غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط پنجم)

Published On January 14, 2024
خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

خلافتِ علی رضی اللہ عنہ، ان کی بیعت اور جناب غامدی صاحب کے تسامحات

سید متین احمد شاہ غامدی صاحب کی ایک تازہ ویڈیو کے حوالے سے برادرِ محترم علی شاہ کاظمی صاحب نے ایک پوسٹ لکھی اور عمدہ سوالات اٹھائے ہیں۔ صحابہ کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے غامدی صاحب کی اور بھی کئی ویڈیوز ہیں۔ جس طرح انھوں نے بہت سے فقہی اور فکری معاملات میں...

حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط دوم

حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط دوم

مولانا محبوب احمد سرگودھا غامدی صاحب کے تیسرے اعتراض کی بنیاد سورہ مائدہ کی آیت ہے 117 میں موجود عیسی علیہ السلام کا روز قیامت باری تعالٰی سے ہونے والا مکالمہ ہے۔ آیت یہ ہے: فلما توفيتني كنت انت الرقيب عليهم، وانت على كل شيء شهید (قیامت کے دن بارگاہ خداوندی میں عیسی...

حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط اول

حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اور غامدی نظریہ : قسط اول

مولانا محبوب احمد سرگودھا   پہلی تحریر میں عیسی علیہ السلام کے رفع الی السماء" کے بارے میں غامدی صاحب کے نظریہ کا تجزیہ پیش کیا گیا، اس تحریر میں  اُن کے نزول الی الارض کے بارے میں غامدی صاحب کا نظریہ پیش خدمت ہے:۔  اولاً غامدی صاحب کی عبارت ملاحظہ کی جائے ، اپنی...

غامدی صاحب اور ’چند احکام‘ کا مغالطہ

غامدی صاحب اور ’چند احکام‘ کا مغالطہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد غامدی صاحب کا معروف موقف ہے کہ حکومت و سیاست سے متعلق شریعت نے بس چند احکام ہی دیے ہیں۔ بسا اوقات سورۃ الحج کی آیت 41 کا حوالہ دے کر ان چند احکام کو ’بس چار احکام‘ تک محدود کردیتے ہیں: نماز قائم کرنا ، زکوۃ دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے...

قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت

قرآن مجید بطور کتابِ ہدایت

جہانگیر حنیف قرآنِ مجید کتابِ ہدایت ہے۔ قرآنِ مجید نے اپنا تعارف جن الفاظ میں کروایا ہے، اگر ان پر غور کیا جائے، تو قرآنِ مجید کا کتابِ ہدایت ہونا ان سب کو شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کو اگر کسی ایک لفظ سے تعارف کروانے کی ضرورت پیش آجائے، تو کچھ اور کہنے کی...

قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت

قانونِ اتمامِ حجت : ناسخِ قرآن و سنت

ڈاکٹر خضر یسین قانون اتمام حجت ایک ایسا مابعد الطبیعی نظریہ ہے جو ناسخ قرآن و سنت ہے۔اس "عظیم" مابعد الطبیعی مفروضے نے سب سے پہلے جس ایمانی محتوی پر ضرب لگائی ہے وہ یہ ہے کہ اب قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تصدیق روئے زمین پر افضل ترین ایمانی اور...

ڈاکٹر خضر یسین

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، خاتم الوحی ہے اور آنجناب علیہ السلام کی ذات، خاتم النبیین ہیں۔ قرآن مجید کے بعد نہ ایسی وحی ممکن ہے جو انسانیت پر واجب الایمان و العمل ہو اور نہ آنجناب علیہ السلام کے بعد کوئی نبی و رسول ممکن ہے۔ آنجناب علیہ السلام پر نازل ہونے والی میں آنے والے تمام اخبار “منزل من اللہ” ہیں، ان کی فہرست میں کمی بیشی ممکن ہے اور نہ “منزل احکام” کی فہرست میں ترمیم و تنسیخ جائز ہے۔ قرآن مجید میں جو خبر نازل ہو چکی ہے، وہ انسان کے متعلق ہو یا آسمان سے تعلق رکھتی ہو، اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ عیسی بن مریم کے وجود کا انکار اسی طرح کفر ہے جس طرح وجود باری تعالی کا انکار کفر ہے۔ ابلیس کے وجود کا منکر بھی کافر ہے اور جبریل کے وجود کا منکر بھی کافر ہے اور دونوں بالکل ایک جیسے کافر ہیں۔

اب اگر :ذریت ابراہیم” علیہ السلام کی حیثیت اسی طرح منتخب من اللہ جماعت کی ہے، جس طرح رسول و نبی انسانوں میں منتخب من اللہ ہوتے ہیں اور یہ قرآن مجید میں آیا ہے تو اس پر ایمان رکھنا اتنا ہی واجب ہے جتنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنا واجب ہے۔

یہاں ایک بات ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہئے؛ “نبوت” محل الرائے نہیں ہے۔ اگر آپ “تنزیلات ربانیہ” کے حضور اپنی رائے موقوف نہیں کر سکتے تو آپ ایک صاحب ایمان کی طرح سوچنے کے اہل نہیں ہیں۔ “تنزیلات ربانیہ” کے حضور اپنی رائے محفوظ رکھنا تو دور کی بات ہے، یہاں پر اپنی رائے نہ رکھنا ضروری ہے۔

ختم نبوت کے بعد “منزل اخبار و احکام” میں صرف ترمیم و تنسیخ سے ہم دست کش نہیں ہوئے، انہیں اخبار و احکام تک اپنے دین کو مقید و محدد رکھنے کے بھی ہم پابند ہیں۔ اگر “ذریت ابراہیم” ع کی یہ حیثیت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے تو ہم پر ایمانا واجب ہے کہ اس پر ایمان لائیں اور اس کے منکر کو کافر کہیں۔ لیکن اگر یہ محض ایک خیال آرائی ہے یا آیات قرآنی سے ایک انتزاع ہے تو اس کی حیثیت زیادے سے زیادہ “رائے” کی ہے۔

میں نے جیسے پہلے عرض کیا ہے؛ ختم نبوت کے بعد تمام منزل اخبار دینی عقائد ہیں جو پہلے آنجناب علیہ السلام پر واجب الایمان و العمل ہیں اور آنجناب علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں امت پر واجب الایمان و العمل ہیں۔

غامدی صاحب کا ایک تصور جو اسی سلسلے کی اگلی کڑی ہے، وہ امت محمدیہ کے علماء کے متعلق ہے۔ وہ فرماتے ہیں؛ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے تشریف کے جانے کے بعد لوگوں کو دین پر قائم رکھنے کے لئے “انذار” وہ واحد ذریعہ ہے، جسے علمائے امت نے کام میں لانا ہے۔ علماء کی ذمہ داری انذار ہے، بشارت کیوں نہیں ہے؟ مجھے اس کا بالکل علم نہیں ہے کہ محترم غامدی صاحب نے یہاں صرف انذار پر کیوں اصرار کیا ہے؟

غامدی صاحب اپنی تحریر و تقریر میں کہیں بھی یہ بات نہیں کرتے؛ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “تنزیلات ربانیہ” کے پہلے مکلف و مخاطب ہیں اور امت آپ علیہ السلام کی اطاعت و اتباع میں بالکل اسی طرح مکلف و مخاطب ہے جس طرح آنجناب علیہ السلام تھے۔ یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے غامدی صاحب کے نزدیک امت کا تصور یہ ہے کہ وہ ایک ایسا گروہ ہے، جس کے فرد اول آنجناب علیہ السلام نہیں ہیں۔ امت ایک طرف کھڑی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسری طرف کھڑے ہوئے ہیں۔ امت کا یہ تصور “تنزیل من رب العالمین” کے شایان شان نہیں ہے اور نہ تنزیل کے درست ادراک پر مبنی ہے۔ قرآن مجید نے “یا ایھا النبی” سے شروع ہونے والے خطاب کو جس فراوانی سے “جمع مخاطب” میں بلاتردد بدلا ہے، اس کی روح کے ادراک سے لسانیاتی ذوق رکھنے والے انسان کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتا۔

“الأمة من حيث الأمة” کا غلط تصور، دین اور اس کی ماہیت کو سمجھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ انسانی گروہ جس کے فرد اول آنجناب علیہ السلام نہ ہوں، الأمة کبھی نہیں ہو سکتا۔ امت کے علماء کا وظیفہ “تنزیلات ربانیہ” کو امت کے دوسرے طبقات تک اسی دیانت داری سے پہنچانا ہے، جس دیانت داری کے ساتھ آنجناب علیہ السلام نے پہنچایا تھا۔ جو کچھ اوپر سے نازل ہوا تھا، آنجناب علیہ السلام نے بلا کم و کاست انسانوں کے سامنے رکھ دیا اور پوری دیانت داری کے ساتھ اس پر عمل کیا اور اپنی اطاعت و اتباع کی طرف انسانوں کو دعوت دی۔ جب کوئی عالم “ابلاغ نبوت” کی ذمہ داری کا بیڑا اٹھاتا ہے تو اس کا وظیفہ غیرمعمولی حساس نوعیت کا ہے، اس پر واجب ہے کہ اپنی طرف سے ادنی درجے کی بھی اس میں مداخلت نہ کرے اور آنجناب علیہ السلام کی طرح پوری دیانت داری کا مظاہرہ کرے۔ اسی طرح جب کوئی مسلمان حکمران بنتا ہے تو اس وظیفہ حکم اللہ کی تعمیل یقینی بنانا ہے جس طرح آنجناب علیہ السلام نے بطور حکمران “حکم اللہ” کی تعمیل و نفاذ یقینی بنایا تھا۔ “الأمة” میں مختلف طبقات ہیں، جو فرد جس طبقے سے تعلق رکھتا ہے، اس پر واجب ہے کہ “تنزیلات ربانیہ” پر اسی طرح عمل کرے جس طرح آنجناب علیہ السلام نے کیا تھا۔

غامدی صاحب کا “تصور دین” روایتی علوم اور علماء سے ماخوذ ہے۔ وہ کہتے ہیں؛ “نبوت” ختم کر دی گئی ہے اور لوگوں کو دین پر قائم رکھنے کے لئے انذار کی ذمہ داری اب قیامت اس امت کے علماء پر ہے، تو دراصل نہ صرف وہ “ابلاغ نبوت” کی حساس ترین ذمہ داری کو نظرانداز کر دیتے ہیں بلکہ “الأمة” کے وجود کا درست ادراک بھی ضائع کر دیتے ہیں۔

اسلام اور ایمان میں بنیادی فرق صرف اتنا ہے کہ الأمة کی تہذیبی ثقافت اسلام ہے اور اس تہذیبی ثقافت کا غائی پہلو ایمان ہے۔ اسلام “الأمة” کا قابل مشاہدہ پہلو ہے اور ایمان الأمة کا اقداری پہلو ہے۔ اسلام کی بنیادیں پانچ چیزوں پر نہیں ہیں، جیسا کہ روایتی علما سمیت غامدی صاحب کا خیال ہے۔ اسلام درحقیقت تمام “منزل اخبار و احکام اور اعمال” یعنی کتاب و سنت پر مبنی ہے۔ جیسا کہ پہلے میں عرض کر چکا ہوں؛ تمام “منزل اخبار” پر ایمان کا اقرار، اسلام ہے، تمام “منزل احکام” کی تعمیل، اسلام ہے اور تمام “منزل اعمال” کی اسی طرح بجا آواری واجب ہے جس طرح سے آنجناب علیہ السلام نے کر کے دیکھائی ہے۔ لیکن غامدی صاحب کا اسلام اسی طرح پانچ چیزوں پر کھڑا ہے جیسا کہ روایتی علماء کا اسلام پانچ چیزوں پر مبنی ہے۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…