیبی ثقافت اسلام ہے اور اس تہذیبی ثقافت کا غائی پہلو ایمان ہے۔ اسلام “الأمة” کا قابل مشاہدہ پہلو ہے اور ایمان الأمة کا اقداری پہلو ہے۔ اسلام کی بنیادیں پانچ چیزوں پر نہیں ہیں، جیسا کہ روایتی علما سمیت غامدی صاحب کا خیال ہے۔ اسلام درحقیقت تمام “منزل اخبار و احکام اور اعمال” یعنی کتاب و سنت پر مبنی ہے۔ جیسا کہ پہلے میں عرض کر چکا ہوں؛ تمام “منزل اخبار” پر ایمان کا اقرار، اسلام ہے، تمام “منزل احکام” کی تعمیل، اسلام ہے اور تمام “منزل اعمال” کی اسی طرح بجا آواری واجب ہے جس طرح سے آنجناب علیہ السلام نے کر کے دیکھائی ہے۔ لیکن غامدی صاحب کا اسلام اسی طرح پانچ چیزوں پر کھڑا ہے جیسا کہ روایتی علماء کا اسلام پانچ چیزوں پر مبنی ہے۔
Appeal
All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!
Do Your Part!
We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!
You May Also Like…
۔”خدا کو ماننا فطری ہے” مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی گفتگو پر تبصرہ
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب علم کلام کو لتاڑنے والے حضرات کی باتوں میں سے ایک یہ...
ابن عابدین شامی کی علامہ غامدی کو نصیحت
سمیع اللہ سعدی علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ فتاوی شامی میں متعدد...
علمِ کلام پر غامدی صاحب کی غلط فہمی
ڈاکٹر زاہد مغل صاحب جناب غامدی صاحب علم کلام پر ماہرانہ تبصرہ کرتے...