غامدی صاحب کی دینی فکر اور ہماری معروضات (قسط دوم)

Published On January 8, 2024
نظم، مراد،متکلم اور متن

نظم، مراد،متکلم اور متن

محمد حسنین اشرف   نظم:۔ پہلے نظم کی نوعیت پر بات کرتے ہیں کہ یہ کس نوعیت کی شے ہے۔ غامدی صاحب، میزان میں، اصلاحی صاحب کی بات کو نقل کرتے ہیں:۔ ۔" جو شخص نظم کی رہنمائی کے بغیر قرآن کو پڑھے گا، وہ زیادہ سے زیادہ جو حاصل کر سکے گا ، وہ کچھ منفرد احکام اور مفرد قسم...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (3)

مولانا مجیب الرحمن تیسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ۔ يكون في هذه الأمة بعث إلى السند والهند، فإن أنا أدركته، فاستشهدت فذلك وإن أنا رجعت وأنا أبو هريرة المحرر قد...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق (2)

مولانا مجیب الرحمن دوسری حدیث ، حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :۔ اس بارے میں دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس کی سند اور  راویوں پر غور فرمائیں ، امام نسائی فرماتے ہیں: أخبرنا أحمد بن عثمان بن حكيم، قال حدثنا ر كريا بن عدى، قال: حدثنا عبد الله من عمر...

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

حدیث غزوہ ہند اور غامدی گروپ کی تحقیق

مولانا مجیب الرحمن غامدی صاحب کی ویب سائٹ پر موجود ایک کتاب کا مضمون بعنوان : غزوہ ہند کی کمزور اور غلط روایات کا جائزہ ایک ساتھی کے ذریعہ موصول ہوا ۔ بعد از مطالعہ یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس مضمون کو سامنے رکھ کر حدیث غزوہ ہند پر اپنے مطالعہ کی حد تک قارئین کے سامنے...

سرگذشت انذار کا مسئلہ

سرگذشت انذار کا مسئلہ

محمد حسنین اشرف فراہی مکتبہ فکر اگر کچھ چیزوں کو قبول کرلے تو شاید جس چیز کو ہم مسئلہ کہہ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہوگا لیکن چونکہ کچھ چیزوں پر بارہا اصرار کیا جاتا ہے اس لیے اسے "مسئلہ" کہنا موزوں ہوگا۔ بہرکیف، پہلا مسئلہ جو اس باب میں پیش آتا ہے وہ قاری کی ریڈنگ کا...

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟  غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

کیا مسئلہ “ربط الحادث بالقدیم” کا دین سے تعلق نہیں؟ غامدی صاحب کا حیرت انگیز جواب

ڈاکٹر محمد زاہد مغل محترم غامدی صاحب سے جناب حسن شگری صاحب نے پروگرام میں سوال کیا کہ آپ وحدت الوجود پر نقد کرتے ہیں تو بتائیے آپ ربط الحادث بالقدیم کے مسئلے کو کیسے حل کرتے ہیں؟ اس کے جواب میں جو جواب دیا گیا وہ حیرت کی آخری حدوں کو چھونے والا تھا کہ اس سوال کا جواب...

ڈاکٹر خضر یسین

غامدی کے تصور “سنت” کے متعلق غلط فہمی  پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے اور نہ غلط بیانی ہمارے مقصد کو باریاب کر سکتی ہے۔ اگر غامدی صاحب کے پیش نظر “سنت” منزل من اللہ اعمال کا نام ہے اور یہ اعمال آنجناب علیہ السلام پر اسی طرح وحی ہوئے ہیں جیسے قرآن مجید ہوا ہے تو پھر انہیں قرآن مجید کے متعلق بھی یہی کہنا چاہیے تھا:

“توریت” شریعت پر مشتمل تھی، “انجیل” حکمت کا بیان ہے اور “زبور” اللہ تعالی کی تمجید کا بیان ہے اور قرآن مجید ان تینوں وہ مجموعہ ہے جسے آنجناب علیہ السلام نے تجدید و اصلاح اور بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں بطور دین جاری فرمایا ہے۔

“سنت” کے لئے یہی الفاظ انہوں نے استعمال کئے ہیں۔ اگر انہی الفاظ سے منزل من اللہ ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر یہی الفاظ قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے کو بھی کفایت کریں گے۔

میں غامدی صاحب کی نیت پر شک نہیں کرتا، لیکن ان کے الفاظ کا انتخاب اس مدعا کو بالکل بیان نہیں کرتا جو ان کے چاہنے والے ہمیں بتا رہے ہیں۔

“دین” کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب  غامدی صاحب کے “تصور دین” کو پوری طرح پیش نظر رکھنے بعد کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین  “ما انزل اللہ علی نبیہ” میں مقید و محدد ماننے میں متردد ہیں۔ یا کم از کم دوٹوک انداز میں یہ کہنے سے اعراض برتتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ شعور مذہبی میں مذہب کی حقیقت یہی ہے کہ بندے اور خدا کے مابین یہ ایک تعلق کا نام ہے۔ 3-بندہ، 2- خدا اور 1- ان کے مابین تعلق، یہ تین عناصر ہیں جن پر مذہب کا تصور قائم ہے۔ یہ تعلق “دعا” اور “جواب دعا” یا “وحی” پر مشتمل ہے۔ بندہ دعا کرتا ہے اور خدا تعالی جواب دعا کے طور وحی نازل فرماتا ہے۔ بندہ دعا کرتا ہے:اھدنا الصراط المستقیم۔ اللہ تعالی جواب دعا میں الکتاب کو ھدی للمتقین کے دعوے کے ساتھ بندے کی دعا کو رسپونس فرماتا ہے۔

غامدی صاحب دین کے مشمولات contents بیان کرتے ہیں:”دین” عبادت ہے اور اس کی اساس “الحکمة” ہے جو ایمانیات اور اخلاقیات پر مبنی ہے۔ اس کے مراسم اور حدود و قیود “الشریعة” ہیں جو الکتاب ہے یا قانون ہے۔ “الحکمة” شروع سے لیکر اب تک ایک ہی چلی آ رہی ہے اور “الشریعة” تمدنی ارتقاء کے باعث متغیر ہوتی رہی ہے۔

غامدی صاحب کا یہ تصور دین اور اس کے یہ مشمولات، الہامی لٹریچر توریت، انجیل اور زبور کے مطالعے کا حاصل ہیں۔ ان کے نزدیک قرآن مجید “الکتاب” بمعنی قانون اور “الحکمة” بمعنی ایمانیات و اخلاقیات کا جامع شہ پارہ ادب ہے اور صحیفہ انذار و بشارت ہے۔

ہماری معروضات؛ بحیثیت مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کے نتیجے میں جن کتابوں کو میں کتب سماوی مانتا ہوں، ان کا راست مطالعہ صرف اسی صورت میں کر سکتا ہوں، جب قرآن مجید کو ماقبل کتب سماوی کا “مھیمن” اور “معیار” بناتا ہوں۔ صرف اس وجہ سے میں توریت اور انجیل کو الہامی لٹریچر میں شامل نہیں کر سکتا کہ انسانوں کی ایک جماعت، انہیں الہامی لٹریچر کہتی ہے۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ الہامی لٹریچر کا معیار قرآن مجید کے سواء کسی اور شے کو نہ بنائے۔ آپ اگر الہامی لٹریچر کا عنوان اپنے ایک عمومی مطالعہ کا بنا لیتے ہیں تو اور بات ہے۔ آپ کے پاس اس کا حق ہے۔ لیکن یہ دینی فکر نہیں ہے، یہ ایک سیکولر مطالعہ ہے اور دینی فکر کی اساس بالکل نہیں ہو سکتا۔

“الکتاب ” سے مراد غامدی صاحب کے نزدیک قرآن مجید نہیں ہے بلکہ قانون ہے اور یہ ایسی شے جو تمدنی ارتقاء کے ساتھ ساتھ متغیر ہوتا چلا آیا ہے۔ لہذا شریعت یا قانون کا انحصار تمدن کے خارجی حالات پر ہے۔ قانون یا شریعت کو دائمی شے سمجھنا ان کے نزدیک درست نہیں ہے۔

جہاں تک کتاب و سنت کا تعلق ہے تو قرآن مجید اخبار اور احکام پر مشتمل ہے۔ اخبار عقائد ہیں اور احکام “حکم اللہ” ہیں۔ الکتاب کے اخبار یعنی عقائد میں کمی بیشی نہیں کی جا سکتی اور نہ احکام میں تغیر و تبدل ممکن ہے۔ اخبار جن کی حیثیت عقائد کی ہے، ان میں انذار و تبشیر بھی ہے، لیکن حقیقت میں وہ عقائد ہی ہیں۔ قرآن مجید کے بیان کردہ ماضی، حال اور مستقبل کے اخبار کو عقائد کی حیثیت نہ دی جائے تو ان سے انذار و بشارت کا مفاد ممکن نہیں رہتا۔ پہلے وہ عقائد ہیں اور ان کی اعتقادی سچائی ان سے انذار و بشارت کا مفاد ممکن بناتی ہے۔ جہاں تک اخلاقیات کا تعلق ہے تو وہ دین کا مطالبہ نہیں ہے، وہ خود میرے انسان ہونے کا مطالبہ ہے، جسے مجھے ہر حال میں پورا کرنا ہے، میں مذہب پر ایمان رکھتا ہوں چاہے نہیں رکھتا۔

Appeal

All quality educational content on this site is made possible only by generous donations of sponsors like you. In order to allow us to continue our effort, please consider donating whatever you can!

Do Your Part!

We work day in and day out to produce well-researched, evidence based, quality education so that people may gain the correct understanding of their religion. But our effort costs a lot of money! Help us continue and grow our effort so that you may share in our reward too!

Donate

You May Also Like…